علامہ اقبال اور اسباب زوال ملت

علامہ اقبال اور اسباب زوال ملت

اسپیشل فیچر

تحریر : خواجہ محمد زَکریا


شاعر ِمشرق ومفکرِ پاکستان کے یومِ وفات کی مناسبت سے ایک فکرانگیز تحریراقبال چونکہ مفکر شاعر تھے، اس لیے انھوں نے اس مسئلے پر مسلسل غور کیا کہ ملت ِاسلامیہ زوال کا شکار کیوں ہو گئی ہے۔ آخر وہ زوال کے اسباب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملت ِاسلامیہ کی خرابیاں دُور کرنے کے لیے وقف کر دیااقبال کا انتقال ہوا ،تو بیداری کا آغاز ہو چکا تھا۔اس وقت دنیا بھر میں متعدد آزاد مسلم ممالک موجود ہیں جن کے پاس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ وسیع زرعی رقبے بھی ہیں اور تیل و معدنیات کے ذخائر بھی، مگر ابھی تک مجموعی طور پر وہ دنیا میں غیر مؤثر ہیںاقبال نے تین زبانوں میں لکھا ہے۔ اُن کی نثر اُردو اور انگریزی میں ہے جب کہ شاعری، جو اُن کی جملہ صلاحیتوں میں سے اعلیٰ ترین صلاحیت ہے، اُردو اور فارسی میں ہے۔ میرے خیال میں فلسفہ اور علم الاقتصاد پر مستقل کتابیں تصنیف کرنے اور سیاسیات اور بعض دیگر علوم و فنون پر اظہار خیال کرنے کے باوجود اُن کا اصل میدان شاعری ہے۔ نثری کتابوں میں وہ جن حقائق کو دلائل و براہین سے کہتے ہیں، انھیں کو شاعری میں جب وجدانی اور تخیلی سطح پر پرزور اور پرُکشش اُسلوب میں پیش کرتے ہیں ،تو اُن کا اثر بہت بڑھ جاتا ہے جب کہ اُن کی نثری تصنیفات کا استدلال بعض جگہ اختلافی معلوم ہونے لگتا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگوں کے نزدیک شاعر اقبال، فلسفی اقبال سے زیادہ بہتر اور مؤثر ہے۔بہرحال اقبال کی نظم و نثر کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے ملت ِاسلامیہ کے دین و دنیا کو سنوارنا اور پھر ملت ِ اسلامیہ کے توسط سے دنیا بھر کی اقوام و ملل کے افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانا۔ انھوں نے جب آنکھ کھولی تو مغربی اقوام دنیا کے بیشتر ممالک پر بالواسطہ یا بلاواسطہ قابض ہو چکی تھیں۔ افریقا اور ایشیا کے بہت بڑے حصے پر متصرف ہونے کی وجہ سے انگریزی زبان اور مغربی اُن کی تہذیب محکوموں کے لیے قابلِ تقلید بن چکی تھی۔ بقول اکبر الہ آبادی:اپنی منقاروں سے حلقہ کس رہے ہیں جال کاطائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کایہ درست ہے کہ بعض اسلامی ممالک میں احیائی تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا، مگر اُن کے اثرات محدود تھے بل کہ اُن کی وجہ سے محکوم ملکوں کے تضادات اور بھی نمایاں ہو گئے تھے۔ مسلمان ممالک ایک ایک کر کے آزادی سے محروم ہو چکے تھے. ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات یا تو حکمرانوں کے مقلد بن چکے تھے یا پدرم سلطان بود کے خواب میں مست پڑے تھے. ان حالات میں قوم کے کسی بہی خواہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ارد گرد کے حالات سے آنکھیں بند کر لے اور قوم کو ماضی کے سپنوں میں پڑا رہنے دے۔ سرسید احمد خاں، حالی، شبلی، نذیر احمد، اکبر الہ آبادی اور دوسرے بہت سے ادبا اور شعرا اپنے اپنے انداز میں ہندوستانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی سعی کر رہے تھے۔ علامہ اقبال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ وہ چونکہ مفکر شاعر تھے، اس لیے انھوں نے اس مسئلے پر مسلسل غور کیا کہ ملت ِاسلامیہ زوال کا شکار کیوں ہو گئی ہے۔ آخر وہ زوال کے اسباب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملت ِاسلامیہ کی خرابیاں دُور کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ اقبال کا انتقال ہوا تو بیداری کا آغاز ہو چکا تھا۔ بہت سے مسلمان ممالک رفتہ رفتہ آزاد ہونے لگے تھے۔ اس وقت دنیا بھر میں متعدد آزاد مسلم ممالک موجود ہیں جن کے پاس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ وسیع زرعی رقبے بھی ہیں اور تیل و معدنیات کے ذخائر بھی، مگر ابھی تک مجموعی طور پر وہ دنیا میں غیر مؤثر ہیں۔ ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ آخر ملت اسلامیہ دنیا بھر میں بدستور غیر مؤثر کیوں ہے؟ اس سوال کے ایک یا ایک سے زیادہ جوابات تلاش کرنے چاہییں۔ ان پر عام بحث ہونی چاہیے اور پھر جس بات پر اجماع ِامت ہو اسے ملتِ اسلامیہ کا مشترکہ مقصد بنا کر بروئے کار لانے کے لیے ہمیں اپنی تمام تر کوششیں اسی ایک سمت میں مرکوز کر دینی چاہییں۔علامہ اقبال نے اپنی نظم و نثر میں ملت کے زوال کے اسباب کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور زوال سے اُبھرنے کا ایک واضح طریق کار متعین کیا ہے۔ یہ طریق کار ہے فرد کی اصلاح سے ملت کی اصلاح کی طرف جانا،لیکن علامہ اقبال اس بات سے واقف تھے کہ عام افراد کبھی اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کیونکہ وہ زوال آمادہ معاشرے کے شیطانی چکر میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر کسی بددیانت معاشرے میں کوئی فرد دیانت دار بننے کی کوشش کرے تو وہ معاشرے کو بہت کم درست کر سکے گا، البتہ ہو سکتا ہے کہ اس کشمکش میں وہ خود ہی مٹ جائے۔ اس لیے اقبال کا نقطۂ نظر یہی رہا ہے کہ اصلاح اوپر سے نیچے آتی ہے، نیچے سے اوپر نہیں جاتی۔ نظریۂ خودی مردان ِکامل کو پیدا کرتا ہے اور مردانِ کامل دنیا کی اصلاح کرتے ہیں۔ علامہ اقبال مثنوی ’اسرارِ خودی‘ میں مردِ کامل سے اُن توقعات کا اظہار کرتے ہیں:اے سوارِ اشہب دوراں بیااے فروغِ دیدۂ امکاں بیاخیز و قانونِ اخوت ساز دہجامِ صہبائے محبت باز دہباز در عالم بیار ایّامِ صلحجنگجویاں را بدہ پیغامِ صلحریخت از جورِ خزاں برگِ شجرچوں بہاراں بر ریاضِ ما گذرنوعِ انساں مزرع و تو حاصلیکاروانِ زندگی را منزلیترجمہ:(اے زمانے کے گھوڑے کے سوار اور اے امکانات کی دنیا کو روشن کرنے والے، آ اور دنیا میں اخوت اور محبت کے جذبات پھر سے پیدا کر۔ دنیا میں صلح کا زمانہ واپس لا اور جنگجوؤں کو امن کا پیغام دے۔ دنیا کے باغ میں خزاں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، تو اس میں بہار بن کر آ۔ بنی نوعِ انسان کی فصل کا حاصل اور زندگی کے کارواں کی منزل تو ہی ہے۔)