مسیلمۂ کذاب
اسپیشل فیچر
تاریخ میں سب سے زیادہ جھوٹا اور بدنام ’’نبی‘‘ مسیلمہ تھا۔ کذاب جس کے نام کا جزو ِلاینفک بنا اور وہ ’’مسیلمہ کذاب‘‘ مشہور ہوا۔ یہ دروغ گو بنو حنیفہ کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ شخص نبیؐ کی نبوت کا مُنکر تھا بلکہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اسے حضورؐ کے ساتھ شریک نبوت‘‘ بنایا گیا ہے۔ اس نے حضورؐ کی وفات سے پہلے جو عریضہ آپؐ کو لکھا تھا، اس کے الفاظ یہ ہیں:۔’’مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کی طرف۔ آپ پر سلام ہو۔ آپ کو معلوم ہوکہ میں آپؐ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہوں۔‘‘قرونِ اولیٰ کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ بنو حنیفہ کے حق میں اس فتنہ کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب مسیلمہ کا یہ بہتان تھا کہ ’’محمد رسول عربی نے اسے اپنی رسالت میں شریک کرلیا ہے۔‘‘ بعض لوگوں نے حضور اکرمؐ کا نام سن کر مسیلمہ کی کذاب بیانی کو حقیقت سمجھ لیا اور دھوکے میں آگئے۔مسیلمہ کا سب سے زیادہ طرفدار ’’نہار‘‘ تھا جس کا شمار بنو حنیفہ کے شرفا میں ہوتا تھا۔ اس شخص نے حضور خاتم المرسلینؐ کے درسِ تبلیغ سے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی تھی۔ حضورؐ نے اسے فرمایا کہ ’’تم اپنے وطن یمامہ جاکر جھوٹی تبلیغ کرو۔‘‘ یہ بدبخت مدینہ طیبہ سے واپس آکر مسیلمہ سے مل گیا۔ اور علی الاعلان یہ شہادت دی کہ ’’میں نے خود حضورؐ سے سنا ہے کہ مسیلمہ میرا شریک ہے۔‘‘ نہار اصل میں مسیلمہ کا دلال تھا اور اس کی جھوٹی نبوت کا حصہ دار بھی… مگر بنو حنیفہ کے لوگ حقیقت سے ناواقف تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ مسیلمہ کے بہکاوے میں آگئے۔ اس وقت حضور سرکار الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے۔ اس لیے حضرت صدیق اکبرؓ نے مسیلمہ کی سرکوبی کا حکم فرمایا۔مسیلمہ کذاب نے اپنی جھوٹی نبوت کا کاروبار برقرار رکھنے کے لیے مقابلے کی خوب تیاری کی اور عکرمہؓ بن ابی جہل کی قیادت میں آنے والے لشکر کا بڑی مکاری اور عیاری سے مقابلہ کیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے دوسری بار شرجیل بن حسنہ کی امارت میں کچھ اور فوج بھیجی تاکہ عکرمہؓ بن ابی جہل کو کمک مل سکے، مگر مسلمانوں کے مقدر میں ابھی کامیابی نہ تھی۔ مسیلمہ کذاب کے لشکر میں چالیس ہزار جنگ آزمودہ سپاہی تھے۔ ان کے سامنے صحابہ کرامؓ کے چھوٹے موٹے لشکر کا بے سروسمانی کے عالم میں مقابلہ کرنا خاصا مشکل تھا۔حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اس صورت حال کا علم ہوا، تو آپ نے ایک بڑا لشکر خالدؓ بن ولید کی کمان میں مسیلمہ کذاب کے فتنے کو ختم کرنے کیلئے روانہ کیا اس فوج میں حضرت صدیق اکبرؓ کے لختِ جگر عبدالرحمن ؓ بن ابی بکرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ کے فرزند عبداللہؓ بن عمرؓ کے برادر زیدؓ بن الخطاب بھی شامل تھے۔مسلیمہ کذاب کو خالد بن ولیدؓ کی آمد کی اطلاع ملی۔ تو اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ عقرباً کے محاذ پر آگے پہنچ کر اسلامی جرنیلوں کے اس لشکر جرار کو روک لیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ عقربا کے میدان میں نبوت صادقہ اور نبوت کافریہ کے پیروکاروں کا مقابلہ ہوا۔ مرتدین سے اب تک جس قدر معرکے پیش آئے تھے، ان میں مسیلمہ کذاب کا یہ معرکہ سب میں سخت اور قوت اور شوکت میں سب سے بڑھ کر تھا۔ جھوٹے نبی کی چالیس ہزار فوج کے مقابلے پر منہاج صداقت پر فائز خاتم الانبیاء کے شیدائیوں کی تعداد صرف دس ہزار تھی۔ میدان جنگ میں مسیلمہ کی طرف سے نہار پہلا شخص تھا جو تلوار لہراتا ہوا نکلا حضرت زید ؓبن الخطاب ؓنے ایک ہی وار سے اس کا سر قلم کردیا۔ پھر مسیلمہ کی نبوت کا دوسرا حصہ دار سردار محکم بن طفیل، حضرت عبدالرحمنؓ بن ابی بکرؓ کے مقابلے پر آیا اور ان کے ایک ہی تیر قضا سے تڑپ کر رہ گیا۔ مرتدین یہ منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ اور شمعِ رسالت کے پردانوں کے سامنے ٹھہر نہ سکے، اور الٹے پائوں بھاگ کھڑے ہوئے۔ خالدؓ بن ولید کی فوج انہیں مارتے ہوئے حدیقہ تک لے گئی۔ یہ مقام چار دیواری سے محصور تھا، جسے یہ مرتد ’’حدیقۃ الرحمن‘‘ کہتے تھے۔ مسیلمہ نے اپنی جھوٹ نبوت کا خیمہ اسی باغ میں لگارکھا تھا۔ اس نے جب فوج کو اس طرف بھاگتے ہوئے دیکھا تو اپنی بنائی ہوئی جنت کا دروازہ کھول دیا۔ اور جب اس کی بچی کھچی فوج اس میں داخل ہوگئی تو مسیلمہ نے اس کا دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ بپھرے ہوئے فرزندانِ توحید یہاں پہنچ کر رُک گئے۔ ان کی تلواریں مرتدین کے خون میں نہانے کو بے قرار تھیں۔ حضرت براءؓبن مالک صحابہؓ سے مخاطب ہوئے:۔’’ساتھیوں، مجھے اٹھا کر صدیقہ میں پھینک دو‘‘مسلمانوں نے کہا ’’ہم ایسا ہرگز نہ کریں گے‘‘براءؓ بن مالک کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ انہوں نے پھر دہائی دی ’’ میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ مجھ کو اندر پھینک دو، وگرنہ میری موت واقع ہوجائے گی۔‘‘یہ کیفیت دیکھ کر انہیں اٹھا کر دیوار تک پہنچا دیا گیا۔ براءؓ بن مالک اندر کودے تھوڑی دیر تک تنہا دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے اور پھر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی خالدؓ بن ولید کا لشکر اندر آگیا اور اس نے ’’جھوٹے نبی‘‘ کی فوج کو مار مار کر لہولہان کردیا۔ مسیلمہ کی مدد کو کوئی خدائی فوج آئی اور نہ ہی وحی۔ وہ خود بھی اس لڑائی میں مارا گیا اور اس کے شہر کے لوگوں نے باری باری اس کی لاش پر تھوکا۔ مسیلمہ کذاب کو واصل جہنم کرنے کی سعادت حضرت وحشیؓ کو نصیب ہوئی۔ جن کے نیزے کا نشانہ خطا نہ گیا۔ مسیلمہ تڑپ کر گرا۔ عبداللہؓ بن زید نے اس موقع پر آگے بڑھ کر تلوار سے اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ عبداللہ ؓ بن زید کا اس بارے میں ایک شعر ہےیسائلنی الناس عن قتلہ فقلت ضربت و ہذاطعن’’لوگ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ مسیلمہ کو کس نے مارا تو میں جواب میں کہتا ہوں کہ میں نے تلوار ماری اور وحشی نے نیزہ مارا۔‘‘کہا جاتا ہے کہ یہ وحشیؓ وہی تھے، جنہوں نے جنگ اُحد میں حضرت حمزہؓ کو اپنے نیزے سے شہید کیا تھا۔ آپ کہا کرتے تھے:’’اگر میں نے زمانہ جاہلیت میں اس نیزے سے ایک بہترین انسان (حضرت حمزہؓ) کو مارا ہے، تو زمانہ اسلام میں اسی نیزے سے ایک بدترین انسان اور مدعی نبوت (مسیلمہ کذاب) کو قتل کیا ہے۔‘‘مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ میں چھ سو ساٹھ مسلمان شہید ہوئے۔ اور ابن خلدون کے اندازے کے مطابق مسیلمہ کذاب کے سترہ ہزار آدمی مارے گئے۔ بقول طبری ’’بنو حنیفہ‘‘ کے سات ہزار افراد عقربا میں اور سات ہزار حدیقہ میں مارے گئے۔ اور حدیقۃ الرحمن، ’’حدیقۃ الموت‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔مسیلمہ اور اس کے پیروئوں پر جب چڑھائی کی گئی تو حضرت ابوبکرؓ نے اعلان فرمایا کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جائے گا۔ اور جب وہ لوگ اسیر ہوئے تو فی الواقع ان کو غلام بنایا گیا۔ چنانچہ انہی میں سے ایک لونڈی حضرت علیؓ کے حصے میں آئی جس کے بطن سے تاریخ اسلام کی مشہور شخصیت محمد بن حنیفہ نے جنم لیا۔ (البدایہ والنہایہ) اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہؓ نے جس جرم کی بناء پر ان سے جنگ کی تھی وہ ’’بغاوت کا جرم‘‘ نہ تھا بلکہ جرم یہ تھا کہ ایک شخص نے محمدﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اور دوسرے لوگ اس کی نبوت پر ایمان لائے۔(’’ایم۔ایس۔ناز کے مقالہ خصوصی سے انتخاب)