محمد افراھیم

محمد افراھیم

اسپیشل فیچر

تحریر : شہنشاہ حسین


زمیں کی گود رنگ سے اُمنگ سے بھری رہےخُدا کرے، خُداکرے سدا ہری بھری رہےیہ وہ ملّی نغمہ ہے، جب کراچی ٹیلی ویژن سے نشر ہوتا تھا تو لوگ اِسے شوق سے سنتے تھے۔ بہت سے مقبول ملّی نغموں میں اس نغمہ کا الگ ہی حُسن ہے۔ اس کو گانے والے محمد افراہیم، کراچی کا حوالہ بن چکے ہیں۔ کراچی میں کوئی ادبی تقریب ہویا فلمی تقریب محمد افراہیم کی موجودگی کے بغیر نامکمل رہتی ہے۔ محمد افراہیم کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ ان تقریبات کی جان ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ ان تقریبات میں گزشتہ 47 برس سے شرکت کررہے ہیں۔ ریڈیو، فلم، ٹیلی ویژن اور اسٹیج غرض چاروں ہی شعبوں سے ان کی وابستگی رہی ہے۔ انہوںنے متعدد یاد گار گیت، غزلیں، قومی نغمے اور فلمی گانے گائے ہیں۔ بھارت کے معروف گلوکار محمد رفیع (مرحوم) کی آواز کی جھلک رکھنے والی ان کی آواز نے سُننے والوں کو ہمیشہ محفوظ کیا۔ یہی نہیں بل کہ وہ رفیع (مرحوم) کے باقاعدہ شاگرد بھی رہے ہیں۔ محمد افراہیم سے ایک ملاقات میں ان سے بات چیت کی گئی جو ’’دنیا‘‘ کے قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ اپنی پیدائش اور بچپن کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔ وہ 14 اگست 1947ء کو بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ خاندان کے لوگ کاروباری تھے۔ میرے والد کا بھی کاروبار تھا جس کی وجہ سے بچپن سے ہی آسودگی دیکھی۔ ہم نو بھائی اور تین بہنیں ہیں لیکن پاکستان صرف میں ہی آیا۔ اپنے نام کے بارے میں افراہیم نے کہا۔ میری والدہ ’’داستانِ یوسفؑ‘‘ پڑھتی تھیں۔ افراہیم، حضرت یوسفؑ کے بڑے صاحب زادے کا نام ہے۔ جب میں پیدا ہُوا تو میرا نام ’’محمد افراہیم‘‘ رکھا گیا۔ اس کا مطلب ہے۔ فراہم کرنے والا، ملانے والا اور اﷲ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے کہ میرے نام سے میری ذات جُڑی ہوئی ہے اگر میں کسی مسئلے میں پڑتا ہوں تو دونوں فریق مان جاتے ہیں۔کب محسوس ہُوا کہ آپ کی آواز میں محمد رفیع کی جھلک ملتی ہے اور آپ گابھی سکتے ہیں؟ افراہیم نے کہا، اُس دور میں ریڈیو ہی گھر میں تفریح ہوتا تھا، جو مجھے سننے کا بڑا شوق تھا، خاص کر فلمی گانے اور غزلیں سننے سے میرا دل بھی گنگنانے کو چاہتا تھا۔ بہت سے مقبول گلوکاروں کی آوازمیں گانے اچھے لگتے تھے لیکن محمد رفیع کا گانا ریڈیو پر ہمیشہ مُحو ہو کر سنتا تھا اور ان کے ہی گانے گنگنانے لگتا تھا۔ ہم نے جب افراہیم سے پوچھا کہ آپ کا گھرانہ بڑا مذہبی تھا۔ تو پھر گانے بجانے کی طرف کیسے آگئے؟ ان کا جواب تھا، میرے والد مزاجاً سخت ضرور تھے لیکن انہیں شعرو شاعری میں تصوف سے رغبت حاصل تھی۔ جب پہلی بار محلّے کے پروگرام میں، میں نے کئی غزلیں سنائیں، مجھے نہیں معلوم تھا کہ والد بھی اس میں شریک ہیں۔مجمع نے میری گائیکی پر کُھل کر داد دی تو والد صاحب کا رویہ میرے لیے نرم ہوگیا۔ محمد رفیع کی شاگردی اختیار کرنے کے جواب میں ان کا کہنا تھا، دہلی میں میرے محلّے کا ایک شخص اقبال تھا جو محمد رفیع کے گانوں میں ڈھولک بجاتا تھا۔ رفیع صاحب دہلی آئے تو اقبال کے کہنے پر انہوںنے میرا گانا سُنا اور پسند کیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد اقبال ہی نے رفیع صاحب سے مجھے شاگردی اختیار کرنے کا کہا اس سلسلے میں پہلے تو رفیع صاحب نے مجھے نظر انداز کیا لیکن میرا شوق دیکھتے ہوئے آخر کار مجھے شاگرد بنالیا۔ میں چوں کہ پہلے سے طے کرکے گیا تھا کہ ان کا شاگرد ضروربنوں گا اس لیے ان کے لیے مٹھائی، سوٹ کا کپڑا، گُڑ اور چنے لے کر گیا تھا۔ رفیع صاحب، میرے والد سے ملے اور میری تعریف کی۔پاکستان آنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔ 1965ء کا ذکر ہے، جب دہلی میں موسیقار ناشاد سے ملاقات ہوگئی، وہ پاکستان آچکے تھے اور یہاں فلم ’’میخانہ‘‘ کی موسیقی دے چکے تھے۔ انہوںنے مجھے کہا کہ بھارت میں محمد رفیع موجود ہے، اب اگر تم پاکستان آجائو تو وہاں کے محمد رفیع بن سکتے ہو، تمہاری آواز اس عمر میں محمد رفیع کی آواز جیسی ہے، حالاں کہ میں صرف 18 برس کا تھا لیکن محمد رفیع کے گانے گاگا کر میری آواز وقت سے پہلے مردانہ ہوگئی تھی۔ یہاں میں لاہور آیا۔ناشاد صاحب سے مِلا انہوں نے مجھے کہا، میرے پاس اس وقت کوئی فلم نہیں ہے جیسے ہی دوسری فلم ملتی ہے میں تمہیں چانس دوں گا۔ وہاں میری دوستی مجیب عالم سے ہوگئی جو ناشاد کی فلم ’’میخانہ‘‘ کے گانے سے شہرت حاصل کرچکے تھے۔ اس طرح سلطان راہی اور پھر موسیقار کمال احمد کو بھی میری آواز پسند آئی۔ اتفاق سے کراچی کے معروف موسیقار بلند اقبال جو اپنے ساتھی لال محمد کے ساتھ موسیقی دیتے تھے، انہوںنے مجھے کہا میری فلم ’’جاگ اُٹھا انسان‘‘ کا ایک گانا ریکارڈ ہونا ہے اگر تم کراچی آجائو تو میں اسے تمہاری آواز میں ریکارڈ کرلوں گا۔ بس پھر کیا تھا۔ میں ان کے کراچی پہنچنے سے پہلے یہاں آگیا۔ فلم کے لیے میرا پہلا گانا ڈوئٹ تھا جس کے بول تھے، ’’گوری ذرا پھر سے بجا پائلیا، پیپل کی چھائوں میں‘‘ اس ڈوئٹ میں دوسری آواز نسیمہ شاہین کی تھی۔ اس فلم کے تمام گانے مشہور ہوئے۔ میرے اس گانے میں ڈانڈیا بھی کسی فلم میں پہلی بار شامل ہُوا۔ اس کی مقبولیت اتنی زیادہ ہوئی، میں جب لاہور گیا تو ناشاد صاحب کے پاس مٹھائی لے کر چلا گیا۔ میں سیدھ سادھا آدمی ہوں مجھے اس وقت بھی اتنی عقل نہیں تھی، ناشاد صاحب نے بظاہر تو مجھے مبارک باد دی لیکن مجھے احساس ہُوا کہ میرے گانے سے وہ خوش نہیں ہوئے۔ وہ پہلی بار میری آواز میں گانا ریکارڈ کرکے اس کا کریڈٹ خود لینا چاہتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں اگر میرا پہلا گانا ہٹ نہ ہوتا تو مجھے بہت سے گانے مل جاتے۔ ناشاد صاحب مجھ پر مہربان نہیں رہے۔ انہوں نے میرے بجائے دوسرے گلوکاروں کو گانے کا موقع دیا جن میں کئی گلوکار ایک آدھ گانا ہی گاسکے۔ کئی موقعوں پر ناشاد صاحب نے مجھے نقصان پہنچایا، لیکن میں نے ان سے کبھی کچھ نہیں کہا۔ ایک دُکھ مجھے ضرور ہوا۔ فلم ساز اقبال بٹ جن سے میری دوستی ہوگئی تھی وہ مجھے اپنی فلم ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ میں ہیرو لینا چاہتے تھے، لیکن میں نے ان سے کہا کہ میرے والد نے مجھے بڑی مشکل سے گانے کی اجازت دی ہے۔ اداکاری تو وہ کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ خیر اس فلم میں میرا رونا لیلیٰ کے ساتھ ایک گانا ریکارڈ ہوا۔ اس کے بول تھے ’’معصوم سا چہرہ ہے ہم جس کے ہیں دیوانے، نظروں سے ملیں نظریں، کیا ہوگا خدا جانے‘‘ یہ گانا ناشاد، احمد رشدی سے گوانا چاہتے تھے لیکن فلم ساز کے مجبور کرنے پر انہوں نے مجھ سے گوایا۔ یہ گانا رفیع صاحب کے گانے کی طرح تھا، لیکن پھر ناشاد نے میرا یہ گانا فلم میں شامل نہیں کیا اور دوبارہ رونا لیلیٰ اور احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کرلیا۔ رشدی کو معلوم نہیں تھا میری ان سے سلام دعا کے علاوہ بے تکلفی بھی تھی لیکن جب یہ بات ہوئی تو میں ان سے کٹ گیا۔ رُشدی صاحب کو احساس ہوا ایک دن میرے دوست شاہد دہلوی نے رُشدی کو بتادیا تو وہ شرمندہ ہوئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ بیٹا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ گانا تم نے گایا ہے تو میں دوبارہ ریکارڈ نہ کراتا۔ میری ان سے ناراضی ختم ہوگئی۔ پھر زندگی یوں ہی چلتی رہی۔ میں نے ایک درجن سے زائد فلموں کے لیے گانے گائے۔ ان فلموں میں ہمدم، پاپی، گھروندا، آشیاں جل گیا، جال، جلے نہ کیوں پروانہ، ایک رات، وفا، نشیمن، شیریں فرہاد وغیرہ شامل ہیں۔ افراہیم نے بتایا کہ ستّر کی دہائی میں کراچی میں ہر شام تقریبات ہوتیں تھیں اس لیے میں نے سوچا کہ اگر میں لائیو پرفارمنس دوں تو زیادہ سراہا جائوں گا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ مجھے جب ریڈیو، ٹی وی اور فلم والے بُلاتے تھے تو میں چلا جاتا تھا۔ میں نے خود کبھی ان سے گانے کا نہیں کہا۔ یہ میری عادت نہیں تھی۔ لائیو پروگرام میں داد فوری مل جاتی ہے اس لیے محسوس کرتا ہوں کہ مجھے کراچی اور لاہور دونوں شہروں سے بڑا پیار ملا، اپنے قومی نغموں کے بارے میں افراہیم کا کہنا تھا۔ میں نے بہت زیادہ قومی نغمے گائے ہیں۔ ٹی وی پر پہلا قومی نغمہ، جہاں پیار چراغ جلاتا ہے، جہاں دریا دریا گاتا ہے‘‘ تھا۔ لیکن ’’زمیں کی گود رنگ سے، امنگ سے بھری رہے‘‘ آج بھی سننے والوں میں میری پہچان ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
شکاری ایپس عالمی خطرہ قرار

