محمد افراھیم
زمیں کی گود رنگ سے اُمنگ سے بھری رہےخُدا کرے، خُداکرے سدا ہری بھری رہےیہ وہ ملّی نغمہ ہے، جب کراچی ٹیلی ویژن سے نشر ہوتا تھا تو لوگ اِسے شوق سے سنتے تھے۔ بہت سے مقبول ملّی نغموں میں اس نغمہ کا الگ ہی حُسن ہے۔ اس کو گانے والے محمد افراہیم، کراچی کا حوالہ بن چکے ہیں۔ کراچی میں کوئی ادبی تقریب ہویا فلمی تقریب محمد افراہیم کی موجودگی کے بغیر نامکمل رہتی ہے۔ محمد افراہیم کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ ان تقریبات کی جان ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ ان تقریبات میں گزشتہ 47 برس سے شرکت کررہے ہیں۔ ریڈیو، فلم، ٹیلی ویژن اور اسٹیج غرض چاروں ہی شعبوں سے ان کی وابستگی رہی ہے۔ انہوںنے متعدد یاد گار گیت، غزلیں، قومی نغمے اور فلمی گانے گائے ہیں۔ بھارت کے معروف گلوکار محمد رفیع (مرحوم) کی آواز کی جھلک رکھنے والی ان کی آواز نے سُننے والوں کو ہمیشہ محفوظ کیا۔ یہی نہیں بل کہ وہ رفیع (مرحوم) کے باقاعدہ شاگرد بھی رہے ہیں۔ محمد افراہیم سے ایک ملاقات میں ان سے بات چیت کی گئی جو ’’دنیا‘‘ کے قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ اپنی پیدائش اور بچپن کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔ وہ 14 اگست 1947ء کو بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ خاندان کے لوگ کاروباری تھے۔ میرے والد کا بھی کاروبار تھا جس کی وجہ سے بچپن سے ہی آسودگی دیکھی۔ ہم نو بھائی اور تین بہنیں ہیں لیکن پاکستان صرف میں ہی آیا۔ اپنے نام کے بارے میں افراہیم نے کہا۔ میری والدہ ’’داستانِ یوسفؑ‘‘ پڑھتی تھیں۔ افراہیم، حضرت یوسفؑ کے بڑے صاحب زادے کا نام ہے۔ جب میں پیدا ہُوا تو میرا نام ’’محمد افراہیم‘‘ رکھا گیا۔ اس کا مطلب ہے۔ فراہم کرنے والا، ملانے والا اور اﷲ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے کہ میرے نام سے میری ذات جُڑی ہوئی ہے اگر میں کسی مسئلے میں پڑتا ہوں تو دونوں فریق مان جاتے ہیں۔کب محسوس ہُوا کہ آپ کی آواز میں محمد رفیع کی جھلک ملتی ہے اور آپ گابھی سکتے ہیں؟ افراہیم نے کہا، اُس دور میں ریڈیو ہی گھر میں تفریح ہوتا تھا، جو مجھے سننے کا بڑا شوق تھا، خاص کر فلمی گانے اور غزلیں سننے سے میرا دل بھی گنگنانے کو چاہتا تھا۔ بہت سے مقبول گلوکاروں کی آوازمیں گانے اچھے لگتے تھے لیکن محمد رفیع کا گانا ریڈیو پر ہمیشہ مُحو ہو کر سنتا تھا اور ان کے ہی گانے گنگنانے لگتا تھا۔ ہم نے جب افراہیم سے پوچھا کہ آپ کا گھرانہ بڑا مذہبی تھا۔ تو پھر گانے بجانے کی طرف کیسے آگئے؟ ان کا جواب تھا، میرے والد مزاجاً سخت ضرور تھے لیکن انہیں شعرو شاعری میں تصوف سے رغبت حاصل تھی۔ جب پہلی بار محلّے کے پروگرام میں، میں نے کئی غزلیں سنائیں، مجھے نہیں معلوم تھا کہ والد بھی اس میں شریک ہیں۔