ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور صنفی تفریق اور تضادات

اسپیشل فیچر

تحریر : اسد بخاری


اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے سیکھنے سکھانے کے عمل کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس سے صارفین کی معلومات کے غلط استعمال اور تعلیم سے توجہ ہٹنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔
یونیسکو کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ ''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024)کے مطابق الگورتھم کے ذریعے چلائے جانے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم صنفی حوالے سے منفی تصورات کو پھیلاتے اور خاص طور پر لڑکیوں کی ترقی کو منفی طور سے متاثر کرتے ہیں۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے کہا ہے کہ ایسے پلیٹ فارم کی تیاری میں اخلاقی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کو تعلیم اور کریئر کے حوالے سے لڑکیوں کی خواہشات اور امکانات کو محدود کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔
انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کا مسئلہ
''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز 2024ء‘‘ (Technology on her terms-2024 ) رپورٹ کے مطابق الگورتھم کے ذریعے خاص طور پر سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے تصویری مواد سے لڑکیوں کیلئے غیرصحتمند طرزعمل یا غیر حقیقی جسمانی تصورات کو قبول کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے ان کی عزت نفس اور اپنی جسمانی شبیہ کے بارے میں سوچ کو نقصان ہوتا ہے۔رپورٹ میں فیس بک کی اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 20 سال سے کم عمر کی 32 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں تو انسٹاگرام انہیں اس کی مزید بری شبیہ دکھاتا ہے۔ دوسری جانب ٹک ٹاک پر مختصر اور دلفریب ویڈیوز سے صارفین کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ان کی سیکھنے کی عادات متاثر ہوتی ہیں۔ اس طرح متواتر توجہ کے طالب تعلیمی اور غیرنصابی اہداف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
سائبرہراسگی اور ڈیپ فیک
رپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو آن لائن ہراساں کئے جانے کا سامنا لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD) میں شامل ممالک سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 12 سے 15 سال تک کی لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں کبھی نہ کبھی سائبر غنڈہ گردی کا سامنا ہو چکا ہے۔ یہ اطلاع دینے والے لڑکیوں کی تعداد آٹھ فیصد تھی۔
مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی جانے والی جعلی تصویروں، ویڈیوز اور جنسی خاکوں کے آن لائن اور کمرہ ہائے جماعت میں پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں بہت سے ممالک کی طالبات نے بتایا کہ انہیں آن لائن تصاویر یا ویڈیوز سے واسطہ پڑتا ہے جنہیں وہ دیکھنا نہیں چاہتیں۔
اس جائزے کے نتائج سے تعلیم بشمول میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے گزشتہ نومبر میں ڈیجیٹل سماج کے انتظام سے متعلق یونیسکو کی رہنمائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل سماجی رابطوں کو بہتر اور باضابطہ بنانے کی ضرورت بھی سامنے آتی ہے۔
خواتین کی ترقی میں ڈیجیٹل رکاوٹ
''گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ‘‘ (Global education monitoring report) میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے منفی صنفی تصورات لڑکیوں کیلئے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان شعبوں پر زیادہ تر مردوں کا اجارہ ہے، جس کے باعث لڑکیاں ایسے ڈیجیٹل ذرائع کی تخلیق کے مواقع سے محروم رہتی ہیں جو ان دقیانوسی تصورات کے خاتمے میں مدد دے سکتے ہیں۔
یونیسکو کے مطابق 10 برس سے دنیا بھر میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے مضامین میں گریجویٹ خواتین کی شرح 35 فیصد پر برقرار رہی۔ حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ رائج صنفی تعصبات خواتین کو ان شعبہ جات میں کریئر بنانے سے روکتے ہیں اور اس طرح ٹیکنالوجی کے شعبے کی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب بہت کم رہ جاتا ہے۔دنیا بھر میں سائنس، انجینئرنگ اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے متعلق نوکریوں میں خواتین کا تناسب 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کو دیکھا جائے تو ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں ان کی تعداد 26 فیصد، انجینئرنگ میں 15 فیصد اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں 12 فیصد ہے۔ اسی طرح نئی ایجادات کے حقوق ملکیت کی درخواست دینے والوں میں خواتین کا تناسب صرف 17 فیصد ہے۔
پالیسی سازی کی ضرورت
اس جائزے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں آنے والی ڈیجیٹل تبدیلی میں مردوں کا کردار نمایاں ہے۔ اگرچہ 68 فیصد ممالک نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں کی ترقی کیلئے پالیسیاں بنا رکھی ہیں لیکن ان میںآدھی کے قریب لڑکیوں اور خواتین کیلئے مددگار نہیں۔یونیسکو کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں میں کامیابی کی نمایاں مثالوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے جس کیلئے سوشل میڈیا سے بھی کام لیا جانا چاہیے۔ لڑکیوں کی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبے اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ معاشروں کی ڈیجیٹل تبدیلی میں خواتین کا مساوی کردار یقینی بنانے اور ٹیکنالوجی کی تیاری کیلئے ایسا کئے بغیر اب کوئی چارہ نہیں۔
''ٹیکنالوجی آن ہر ٹرمز2024ء‘‘ (Technology on her terms 2024ء‘‘ رپورٹ کے مطابق تعلیم میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے متعلق ڈیزائن، رسائی، تدریس اور مہارتوں میں عدم مساوات کو دور کیا جانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر لڑکی ان مواقع سے مستفید ہو سکے جو اس طرح کی ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے فوائد کو ان طریقوں سے استعمال کیا جانا چاہیے جو واضح طور پر صنفی تفریق کو دور کریں۔رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کیلئے ڈیجیٹل ٹولز کی ملکیت اور انہیں استعمال کرنے اورٹیکنالوجی میں کریئر کو آگے بڑھانے کیلئے ایک معاون ماحول کو یقینی بنانا ایک ایسی ڈیجیٹل تبدیلی کا باعث بنے گا جو تعلیم اور اس سے آگے صنفی معیار کو فروغ دے گا اور اس میں اضافی رکاوٹیں پیدا نہیں کرے گا۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
یادرفتگاں: دین دار بادشاہ: سلطان نورالدین زنگی