جب کسی قوم میں ایسے افراد پیدا ہو جاتے ہیں ،تو اس قوم کا کارواں منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ اسی کا نام رجائیت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ٹھیک ہو جائیں ،تو دنیا کی بہترین اقوام میں شمار ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقبال ہر حال میں رجائیت کے پیغامبر ہیں۔ انھوں نے بار بار ملت کے مختلف افراد اور طبقات پر شدید تنقید کی ہے۔ خود انتقادی اور خود احتسابی کو لازمہ ترقی بتایا ہے اور یہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ جب تک ہم اپنی خرابیوں کو تلاش نہیں کریں گے اس وقت تک اصلاح کا عمل شروع نہیں ہو سکے گا۔ اس وجہ سے اقبال کے ہاں ملت کے مختلف طبقات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی خرابیوں کو طشت ازبان کر کے انھیں اصلاح کا پیغام دیا ہے۔ اقبال ملتِ اسلامیہ کے رہنماؤں سے ناامید تھے۔ نظم ’شمع اور شاعر‘ میں شاعر در حقیقت رہنمائے ملت کی علامت ہے اور پوری نظم ملت اسلامیہ کے زوال کا ایک خوفناک مرقع ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملت نے باصلاحیت رہنما پیدا کرنے بند کر دیے ہیں۔ اس نظم کے علاوہ بھی یہ خیال کلام اقبال میں آخر تک موجود ہے:کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سےکہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دلنوازیفلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیںخبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہےنشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کوترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیےنظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میںوہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم اُللّہٰیمیرِ سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صفآہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدفمنزلِ راہرواں دور بھی دشوار بھی ہےکوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہےنہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کیکہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھیمصطفی کمال پاشا اور رضا شاہ پہلوی نے اپنی اپنی قوم کے لیے بہت کام کیا، لیکن ان کی سعی کے وہ نتائج نہ نکلے جس کے متمنی اقبال تھے۔ یہ حضرات اور ملت اسلامیہ پر مسلط ہونے والے دیگر شہنشاہ، رہنما اور علما ان صلاحیتوں سے عاری تھے جو کسی ملت کو دنیا کی منتخب قوموں میں بدل سکتی ہیں اس وجہ سے اقبال اُن کے گلہ گزار رہے۔ جن رہنماؤں سے اقبال نے توقعات وابستہ کیں انھیں ان کی قوم نے یا مغرب کی سازشوں نے کام کرنے کا موقع نہ دیا۔ نتیجہ یہ کہ ملت فیض حاصل کرنے سے محروم رہی اور حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کا آج بھی سب سے بڑا مسئلہ رہنماؤں کی کمی کا ہے۔ اس وقت تک کسی اسلامی ملک کا کوئی رہنما اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کا حقیقی قائد تسلیم نہیں کرا سکا۔ وہ ایک دوسرے کو قریب لانے کی بجائے اختلافات پر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ملت کو مزید تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں۔رہنمایان ِملت میں علمائے دین اور سجادہ نشینان خانقاہ بھی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں، جس طرح سیاسی رہنما انحطاط پذیر ہوئے اسی طرح صوفی و ملا بھی زوال کا شکار ہوئے۔ عالمِ اسلام میں مساجد اور خانقاہیں کثرت سے ہیں۔ خصوصاً ہندوستان اور پاکستان میں خانقاہی سلسلہ بے حد وسیع ہے۔ کروڑوں لوگ مسجدوں اور خانقاہوں میں جاتے ہیں اور علماء و صوفیاء سے فیض پانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسجدوں کے ائمہ اور خانقاہوں کے صوفیاء الا ماشاء اللہ ملت کے عام افراد سے بہتر نہیں ۔ اُن میں وہ تمام خرابیاں راہ پا چکی ہیں، جو عام لوگوں میں موجود ہیں۔ اُن کے ظاہر و باطن میں واضح تضادات موجود ہیں۔ مذہب اور تصوف نے اُن کے دل و دماغ کو روشن نہیں کیا۔ وہ روایتی طور پر چند رسوم و عبادات انجام دیتے ہیں اور پھر اُن تمام برائیوں میں عملی طور پر ملوث ہو جاتے ہیں، جو مذہب و تصوف کی ضد ہیں۔ پیروں نے ’نذرانوں‘ سے اپنے محل تعمیر کر لیے ہیں اور علمائے دین نے فرقوں کے اختلافات کو ابھار ابھار کر اپنی حیثیتیں بنا لیں ہیں۔ اس لیے مسجد و خانقاہ مردہ ادارے بن کر رہ گئے ہیں ،جہاں سے کوئی مرد مومن نہیں اُٹھتا۔ مسجد و خانقاہ کے وارثوں سے اختلاف رائے کرنا اپنی تکفیر کرانے کے مترادف ہے۔ فروعی مسائل میں قوم کو الجھا کر اس کی صلاحیتیں ضائع کی جا رہی ہیں۔ مختلف مسالک کے افراد ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں اور جو طاقت اغیار کے خلاف استعمال ہونی چاہیے، وہ آپس میں لڑ لڑ کر تقسیم ہو رہی ہے۔ اقبال اپنے دَور کے علمائے دین، مفتیان شرع اور صوفیا سے بہت بیزار تھا۔ شاید اس کے کلام میں سیاسی رہنماؤں سے بھی زیادہ تنقید کا نشانہ علماء و صوفیا کو بنایا گیا ہے:واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہیبرق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہیرہ گئی رسمِ ازاں، روحِ بلالی نہ رہیفلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہیمسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہےیعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہےمجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقیاس دور کے ملا ہیں کیوں ننگِ مسلمانییہ پیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوریصلہ ان کی کد و کاوش کا ہے سینوں کی بے نوریعلما و صلحا کے بعد اقبال کی تنقید کا نشانہ اہل مدرسہ بنے ہیں، جن میں اساتذہ اور طلبہ دونوں شامل ہیں۔ اقبال کو اساتذہ سے یہ گلہ ہے کہ وہ طلبہ کو نصابات پڑھاتے رہتے ہیں ،مگر اُن کے اذہان کی تربیت نہیں کرتے۔ طلبہ نصابات میں الجھے رہتے ہیں۔ مشاہیر کے اقتباسات رٹ کر امتحانات میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں، مگر ’صداقت‘ کی تلاش اُن کا مطمح نظر نہیں بنتی۔ چنانچہ اقبال کبھی تو ملا، صوفی، طالب علم اور استاد کو الگ الگ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کبھی اُن کو یکجا کر کے اُن کی خرابیوں کو واضح کرتے ہیں:اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقیخونِ دل مرداں ہو جس فقر کی دستاویزکسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنےفقیہہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشیمیں ایسے فقر سے اے اہلِ حلقہ باز آیاتمھارا فقر ہے بے دولتی و رنجوریاٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناکنہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہمکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے؟خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے؟خراب کوشکِ سلطان و خانقاہِ فقیرفغاں کہ تخت و مصلٰی تمام زرّاقیباقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیریاے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیریمیں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گامسائلِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیبملا کی نظر نورِ فراست سے ہے محرومبے سوز ہے میخانۂ صوفی کی مئے ناباقبال چاہتے ہیں کہ کورانہ تقلید کی بجائے ملت کے افراد سچائی کی تلاش کے لیے تحقیق و تدقیق کے راستے پر چلیں۔ یہ بڑا کٹھن راستہ ہے، پرُخار اور طویل، مگر اس کو اختیار کیے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں، لیکن حالات یہ ہیں کہ صوفی، ملا اور اُستاد کسی کو آزادی اظہار دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ کیفیت ہو تو تحقیق کیسے پنپ سکتی ہے۔ یہ بات بلاوجہ نہیں کہ اقبال کے ہاںتحقیق اور صداقت کی تلاش پر اتنا زور دیا گیا ہے:شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہیرہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقیفقیہہِ شہر کی تحقیر کیا مجال مریمگر یہ بات کہ میں ڈھونڈھتا ہوں دل کی کُشادکیے ہیں فاش رموزِ قلندری میں نےکہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزادحلقۂ شوق میں وہ جرأتِ رندانہ کہاںآہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیقہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپپہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرےپھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعاراور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرےاور ایک دعائیہ نظم میں کہتے ہیں:بے لوث محبت ہو بیباک صداقت ہوسینوں میں اجالا کر دل صورتِ مینا دےاحساس عنایت کر آثارِ مصیبت کاامروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دےتحقیق کے ذریعے صداقت کی تلاش پر اقبال نے جب اتنا زور کلام صرف کیا ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا اقبال کو خرد دشمن کہنا درست ہے یا محض غلط فہمی ہے؟ انھوں نے عشق کی توصیف میں بہت نغمے گائے ہیں اور قوت عمل کو اُبھارنے کے لیے عقل پر تنقید بھی کر دی ہے، مگر انھیں معروف معنوں میں عقل کا مخالف قرار دینا درست نہیں، جو شخص مردِ مومن کے بارے میں یہ لکھے وہ عقل کا مخالف نہیں ہو سکتا:عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہحلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہجب وہ ہمیں بار بار تدبر اور تحقیق اور تلاش صداقت پر اکساتے ہیں تو یہ باتیں عقل کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ اگر جہان تازہ کی افکار تازہ سے نمود ہوتی ہے، تو اقبال افکار تازہ کی دعوت دیتے ہوئے عقل کے مخالف ہو ہی نہیں سکتے کہ افکار کا تعلق عقل سے ہے۔ اب اقبالیات کے ماہرین کو چاہیے کہ ہماری جذباتی قوم کو نعروں پر زندہ رکھنے کی بجائے اسے غور و فکر کی دعوت دیں۔ جب کوئی قوم غور و فکر کے بعد اپنا ہدف متعین کر لیتی ہے ،تو عشق کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ جب آپ کو یقین ہو جائے کہ آپ نے اپنے مقاصد کا تعین کر لیا ہے، اس وقت ان کے حصول کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کا مرحلہ آتا ہے، اور اسی کا نام عشق ہے،مگر اس کے بغیر قوم میں جذباتیت پیدا کرنے کا مقصد محض اُن کو آپس میں لڑانا اور تقسیم کرنا ہی ہو سکتا ہے۔ مثلاً پاکستان کے فرقہ وارانہ، لسانی، علاقائی، اقتصادی، سیاسی مسائل پر جس قدر از سر نو غور کرنے کی آج ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی،لیکن اقبالیات کے جلسوں میں محض چند جذباتی یا روایتی باتیں کہہ کر لوگ رخصت ہو جاتے ہیں اور کسی ایک فرد کے دل میں تحقیق و اکتشاف کی ایک لہر بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اقبال ملت ِاسلامیہ کے ایک بہت بڑے مفکر ہیں ،مگر اُن کی سوچ کو چند فرسودہ باتوں تک محدود کر دینا نہ تو اقبال کے ساتھ انصاف ہے اور نہ ہی ملت ِاسلامیہ کی خدمت ہے۔اقبال ملت کے افراد کو ذاتی اغراض سے بلند ہو کر سب کی بھلائی کے لیے کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ رہنماؤں اور مقتدر طبقات کی توجہ خود احتسابی اور خود انتقادی کی طرف دلاتے ہیں، جس کے بغیر اصلاح ممکن ہی نہیں۔ خوش فہمیوں میں مبتلا قومیں اپنی کمزوریوں کو دُور نہیں کر سکتیں۔ وہی قومیں عروج کی طرف سفر کرتی ہیں، جن کے افراد اس سلسلۂ روز و شب کے حالات و واقعات کو پرکھتے ہیں اور اس غور و فکر کے نتائج کو رُو بہ عمل لانے کے لیے اُن خصوصیات کو پیدا کرتے ہیں ،جن کی تلقین خضر راہ (بانگِ درا) کے مندرجہ ذیل بند میں کی گئی ہے:ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپپہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرےپھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعاراور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرےزندگی کی قوتِ پنہاں کو کر دے آشکارتا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیداکرےخاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتابتا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرےسوئے گردوں نالۂ شبگیر کا بھیجے سفیررات کے تاروں میں اپنا راز داں پیدا کرےیہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہےپیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
بارش سے محروم اور مسلسل برستی بارش والے علاقے