مجمع نے میری گائیکی پر کُھل کر داد دی تو والد صاحب کا رویہ میرے لیے نرم ہوگیا۔ محمد رفیع کی شاگردی اختیار کرنے کے جواب میں ان کا کہنا تھا، دہلی میں میرے محلّے کا ایک شخص اقبال تھا جو محمد رفیع کے گانوں میں ڈھولک بجاتا تھا۔ رفیع صاحب دہلی آئے تو اقبال کے کہنے پر انہوںنے میرا گانا سُنا اور پسند کیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد اقبال ہی نے رفیع صاحب سے مجھے شاگردی اختیار کرنے کا کہا اس سلسلے میں پہلے تو رفیع صاحب نے مجھے نظر انداز کیا لیکن میرا شوق دیکھتے ہوئے آخر کار مجھے شاگرد بنالیا۔ میں چوں کہ پہلے سے طے کرکے گیا تھا کہ ان کا شاگرد ضروربنوں گا اس لیے ان کے لیے مٹھائی، سوٹ کا کپڑا، گُڑ اور چنے لے کر گیا تھا۔ رفیع صاحب، میرے والد سے ملے اور میری تعریف کی۔پاکستان آنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔ 1965ء کا ذکر ہے، جب دہلی میں موسیقار ناشاد سے ملاقات ہوگئی، وہ پاکستان آچکے تھے اور یہاں فلم ’’میخانہ‘‘ کی موسیقی دے چکے تھے۔ انہوںنے مجھے کہا کہ بھارت میں محمد رفیع موجود ہے، اب اگر تم پاکستان آجائو تو وہاں کے محمد رفیع بن سکتے ہو، تمہاری آواز اس عمر میں محمد رفیع کی آواز جیسی ہے، حالاں کہ میں صرف 18 برس کا تھا لیکن محمد رفیع کے گانے گاگا کر میری آواز وقت سے پہلے مردانہ ہوگئی تھی۔ یہاں میں لاہور آیا۔ناشاد صاحب سے مِلا انہوں نے مجھے کہا، میرے پاس اس وقت کوئی فلم نہیں ہے جیسے ہی دوسری فلم ملتی ہے میں تمہیں چانس دوں گا۔ وہاں میری دوستی مجیب عالم سے ہوگئی جو ناشاد کی فلم ’’میخانہ‘‘ کے گانے سے شہرت حاصل کرچکے تھے۔ اس طرح سلطان راہی اور پھر موسیقار کمال احمد کو بھی میری آواز پسند آئی۔ اتفاق سے کراچی کے معروف موسیقار بلند اقبال جو اپنے ساتھی لال محمد کے ساتھ موسیقی دیتے تھے، انہوںنے مجھے کہا میری فلم ’’جاگ اُٹھا انسان‘‘ کا ایک گانا ریکارڈ ہونا ہے اگر تم کراچی آجائو تو میں اسے تمہاری آواز میں ریکارڈ کرلوں گا۔ بس پھر کیا تھا۔ میں ان کے کراچی پہنچنے سے پہلے یہاں آگیا۔ فلم کے لیے میرا پہلا گانا ڈوئٹ تھا جس کے بول تھے، ’’گوری ذرا پھر سے بجا پائلیا، پیپل کی چھائوں میں‘‘ اس ڈوئٹ میں دوسری آواز نسیمہ شاہین کی تھی۔ اس فلم کے تمام گانے مشہور ہوئے۔ میرے اس گانے میں ڈانڈیا بھی کسی فلم میں پہلی بار شامل ہُوا۔ اس کی مقبولیت اتنی زیادہ ہوئی، میں جب لاہور گیا تو ناشاد صاحب کے پاس مٹھائی لے کر چلا گیا۔ میں سیدھ سادھا آدمی ہوں مجھے اس وقت بھی اتنی عقل نہیں تھی، ناشاد صاحب نے بظاہر تو مجھے مبارک باد دی لیکن مجھے احساس ہُوا کہ میرے گانے سے وہ خوش نہیں ہوئے۔ وہ پہلی بار میری آواز میں گانا ریکارڈ کرکے اس کا کریڈٹ خود لینا چاہتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں اگر میرا پہلا گانا ہٹ نہ ہوتا تو مجھے بہت سے گانے مل جاتے۔ ناشاد صاحب مجھ پر مہربان نہیں رہے۔ انہوں نے میرے بجائے دوسرے گلوکاروں کو گانے کا موقع دیا جن میں کئی گلوکار ایک آدھ گانا ہی گاسکے۔ کئی موقعوں پر ناشاد صاحب نے مجھے نقصان پہنچایا، لیکن میں نے ان سے کبھی کچھ نہیں کہا۔ ایک دُکھ مجھے ضرور ہوا۔ فلم ساز اقبال بٹ جن سے میری دوستی ہوگئی تھی وہ مجھے اپنی فلم ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ میں ہیرو لینا چاہتے تھے، لیکن میں نے ان سے کہا کہ میرے والد نے مجھے بڑی مشکل سے گانے کی اجازت دی ہے۔ اداکاری تو وہ کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ خیر اس فلم میں میرا رونا لیلیٰ کے ساتھ ایک گانا ریکارڈ ہوا۔ اس کے بول تھے ’’معصوم سا چہرہ ہے ہم جس کے ہیں دیوانے، نظروں سے ملیں نظریں، کیا ہوگا خدا جانے‘‘ یہ گانا ناشاد، احمد رشدی سے گوانا چاہتے تھے لیکن فلم ساز کے مجبور کرنے پر انہوں نے مجھ سے گوایا۔ یہ گانا رفیع صاحب کے گانے کی طرح تھا، لیکن پھر ناشاد نے میرا یہ گانا فلم میں شامل نہیں کیا اور دوبارہ رونا لیلیٰ اور احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کرلیا۔ رشدی کو معلوم نہیں تھا میری ان سے سلام دعا کے علاوہ بے تکلفی بھی تھی لیکن جب یہ بات ہوئی تو میں ان سے کٹ گیا۔ رُشدی صاحب کو احساس ہوا ایک دن میرے دوست شاہد دہلوی نے رُشدی کو بتادیا تو وہ شرمندہ ہوئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ بیٹا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ گانا تم نے گایا ہے تو میں دوبارہ ریکارڈ نہ کراتا۔ میری ان سے ناراضی ختم ہوگئی۔ پھر زندگی یوں ہی چلتی رہی۔ میں نے ایک درجن سے زائد فلموں کے لیے گانے گائے۔ ان فلموں میں ہمدم، پاپی، گھروندا، آشیاں جل گیا، جال، جلے نہ کیوں پروانہ، ایک رات، وفا، نشیمن، شیریں فرہاد وغیرہ شامل ہیں۔ افراہیم نے بتایا کہ ستّر کی دہائی میں کراچی میں ہر شام تقریبات ہوتیں تھیں اس لیے میں نے سوچا کہ اگر میں لائیو پرفارمنس دوں تو زیادہ سراہا جائوں گا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ مجھے جب ریڈیو، ٹی وی اور فلم والے بُلاتے تھے تو میں چلا جاتا تھا۔ میں نے خود کبھی ان سے گانے کا نہیں کہا۔ یہ میری عادت نہیں تھی۔ لائیو پروگرام میں داد فوری مل جاتی ہے اس لیے محسوس کرتا ہوں کہ مجھے کراچی اور لاہور دونوں شہروں سے بڑا پیار ملا، اپنے قومی نغموں کے بارے میں افراہیم کا کہنا تھا۔ میں نے بہت زیادہ قومی نغمے گائے ہیں۔ ٹی وی پر پہلا قومی نغمہ، جہاں پیار چراغ جلاتا ہے، جہاں دریا دریا گاتا ہے‘‘ تھا۔ لیکن ’’زمیں کی گود رنگ سے، امنگ سے بھری رہے‘‘ آج بھی سننے والوں میں میری پہچان ہے۔