یادرفتگاں: دین دار بادشاہ: سلطان نورالدین زنگی

نورالدین ابو القاسم محمود ابن اماد دالدین ''زنگی سلطنت‘‘ کے بانی تھے۔نورالدین زنگی 11فروری 1118ء موصل عراق میں پیدا ہوئے،1146ء سے 1174ء تک 28 سال حکومت کی اور15مئی 1174ء کو 58برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ نورالدین زنگی نے مسیحوں سے اپنے دور حکومت میں بیت المقدس واپس لینے کیلئے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اِس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے گرد و نوح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا ۔ شروع میں نور الدین کا دارالحکومت حلب تھا، 549ہجری میں انہوں نے دمشق پر قبضہ کر کے اسے دارالحکومت قرار دے دیا ۔ انہوں نے صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملہ کرکے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور بعد ازاں ایڈیسیا پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کی عیسائیوں کی کوششو ں کو بھی ناکام بنا دیا۔ دوسری صلیبی جنگ میں فتح کی بدولت ہی مسلمان تیسری صلیبی جنگ میں کامیاب ہوکر بیت المقدس واپس لینے میں فتح یاب ہوئے ۔ اس زمانے میں مصر میں فاطمی حکومت قائم تھی لیکن اب وہ بالکل کمزور ہوگئی تھی اور مصر چونکہ فلسطین سے ملا ہوا تھا اس لئے عیسائی اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ دیکھ کر نورالدین نے ایک فوج بھیج کر مصر پر بھی قبضہ کر لیا اور فاطمی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا ۔ سلطان نورالدین زنگی کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ روضہ رسول ﷺ کی حفاظت کی سعادت ہے ، یہ واقعہ مدینہ کی تاریخ کی تقریباً تمام کتب میں موجود ہے، سمہودی کے قول کے مطابق عیسائیوں نے یہ سازش 557ہجری میں مرتب کی۔ اس وقت شام کے باشاہ کا نام سلطان نورالدین زنگی تھا اور اس کے مشیر کا نام جمال الدین اصفہانی تھا ۔ایک رات نماز تہجد کے بعد سلطان نورالدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم ﷺ 2سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ ''مجھے ان کے شر سے بچائو ‘‘سلطان ہر بڑا کر اُٹھا، وضو کیا ، نفل ادا کئے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی ۔ خواب دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں ؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینہ روانہ ہوجائیں۔یہ مشورہ سلطان کے مشیر جمال الدین اصفہانی نے دیا۔ اگلے روز سلطان نے 20مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینہ کیلئے کوچ کیا۔ سلطان نے روضہ رسولﷺ پر حاضری دی اور مسجد نبوی میں بیٹھ گئے ، اعلان کیا گیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں ، جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کریں گے ، لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتے گئے ۔ اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اس ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا ''کیا مدینہ کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے ؟جواب اثبات میں تھا۔سلطان نے پھر پوچھا کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟ اس بار حاضرین نے کہا ، ''سوائے دو آمیوں کے ‘‘راز تقریباً فاش ہوچکا تھا۔ سلطان نے پوچھا وہ کون ہیں اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے ؟ بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم وصلوۃ کے پابند دو متقی باشندے ہیں، دن رات رسول کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجد جاتے ہیں،فیاض اور مہمان نواز ہیں ، کسی کا دیا نہیں لیتے ۔ سلطان نے کہا ''سبحان اللہ ‘‘اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کیلئے فوراً بلایا جائے، جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا ''الحمد اللہ ‘‘ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں ۔جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اِس نے حکم دیا کہ اِن دونوں کو فوراً پیش کیا جائے ، حکم کی فوری تعمیل ہوئی ، ایک جھلک ان کی شناخت کیلئے کافی تھی ، تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا تم کون ہو ؟ یہاں کیوں آئے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم مراکش کے رہنے والے ہیں حج کیلئے آئے تھے اور روضہ رسول ﷺ کے سائے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ سلطان نے سختی سے کہا ، کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے ؟ اب وہ چپ رہے ، سلطان نے حاضرین سے پوچھا، یہ کہاں رہ رہے ہیں ؟ بتا یا گیا کہ روضہ رسول کے بالکل نزدیک ایک مکان میں جو مسجد نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا۔ سلطان فوراً اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہوگیا ۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا ، اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے ، اس مکان میں اس کی نظر فرش پر بچھی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی ، نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اُڑ گئیں ، سلطان نے چٹائی اُٹھائی، اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی ۔ سلطان نے گرج کر کہا کیا اب بھی سچ نہ بولو گے ؟ ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ اُنہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے حکمران نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر ، حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ روضہ مبارک تک پہنچ سکیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کیلئے اُنہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اُس کے بعد روضہ رسولﷺ کے نزدیک مکان کرائے پر لے کر رہنے لگ گئے۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے جس کا روخ روضہ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے ۔ اُنہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل پر تھی کہ رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی کہ جیسے زلزلہ آگیا ہو اور اب جبکہ ان کا کام پایا تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان ناجانے کیسے مدینہ پہنچ گئے۔ سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اور روتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کیلئے اس غلام کو چنا گیا۔ سلطان نور الدین زندگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کر دیا جائے، روضہ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے ، اور اس کے گرد سیسا پلائی دیوار بنا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بد بخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ مذکورہ بالا واقعہ 558ہجری مطابق 1142ء کا ہے۔ سلطان نے روضہ مبارک کے قریب ایک چبوترہ بھی بنوایاتاکہ اس پر ان قبور کی حفاظت کیلئے ہر وقت پاسبان موجود رہیں، سلطان کی زندگی کا یہ ایک عظیم ترین کارنامہ ہے جو کہ تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا رہے گا۔ سلطان نور الدین زندگی 15مئی 1174ء کو 58برس کی عمر میں شام کے دارالحکومت دمشق میں وفات پاگئے ۔ 

