اسلام میںتعلیم کی اہمیت اور معلم کا مقام
اسپیشل فیچر
علم کے معنٰی آگاہ ہونے یاجاننے کے ہیں۔ تعلیم کے معنٰی علم سیکھنے کے ہیں اور تعلیم کے معنٰی علم سکھانے کے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ہم نے انسان کو علم سکھایا اور اسے اُن چیزوں کی تعلیم دی،جنہیں وہ جانتا نہ تھا۔‘‘ (سورۃ العلق)حدیث شریف میںہے :’’ تم میں بہترین وہ ہے جس نے قرآن کا علم سیکھا اور پھر اسے دوسروں تک پہنچایا۔ ‘‘اسلام میں تعلیم کا مفہوم یہ ہے کہ اس سے خُدا شناسی اور خوفِ خدا پیدا ہو۔ کائنات کے نظام پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کو ایک مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے۔ اسلام میں قرآن مجید تمام علوم کا سرچشمہ ہے۔ تعلیم روحانی بالیدگی اور اخلاقی نشوونما پیدا کرتی ہے۔ یہ جہالت کے اندھیرے دُور کرتی ہے۔ اسلام میں تعلیم مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے۔ آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں ارشاد رَبِّ جلیل ہے: ’’پڑھیے اﷲ کے نام سے، جس نے پیدا کیا۔‘‘ (سورۃ العلق)گویا اسلام کا آغاز ہی تعلیم سے ہوا۔ اسی آیت میں آگے چل کر فرمایا گیا:’’وہی اﷲ ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہ تھا۔‘‘ سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’اﷲ نے آدم ؑ کو ساری چیزوں کا علم سکھایا۔‘‘ اﷲ تعالیٰ نے انبیاء ؑ کو علم و حکمت سے نوازا۔ دراصل علم انسان میں وسعتِ نظر اور بالغ نظری پیدا کرتا ہے۔ علم ہی سے انسان میں یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ اچھے اور بُرے میں تمیز کرسکے۔ یعنی کون سا عمل اچھا ہے اور کون سا بُرا۔ حق کیا ہے، باطل کیا ہے؟ اس کا فرق علم یا تعلیم سے حاصل ہوتا ہے۔ غرض علم یا تعلیم ہی دُنیا میں روشنی پھیلاتی ہے۔حدیث شریف میںہے: ’’بے شک مجھے معلّم بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘(مشکوٰۃ)ایک حدیث شریف میں ہے :’’ عالِم کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ قابلِ ستائش ہے، اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا بہت بڑی بات ہے۔ جو شخص طلبِ علم کے دوران فوت ہوا، وہ شہید ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ) ایک حدیث شریف میں ہے: ’’علم کے لیے کوشاں رہیں تو زندگی عبادت بن جاتی ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ) علم حاصل کرنے کے علاوہ حدیث میں یہ بھی ہے:’’ اپنے علم یعنی تعلیم سے دوسروں کو فائدہ پہنچائو۔ یعنی علم پھیلائو، تعلیم دو اور آسانی پیدا کرو اور مشکل پیدا نہ کرو۔‘‘(مشکوٰۃ) بخیل صرف وہ نہیںجو روپے پیسے میں کنجوسی کرتا ہے۔ بخیل وہ ہے، جس کے پاس علم ہو اور وہ اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ نہ پہنچائے۔ علمِ نافع بہت بڑی چیز ہے۔ اس لیے تعلیم عام کرنا چاہیے، تاکہ اس کا نفع دُور دُور تک پہنچے۔ تعلیم کا مقصد انسان کو اخلاقِ حَسنہ سے آراستہ کرنا اور صحیح راستہ دکھانا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں حصولِ علم کی تاکید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم سے انسان میں علم و بصیرت اور عملی زندگی کی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ قرآن مجید علم اور تعلیم کی فضیلت کو اہمیت دیتا ہے، کیوں کہ علم انسان کو متوازن زندگی گزارنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ علم و عمل کی راہ تعلیم سے روشن ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک میں تعلیمی شرح، قومی تعمیر و ترقی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ تعلیم سے تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں۔حدیث شریف میں ہے :’’ علم کے وارث علماء ہیں۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے :’’ میری اُمّت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء ؑ کی طرح ہیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ علماء کا مرتبہ پیغمبروں ؑکے بعد ہے۔ تعلیم نوعِ انسانی کی تعمیر میں ممدو ومعاون ثابت ہوتی ہے۔ تعلیم کا انحصار معلّم (اُستاد) کے حُسنِ سیرت، دانائی اور ذکاوت پر ہوتا ہے۔ معاشرے کی ترقی، تعلیم پر منحصر ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ قوم کی زندگی کے تحفظ و تکمیل میں سرگرم رہے۔ تعلیم سے معاشرے میں اخلاقیات کو بڑھاوا ملتا ہے۔ تجربہ و مشاہدہ تعلیم کی اَساس ہے۔ تعلیم سے تاریخی، معاشرتی، تہذیبی،دِینی، سیاسی اور اقتصادی راہیں اُستوار ہوتی ہیں۔ جو چیز انسان کو مہذب، شائستہ بناتی ہے، وہ تعلیم ہے۔ تعلیم کا مقصد مختلف ممالک میں مختلف رہا ہے۔ اس کا کوئی عہد نہیں۔ انسان کی پوری زندگی علم حاصل کرنے، سیکھنے اورسکھانے میں گُزر جاتی ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام اور اَخلاقی اقدار میں معلّم کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ اس کا مقام و مرتبہ معاشرے میں بہت بلند ہے۔لائبریریاں اور کتب خانے اشاعتِ علم میں زبردست معاون و مددگار ہوتے ہیں۔ استاد کی زندگی طلباء کے لیے نمونہ ٔ عمل ہوتی ہے۔ اس کے لیے طلباء کو اپنا دل و دماغ پاک و صاف رکھنا اور بُرے اخلاق سے اپنا دامن بچانا ہوتا ہے۔ تعلیم میں اور اخلاقی تربیت میں سماجی اداروں کا بھی کردار ہوتا ہے۔ نصابِ تعلیم کا اصل مقصد، معلومات کی فراہمی اور طلباء میں زندگی کے ہرشعبے میں سوچنے اور غور کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اساتذہ کا کردار، سماجی کردار کی اساس ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد طلباء میںنظم وضبط پیدا کرنا ہے تاکہ طلباء میں بے راہ روی کا تدارک ہو۔ ایک اُبھرتے ہوئے معاشرے میں تعلیم و تعلّم کی بنیادی اہمیت ہے۔ اس ضمن میں نظریۂ تعلیم، تعلیمی مقاصد اور تعلیمی اداروں کی تشکیل و تنظیم بھی بہت اہمیت وافادیت رکھتی ہے۔ معلّم (اُستاد) کو اُس بات کا ماہر ہونا چاہیے کہ طلباء اس سے سیکھیں، اُس کا اظہار اس کے کردار، شخصیت اور اَخلاق وعادات سے ہونا چاہیے۔ تعلیم سے طلباء میں خیالات، رجحانات، عادات، معلومات اور علم و ہنر کے تقاضے پُورے ہوتے ہیں۔ اسی سے انسان کے ذہنی قویٰ کی نشوونما ہوتی ہے۔ تعلیم ایک ایسا مثالی معاشرتی عمل ہے، جس کے ذریعے معاشرہ اپنی بقا قائم رکھنے کے لائق ہوتا ہے۔