بارش سے محروم اور مسلسل برستی بارش والے علاقے

اس روئے زمین پر نظام قدرت بھی کتنا عجیب ، پیچیدہ اور حیرت انگیز ہے۔اتنا حیرت انگیز کہ بسا اوقات انسانی سوچ بھی جواب دے جاتی ہے۔ بارشوں کو ہی لے لیں دنیا میں دو شہر ایسے بھی ہیں جہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ تک نہیں پڑا جبکہ اس کے برعکس ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں سارا سال مسلسل بارش جاری رہتی ہے ، باالفاظ دیگر آج تک رکی ہی نہیں۔مسلسل بارش کا سامنا کرنے والا شہر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ نمی والا مقام یعنی دنیا میں سب سے زیادہ بارشیں بھارتی ریاست میگھالیہ میں ہوتی ہیں۔ ریاست میگھالیہ کا دارالحکومت شیلانگ ہے جو سارا سال بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے۔ میگھالیہ سنسکرت کا ایک لفظ ہے جس کے معنی '' بادلوں کا گھر‘‘ کے ہیں۔ میگھالیہ کا گاوں ماسن رام دنیا کا واحد اور منفرد علاقہ ہے جہاں سارا سال مسلسل بارشیں برستی رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کو دنیا کی گیلی ترین زمین کہتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق خلیج بنگال کی وجہ سے اس جگہ کو دنیا کی سب سے زیادہ نمی والی جگہ کی شہرت حاصل ہے۔اس کی واحد وجہ ہی یہ ہے کہ یہاں تقریباً ہر روز بارش ہوتی رہتی ہے۔ یہ گاوں سطح زمین سے 1491 میٹر بلند پہاڑ پر واقع ہے جبکہ یہاں اوسطاً بارش 11871ملی میٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔ ریاست میگھالیہ کی تہذیب ملک کے دوسرے صوبوں سے یکسر مختلف ہے۔ یہ بہت زیادہ سرسبز و شاداب علاقہ ہے جو پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کی بارشوں نے یہاں کے ماحول اور بھی زیادہ سحر انگیز بنا،رکھا ہے جو شاید وہاں کے باسیوں کے لئے تو زیادہ پرکشش نہ ہو لیکن سیاحوں کے لئے یہ منظر مسحور کن ضرور ہوتا ہے۔مسلسل بارشوں کے باعث یہاں چھتریوں کی بجائے لوگوں نے بانس سے بنی خوشنما ٹوپیاں پہن رکھی ہوتی ہیں جسے بیچنے والے سڑک کنارے جابجا ٹھیلے لگائے نظر آتے ہیں۔بارشوں سے محروم بادلوں کے نیچے ایک گاوں سائنسدانوں کے بقول جب پا نی زمین سے بخارات بنکر اڑ جاتا ہے تو زمین کی فضا میں ٹھنڈا ہو کر بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔جب یہ بادل کافی بھاری ہو جاتے ہیں تو وہ ہوا سے ٹھنڈے ہونے پر بارش کی صورت میں زمین پر گرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بارشیں قدرت کی نعمت بھی ہیں اور زحمت بھی۔بارشیں معمول کی ہوں تو نعمت اور اگر غیر معمولی ہوں تو زحمت۔ ایک حد سے زیادہ بارشیں اپنے ساتھ سیلاب ، طوفان اور ژالہ باری جیسی تباہ کاریاں لے کر آتی ہیں۔دنیا کے تقریباً سبھی خطوں پر کہیں کم اور کہیں زیادہ بارشیں معمول کا ایک عمل گردانا جاتا ہے۔ لیکن بہت سارے لوگوں کیلئے شاید یہ انکشاف نیا ہو کہ اس روئے زمین پر ایک ایسا گاوں بھی ہے جہاں آج تک کبھی بارش نہیں برسی۔ ایتھوپیا کا ''دلول‘‘ نامی یہ گائوں ایتھوپیا اور ارٹیریا کی سرحد کے قریب عفر نامی ریجن میں واقع ہے۔لفظ ''دلول‘‘ یہاں صدیوں پہلے آباد قوم عفر قوم نے اسے دیا تھا،جس کے لفظی معنی ''تحلیل‘‘ ہو جانے کے ہیں۔یہ خطہ چونکہ دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے اس لئے یہاں کی آبادی بہت کم نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ ایک غیر محفوظ اور نمک کی خوفناک اور گہری کھائیوں پر مشتمل پہاڑی بنجر علاقہ بھی ہے۔بارشوں سے مکمل طور پر محروم اس گائوں کا گرمیوں میں درجہ حرارت 65 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے۔جبکہ یہاں کا اوسط درجہ حرارت 40ڈگری سنٹی گریڈ سے کچھ اوپر ہی ہے۔ یہاں بے شمار آتش فشاں موجود ہیں۔انہی آتش فشانوں میں ''دانا ڈپریشن‘‘ نامی علاقے میں واقع '' ایریا ایلے ‘‘ نامی ایک ایسا آتش فشاں پہاڑ ہے جو دنیا کے ایسے چھ آتش فشان پہاڑوں میں سے ایک ہے جو لاوے کے بڑے بڑے ابلتے تالابوں پر مشتمل ہے۔یہ آتش فشاں سطح زمین سے 613 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اگرچہ یہاں تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن اس کے باوجود بھی دنیا بھر کے سیاح اور مہم جو جوق در جوق ان خوش رنگ اور منفرد بہتے لاووں کو دیکھنے یہاں چلے آتے ہیں۔ 1926ء میں یہ آتش فشاں دنیا بھر کے سائنس دانوں اور ماہرین کی توجہ کا مرکز اس وقت بنے جب انہوں نے ان آتش فشانوں کے پھٹنے کے بعد یہاں کچھ غیر معمولی تبدیلیاں دیکھیں۔ جس تبدیلی نے ماہرین کو حیران کیا وہ یہاں پر موجود نمک کے ذخائر کا چٹانوں سے 30 میٹر تک ابھر کر سامنے ظاہر ہو جانا تھا۔دراصل یہ علاقہ مقامی نمک سے مالا مال ہے جس کے سبب اسے مقامی طور پر سفید گولڈ کانام بھی دیا جاتا ہے اور یہاں کے باسیوں کا یہ سب سے بڑا ذریعہ معاش بھی ہے۔ دوسری بڑی تبدیلی معمول سے ہٹ کر زلزلوں کا آنا تھا۔ان زلزلوں کے باعث سلفر کے تالابوں میں درجہ حرارت بتدریج بڑھتا ہوا دیکھا جانے لگا۔یہاں پر زیر زمین گرم پانیوں کو زمین کی سطح تک آنے میں پتھر کی متعدد تہوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔نتیجتاًاس عمل کے دوران یہاں نمک، سلفر اور آئرن پیدا ہوتے ہیں ۔دلول گائوں ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو دنیا کے سب سے غیر معمولی ہائیڈرو تھرمل علاقوں میں سے ایک ہے۔اس خطے کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس کا بیشتر حصہ سطح سمندر سے 125 میٹر نیچے ہے۔ بارشوں سے محروم بادلوں کے اوپر ایک گاوںعام طور پر بارش کے متلاشی آسمان کی طرف رخ کر کے بارش کے آنے یا نہ آنے کا اندازہ کرتے نظر آتے ہیں۔ظاہر ہے بارشیں آسمانوں سے ہی برسا کرتی ہیں لیکن آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ اس روئے زمین پر ایک ایسا گائوں بھی ہے جہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں پڑا لیکن وہ بارش کا منظر دیکھنے کیلئے اوپر کے بجائے نیچے کی جانب دیکھتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے گائوں کے نیچے اکثر و پیشتر بارشیں برستی رہتی ہیں۔ ''الحطیب‘‘ نام کا یہ منفرد گاوں ملک یمن کے دارالحکومت صنعا اور الحدیدہ کے درمیان ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔اس گائوں کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ سطح زمین سے لگ بھگ 3200میٹر بلندی پر سرخ رنگ کے پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے لیکن یہاں آج تک بارش کا ایک قطرہ تک نہیں پڑا ۔ اس کی وجہ بڑی دلچسپ ہے۔یہ گائوں چونکہ زمین سے 3200 میٹر کی بلندی پر واقع ہے جبکہ بادل زمین سے 2000 میٹر کی بلندی پر بنتے ہیں۔بالفاظ دیگر بلندی پر رہنے کے سبب یہاں کے باسی بارش کی نعمت سے مستفید نہیں ہو پاتے جبکہ ان بادلوں کے نیچے بسنے والے باسی وقتاً فوقتاً بارش سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں جنہیں ان سے اوپر رہنے والے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ یہاں کا موسم گرم اور معتدل رہتا ہے تاہم سردیوں میں صبح کے وقت موسم سرد رہتا ہے لیکن سورج کے طلوع ہوتے ہی یہ گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔  