سماجی ویورز بڑے بڑے گھونسلے بنانے والا پرندہ

سماجی ویورز بڑے بڑے گھونسلے بنانے والا پرندہ

قدرت نے روئے زمین پر اشرف المخلوقات کے علاوہ بہت سے دیگر جاندار پیداکر رکھے ہیں جن میں طرح طرح کے جنگلی جانور ، زمین کے اوپر اور اندررینگنے والے حشرات جن کی تعداد انسانوں کئی گنازیادہ ہے۔ اس کے علاوہ پرندوں کی کئی اقسام بھی ہوائوں میں اڑتی نظر آتی ہے۔ آج ہم یہاں بات کریں گے پرندوں کی کرہ ارض پر پرندوں کی لاتعداد اقسام موجود ہیں۔ مختلف قسم کے پرندو ں کا رہن سہن ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔ کئی پرندے درختوں پر گھونسلے بناتے ہیں کئی چٹانوں میں اپنے مسکن بنا کر زندگی بسر کرتے ہیں گو کہ قدرت کے کرشموں سے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت اور عظمت پر یقین اور پختہ ہوجاتا ہے۔عام طور پر، پرندے گھونسلا بنانے والے سب سے زیادہ ہنر مند ہوتے ہیں، حالانکہ پرندے کی تمام اقسام گھونسلے نہیں بناتے، کچھ اپنے انڈے براہ راست چٹان کے کناروں یا مٹی پر ڈالتے ہیں، پرندوں کے بنائے گئے گھونسلے درجہ حرارت کو متوازن رکھنے اور شکار کے خطرات کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ کچھ پرندے ایسے بھی ہے جو براہ راست اپنے بچوں کی پرورش نہیں کرتے، اپنے بچوں کو گلنے والے پودوں کے ٹیلے میں سینکتے ہیں۔ پرندوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو اپنے انڈوں کو گرم رکھنے کیلئے جیوتھرمل گرمی سے گرم ہونے والی آتش فشاں ریت کا استعمال کرتی ہے۔ گھونسلے بنانے والے پرندوں میں بہت سے پرندے شامل ہیں۔ زیادہ تر پرندوں کے گھونسلے درختوں کی شاخوں کے درمیان ہوتے ہیں ان گھونسلوں میں زیادہ تر مٹی، ٹہنیاں پتے اور پنکھوں کا استعمال کرتے ہوئے کپ کی شکل کے گھونسلے بناتے ہیں۔ کچھ پرندے، جیسے فلیمنگو اور سوئفٹ، اپنے گھونسلے جوڑنے کیلئے تھوک کا استعمال کرتے ہیں۔کچھ پرندوں کا گھونسلہ مکمل طور پر کیچڑ اور فضلے پر مشتمل ہوتا ہے،اور سورج کی تپش سے گھونسلے کا ڈھانچہ مضبوط ہو جاتا ہے۔کچھ پرندے اپنے گھونسلے کی جگہوں کو ڈھانپنے کیلئے پتوں کو ایک ساتھ سلائی کرتے ہیں۔ان پرندوں میں سے ایک پرندہ ایسا بھی ہے کہ جو درختوں کی شاخوں پر اس خوبصورتی اورمہارت سے اپنا گھونسلا بناتا ہے کہ تیز آندھی بھی اس گھونسلے کو نقصان نہیں پہنچاتی اور یہی نہیں وہ اپنے گھونسلے میں روشنی کیلئے جگنو کا استعمال بھی کرتا ہے۔ انہیں پرندوں میںبالڈ ایگلز ایک ایسا پرندہ ہے جس نے فلوریڈا کے علاقے میں ایک گھونسلہ بنایا جس کی گہرائی 6 میٹر اور چوڑائی 2.9 میٹر تھی اور اس کا وزن 2 ہزار 722 کلو گرام تھا۔آج تک روئے زمین پر کسی نے پرندے کا اتنا بڑا گھونسلہ نہیںدیکھا۔بے شک قدرت کے ایسے کرشمے انسانی عقل وشعور کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی جنوبی افریقہ میں پایا جانے والا ایک پرندہ جسے ملنسار ویور ز کہا جاتا ہے ۔ ملنسار ویورکے بارے میں سب سے پہلے 1790ء میں تجزیہ کیا گیا۔یہ پرندہ 5.5 انچ کا ہوتا ہے اور اس کا وزن ایک سے سوا اونس کے درمیان ہوتا ہے۔یہ پرندہ جنوبی افریقہ کے شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ملنسار ویورز تمام پرندوں سے منفردایسا گھونسلہ بناتا ہے جس میں لکڑیوں کے بڑے بڑے ٹکڑے اور خشک گھاس استعمال کی جاتی ہے اور یہ گھونسلا اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس میں 400 سے 500 کے قریب پرندے رہ سکتے ہیں اور اس بڑے گھونسلے کے اندر مختلف چیمبر بنے ہوتے ہیں جیساکہ ایک بڑی حویلی میں مختلف رہائشی کمرے ہوں۔ گھونسلے کا داخلی راستہ نچلے حصہ میں ہوتا ہے جو ایک راہ داری میں جاتا ہے اسی راہ داری سے گزر کر پرندے اپنے اپنے چیمبرز میں جاتے ہیں۔ ان بڑے گھونسلوں کو ملنسار بنکرز یا نوآبادیاتی گھونسلے بھی کہا جاتا ہے۔ ان ملنسار بنکرز کے درجہ حرارت کو متوازن رکھنے کا بھی مکمل انتظام رکھا جاتا ہے تا کہ زیادہ گرمی اور زیادہ سردی اثر انداز نہ ہو سکے۔ سماجی ویورزاپنے گھونسلے درختوں اور دیگر اونچی جگہوں جیسے بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبوں پر بناتے ہیں یہ پرندہ مختلف جگہوں سے ٹہنیاں اکٹھی کر تے ہیں اور گھونسلے کو ٹہنی سے ٹہنی جوڑ بناتے ہیں۔ ان بڑے گھونسلوں کے اندر الگ کمرے ہوتے ہیں جنہیں مختلف پرندوں کے پنکھوں اور نرم گھاس کے استعمال سے آرام دہ بنایا جاتا ہے۔ ایک انفرادی گھونسلے کا وزن 2ہزار پاؤنڈ تک ہوسکتا ہے اور اس میں 100 سے زیادہ چیمبر ہوتے ہیں۔ گھونسلے کے داخلی راستے تقریباً 250 ملی میٹر لمبے اور 76 ملی میٹر چوڑے بنائے گئے ہیں اور ان پر تیز دھار لاٹھیاں لگائی گئی ہیں تاکہ سانپوں سمیت شکاریوں کے داخلے کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ گھونسلے بہت مضبوط ہوتے ہیں ۔ بجلی کے کھمبوں پر بنائے گئے گھونسلے گرمیوں میں آگ اور برسات کے موسم میں شارٹ سرکٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ اور کئی مرتبہ بارشوں کے باعث گھونسلے میں اس قدر پانی میں بھر جاتا ہے کہ درخت یا کھمبا گر جاتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

افغانستان سے سویت افواج کی واپسی1988ء میں آج کے روز سوویت افواج آٹھ سال سے زیادہ عرصہ لڑنے کے بعد افغانستان سے واپس گئیں۔ ایک لاکھ 15ہزار فوجیوں کی مرحلہ وار واپسی شروع ہوئی۔''سوویت افغان جنگ‘‘ 1979ء سے 1989ء تک جاری رہی۔ غیر ملکی طاقتوں کی شمولیت نے اس جنگ کو امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایک پراکسی جنگ بنا دیاتھا۔ پہلی ائیر میلپہلی ائیر میل فلائٹ جس کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے پوسٹ آفس ڈیپارٹمنٹ نے سویلین فلائٹ کے عملے کے ساتھ چلایا۔ اس فلائٹ نے 15 اگست 1918ء کو ٹیک آف کیا۔ ائیر میل کی یہ فلائٹ نیویارک سے واشنگٹن کیلئے طے شدہ تھی لیکن سفر کے دوران اس کا ایک سٹاپ فیلیڈیلفیا میں بھی تھا۔یہ فلائٹ15مئی کو پہلی ائیر میل لے کر واشنگٹن ڈی سی پہنچی۔برطانیہ کا ہائیڈروجن بم کا تجربہآپریشن گریپل 1957ء سے 1958ء میں بحرالکاہل میں گلبرٹ اور ایلیس جزائر میں مالڈن جزیرہ اور کریتیماتی میں ابتدائی ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کے چار برطانوی جوہری ہتھیاروں کے تجربات کا ایک مجموعہ تھا۔ اس پروگرام کے دوران نو جوہری دھماکے کئے گئے۔15مئی 1957ء کو برطانیہ نے پہلے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا۔عراق بم دھماکے2013ء میں 15مئی سے21مئی تک عراق کے وسطی اور شمالی حصوں میں بہت خوفناک دھماکوں اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔کچھ واقعات جنوب اور مغرب کے قصبوں میں بھی پیش آئے۔ ان حملوں میں کم از کم 449افراد ہلاک اور تقریباً 732 شدید زخمی ہوئے۔انہیں عراق کی تاریخ کے بدترین واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ٹوریون میں قتل عام 15مئی1911ء کو ٹوریون میں قتل عام ہوا۔جس میں فرانسسکو کی انقلابی افواج نے 300 سے زائد ایشیائی باشندوں کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر کینٹونیز میکسیکن اور کچھ جاپانی میکسیکن تھے۔ کینٹونیز کے گھروں اور دکانوں کو لوٹ کر تباہ کر دیا گیا۔قتل عام کی تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ نسل پرستی کا ایک عمل تھا۔   

