29اپریل رقص کا عالمی دن
آج سے کئی ہزار سال قبل اس خطے میں آباد ، موہن جو دڑو کے شہری بھی رقص کے شوقین تھے جس کا ثبوت کھدائی میں برآمد ہونے والا رقاصہ کا ایک کانسی کا مجسمہ ہے۔ بعض قوموں کے نزدیک رقص ایک دینی فریضہ تھا بلکہ اب بھی ہے ۔اس کا ایک محرک ''روحانی جذبہ‘‘ بھی ہے ۔ ہمارے ہاں یہ صوفیاء میں ''وجد‘‘ کی شکل میں ملتا ہے۔
پوری دنیا میں درجنوں اقسام کے رقص ہیں۔ ہمارے ملک میں کلاسیکی اور لوک رقص کا ایک خاص مقام ہے ۔ حقیقت میں دیگر بہت سے فنون کی طرح '' اصل رقص‘‘ خاتمہ کے قریب ہے اور رقاص (جو رقص کر رہے ہیں وہ اصل میں) اس کی اس حالت پر نوحہ کناں ہیں۔
ہماری فلموں خاص کر پاکستان ا ور بھارت کی فلموں میں رقص(ڈانس) کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔دیگر ملکوں میں ڈانس یا گانے کے بغیر فلم بن سکتی ہے لیکن یہاں کامیاب ہونا مشکل ہے ۔بلکہ موسیقی ،رقص فلموں کی کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے ۔ اب جو پاکستانی فلموں میں رقص ہو رہا ہے وہ ہماری تہذیب اور ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ اسے رقص کہنا ہی نہیں چائیے ۔یہ کوئی بے ہنگم سی چیز ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔صرف بے حیائی کا فروغ ہے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔
پاکستانی معاشرے میں اگرچہ رقص کو اتنی پذیرائی نہیں مل سکی ۔(حالانکہ رقص کے نام پر مجروں میں جو بے ہودگی پائی جاتی ہے اس سے کون واقف نہیں ۔ رقص کو پاکستان میں مقبولیت نہ ملنے کے اسباب میں شائد سب سے بڑا سبب بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوںذلیل ہوتی عوام، دفتروں، سڑکوں، پٹرول پمپوںپر ''حالت رقص ‘‘ میں ہی ہیں۔ رہنما بدل بدل کر عوام،جلسے جلوس میں،کبھی انقلاب،کبھی جمہوریت،کبھی آمریت، کبھی خوشحال اور کبھی نیا پاکستان بنانے کیلئے ''محو رقص ‘‘ ہیں۔ حبیب جالب کے بقول!
تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
رقص کا عالمی دن29اپریل 1982ء کو انٹرنیشنل ڈانس کمیٹی آف دی انٹرنیشنل تھیٹر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے پہلی بار منایا گیا تھا۔ بعدازاںیونیسکو نے اس کی تائید کی ۔اب یہ دنیا بھر میں ہر سال29اپریل کو بھر پور طریقے سے منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد مختلف قوموں کے علاقائی ،ثقافتی سرمائے (رقص ) کو محفوظ کرنا ہے کیونکہ ہر ملک میں رقص کے طریقے الگ الگ ہیں۔
رقص مختلف قسم کی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھانے میں مدد بھی دیتا ہے ۔ارسطو نے اس کو فنونِ لطیفہ میں شمار کیا ہے ۔رقص کو اعضاء کی شاعری بھی کہا جاتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رقص تو پوری کائنات میں ہے ۔''ہم چلتے ہیں، دوڑتے ہیں ، مختلف کام کرتے ہیں تو اس میں ایک ردھم ہوتا ہے ، ہوائیں چلتی ہیں اور پیڑ پودے اس پر جھومتے ہیں تو یہ سب ایک طرح کا رقص ہی تو ہے‘‘۔ پاکستان میں ہر صوبے میں کئی کئی اقسام کے لوک رقص مقبول ہیں اور وہ بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔پنجاب کے لوک رقص میں، بھنگڑا، لڈی، سمی، گدا شامل ہیں ۔بھنگڑایہ پاکستان بھر میں عام رقص ہے جس کی ابتدا پنجاب کے خطے سے شروع ہوئی اور یہ اب ملک کے مقبول ترین لوک رقصوں میں سے ایک ہے۔
لڈی پاکستان بھر میں شادی بیاہ کی تقریبات میں کیا جانے والا رقص ہے۔یہ آج کا نہیں صدیوں پرانا لوک رقص ہے ۔سمی پوٹھوہاری خطے سے شروع ہونے والا یہ لوک رقص بنیادی طور پر پنجاب کی قبائلی برادریوں کا روایتی ڈانس ہے۔ گدایہ بھنگڑے کی طرح انتہائی پرجوش رقص ہے، رقص کرنے والا عام طور پر تالیوں کی آواز کے ساتھ تیز ہوتا چلا جاتا ہے۔
بلوچستان کے لوک رقص میںلیوا، چاپ، جھومرشامل ہے۔لیوا نامی رقص عام طور پر شادی بیاہ کے موقع پر لوگوں کی خوشی کے اظہار کے طور پر کیا جاتا ہے۔چاپ یہ بھی شادی بیاہ کے موقع پر کیا جانے والا لوک رقص ہے۔ اس میں ایک قدم آگے بڑھا کر پیچھے کیا جاتا ہے ۔ جھومرکو سرائیکی رقص بھی مانا جاتا ہے اور بلوچستان میں بھی بہت عام ہے ۔
خیبر پختونخوا کے لوک رقص میں اٹن ،خٹک ،چترالی ڈانس قابل ذکر ہیں۔اٹن یہ ایسا لوک رقص ہے جو افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں عام ہے ۔عام طور پر ایک ہی دھن پر یہ رقص 5 سے25 منٹ تک جاری رہتا ہے۔ خٹک ڈانس تلواروں کے ساتھ انتہائی تیز رفتاری سے کیا جانے والا یہ ڈانس مقبول ترین ہے ۔چترالی ڈانس یہ خیبرپختونخوا کے ساتھ گلگت بلتستان میں کیا جاتا ہے اور یہ کچھ لوگوں کے گروپ میں کیا جاتا ہے ، جس میں سے ہر ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس رقص کا مظاہرہ کرتا ہے ۔
سندھ کے لوک رقص، دھمال اور ہو جمالو ہیں۔ دھمال یہ عام طور پر صوفی بزرگوں کے مزارات یا درگاہ پر کیا جانے والا رقص ہے ۔جو انتہائی مستی کے عالم میں کیا جاتا ہے ۔ہو جمالویہ سندھ کا مشہور ترین لوک رقص ہے ، درحقیقت ہو جمالو ایک بہت پرانا گیت بھی ہے۔