سنان ابن ثابت: علم و تحقیق کے آسمان کا روشن ستارہ

سنان ابن ثابت: علم و تحقیق کے آسمان کا روشن ستارہ

حران کے مشہور طبیب ریاضی دان اور مترجم ثابت ابن قرہ(830ء تا 901ء) کا یہ لائق فرزند بغداد میں 880ء کے قریب تولد ہوا، (ایک اور ذرائع کے مطابق اس کا سن پیدائش 850ء ہے)۔ جس طرح اس کے والد نے طب اور ریاضی کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیئے، اسی طرح بلکہ اس سے بہت بڑھ کر اس کا بیٹا بھی علم و تحقیق کے آسمان پر سورج بن کر چمکا۔ یہی نہیں بلکہ آگے سنان ابن ثابت کے بیٹے اور ثابت ابن قرہ کے پوتے ابراہیم ابن سنان نے بھی اپنے دادا اور والد سے حاصل کی ہوئی علمی میراث سے تشنگان علم و تحقیق کو خوب سیراب کیا۔ سائنس کی تاریخ میں شاذو نادر ہی ایسا اتفاق ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں اس کی مثال بیکرل خاندان میں ملتی ہے۔ اے سی بیکرل، اس کا بیٹا اے ای بیکرل اور پھر اس کا پوتا اے ایچ بیکرل تینوں اپنے اپنے دور کے مشہور سائنسدان گزرے ہیں۔سنان ابن ثابت کا والد ثابت ابن قمرہ ممتاز سائنسدان محمد بن موسیٰ بن شاکر کے کہنے پر حران سے بغداد آئے اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔یوں سنان ابن ثابت کو آغاز ہی سے بغداد کی علمی فضا میں اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کا موقع ملا۔ سنان نے ریاضی اور طب کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی۔ مشہور تاریخ نگار المسعودی، سنان ابن ثابت کے حوالے سے عباسی خلیفہ المعتضد (دور خلافت 892 تا 902ء) کے دربار کے طریق زندگی کا نقشہ بیان کرتا ہے۔ بظاہر 908ء سے پہلے سنان کا دربار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر المقتدر(دور خلافت 908ء تا 932ء) کے عہد میں اسے دربار کے حکیم اور طبیب کی حیثیت مل گئی اور اسی طرح وہ خلیفہ القاہر(دور خلافت932ء تا 934ء) اور خلیفہ الراضٗی (دور خلافت 934ء تا 940ء) کے دور میں بھی دربار سے منسلک رہا۔ ایک دوسرے مستند ذریعے کے مطابق892ء میں ہی جب معتضد خلیفہ بنا تو سنان کے والد نے جو اس وقت افسر الاطبا کے عہدہ پر متمکن تھا، سنان کو اپنی جگہ مقرر کروا دیا تھا۔ اسی ماخذ کے مطابق 902ء میں معتضد کی وفات کے بعد مکتفی کے دور خلافت میں سنان بن ثابت کو تمام سرکاری شفا خانوں کا مہتمم اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اس دور میں اس کے عمل کا دائرہ سفری شفاخانوں اور جیل میں طبی سہولتوں کے بہم پہنچانے تک محدود تھا اور پھر امن کے بعد مقتدر کے دور میں وہ نہ صرف اس عہدے پر فائز رہا بلکہ اب اس کی حیثیت ایک وزیر صحت کی سی ہو گئی۔ اس نے اپنی لیاقت اور قابلیت کی وجہ سے جلد ہی بغداد کے تمام اطباء میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیا۔931ء میں جب ایک عطائی کے غلط علاج کے باعث ایک مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو مقتدر کے حکم کے مطابق سنان نے مطب کرنے والے تمام اطباء کا ایک امتحان لیا اور بغداد کے تقریباً ایک ہزار میں سے صرف سات سو کے قریب اطباء کو مطب کھولنے کی اجازت دی گئی۔ اس امتحان سے صرف ان چند ایک اطباء کو مستثنیٰ رکھا گیا جو پہلے ہی اچھی شہرت رکھتے تھے۔اس کے والد ثابت ابن قرہ نے پیرانہ سالی میں اسلام قبول کر لیا تو سنان بھی مسلمان ہو گیا۔ اس وقت اس کی عمر (تاریخ پیدائش850ء کے لحاظ سے) 40سال تھی، یوں اس کے قبول اسلام کا سال تقریباً 890ء متعین ہوتا ہے۔ راضی کی وفات کے بعد اس نے واسط( کوفہ اور بصرہ کے درمیان ایک شہر کا نام) کے امیر ابوالحسین بحکم کی جسمانی صحت اور اخلاق و کردار کی دیکھ بھال شروع کردی۔ بغداد ہی میں 943ء میں اس کا انتقال ہوا۔سنان کی تصانیف میں سے بدقسمتی سے اب کوئی بھی موجود نہیں۔ ابن القفطی کے بیان کے مطابق سنان کی تصنیفات کو تین سلسلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا تاریخی سیاسی، دوسرا ریاضیاتی اور تیسرا فلکیاتی۔ ابن القفطی کی فہرست میں سنان کی کسی طبی تصنیف کا نام نہیں ملتا۔ پہلی قسم کی کتابوں میں ایک رسالہ وہ ہے جس میں سنان ابن ثابت خلیفہ المعتضد کے دربار کے طریق زندگی کے بارے میں معلومات پیش کرتا ہے۔ اس رسالے میں وہ دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ افلاطون کی کتاب ''ری پبلک‘‘ کے مطابق ایک فلاحی مملکت کا ڈھانچہ متعین کرکے دیتا ہے۔ السعودی اس کی اس پیشکش پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سنان کو چاہئے تھا کہ وہ خود کو اپنی قابلیت کے دائرے سے متعلق مضامین تک ہی محدود رکھتا۔ مثلاً اس کو اقلیدس کے علوم، المجسط، فلکیات، موسمیاتی، مظاہر، منطق، مابعد الطبیعیات اور سقراط، افلاطون اور ارسطو کے نظام فلسفہ تک محدود رہنا چاہئے تھا۔دوسرے سلسلے کی کتابوں میں چار ریاضیاتی رسالے ہیں۔ ان میں ایک ''عضد الدولہ‘‘ کے نام منسوب کی گئی ہے۔ عضد الدولہ کی درخواست پر ابوسہل القوہی نے اس کی اس تصنیف کی ایک تفسیر کی اصلاح کی ہے۔ ریاضیاتی سلسلے کی دوسری کتاب ارشمیدس کی ''on triangles‘‘سے متعلق ہے سا سلسلے کی تیسری کتاب افلاطون کی کتاب''on Elements of Geometry‘‘کی تصحیح و اضافے کے بعد لکھی گئی ہے۔ یہاں ایک حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ افلاطون کی یہ کتاب کہیں وہی تو نہیں جوآیا صوفیہ میں ''المفردات‘‘ کے نام سے پڑی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اوپر بیان کئے گئے پہلے دو رسالے سنان کے نہیں ہو سکتے کیونکہ ان میں مخاطب کی گئی شخصیات دسویں صدی کے دوسرے نصف میں بامِ عروج کو پہنچیں جبکہ سنان دسویں صدی کے پہلے نصف ہی میں انتقال کر گیا تھا۔تیسرے سلسلے کی کتابوں میں سے ''کتاب الانواع‘‘ ( منسوب بہ المعتضد) کے مندرجات کے بارے میں صرف البیرونی کے اقتباسات کے ذریعے کچھ معلوم ہوا ہے۔ موخر الذکر کتاب کا حوالہ ابن القفطی نے اور ابن الندیم نے اپنی کتاب 'الفہرست‘ میں دیا ہے۔ محققین ان کی وجوہات پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک یہ موسمیاتی خصوصیات ستاروں کے طلوع و غروب سے پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ دوسرے محققین اس کو گزرے ہوئے ایام کے موسم کے تقابل کے لحاظ سے لیتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