یادرفتگاں: فاروق قیصر : فن و ادب کا روشن ستارہ

یادرفتگاں: فاروق قیصر : فن و ادب کا روشن ستارہ

31 اکتوبر 1945ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے فاروق قیصر 14مئی 2021ء کواسلام آباد میں فوت ہوئے ، آج ان کی تیسری برسی منائی جا رہی ہے۔وہ ایک مزاح نگار اور فنکار ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ مصنف، کالم نگار، کارٹونسٹ، پروڈیوسر، سکرپٹ رائٹر، شاعر، صداکار اور استاد بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر ایک متاثر کن انسان تھے۔اگر یہ کہا جائے کہ معروف کریکٹر ''انکل سرگم‘‘ کے تخلیق کار فاروق قیصر فن و ادب کی دنیا کاایک روشن ستارہ تھے اور ان کی شخصیت سے بے پناہ کرنیں پھوٹتی تھیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ماسی مصیبتے، بونگا بخیل، ہیگا، رولا اور شرمیلا جیسے یادگار کردار بھی ان کی تخلیق تھے۔ لاہور میں پیدا ہوئے مگر پرورش پاکستان کے مختلف شہروں میں پائی۔ جس کی وجہ والد کی سرکاری نوکری تھی ۔ فاروق قیصر کا تعلیمی سفر بھی مختلف شہروں میں تکمیل تک پہنچا، یعنی میٹرک پشاور سے، ایف اے کوئٹہ سے اور ٹیکسٹائل ڈیزاننگ میں گریجویشن نیشنل کالج آف فائن آرٹس لاہور سے کیا ۔فائن آرٹس میں ماسٹرز انہوں نے رومانیہ سے کیاجبکہ 1999ء میں کیلیفورنیا امریکہ سے ماس کمیونی کیشن میں بھی ماسٹرز کیا ہے۔ان کا شمار پاکستان کے معروف مزاح نگاروں میں ہوتا تھا، جنہوں نے کپڑے کے بنے ہوئے پتلوں کے ذریعے مزاح پیش کیا اور پھر کارٹون کے ذریعے بھی اس فن کی آبیاری کی۔ انہیں ٹی وی پرفیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے پروگرام ''اکڑ بکڑ‘‘ سے متعارف کروایا تھا۔ مشہور پروگرام ''کلیاں ‘‘ ان کی پہچان بنا،جس میں انکل سرگم کے کردار نے انہیں شہرت کے بام عروج پر پہنچادیا۔ یہ شو ویسے تو بچوں کیلئے تھا لیکن اس میں موجود ہلکا پھلکا طنز و مزاح بڑوں کی بھی توجہ حاصل کیے رکھتا۔ انکل سرگم اور ماسی مصیبتے کے علاوہ ہیگا، رولا اور شرمیلا جیسے پتلی تماشا کے کرداروں نے بھی مقبولیت حاصل کی۔تمام کرداروں کی ڈیزائننگ ان کی اپنی تھی اور انکل سرگم کا وائس اوور بھی وہ خود کرتے تھے۔ ان کا پروگرام ''کلیاں‘‘ 1976ء میں، ''ڈاک ٹائم‘‘ 1993ء میں، ''سرگم سرگم‘‘ 1995ء میں ،''سیاسی کلیاں‘‘ 2010ء میں اور ''سرگم بیک ہوم‘‘ 2016ء میںنشر ہوا۔فاروق قیصر علم و ادب کی دنیا کا ایک ایسا نام ہیں، جنہوںنے '' پتلیوں ‘‘ سے وہ باتیں کہلوا دیں جو انسان حکمرانوں اور اداروںکے سامنے بیان کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا تھا۔انہوں نے سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں سرکاری ٹی وی کے ذریعے سے محکمانہ خرابیوں، بدعنوانیوں اور نااہلیوں کو اس خوبصورتی سے بے نقاب کیا کہ سبھی عش عش کر اٹھے۔ فاروق قیصر عوامی مسائل کو طنزومزاح سے بیان کرنے کے ماہر تھے۔ انہوں نے اپنے کرداروں سے معاشرے کو اس کا اصل چہرہ دکھایا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ''فرد ہر بات کہہ سکتا ہے بس کہنے کا ڈھنگ آنا چاہئے‘‘۔ وہ وژنری آدمی تھے، پینتالیس سال پہلے جو کچھ کہہ دیا،حالات آج بھی ویسے ہی ہیں۔ پپٹ شوز کے ذریعے انہوں طنز کے نشتر ہی نہیں برسائے بلکہ بچوں اور بڑوں کو ہنسنا سکھایا اور بھلائی کا ناقابل فراموش پیغام دیا۔فاروق قیصر کے کریڈٹ پر ایک اور بہت شاندار تخلیقی اقدام ہے جس نے پاکستان میں مزاح بالخصوص ٹیلی وژن پر مزاح کو ایک نیا رجحان عطا کیا اور وہ تھا مزاحیہ صدا کاری کا، جس میں وہ انگریزی فلموں پر پنجابی فلموں کے انداز کی پنجابی زبان میں ڈبنگ کرتے تھے۔ ''حشر نشر‘‘ کے نام سے پیش کیے جانے والے پروگرام نے پاکستان میں ایک نیا رخ دیا جس سے متاثر ہوکر اس شعبے میں بہت کام ہوا بلکہ آج تک مختلف انگریزی فلموں اور کلپس پر مزاحیہ ڈبنگ کا کام جاری ہے۔ پاکستان میں اس کام کے خالق فاروق قیصر ہی تھے۔فاروق قیصر نے زندگی میں بہت سارے کام کیے، وہ پاکستان اور انڈیا میں یونیسیکو کے منصوبوں سے جڑے رہے۔ انہوں نے دیہی علاقوں میں صحت و صفائی، تعلیم اور فنون کی آگاہی کیلئے عملی طور پر خدمات فراہم کیں۔ وہ لوک ورثہ کے سابق بورڈ آف گورنر بھی رہے۔ ان کی ٹیلی وژن کے ساتھ مختلف حیثیتوں میں وابستگی رہی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس اور فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین سمیت کئی جامعات سے بھی جز وقتی منسلک رہے۔ کئی اخبارات کیلئے مستقل طور پر کالم نویسی کرنے کے ساتھ حالات حاضرہ پر کارٹون بھی تخلیق کیے۔ انہوں نے 40 ڈرامے اور بے شمار نغمات بھی لکھے۔ ان کی تحریروں پر مبنی 4 کتابیں بھی شائع ہوئیں، جن میں ''ہور پوچھو‘‘،''کالم گلوچ‘‘،''میٹھے کریلے‘‘ اور ''میرے پیاے اللہ میاں‘‘ شامل ہیں۔ لازوال شخصیت کے حامل فاروق قیصر کی بہترین خدمات اور کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے انہیں ''تمغہ امتیاز ‘‘اور'' تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔پاکستان میں پتلی تماشا کے بانی سمجھے جانے والے فاروق قیصر کو 2021ء میں عید الفطرکے دوسرے روزپڑنے والا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور یوں وہ موت کی آغوش میں چلے گئے۔انہوں نے 75 برس کی عمر پائی۔فاروق قیصر کی زندگی اور ان کے فن کے بارے میں ہم جتنی بات کریں، کم ہے۔ 50 برسوں پر پھیلے ان کے فنی منظرنامے پر جگہ جگہ ہمارا بچپن بکھرا پڑا ہے، فنون لطیفہ کیلئے فاروق قیصر کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ 