شکاری ایپس عالمی خطرہ قرار

موبائل ایپلی کیشنز (ایپس) نے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہماری روزمرہ کی زندگی کو آسان اور بہتر بنا دیا ہے۔ ان ایپس کی مدد سے ہم اپنے مختلف کاموں کو تیزی سے اور آسانی سے مکمل کر سکتے ہیں، چاہے وہ تفریح ہو، کام کاج ہو یا تعلیم۔ یہ ایپس موبائل فونز پر انسٹال کی جاتی ہیں اور مختلف ضروریات کے مطابق اپنی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ موبائل ایپس نے انسان کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ موبائل ایپس نے جہاں انسانی زندگیوں کو فائدہ پہنچایا ہے وہیں بہت سی ایپس ایسی بھی ہیں جنہوں نے انسانی زندگیوں کو اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ ماہرین نے ان ایپس کو "شکاری ایپس" کا نام دیا ہے ۔ "شکاری ایپس" وہ ایپلی کیشنز ہوتی ہیں جو صارفین کو دھوکہ دے کر ان کی حساس معلومات چوری کرتی ہیں یا انہیں مالی نقصان پہنچاتی ہیں۔ یہ ایپس عام طور پر جھوٹے وعدے جیسے فوری قرض یا کم شرح سود کے ساتھ صارفین کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں، اور بعد میں ان کا استحصال کرتی ہیں۔ یہ ایپس عام طور پر بڑی مہارت سے ڈیزائن کی جاتی ہیں تاکہ صارفین کو ان پر اعتماد ہو اور وہ انہیں اپنے اسمارٹ فونز میں ڈاون لوڈ کریں۔ "شکاری ایپس" کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ صارفین کے مفاد میں نظر آتی ہیں، مگر دراصل ان کا مقصد مالی فائدہ اٹھانا یا معلومات کا غلط استعمال کرنا ہوتا ہے۔مالی فائدے کے وعدےشکاری ایپس موبائل صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے پر کشش دعوے کرتی ہیں۔ جیسا کہ فوری قرضوں، کم شرح سود یا دیگر مالی فائدوں کے جھوٹے وعدے کرتی ہیں۔ یہ وعدے اس قدر پرکشش ہوتے ہیں کہ صارفین ان ایپس کو ڈاون لوڈ کرنے میں ہچکچاتے نہیں ہیں۔حساس معلومات تک رسائی جب صارف ایپس کو اپنے اسمارٹ فونز میں انسٹال کرتا ہے، تو ایپ ان کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کرتی ہے جیسے بینک اکاو¿نٹ کی تفصیلات، کریڈٹ کارڈ کی معلومات، ذاتی شناختی دستاویزات، یا رابطہ نمبر وغیرہ۔اجازتوں کا غلط استعمال شکاری ایپس صارفین سے ایسی اجازتیں حاصل کرتی ہیں جو ان کےلئے غیر ضروری ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایپ کو کال لاگ، پیغامات یا دیگر حساس ڈیٹا تک رسائی کی اجازت دینا۔مقصد: ان ایپس کا مقصد صارف کی معلومات کو چوری کرنا، صارف کو غیر قانونی طریقوں سے قرضوں میں جکڑنا یا ان کی مالی حیثیت کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ ایپس صارفین کو غیر قانونی مالی معاہدوں میں پھنساتی ہیں۔غلط تجزیہ اور تاثراتشکاری ایپس عام طور پر مثبت ریویوز اور 5 سٹار کی درجہ بندی کے ساتھ آتی ہیں تاکہ صارفین کو ان پر اعتماد ہو۔ یہ تبصروں میں خود کو حقیقی اور قانونی ایپ کی طرح ظاہر کرتی ہیں۔سائبر سیکیورٹی کمپنی McAfee نے 15 نقصان دہ ایپس کی نشاندہی کی ہے جو کم از کم 80 لاکھ اینڈرائیڈ فونز پر ڈاون لوڈ کی گئی ہیں اور "شکاری قرض ایپس کے عالمی سطح پر نمایاں اضافے" کے بارے میں خبردار کیا ہے۔کمپنی کے مطابق لاکھوں افراد خطرے میں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اسمارٹ فونز پر خطرناک ایپلی کیشنز ڈاون لوڈ کی ہیں۔ McAfee نے ان ایپس کو "ایک عالمی خطرہ"قرار دیا ہے۔ ان میں سے کچھ ایپس گوگل پلے اسٹور سے ہٹا دی گئی ہیں، جبکہ دیگر کو ڈویلپرز نے صرف اپ ڈیٹ کر دیا ہے۔سائبر سیکیورٹی فرم ESET نے گزشتہ سال اسپائی لون ایپس کے بارے میں ایک وارننگ جاری کی تھی، جن میں سے 17 ایپس گوگل پلے اسٹور میں چھپی ہوئی پائی گئی تھیں، اور اینڈرائیڈ صارفین کو ان ایپس کو حذف کرنے کی ترغیب دی تھی۔شکاری ایپس ایک عالمی سنگین خطرہ ہیں جو صارفین کی معلومات اور مالی حالت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ان سے بچاو کےلئے محتاط رہنا ضروری ہے اور ہمیشہ سیکیورٹی کے بہترین طریقوں پر عمل کرنا چاہیے۔