K-19کی روسی بحریہ میں شمولیت1961ء میں آج کے دن روسی نیوکلیئر آبدوز''K-19‘‘ کو بحریہ میں شامل کیا گیا۔ یہ سوویت آبدوزوں کی پہلی جنریشن تھی جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس تھی۔ یہ آبدوز امریکی آبدوزوں کے جواب میںبنائی گئی تھی۔ اس کی تیاری کے دوران 10 سویلین ورکرز اور ایک ملاح مختلف حادثات میں ہلاک ہوئے۔'' K-19‘‘ کے شروع ہونے کے بعد، آبدوز میں متعدد خرابیاں سامنے آئیں ،کئی مرتبہ تو آبدوز کے ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔امریکہ کا عالمی میلہ1939ء میں آج کے دن امریکہ میں عالمی میلے کا انعقاد کیا گیا ۔یہ اس وقت کا سب سے مہنگا امریکی میلہ تھا۔ اس میلے میں دنیا کے بہت سے ممالک نے شرکت کی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ صرف دو سیزنز میں اس میلے میں 44 ملین (4کروڑ40لاکھ )افراد نے شرکت کی۔اس نمائش کا مقصد لوگوں کو مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعارف کروانا تھا ۔ اس میں ''نئے دن کی صبح‘‘ اور '' کل کی دنیا‘‘ کے عنوان سے لوگوں کیلئے مختلف اشیاء کی نمائش کی گئی۔عالمی میلے کے شروع ہونے کے چار ماہ بعد عالمی جنگ شروع ہو گئی جس کی وجہ سے بہت سی نمائشیں متاثر ہوئیں۔ 1940ء میں میلے کے اختتام کے بعد، بہت سی نمائش گاہوں کو منہدم کر دیا گیا تھا۔یورپی یونین میں دس ممالک کی شمولیتیورپی یونین کی تاریخی توسیع کے دوران 30اپریل2004ء کو دس ممالک یورپی یونین میں شامل ہوئے۔ یہ ممالک کئی دہائیوں سے سوویت نظریات کی وجہ سے مغربی ممالک سے الگ ایک خطے کے طور پر موجود تھے۔ ان ممالک کی شمولیت کو یورپی یونین کی تاریخ کی سب سے بڑی توسیع اس لئے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان 10ممالک کی شمولیت سے یورپی یونین کی آبادی450ملین تک پہنچ گئی۔شامل ہونے والے ممالک میں قبرص ،مالٹا،چیک، ایسٹونیا، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، پولینڈ، سلواکیہ اور سلونیا شامل تھے۔''سٹالگ لوفٹ‘‘ سے قیدیوں کی آزادی''سٹالگ لوفٹ‘‘ قیدیوں کیلئے بنایا گیا جرمن کیمپ تھا۔یہ کیمپ بارتھ، ویسٹرن پومیرانیا، جرمنی میں گرفتار ہونے والے اتحادی فضائیہ کے اہلکاروں کیلئے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جیل کیمپ کی موجودگی نے بارتھ قصبے کو اتحادیوں کی بمباری سے بچا لیا تھا۔ تقریباً 9 ایئر مین7ہزار 588 امریکی اور ایک ہزار351 برطانوی اور کینیڈین قیدی وہاں موجود تھے۔ ان قیدیوں کو 30 اپریل 1945ء کی رات کو روسی افواج نے آزاد کروایا تھا۔ قیدیوں کو سوویت فوج کی پیش قدمی کے پیش نظر کیمپ خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ زیم کے اور کمانڈنٹ کے درمیان گفت و شنید کے بعد، اس بات پر اتفاق ہوا کہ بیکار خونریزی سے بچنے کیلئے محافظ جنگجوؤں کو پیچھے چھوڑ کر جائیں گے لیکن ان اقدامات کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور روسی افواج نے قیدیوں کو آزاد کروا لیا۔  

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے سیکھنے سکھانے کے عمل کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس سے صارفین کی معلومات کے غلط استعمال اور تعلیم سے توجہ ہٹنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔یونیسکو کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024)کے مطابق الگورتھم کے ذریعے چلائے جانے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم صنفی حوالے سے منفی تصورات کو پھیلاتے اور خاص طور پر لڑکیوں کی ترقی کو منفی طور سے متاثر کرتے ہیں۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے کہا ہے کہ ایسے پلیٹ فارم کی تیاری میں اخلاقی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کو تعلیم اور کریئر کے حوالے سے لڑکیوں کی خواہشات اور امکانات کو محدود کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔ انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کا مسئلہ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024 ) رپورٹ کے مطابق الگورتھم کے ذریعے خاص طور پر سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے تصویری مواد سے لڑکیوں کیلئے غیرصحتمند طرزعمل یا غیر حقیقی جسمانی تصورات کو قبول کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے ان کی عزت نفس اور اپنی جسمانی شبیہ کے بارے میں سوچ کو نقصان ہوتا ہے۔رپورٹ میں فیس بک کی اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 20 سال سے کم عمر کی 32 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں تو انسٹاگرام انہیں اس کی مزید بری شبیہ دکھاتا ہے۔ دوسری جانب ٹک ٹاک پر مختصر اور دلفریب ویڈیوز سے صارفین کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ان کی سیکھنے کی عادات متاثر ہوتی ہیں۔ اس طرح متواتر توجہ کے طالب تعلیمی اور غیرنصابی اہداف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔سائبرہراسگی اور ڈیپ فیکرپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو آن لائن ہراساں کئے جانے کا سامنا لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD) میں شامل ممالک سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 12 سے 15 سال تک کی لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں کبھی نہ کبھی سائبر غنڈہ گردی کا سامنا ہو چکا ہے۔ یہ اطلاع دینے والے لڑکیوں کی تعداد آٹھ فیصد تھی۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی جانے والی جعلی تصویروں، ویڈیوز اور جنسی خاکوں کے آن لائن اور کمرہ ہائے جماعت میں پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں بہت سے ممالک کی طالبات نے بتایا کہ انہیں آن لائن تصاویر یا ویڈیوز سے واسطہ پڑتا ہے جنہیں وہ دیکھنا نہیں چاہتیں۔اس جائزے کے نتائج سے تعلیم بشمول میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے گزشتہ نومبر میں ڈیجیٹل سماج کے انتظام سے متعلق یونیسکو کی رہنمائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل سماجی رابطوں کو بہتر اور باضابطہ بنانے کی ضرورت بھی سامنے آتی ہے۔خواتین کی ترقی میں ڈیجیٹل رکاوٹ''گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ‘‘ (Global education monitoring report) میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے منفی صنفی تصورات لڑکیوں کیلئے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان شعبوں پر زیادہ تر مردوں کا اجارہ ہے، جس کے باعث لڑکیاں ایسے ڈیجیٹل ذرائع کی تخلیق کے مواقع سے محروم رہتی ہیں جو ان دقیانوسی تصورات کے خاتمے میں مدد دے سکتے ہیں۔یونیسکو کے مطابق 10 برس سے دنیا بھر میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے مضامین میں گریجویٹ خواتین کی شرح 35 فیصد پر برقرار رہی۔ حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ رائج صنفی تعصبات خواتین کو ان شعبہ جات میں کریئر بنانے سے روکتے ہیں اور اس طرح ٹیکنالوجی کے شعبے کی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب بہت کم رہ جاتا ہے۔دنیا بھر میں سائنس، انجینئرنگ اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے متعلق نوکریوں میں خواتین کا تناسب 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کو دیکھا جائے تو ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں ان کی تعداد 26 فیصد، انجینئرنگ میں 15 فیصد اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں 12 فیصد ہے۔ اسی طرح نئی ایجادات کے حقوق ملکیت کی درخواست دینے والوں میں خواتین کا تناسب صرف 17 فیصد ہے۔پالیسی سازی کی ضرورتاس جائزے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں آنے والی ڈیجیٹل تبدیلی میں مردوں کا کردار نمایاں ہے۔ اگرچہ 68 فیصد ممالک نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں کی ترقی کیلئے پالیسیاں بنا رکھی ہیں لیکن ان میںآدھی کے قریب لڑکیوں اور خواتین کیلئے مددگار نہیں۔یونیسکو کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں میں کامیابی کی نمایاں مثالوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے جس کیلئے سوشل میڈیا سے بھی کام لیا جانا چاہیے۔ لڑکیوں کی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبے اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ معاشروں کی ڈیجیٹل تبدیلی میں خواتین کا مساوی کردار یقینی بنانے اور ٹیکنالوجی کی تیاری کیلئے ایسا کئے بغیر اب کوئی چارہ نہیں۔ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز2024ء‘‘ (Technology on her terms 2024ء‘‘ رپورٹ کے مطابق تعلیم میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے متعلق ڈیزائن، رسائی، تدریس اور مہارتوں میں عدم مساوات کو دور کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر لڑکی ان مواقع سے مستفید ہو سکے جو اس طرح کی ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے فوائد کو ان طریقوں سے استعمال کیا جانا چاہیے جو واضح طور پر صنفی تفریق کو دور کریں۔رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کیلئے ڈیجیٹل ٹولز کی ملکیت اور انہیں استعمال کرنے اورٹیکنالوجی میں کریئر کو آگے بڑھانے کیلئے ایک معاون ماحول کو یقینی بنانا ایک ایسی ڈیجیٹل تبدیلی کا باعث بنے گا جو تعلیم اور اس سے آگے صنفی معیار کو فروغ دے گا اور اس میں اضافی رکاوٹیں پیدا نہیں کرے گا۔  