 چھیمبہ :  تاریخی سرائے

چھیمبہ : تاریخی سرائے

قدیم ادوار سے ہی ہماری سرزمین کئی شاہراہوں پر سے گزرنے والے جنگجوئوں، فاتحین اور بادشاہوں کی گزر گاہ رہی ہے۔ راجپوتانہ تا بنگال کو افغانستان کی سر بلند سرزمین کو ملانے والے راستے کو چوتھی صدی قبل مسیح کی دستاویزات کے مطابق جی ٹی روڈ (جرنیلی سڑک) کا نام دیا گیا تھا۔ مختلف قصبوں اور شہروں کو باہم ملانے والی شاہرات قدیم دور میں بہت اہمیت کی حامل رہیں۔صدیوں سے موجود رہنے والی اس طرح کی قدیمی شاہ راہ(موجودہ جدید شکل میں لاہور، ملتان ہائی وےN-5)کی اہمیت مغلوں کے دور میں بہت بڑھ گئی۔ جب مغل سلطنت امن کی بہاریں دیکھ رہی تھی اسی دور میں شمال میں واقع لاہور، مغلوں کے متبادل دارالحکومت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا اور ملتان نسبتاً دارالحکومت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا اور ملتان نسبتاً امیر صوبے اور تجارتی مرکز کے طور پر سامنے آیا۔ مغلوں کے تیسرے فرماں روا، اکبر اعظم کے دور میں تجارت کے مقاصد، جنگی مہمات، شاہی دوروں کو سہولت بخشنے کیلئے اس قدیمی لاہور، ملتان کے درمیان واقع جرنیلی سڑک کو خصوصی توجہ کا مستحق گردانا گیا۔ ان شاہراہوں کے نظام کے گھوڑے، پیادے، سکیورٹی کا انتظام کے ساتھ ساتھ یہاں لاتعداد نئی ''کاروان سرائے‘‘ تعمیر کی گئی جہاں پرانی سائیں موسمی یا جنگی حالات کی وجہ سے عدم وجود سے دوچار تھیں۔اس دور میں ان سرائوں کا باہم فاصلہ، طے کئے جانے والے سفر کے مطابق رکھا جاتا تھا جو عموماً25تا 30کلو میٹر( اس دور میں طے ہونے والا روزانہ فاصلہ) ہوتا تھا۔ لاہور کے اندرون (مرکز حکومت) سے نکلتے تو پہلا پڑائو ملتان جانے والی جرنیلی سڑک پر ضلع قصور کے تاریخی قصبے ہنجروال میں سرائے کی صورت میں ہوتا تھا۔ ہنجروال کی یہ سرائے امتداد زمانہ کے ہاتھوں کب کی وجود کھو چکی ہے۔سیاحوں اور ماہرین آثاریات کی نظروں سے ذرا اوجھل، بغیر منصوبے کے تعمیر ہونے والے دیہات گھروں اور زرعی زمینوں میں گھری''سرائے چھیمبہ‘‘ کی آثاریات ہنجروال سے مزید 30 کلو میٹر دور N-5پر ''سراں‘‘ کے سٹاپ کے مغرب میں تقریباً ایک کلو میٹر دور قدیم جرنیلی سڑک کی نشانی کے طور پر آج بھی موجود ہے۔ قارئین کیلئے یہ امر باعث دلچسپی ہو گا کہ ''سرائے چھیمبہ‘‘، '' سرائے ہنجروال‘‘، '' سرائے مغل‘ جیسی سرائیں اٹک قلعہ سے منسلک ''بیگم کی سرائے‘‘ ٹیکسلا راولپنڈی کے درمیان ''سرائے خربوزہ‘‘ راولپنڈی کے مشرق میں ''سرائے روات‘‘ روہتاس قلعہ کے عین باہر ''راجو پنڈ‘‘ نامی جگہیں قلعہ بند حالت میں آج بھی سیاہ راتوں کے درمیان قزاقوں اور مقامی دیہاتی لٹیروں سے بچائو کیلئے دروازے بند کر کے محفوظ ہو جانے والے شاہی کاروانوں کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔ دور حقیقت اس خطہ میں یہ کوئی انوکھی تعمیراتی حیرت گاہ نہ تھی بلکہ وسطی ایشیا، ایران اور ہندو پاک میں تعمیر ہونے والی اسی طرح کی سرائوں سے مشابہہ، موٹی، بڑی دیواروں اور مشرق اور مغرب کی جانب مرکزی دروازوں، قلعہ نما بلندی اختیار کئے ہوئے کئی تعمیرات موجود ہیں۔