سوئی تو شہزادی بیدار ہوئی تو ملکہ

سوئی تو شہزادی بیدار ہوئی تو ملکہ

یہ20جون 1837ءکی ایک دم توڑتی ہوئی رات کا وقت ہے۔ ابھی سپیدہ سحر اچھی طرح نمودار نہیں ہوا تھا کہ اچانک خواب گاہ کے دروازے پر دستک ہوئی۔ پیغامبر نے کہا کہ شہزادی صاحبہ اٹھئے، شاہی محل میں تشریف لائیں، برطانیہ کا تاج و تخت آپ کا منتظر ہے۔ کیونکہ بادشاہ سلامت آپ کے چچا(ولیم چہارم) کا حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہو چکا ہے۔ شہزادی نے ہلکی سی غنودگی کی حالت میں شاہی فرمان سنا۔ منہ ہاتھ دھویا، شاہی لباس زیب تن کیا اور خادمہ کے ہمراہ بکنگھم پیلس کو چل دی۔شہزادی الیگزینڈرینا وکٹوریہ کو رات سوتے وقت کیا پتہ تھا کہ صبح جب آنکھ کھلے گی تو تاج برطانیہ اس کا منتظر ہوگا۔ وہ جب سوئی تو ایک شہزادی تھی لیکن جب صبح 6بجے بیدار ہوئی تو ایک ملکہ تھی۔ اسے کہتے ہیں "تقدیر کے کھیل نرالے"۔ اس طرح 18سال کی عمر میں ملکہ وکٹوریہ برطانیہ کی حکمران بن گئی۔ملکہ وکٹوریہ 24مئی 1819ءکو کنسنگٹن پیلس میں پیدا ہوئی۔ اس کا پیدائشی نام الیگزینڈرنیا وکٹوریہ تھا۔ رینا اس کا نک نیم تھا۔ ان کا والد پرنس ایڈورڈڈ یوک آف کینٹ، جارج سوم کا چوتھا بیٹا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ کی والدہ شہزادی ماریہ لوئیس جرمن نژاد خاتون تھی۔ ابھی وکٹوریہ کی عمر ایک سال ہی تھی کہ اس کا والد فوت ہو گیا۔ملکہ وکٹوریہ نے اپنی تعلیم کسی سکول یا کالج سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ محل میں ایک گورنس مقرر کر دی گئی تھی۔ ابتدائی تعلیم وکٹوریہ نے اسی سے حاصل کی۔ وکٹوریہ کو اپنی 18ویں سالگرہ منائے ابھی ایک ماہ ہی ہوا تھا کہ جون 1837ءمیں وہ تاج و تحت برطانیہ کی وارث ٹھہری۔ تاج پوشی کی رسم ایک سال بعد ویسٹ منسٹرایبے میں جون 1838ءمیں ہوئی۔1936ءمیں وکٹوریہ کی سترہویں سالگرہ کے موقع پر وکٹوریہ کی البرٹ سے ملاقات ہوئی۔ یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ وکٹوریہ البرٹ کو دیکھتے ہی اس پر فریفتہ ہو گئی۔ ملکہ وکٹوریہ نے البرٹ کو شادی کا پیغام دیا۔ البرٹ نے ملکہ وکٹوریہ کا پیغام بسر و چشم قبول کیا۔ شہزادہ البرٹ ملکہ وکٹوریہ کا فرسٹ کزن تھا۔10فروری 1840ءکو ملکہ وکٹوریہ اور پرنس البرٹ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ اس وقت ملکہ وکٹوریہ کی عمر 21سال تھی۔ ان کی شادی کا کیک300پاﺅنڈ وزنی تھا۔ ملکہ وکٹوریہ اور پرنس البرٹ کے ہاں 9بچے (پانچ بیٹیاں، چار بیٹے)پیدا ہوئے۔پرنس البرٹ 14دسمبر1861ءکو نمونیہ سے فوت ہوا۔ اس وقت ملکہ کی عمر 42سال تھی۔ یعنی صرف 21برس وہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک رہے۔ جوانی میں ملکہ وکٹوریہ کا بیوہ ہو جانا کسی بھاری صدمے سے کم نہ تھا۔ اپنے خاوند کی وفات کے بعد ملکہ نے شاہی طمطراقی لباس کو خیر باد کہہ کر سیاہ لباس پہننا شروع کردیا۔ رعایا سے ایک طرح کٹ کے رہ گئیں۔ البتہ امور حکومت اپنے وقت پر انجام دیتیں۔ ملکہ وکٹوریہ نے ایک طویل عرصہ حکومت کی،ان کا دور حکومت 64سال (63سال 7ماہ 3دن) پر محیط تھا۔ملکہ وکٹوریہ نے برطانیہ سکاٹ لینڈ آئرلینڈ کے علاوہ نو آبادیات آسٹریلیا، کینیڈا، جنوبی افریقہ اور برصغیر انڈیا پر برمنگھم پیلس بیٹھے ہوئے حکمرانی کی۔ ملکہ وکٹوریہ یہ اپنی زندگی میں کبھی انڈیا نہیں گئی۔ حالانکہ اس نے قیصر ہند کا خطاب پایا۔ ملکہ کے دور حکومت میں اس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اگر ایک طرف غروب ہوتا تھا تو دوسری طرف طوع ہو رہا ہوتا تھا۔ کہاں آسٹریلیا اور کہاں جنوبی افریقہ، برطانیہ اور کینیڈا۔ملکہ ایک مسحور کن شخصیت کی مالکہ تھی۔ ملکہ وکٹوریہ نے عہد حکومت میں عنانِ اقتدار پر کبھی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے دی۔ حالانکہ وہ ایک بیوہ خاتون تھیں اور ایک طرح گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ اس کے عہد حکومت میں ایک صنعتی انقلاب برپا ہوا۔ معاشی ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیسن، تعلیم اور تعمیرات میں بہت ترقی ہوئی۔ اس کے دور میں ایسے ایسے ماہر فن کار، سائنس دان اور سیاست دان پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے علم کا دنیا میں لوہا منوایا۔ ملکہ وکٹوریہ کے دور حکومت کو تاریخ میں Victorian Eraکہا جاتا ہے۔ ملکہ وکٹوریہ کا عہد ایک طرح کا تاریخ ساز عہد تھا۔ جا بجا سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں معرض وجود میں آئیں۔ملکہ وکٹوریہ کی زندگی میں اس پر آٹھ قاتلانہ حملہ ہوئے مگر وہ سب حملے ناکام ثابت ہوئے۔ آخر کار 22جنوری 1801ءکو ملکہ اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔

آج کا دن

آج کا دن

لاسارنو معاہدہ (Treaty of Locarno)1 دسمبر 1925ءکو"لاسارنو معاہدہ" پر لندن میں باضابطہ طور پر دستخط کئے گئے۔ یہ ایک اہم سیاسی اور سفارتی معاہدہ تھا جو اکتوبر 1925ءمیں سوئٹزرلینڈ کے شہر لاسارنو میں طے پایاتھا۔ اس معاہدہ کے فریقین میں جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور بیلجیم شامل تھے۔ معاہدے کا مقصد پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ میں امن قائم کرنا اور مستقبل کے تنازعات کو روکنا تھا۔ جرمنی نے فرانس اور بیلجیم کے ساتھ اپنی مغربی سرحدوں کو تسلیم کیا اور ان پر حملہ نہ کرنے کا عہد کیا۔ یوگوسلاویہ: فضائی حادثہ یکم دسمبر1987ءکو یوگوسلاویہ ایئر لائنز کا ایک مسافر بردار طیارہ جزیرہ کورسیکا میں گر گیا جس میں178 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ پرواز معمول کے مطابق یوگو سلاویہ سے مغربی یورپ کے کسی شہر کی طرف روانہ تھی اور راستے میں کورسیکا کے قریب حادثے کا شکار ہو گئی۔یہ حادثہ یوگوسلاویہ کی تاریخ میں ایک افسوسناک واقعہ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، حادثے کی ایک بڑی وجہ خراب موسم تھی جبکہ حادثے کے بعد کی رپورٹ میں پائلٹ کی ممکنہ غلطی یا نیویگیشن کی خامیوں کو بھی زیر غور لایا گیا۔ پیرس میں جدید سینما کی تعمیر1906ءمیں پیرس میں دنیا کا پہلا جدیدسینما گھر کھولا گیا۔یہ سینما فلم بینی کےلئے مخصوص جدید عمارتوں میں سے ایک تھا۔ فرانس سینما کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ لومیئر برادران، جو سینما کے بانیوں میں شامل ہیں نے بھی فرانس میں فلمی صنعت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔پہلی کاراسمبلی لائن کا آغاز 1913ءمیں آج کے روز فورڈ موٹر کمپنی نے دنیا کی پہلی موٹر اسمبلی لائن متعارف کرائی۔ہنری فورڈ نے 1903ءمیں فورڈ موٹر کمپنی قائم کی تھی۔ یہ کمپنی جلد ہی آٹو موبائل انڈسٹری میں سب سے نمایاں ادارہ بن گئی۔ہنری فورڈ نے اسمبلی لائن کا تصور متعارف کرایا، جس کے ذریعے گاڑیاں بنانے کا عمل نہایت موثر اور تیز ہوا۔ اس تکنیک نے مزدوروں کی پیداواریت میں اضافہ کیا اور کاروں کی قیمت کو کم کر دیا۔ 

