شمشاد بیگم , فن گائیکی کا درخشاں ستارہ ٹوٹ گیا
اسپیشل فیچر
لاہور کے لوہاری گیٹ کے ایک مکان میں پیدا ہونے والی معروف پلے بیک سنگر شمشاد بیگم بدھ24؍ اپریل 2013 کو ممبئی میں 94 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ وہ فلموں کی پہلی گلوکارہ تھیں جن کے گیتوں نے عوامی مقبولیت حاصل کی۔ ان کی پڑھی ہوئی نعتیں اور قوالیاں آج تک مقبول ہیں۔شمشاد بیگم 14؍اپریل 1919 کو پیدا ہوئیں۔ بچپن لاہور ہی میں گزرا۔ انہیں بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا۔ جب وہ صرف 15 برس کی تھیں تو پشاور کے ایک وکیل گنپت لعل مٹو سے شادی کرلی جن سے ان کی ایک بیٹی اوشا ہے۔ شمشاد بیگم وفات کے وقت اپنی بیٹی اور داماد کے پاس ہی مقیم تھیں۔ انہوںنے اپنے فنی کیریئر کا آغاز ریڈیو اسٹیشن لاہور سے کیا جس کی نشریات اس وقت وائی ایم سی ہال سے ہوتی تھیں۔ انہوں نے پشاور ریڈیو سے بھی نعتیں، گیت اور غزلیں گائیں۔ پھر پرائیویٹ ریکارڈنگ کمپنی جینوفون میں ملازم ہوگئیں جہاں معروف موسیقار ماسٹر غلام حیدر اور معروف نغمہ نگار ولی صاحب بھی ملازم تھے۔ انہوںنے اس کمپنی میں ولی صاحب کی لکھی ہوئی نعت ریکارڈ کرائی جس کے بول تھے۔ ’’پیغام صبا لائی ہے سرکار نبیؐ سے، آیا ہے بُلاوا مجھے دربار نبیؐ سے‘‘ یہ نعت بے حد مقبول ہوئی۔ اس کمپنی میں سجاد سرور نیازی نے جو معروف گلوکارہ ناہید نیازی کے والد تھے۔ ایک گیت لکھا جس کے بول تھے ’’اک بار تم کہو ذرا کہ میری ساری کائنات، تیری اک نگاہ پر نثار ہے‘‘۔ شمشاد بیگم کی آواز میں اس گیت نے ان کے لیے پلے بیک سنگر کے راستے کھول دیئے۔ 1940ء میں لاہور میں فلم ساز دل سکھ ایم پنچولی اور ہدایت کار موتی بی گڈوانی کی فلم ’’یملا جٹ‘‘ میں موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے ان کی آواز میں پہلا گیت ریکارڈ کیا جس کے بول تھے ’’کنکاں دیاں مضلاں پکیاں نے، بدلاں وچ خوشیاں وسیاں نے‘‘۔1941 میں ہدایت کار موتی بی گڈوانی کی فلم ’’خزانچی‘‘ میں بھی موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے ان کی آواز میں ایک گانا ریکارڈ کیا۔ جو بے حد مقبول ہُوا۔ اس کے بول تھے۔ ’’لُٹ گئی پاپن اندھیاری، شیتل چندریکا آئی ہے‘‘۔ ایک ڈوئٹ شمشاد بیگم اور ماسٹر غلام حیدر نے خود ہی گایا جس کے بول تھے ’’نینوں کے بان کی ریت انوکھی، بان چلیں اور نین نہ دیکھیں‘‘۔ اس فلم میں ماسٹر غلام حیدر نے پہلی بار ہلکی پھلکی فوک موسیقی کو متعارف کرایا۔ اس فلم کے گانوں کے ایک لاکھ ریکارڈ فروخت ہوئے۔دل سکھ پنچولی کی فلم ’’زمین دار‘‘ کے ہدایت کار موتی بی گڈوانی تھے۔ یہ فلم موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی پنچولی کے ساتھ آخری فلم تھی۔ شمشاد بیگم کی آواز میں ناظم پانی پتی کا لکھا ہوا گانا’’چبھ گئی مورے من میں بلماں نینوا کی سوئی‘‘ بے حد مشہور ہوا۔ ماسٹر غلام حیدر جو اس وقت ایک ہزار روپے ماہ وار پر کام کرتے تھے۔ پنچولی سے اختلافات کے بعد ہدایت کار اعظم محبوب خان کے بلاوے پر فلم ’’ہمایوں‘‘ کی موسیقی ترتیب دینے کے لیے ایک لاکھ روپے معاوضے پر لاہور سے ممبئی چلے گئے۔ دوسری طرف موسیقار رفیق غزنوی نے محبوب خان کی فلم ’’تقدیر‘‘ کے گانے ریکارڈ کرنے کے لیے شمشاد بیگم کو بھی لاہور سے ممبئی بلالیا۔فلم ’’تقدیر‘‘۔ 1943ء میں ریلیز ہوئی جس میں شمشاد بیگم کی آواز میں گانا ’’بابو دروغہ جی‘‘ بے حد مشہور ہوا۔ 1943ء سے 1946ء تک شمشاد بیگم ممبئی سے لاہور پنجابی فلموں کے گانے ریکارڈکروانے آتی رہیں۔ لیکن اس کے بعد وہ ممبئی میںہی رہیں۔ ماسٹر غلام حیدر نے لاہور کی طرح ممبئی میں بھی ان سے گانے گوائے۔ فلم ’’ہمایوں‘‘ کا گیت ’’میں تو اوڑھوں گلابی چنریا آج رے‘‘ مقبول گیت تھا۔ شمشاد بیگم، ملکۂ ترنم نور جہاں اور لتا سے سینئر گلوکارہ تھیں۔ ان کا شمار اپنے زمانے کی مقبول گلوکارہ میں ہوتا تھا۔ موسیقار نوشاد نے بھی ان سے اپنی کئی فلموں شاہ جہاں، انمول گھڑی، درد وغیرہ میں مسحور کن گیت گوائے۔ فلم ساز و ہدایت کار اے آر کاردار کی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں موسیقار نوشاد نے شمشاد بیگم سے کئی گیت گوائے جن میں ایک گانا’’ جب اس نے گیسو بکھرائے بادل آیا جھوم‘‘ نے دھوم مچادی۔ یہ ممبئی میں ان کا گایا ہُوا پہلا مشہور گانا تھا۔فلم ’’چاندنی رات‘‘ میں نوشاد کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولا اور تمام ہی گانے مشہور ہوئے اس فلم کے گانے ’’کیسے بجے دل کا ستار ٹھیس لگی ٹوٹ گئے تار‘‘ میں نوشاد نے پیانوں کے ساتھ دھن بنائی جس نے اس گیت کو بڑا خوب صورت بنادیا۔ اس فلم کا ایک اور گیت ’’چھایا میری امید کی دنیا میں اندھیرا‘‘ بھی مشہور گیت ہے۔ ہدایت کار ایس یوسنی کی فلم ’’بابل‘‘ کا گیت ’’چھوڑ بابل کا گھر موہے پی کے نگر آج جانا پڑا‘‘ ان کی آواز میں امر ہوگیا۔ موسیقار نوشاد نے شمشاد بیگم سے جہاں گیت گوائے وہیں کئی کورس گیت اور قوالیاں بھی گوائیں۔ فلم درد، بابل، میلا، آن، بیجوباورا،مدر انڈیا، مغلِ اعظم وغیرہ میں ان کو کورس میں ہولی کے گیت، رخصتی کے گیت اور قوالیاں شامل ہیں۔ 1949ء میں موسیقار سی رام چندر کی فلم ’’پتنگا‘‘ میں جہاں مزاحیہ اداکار گوپ اور یعقوب کی اداکاری پسند کی گئی، وہیں اس کی موسیقی بھی دل نواز تھی۔ خاص کر گانا ’’میرے پیاگئے رنگون کیا ہے وہاں سے ٹیلی فون تمہاری یاد ستائے‘‘ آج بھی بے حد مشہور ہے اس گانے میں شمشاد بیگم کے ساتھ خود موسیقار سی رام چندر کی آواز شامل تھی اور انہوںنے چتلکر کے نام سے یہ گانا گایا تھا۔ اور یہ گانا اداکارہ نگار سلطانہ اور گوپ پر فلم بند ہوا۔ موسیقار اوپی نیّر نے فلم ’’آر پار‘‘ کا گانا ’’کبھی آر کبھی پار لاگا تیرِ نظر‘‘ فلم ’’سی آئی ڈی‘‘ کا گانا ’’لے کے پہلا پہلا پیار بھر کے آنکھوں میں خمار، جادو نگری سے آیا ہے کوئی جادو گر‘‘ اور فلم ’’نیا دور میں شمشاد بیگم اور آشا کا گایا ہوا گانا ’’ریشمی شلوار کرتا جالی کا‘‘ بھی اپنے دور میں بے حد مشہور ہوئے۔ موسیقار ایس ڈی برمن کا فلم ’’بہار‘‘ میں شمشاد بیگم کی آواز میں ایک گانا ’’سیاں دل میں آنا رے آکے پھر نہ جانا رے چھم چھما چھم چھم‘‘ آج بھی مشہور ہے۔نوشاد نے فلم ’’ مغلِ اعظم‘‘ میں ان کے ہمراہ لتا کی آواز میں میں ایک قوالی گوائی جو ان کا آخری شاہ کار ہے، اس کے بول تھے۔ ’’تیری محفل میں قسمت آزماکے ہم بھی دیکھیں گے، گھڑی بھر کو تیرے نزدیک آکر ہم بھی دیکھیں گے‘‘۔ فلم ’’بیجو باورا‘‘ کا گانا ،’’دُور کوئی گائے، دھن یہ سنائے ، تیرے بن چھلیارے باجے نہ مُریا‘‘ بھی ان کا بے حد مقبول گیت ہے۔شمشاد بیگم کی آواز پچاس کی دہائی کی مقبول ترین آواز تھی اس وقت کے تمام ہی موسیقاروں نے شمشاد بیگم کی آواز میں بڑے ہٹ گانے دیے۔ جن میں ماسٹر غلام حیدر، نوشاد، غلام محمد، سی رام چندر، اوپی نیّر، ایس ڈی برمن، ناشاد، شیام سندر، ہنس راج بہل، شنکر جے کشن جیسے معروف موسیقار شامل ہیں۔ شمشاد بیگم کی آواز میں ایک ایس کھنک تھی جو کسی دوسری گلوکارہ کی آواز میں نہیں ملتی۔ اس لیے ان کے گیت نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اپنے اندر بڑی جاذبیت رکھتے ہیں۔ اب بالی وڈ میں ان کے کئی مقبول گیتوں کے ری مِکس بھی بنائے جارہے ہیں جو ان کی فنّی عظمت کی دلیل ہیں۔ 1965ء کے بعد جب بھارتی فلموں میں کلاسیکی موسیقی کے بجائے مغربی موسیقی آنے لگی تو ان کی آواز پسِ پردہ چلی گئی، اور پھر انہوںنے آہستہ آہستہ فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ ان کو 2009ء میں بھارت کے پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی آواز ہر دور میں اپنی تازگی کا احساس دلاتی رہے گی۔