حد بندی کے طور پر کام آنے والی موٹی، بیرونی دیواروں کے اندر کی طرف گنبد نما چھتوں والے اندھیرے لیکن ٹھنڈے، بڑے بڑے کمروں کے لمبے سلسلے میں مسافروں کے کاروان، شاہی مصاحب ، سامان لانے لے جانے والے ایک یا دو دن کیلئے آرام کرنے اور تازہ دم ہونے کیلئے یہاں ٹھہرا کرتے تھے۔ ان کے جانور( گھوڑے اور گدھے اور ہاتھی) سرائوں کے کونے پر واقع وسیع اصطبل میں ٹھہرا دیئے جاتے تھے۔مشرق اور مغربی سمتوں میں تعمیر شدہ محراب نما وسیع اور بلند دروازے اکبر کے دور کے تعمیر شدہ ہیں۔ مغربی دروازہ پر قبضہ ہو چکا ہے اور یہ رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے جبکہ مشرقی دروازہ آنے اور جانے کیلئے مستعمل ہے۔ چند سال قبل تک دروازہ کے عالی شان مضبوط لکڑی سے تعمیر پٹ( کواڑ) موجود تھے، لیکن بعد ازاں جب پختہ گلیاں اور سولنگ لگاتے ہوئے گلیوں کو اونچا کیا گیا تو یہ نہ کھل سکنے کی وجہ سے اتار کر غائب کر دیئے گئے۔سرائے کے شمالاً جنوباً چند(کل چار عدد) چوکور عمارت کی پسلی پر ایستادہ گنبد وسطی ایشیا اور افغانستان (ثمر قن اور ہرات) دو دروازوں پر اور دو چھتوں پر کی مختلف مساجد اور مزارات پر تعمیر گنبدوں سے ہو بہو مشابہت رکھتے ہوئے ان کی یاد دلاتے ہیں۔ ان گنبد میں سے کسی ایک پر بھی نیلی ٹائیلون کے نشانات موجود نہیں ہیں جو کسی زمانے میں ان کا خاصہ تھے۔سرائے چھیمبہ کا ہر کونہ ہشت پہلو محافظی پوسٹ لئے ہوئے ہے، جس سے یہاں کا دفاعی نظام نکھر کر سامنے آتا ہے۔ مسافروں کے جانور جس طویل سلسلہ وار عمارت میں ٹھہرائے یا باندھے جاتے تھے، وہ آج کل جدید طرز کی گلیوں پر مشتمل عمارات میں گھری ہوئی ہے۔ بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ موجود کمرے مقامی راجپوت آبادی کے زیر استعمال ہیں، کیونکہ سرما میں گرم اور گرما میں ٹھنڈے رہتے ہیں۔جدھر نگاہ دوڑائیں سرائے میں مزید کمروں کا اضافہ کرنے کیلئے کی گئی لاتعداد تبدیلیاں اور بہتریاں نظر آتی ہیں۔ حتیٰ کہ دو سال قبل چھتوں پر نئے کمرے تعمیر کرنے کیلئے ثمر قند ہرات اور بخارا کے مشابہ مینار تک گرا دیئے گئے۔ مغلوں کے زمانے کی اینٹیں، چوناآج بھی گرائے گئے میناروں کی جگہ پر پڑے ملتے ہیں۔مقامی آبادی کو اس جگہ کی تاریخی اہمیت کا نہ تو اندازہ ہے نہ ہی اس سے انہیں کوئی سروکار، وہ صرف بڑھتی آبادی اور شہری سہولیات میں اضافہ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ریل گاڑی اور لاری، موٹرکار وغیرہ کی ایجاد کے بعد پیدل، گھوڑوں یا ہاتھیوں پر سفر تو متروک ہوا ہی اور سرائوں کی اہمیت اور ضرورت میں بتدریج کمی آتی گئی۔ تقسیم ہندو پاکستان کے بعد مہاجرین کی اس علاقہ میں ہجرت کے بعد لوگوں نے اس سرائے پر ذاتی رہائش گاہوں کے طور پر اپنے ڈیرے جما لئے جو آج تک جاری ہیں۔ 1580ء میں تعمیر شدہ یہ سرائے ''زیر حفاظت آثار قدیمہ‘‘ تو ہے لیکن مسلسل بڑھتی آبادی، بے ضابطہ شہر سازی، کرنال اور روہتک سے آنے والے راجپوت مہاجرین کی آباد کاری اور یہاں کی ثقافت، تاریخ سے چشم پوشی جیسے امور کی وجہ سے یہ برائے نام ہی ''محفوظ‘‘ ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