30نومبر: ’’ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے ‘‘

30نومبر: ’’ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے ‘‘

کمپیوٹر سکیورٹی جسے سائبر سکیورٹی یا آئی ٹی سکیورٹی بھی کہا جاتا ہے، وہ عمل ہے جس کے ذریعے کمپیوٹر سسٹمز، نیٹ ورکس اور ڈیٹا کو غیر مجاز رسائی، نقصان، یا چوری سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ جدید دور میں جہاں ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، کمپیوٹر سکیورٹی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کمپیوٹر سکیورٹی اس لیے ضروری ہے کہ یہ ہماری معلومات کو محفوظ رکھتی ہے، چاہے وہ ذاتی ہو یا پیشہ ورانہ۔ یہ ہیکرز، میلویئر، اور دیگر سائبر خطرات سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور مالی نقصانات اور قانونی پیچیدگیوں سے بچاتی ہے۔کمپیوٹرز سکیورٹی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہاس کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کیلئے ایک دن مختص ہے جو ''کمپیوٹرز کی حفاظت کے عالمی دن‘‘ یا ''کمپیوٹر سکیورٹی ڈے‘‘ کے عنوان سے ہر سال 30نومبرکو منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد کمپیوٹر صارفین کو اپنے کمپیوٹرز میں موجود قیمتی ڈیٹا، پروگرامز اور ہارڈویئرکو وائرس اور دیگر خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے کے حوالے سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرین کمپیوٹر صارفین کو کمپیوٹر سافٹ ویئر، کمپیوٹر ز سکیورٹی اور اس سے متعلقہ مفیدمعلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ دن منانے کا آغاز 1988ء سے ہوا تھا۔کمپیوٹر سکیورٹی کی اقسامکمپیوٹر سکیورٹی آج کے دور میں نہایت اہم ہے کیونکہ اس کے بغیر ہمارا ذاتی اور پیشہ ورانہ ڈیٹا خطرے میں رہتا ہے۔کمپیوٹر سکیورٹی کئی اقسام پر مشتمل ہے، جن میں سے اہم درج ذیل ہیں۔نیٹ ورک سکیورٹی:یہ نیٹ ورک کو غیر مجاز رسائی اور حملوں سے بچانے کیلئے اقدامات کرتی ہے۔ اس میں فائر وال، اینٹی وائرس اور وی پی این شامل ہیں۔ڈیٹا سکیورٹی:یہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ڈیٹا محفوظ اور خفیہ رہے اور صرف مستند صارفین تک رسائی حاصل کر سکیں۔ایپلی کیشن سکیورٹی:سافٹ ویئر یا ایپلیکیشنز میں موجود کمزوریوں کو دور کرنا تاکہ ہیکرز ان کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔انفارمیشن سکیورٹی:معلومات کو غیر مجاز ترمیم، نقصان، یا چوری سے محفوظ رکھنا۔کلاؤڈ سکیورٹی:کلاؤڈ میں اسٹور کیے گئے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات، جیسے ڈیٹا انکرپشن اور کلاؤڈ سروس فراہم کرنے والے کی سکیورٹی پالیسیاں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کے اصولوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ایک محفوظ ڈیجیٹل دنیا کا قیام ممکن ہو سکے۔فائر وال کا استعمال کریں:ونڈوز میں فائر وال پہلے سے موجود اور خودکار طور پر فعال ہوتا ہے۔ یہ غیر مجاز رسائی کو روکنے میں مدد دیتا ہے اور آپ کے کمپیوٹر کی حفاظت کرتا ہے۔تمام سافٹ ویئر کو اپڈیٹ رکھیں: ونڈوز اپڈیٹ میں خودکار اپڈیٹس کو آن کریں تاکہ ونڈوز، مائیکروسافٹ آفس، اور دیگر مائیکروسافٹ ایپلی کیشنز اپڈیٹ رہیں۔غیر مائیکروسافٹ سافٹ ویئر کیلئے بھی خودکار اپڈیٹس کو آن کریں، خاص طور پر ویب براؤزرز، ایڈوب ایکروبیٹ ریڈر اور وہ ایپس جو آپ روزانہ استعمال کرتے ہیں۔اینٹی وائرس کا استعمال : اگر آپ ونڈوز استعمال کرتے ہیں، تو آپ کے ڈیوائس پر پہلے سے ہی ونڈوز سیکیورٹی یا ونڈوز ڈیفنڈر سیکیورٹی سینٹر موجود ہوتا ہے۔اسے اپڈیٹ اور فعال رکھیں تاکہ وائرس اور دیگر میلویئر سے حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔اگر آپ اپنے کمپیوٹر کو محفوظ رکھنا اور آن لائن خطرات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو درج ذیل اقدامات پر عمل کریں۔ مضبوط پاسورڈز:اپنے پاس ورڈز کو محفوظ اور محتاط طریقے سے منتخب کریں ۔الفاظ، حروف اور نمبروں کے امتزاج پر مبنی مضبوط پاسورڈز استعمال کریں اور انہیں باقاعدگی سے تبدیل کریں۔مشکوک لنکس:مشکوک لنکس پر کلک نہ کریں۔یہ ای میل، ٹویٹس، پوسٹس، آن لائن اشتہارات، یا پیغامات میں ظاہر ہو سکتے ہیں اور کبھی کبھی خود کو قابل اعتماد ذرائع کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ویب براؤزنگ میں محتاط رہیں: ایسی ویب سائٹس سے پرہیز کریں جو غیر قانونی مواد فراہم کرتی ہیں، کیونکہ ان میں اکثر میلویئر انسٹال کیا جاتا ہے یا ایسے ڈاؤن لوڈز پیش کیے جاتے ہیں جن میں میلویئر ہوتا ہے۔جدید براؤزرکا استعمال : جدید براؤزر استعمال کریں،جیسے مائیکرو سافٹ ایج، جو خطرناک ویب سائٹس کو بلاک کرنے اور آپ کے کمپیوٹر پر نقصان دہ کوڈ چلنے سے روکنے میں مدد دیتا ہے۔غیر قانونی مواد سے دور رہیں:فلمیں، موسیقی، کتابیں یا ایپلی کیشنز ایسی جگہوں سے اسٹریم یا ڈاؤن لوڈ نہ کریں جو قابل اعتماد نہ ہوں۔ ان میں میلویئر موجود ہو سکتا ہے۔USB کا استعمال: یا دیگر خارجی آلات استعمال نہ کریں جب تک کہ وہ آپ کے اپنے نہ ہوں۔ میلویئر اور وائرس سے بچنے کیلئے یقینی بنائیں کہ تمام خارجی آلات یا تو آپ کے اپنے ہوں یا قابل اعتماد ذرائع سے حاصل کیے گئے ہوں۔ 