وادی ڈومیل اور رینبو جھیل

وادی ڈومیل اور رینبو جھیل

استور سے چھ گھنٹے کی جیپ مسافت گوری کوٹ سے ہوتے ہوئے چلم چوکی اور برزل پاس کی 13500 فٹ بلندی کے بعد ہمیں منی مرگ لے گئی۔ اور منی مرگ کی وادی ڈومیل میں رینبو جھیل کے لمس سے آشنا کیا۔ اس پاک سرزمین پر کہیں وادی ڈومیل بھی ہے ؟ہے بھی یا نہیں کہ ایسی وادیاں صرف کہانیوں میں ہی ہوتی ہیں جہاں بلند درختوں سے کھیلتی ہوائیں پہاڑی درے سے گزرتی ہیں تو جنات کی طرح بے شمار کنکر اڑاتی جاتی ہیں۔ انگنت ندیاں گمنام چشموں سے پھوٹ کر پہلے جوان ہوتی ہیں اور پھر بے نام دریاؤں کا رزق بن جاتی ہیں۔کائنات کی سانس کی طرح دریا بھی بہتے چلے جاتے ہیں۔ چاند راتوں میں آسمان کی طرف اٹھنے کی ناکام کوشش میں ہلکان ہوتے ہیں اور پھر کسی اور دریا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان دریاؤں کا ایک ایک قطرہ وقت کی اکائی کی طرح زندگی بھر ایک مقام سے صرف ایک ہی بار گزرتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔وادیٔ ڈومیل ہے بھی یا نہیں؟ یہی دیکھنے کیلئے کتنی بے شمار وادیوں سے گزرے اور کتنے سورج ہمارے سامنے پہلے تانبے کے تھال بنے اور پھر برف کے پاتال میں اتر گئے۔۔ سفر بہر حال جاری رہا۔ ڈومیل سے پہلے پرستان میں داخل ہونے جیسی مشکلات کئی ندیوں اور سفید جہانوں کی صورت میں جھیلنی پڑیں۔ برزل کے سفید معبد کو عبور کیا تو یقین ہوا کہ اس کے پار جو کچھ بھی ہے وہ قدرت کا ایسا عجوبہ ہے جس سے ڈومیل کے حسن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارا مقصد بھی سفر کرنا تھا۔ منزل کی جستجو میں تمام کشش تھی۔ ڈومیل کا ہونا یا نہ ہونا اہم نہیں تھا ، اس لئے ہم آگے بڑھتے چلے گئے۔دو جیپوں پر مشتمل ہمارا قافلہ منی مرگ سے نکل کر سبز قالین بچھے فرش والے رستوں کے بیچ بنی پختہ راہداری پر چل نکلا۔ قدم قدم حیرت تھی، حسن تھا، فطرت تھی۔ درخت آسمان کو چھونے کی کوشش میں نیم رقصاں تھے اور ہوا میں نمی تھی۔ ڈومیل نالے کے اس پار بلندی تھی۔ ڈھلوان سطح پر جو پھول تھے ان کا کوئی نام نہ تھا ، خود رو پھولوں کا کوئی نام ہوتا بھی نہیں۔ منی مرگ سے ڈومیل جاتے ہوئے پھر ایک رکاوٹ آ گئی۔ ایک ندی دیوسائی کے بلند میدانوں سے یا منی مرگ کی آبشاروں سے ادھر آ نکلی تھی اور ڈومیل نالے میں خود کشی کئے جاتی تھی۔ ڈومیل نالے میں ضم ہونے سے پہلے وہ ہمارا راستہ بھی بہا لے گئی تھی۔ ہم رک گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اک جہان ہمارے ساتھ رک گیا۔ شام سے پہلے کچھ سیاح واپس منی مرگ چلے گئے اور کچھ منتظر تھے مگر ہم ہر قیمت پر رینبو جھیل تک جانا چاہتے تھے۔ راستہ کاٹتے پانی کی شدت تو کم نہ ہوئی مگر جیپیں نکل گئیں۔ہمارے اطراف میں جنگل تھا، ندیاں تھیں اور ڈوبتے سورج کی شکست کھاتی تپش تھی۔ پھر ہم ایک فوجی علاقے میں داخل ہوئے۔ خوش آمدید ڈومیل ، والے بورڈ کے ساتھ بہت سارے تعارفی تختے اور استقبالی جملے نمایاں تھے۔ چھوٹے چھوٹے پتھروں پر سفید اور نیم سرخ رنگ کا چھڑکاؤ اس پورے علاقے کو سرکاری رعب عطا کرتا تھا۔یہ وادی لائن آف کنٹرول پر واقع ہے، جس پر سفر کرنے والے سری نگر کشمیر اور گلگت تک، براستہ استور اپنا سفر کرتے تھے۔ ڈومیل میں فوجی چھاؤنی اور چند دفاتر ہیں جن کا مقصد وطن عزیز کی حفاظت کیلئے چوکس رہنا ہے۔ ہم جب ڈومیل کی آخری ندی پر ایستادہ پل عبور کر رہے تھے تو حیرتوں کا جہان کھلتا جا رہا تھا۔ شام سے کچھ پہلے کا منظر ، ہوا میں نمی، درختوں کی بھیگی خوشبو اور پس منظر سے اٹھتی آبشاروں کی مدھر آواز، وادی ڈومیل کو ہماری یادداشت میں امر کرتی جاتی تھی۔ ہم برزل پاس کے برفیلے جہانوں کو پیچھے چھوڑ کر جس حسن کا لمس لینے آئے تھے وہ اس قابل تھا کہ اس کیلئے ایسی مشکلات جھیلی جائیں۔ سامنے ایک راستہ رینبو جھیل کی طرف جاتا تھا۔ پارکنگ کے ساتھ یادگار شہدا تعمیر کی گئی تھی۔ حوالدار لالک جان شہید اور کیپٹن کمال شیر خان شہید کی تعارفی تختیاں نصب تھیں اور 80 برگیڈ 2016 کی افتتاحی پلیٹ بھی بہت اہتمام سے بنائی گئی تھی۔ ہم جھیل کی طرف جانے لگے تو پاک فوج کے ایک جوان نے شائستہ لہجے میں فرمایا کہ ‘‘ اندھیرا ہونے سے پہلے واپس چلے جائیے گا ، رات کو جنگلی جانور حملہ آور ہو سکتے ہیں ‘‘۔ہم ہمالیہ رینج میں وادیٔ ڈومیل کی بارہ ہزار تین سو پچاسی فٹ بلند رینبو جھیل کے کنارے پر کھڑے تھے اور نیلگوں سبزی مائل رنگ والی یہ گول جھیل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ کچھ لوگ اس جھیل کو مصنوعی جھیل کا الزام دے کر حاسدین فطرت میں شمار ہوتے ہیں مگر رینبو لیک کہیں سے بھی مصنوعی نہ تھی۔ اس میں جو پانی تھے وہ کسی ٹیوب ویل سے بھر کر نہیں لائے تھے۔ جھیل کے اطراف میں جو دیواریں اور بند تھے وہ ہمالیہ کے پتھروں کے تھے۔ ایک طرف سے داخل ہونے والا پانی دوسری جانب ایک نالے کی نذر ہوتا تھا جو اس جھیل کو زندہ لیک کی گواہی دیتا تھا۔ اگر کچھ مصنوعی تھا تو وہ کیفے تھا اور بیٹھنے کیلئے اوپن ایریا تھا۔ رینبو جھیل قدرتی حسن کا منبع تھی۔ ہم نے اس جھیل کے کنوارے پانی کو چھوا تو ایک لمحے میں سر سے پاؤں تک سردی کی لہر دوڑ گئی۔جھیل کا طواف مکمل کیا اور وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔   