چیچک کی ویکسین کی ایجاد 14 مئی 1796ء کو برطانوی طبیب و سائنسدان ایڈورڈ جینرنے چیچک کے مرض کیلئے ویکسین ایجاد کی۔ایڈورڈ جینرکو ویکسین کابانی تصور کیا جاتا ہے ، ان کی بنائی ہوئی چیچک کی ویکسین دنیا کی پہلی ویکسین کہلاتی ہے۔چیچک ایک ایسی بیماری تھی جو ویریولا وائرس کی وجہ سے ہوتی تھی ۔اس کے آخری کیس کی تشخیص 1977 ء میں ہوئی تھی اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 1980ء میں اس بیماری کے عالمی خاتمے کی تصدیق کی تھی۔امریکی خلائی مشن ''سکائی لیب‘‘ کی روانگی 1973ء میں آج کے روز امریکہ نے اپنا پہلا خلائی اسٹیشن ''سکائی لیب‘‘ روانہ کیا۔یہ مشن 24ہفتوں پر مشتمل تھا جو مئی 1973ء سے فروری 1974ء تک جاری رہا۔اس دوران تین خلائی مشن ''سکائی لیب2‘‘، ''سکائی لیب 3‘‘ اور ''سکائی لیب 4‘‘ سر انجام دیئے گئے جن کا مقصد شمسی نظام اور زمین کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں تجربات کرنا تھا۔پرتگال میں بغاوت14مئی1915ء میں برتگال میں ایک فوجی بغاوت ہوئی جس کی قیادت الوارو ڈی کاسترو اور جنرل سا کارڈوسونے کی۔اس بغاوت کا آغاز لزبن سے ہواجس کا واحد مقصد اس وقت کے حکمران جنرل پیمینٹاڈی کاسترو کی آمریت سے نجات حاصل کرنا تھا۔اس بغاوت کی قیادت کرنے والے رہنماؤں نے واضح کر دیا تھا کہ ہم کسی کو بھی غیر ضروری نقصان نہیں پہنچائیں گے ، جنرل کاسترو سے اقتدار چھین کرتحریک کا اختتام کر دیں گے۔ روٹر ڈیم پر حملہدوسری عالمی جنگ کے دوران نیدرلینڈز پر جرمن حملے کے دوران روٹرڈیم کو نازی افواج نے شدید فضائی بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس کا مقصد شہر میں لڑنے والے جرمن فوجیوں کی مدد کرنا، ڈچ مزاحمت کو توڑنا اور ڈچ فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا تھا۔ بمباری 10 مئی کو شروع ہوئی اور 14 مئی کو تاریخی شہر کے مرکز کی تباہی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔اس بمباری کو روٹرڈیم بلٹز بھی کہا جاتا ہے، جس میں تقریباً 1150 لوگ مارے گئے۔امریکی خانہ جنگی''جیکسن جنگ‘‘ یعنی امریکی خانہ جنگی کے دوران14مئی1863ء کو وکسبرگ مہم کے ایک حصے کے طور پر جیکسن اور مسیسیپی کے درمیان لڑی گئی۔ ریاست مسیسیپی میں داخل ہونے کے بعد، یونین آرمی نے اپنی فورس کو اندرون ملک منتقل کر دیا تاکہ مسیسیپی کے سٹریٹجک شہر وِکسبرگ پر حملہ کیا جا سکے۔ شہر پر قبضہ کرنے کے بعد، یونین فوجیوں نے اقتصادی اور فوجی بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا اور شہریوں کے گھروں کو بھی لوٹ لیا۔