سیون اسٹریم لیک اور جڑواں جھیلیں

سیون اسٹریم لیک اور جڑواں جھیلیں

منی مرگ سے نکل کر ایک بار پھر ڈومیل تک پہنچ جانا دراصل میری ذاتی خواہش تھی ، جس کا احترام میرے ساتھیوں پر واجب نہ تھا۔منی مرگ کی ایک اجلی صبح میں جیپ ڈرائیور کے ساتھ ایک بار پھر ڈومیل کی طرف نکل آیا۔ گزری شام جو ندی ہمارے راستے کی رکاوٹ بنی تھی ، اب چپ چاپ بہتی جاتی تھی۔ برف پگھلنے سے پہلے ہم نے یہ ندی عبور کی اور رینبو جھیل کی قربت میں آ گئے۔ میرے تمام ہم سفر منی مرگ کے ریسٹ ہاوس میں ابھی سوئے ہوئے تھے اور میں رات کے وقت سنائی ہوئی کہانی کا کردار بن کر نکل آیا۔ رینبو جھیل سے آگے سیون اسٹریم لیک تھی جس میں سات چشمے یوں گرتے تھے جیسے کوئی اپنی ذات کسی محبوب پر فدا کر دے ، ہمیشہ کے لئے اپنی ہستی مٹا دے۔ مگر یہ ابھی صرف کہانی تھی اور اس سات چشموں والی جھیل تک پہنچنے کے لئے میں ڈومیل میں تھا۔ رینبو جھیل کے ساتھ بہتے نالے پر ہم نے سات گھنٹے سفر کرنا تھا اور پھر دو جڑواں جھیلوں تک پہنچنا تھا۔ میں تھکنے والا نہ تھا کہ ڈومیل سے واپس لوٹ جانا میرے سیاحتی عقیدے کی خلاف ورزی تھا۔منی مرگ سے نکلے ہوئے دو گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ ہم ایک ایسی وادی میں آ گئے جہاں بلند درختوں کے عقب میں وسیع لینڈ اسکیپ تھا۔ چھوٹے چھوٹے چشمے تھے اور موسم میں نرم دھوپ کا سایہ تھا۔ دن ڈھلنے سے پہلے جیپ ڈرائیور نے کہا کہ ہم نیرو کی جڑواں جھیلوں تک پہنچ گئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ نیرو کی جڑواں جھیلیں مکمل طور پر ان چھوئی اور کنواری جھیلیں تھیں جہاں تک انسان بہت کم پہنچتا تھا۔ صاف اور مقدس جھیلوں میں جو پانی تھے وہ کرسٹل واٹر تھے۔ برف کا تازہ عرق ان جھیلوں کا رزق بنتا تھا۔ خوبصورت جھیل میں تین خصوصیات ہوتی ہیں ، ایک یہ کہ وہ زندہ جھیل ہوتی ہے جس میں پانی داخل ہو رہا ہو اور ساتھ ساتھ اخراج بھی ہو رہا ہو۔ دوسری خصوصیت یہ کہ وہ اپنے اطراف میں بلند حصار رکھتی ہے۔ تیسرا خاصا اس کا شفاف پانی ہوتا ہے۔ ان جھیلوں میں تینوں نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ ان جھیلوں سے آگے ایک اور حیرت کا جہان ہمارا منتظر تھا۔صرف دو گھنٹے کی مسافت پر غلام سر کی دو اور جڑواں جھیلیں ہماری منتظر تھیں۔ ضلع بانڈی پورہ میں واقع یہ جھیلیں بھی حسن فطرت میں آپ اپنی مثال تھیں۔ رینبو جھیل وادی ڈومیل سے ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر دو اور جڑواں جھیلیں ہیں جنہیں آر ، بی کی جھیلیں کہا جاتا ہے۔ آر ، بی جھیلوں کے ارد گرد زعفرانی گھاس کا ڈھلوان فرش بچھا ہے۔ رینبو لیک کے پاس ہی دل نما جھیل بھی حسن کا منبع ہے۔ کئی جڑواں جھیلیں اور ان دیکھی وادیاں دیکھ کر جب منی مرگ پہنچے تو رات کا دوسرا پہر ڈھل چکا تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور تارے اتنے قریب تھے کہ آسمان پر نہیں ہمارے سروں کے اوپر چمکتے محسوس ہوتے تھے۔منی مرگ کے پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاوس میں میرے بچے میرے ہی منتظر تھے۔ میرے ذہن میں سیون اسٹریم جھیل اور کئی جڑواں جھیلوں کے حسن کا جادو تھا جو آنکھوں میں خمار بن کر ہر دیکھنے والے کے سامنے مجھے مشکوک کرتا تھا۔ میں اسی خمار کی وجہ سے گنگ تھا کہ بولنے کی سکت ہی نہ تھی۔ منی مرگ میں یہ رات ہماری آخری شب بسری تھی۔ ہونے والی صبح ہم نے برزل عبور کر کے استور پہنچنا تھا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