29اپریل رقص کا عالمی دن

29اپریل رقص کا عالمی دن

آج سے کئی ہزار سال قبل اس خطے میں آباد ، موہن جو دڑو کے شہری بھی رقص کے شوقین تھے جس کا ثبوت کھدائی میں برآمد ہونے والا رقاصہ کا ایک کانسی کا مجسمہ ہے۔ بعض قوموں کے نزدیک رقص ایک دینی فریضہ تھا بلکہ اب بھی ہے ۔اس کا ایک محرک ''روحانی جذبہ‘‘ بھی ہے ۔ ہمارے ہاں یہ صوفیاء میں ''وجد‘‘ کی شکل میں ملتا ہے۔پوری دنیا میں درجنوں اقسام کے رقص ہیں۔ ہمارے ملک میں کلاسیکی اور لوک رقص کا ایک خاص مقام ہے ۔ حقیقت میں دیگر بہت سے فنون کی طرح '' اصل رقص‘‘ خاتمہ کے قریب ہے اور رقاص (جو رقص کر رہے ہیں وہ اصل میں) اس کی اس حالت پر نوحہ کناں ہیں۔ہماری فلموں خاص کر پاکستان ا ور بھارت کی فلموں میں رقص(ڈانس) کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔دیگر ملکوں میں ڈانس یا گانے کے بغیر فلم بن سکتی ہے لیکن یہاں کامیاب ہونا مشکل ہے ۔بلکہ موسیقی ،رقص فلموں کی کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے ۔ اب جو پاکستانی فلموں میں رقص ہو رہا ہے وہ ہماری تہذیب اور ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ اسے رقص کہنا ہی نہیں چائیے ۔یہ کوئی بے ہنگم سی چیز ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔صرف بے حیائی کا فروغ ہے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔پاکستانی معاشرے میں اگرچہ رقص کو اتنی پذیرائی نہیں مل سکی ۔(حالانکہ رقص کے نام پر مجروں میں جو بے ہودگی پائی جاتی ہے اس سے کون واقف نہیں ۔ رقص کو پاکستان میں مقبولیت نہ ملنے کے اسباب میں شائد سب سے بڑا سبب بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوںذلیل ہوتی عوام، دفتروں، سڑکوں، پٹرول پمپوںپر ''حالت رقص ‘‘ میں ہی ہیں۔ رہنما بدل بدل کر عوام،جلسے جلوس میں،کبھی انقلاب،کبھی جمہوریت،کبھی آمریت، کبھی خوشحال اور کبھی نیا پاکستان بنانے کیلئے ''محو رقص ‘‘ ہیں۔ حبیب جالب کے بقول!تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھیرقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے رقص کا عالمی دن29اپریل 1982ء کو انٹرنیشنل ڈانس کمیٹی آف دی انٹرنیشنل تھیٹر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پہلی بار منایا گیا تھا۔ بعدازاںیونیسکو نے اس کی تائید کی ۔اب یہ دنیا بھر میں ہر سال29اپریل کو بھر پور طریقے سے منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد مختلف قوموں کے علاقائی ،ثقافتی سرمائے (رقص ) کو محفوظ کرنا ہے کیونکہ ہر ملک میں رقص کے طریقے الگ الگ ہیں۔رقص مختلف قسم کی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے میں مدد بھی دیتا ہے ۔ارسطو نے اس کو فنونِ لطیفہ میں شمار کیا ہے ۔رقص کو اعضاء کی شاعری بھی کہا جاتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رقص تو پوری کائنات میں ہے ۔''ہم چلتے ہیں، دوڑتے ہیں ، مختلف کام کرتے ہیں تو اس میں ایک ردھم ہوتا ہے ، ہوائیں چلتی ہیں اور پیڑ پودے اس پر جھومتے ہیں تو یہ سب ایک طرح کا رقص ہی تو ہے‘‘۔ پاکستان میں ہر صوبے میں کئی کئی اقسام کے لوک رقص مقبول ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔پنجاب کے لوک رقص میں، بھنگڑا، لڈی، سمی، گدا شامل ہیں ۔بھنگڑایہ پاکستان بھر میں عام رقص ہے جس کی ابتدا پنجاب کے خطے سے شروع ہوئی اور یہ اب ملک کے مقبول ترین لوک رقصوں میں سے ایک ہے۔لڈی پاکستان بھر میں شادی بیاہ کی تقریبات میں کیا جانے والا رقص ہے۔یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا لوک رقص ہے ۔سمی پوٹھوہاری خطے سے شروع ہونے والا یہ لوک رقص بنیادی طور پر پنجاب کی قبائلی برادریوں کا روایتی ڈانس ہے۔ گدایہ بھنگڑے کی طرح انتہائی پرجوش رقص ہے، رقص کرنے والا عام طور پر تالیوں کی آواز کے ساتھ تیز ہوتا چلا جاتا ہے۔بلوچستان کے لوک رقص میںلیوا، چاپ، جھومرشامل ہے۔لیوا نامی رقص عام طور پر شادی بیاہ کے موقع پر لوگوں کی خوشی کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔چاپ یہ بھی شادی بیاہ کے موقع پر کیا جانے والا لوک رقص ہے۔ اس میں ایک قدم آگے بڑھا کر پیچھے کیا جاتا ہے ۔ جھومرکو سرائیکی رقص بھی مانا جاتا ہے اور بلوچستان میں بھی بہت عام ہے ۔خیبر پختونخوا کے لوک رقص میں اٹن ،خٹک ،چترالی ڈانس قابل ذکر ہیں۔اٹن یہ ایسا لوک رقص ہے جو افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں عام ہے ۔عام طور پر ایک ہی دھن پر یہ رقص 5 سے25 منٹ تک جاری رہتا ہے۔ خٹک ڈانس تلواروں کے ساتھ انتہائی تیز رفتاری سے کیا جانے والا یہ ڈانس مقبول ترین ہے ۔چترالی ڈانس یہ خیبرپختونخوا کے ساتھ گلگت بلتستان میں کیا جاتا ہے اور یہ کچھ لوگوں کے گروپ میں کیا جاتا ہے ، جس میں سے ہر ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس رقص کا مظاہرہ کرتا ہے ۔سندھ کے لوک رقص، دھمال اور ہو جمالو ہیں۔ دھمال یہ عام طور پر صوفی بزرگوں کے مزارات یا درگاہ پر کیا جانے والا رقص ہے ۔جو انتہائی مستی کے عالم میں کیا جاتا ہے ۔ہو جمالویہ سندھ کا مشہور ترین لوک رقص ہے ، درحقیقت ہو جمالو ایک بہت پرانا گیت بھی ہے۔