تنبس سے انخلاء30نومبر1971ء کو برطانوی افواج کے ابوموسیٰ اور تنبس کے جزائر سے انخلاء کے فوراً بعد شاہی ایرانی بحریہ نے آبنائے ہرمز میں واقع ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔یہ جزائر خلیج فارس اور خلیج عمان کے درمیان موجود ہیں۔ ایران کی شاہی ریاست نے جزائر کے دونوں جانب خودمختاری کا دعویٰ کیا تھا۔ امارات راس الخیمہ نے بڑے اور چھوٹے تبنوں کا دعویٰ کیا اور امارات شارجہ نے ابوموسیٰ پر دعویٰ کیا۔ایران کی جانب سے جزائر پر قبضے کے بعد شارجہ اور راس الخیمہ نے نوتشکیل شدہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ الحاق کر لیا۔اس الحاق کی وجہ سے ان علاقوں پر متحدہ عرب امارات کا بھی وعویٰ قائم ہو گیا۔تاسافارونگا کی جنگتاسا فارونگا کی لڑائی جسے بعض جگہ ''پرساؤجزیرے‘‘ کی چھوٹی جنگ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اور جاپانی تاریخ میں یہ ''لونگا پوائنٹ کی جنگ‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔یہ ایک بحری جنگ تھی جس کا آغاز 30نومبر1942ء کو ریاستہائے متحدہ امریکہ اور امپیریل جاپان کی بحریہ کے درمیان ہوا۔یہ لڑائی گواڈل کینال پر تسافارونگا علاقے کے قریب آئرن باٹم ساؤنڈ میں ہوئی۔جنگ میں، ریئر ایڈمرل کارلٹن ایچ رائٹ کی کمان میں پانچ کروزر اور چار ڈسٹرائرز پر مشتمل امریکی فورس نے گواڈل کنال پر اپنی افواج کو خوراک پہنچانے کی کوشش کرنے والے آٹھ جاپانی تباہ کن جہازوں کو روکے رکھا جس کی وجہ سے جاپان کو اس جنگ میں کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔سرمائی جنگسرمائی جنگ جسے پہلی سوویت فنش جنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سوویت یونین اور فن لینڈ کے درمیاں ہونے والی ایک زبردست جنگ تھی۔ جنگ کا آغاز 30نومبر 1939ء کو فن لینڈ پر سوویت یونین کے حملے سے ہوا اور دوسری عالمی جنگ کے تین ماہ بعد ماسکو امن معاہدے کے ساتھ اس لڑائی کا اختتام ہوا۔ جدید اسلحہ، ٹینک اور اعلیٰ فوجی قیادت ہونے کے باوجود سوویت یونین کو اس جنگ میں بہت زیادہ نقصان پہنچا۔لیگ آف نیشنز نے اس حملے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سوویت یونین کو تنظیم سے بے دخل کر دیا۔کرسٹل پیلس میں آتشزدگی30نومبر1936ء کی شام سر ہنری بکلینڈ اپنی بیٹی کرسٹل کے ساتھ ٹہل رہے تھے، جس کا نام عمارت کے نام پر رکھا گیا تھا ۔ اسی دوران انہوں نے عمارت کے اندر سے روشنی آتی ہوئی دیکھی ،جب سر ہنری عمارت کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے دوملازمین کو دفتر میںلگی آگ سے لڑتے ہوئے دیکھا جو خواتین کے کمرے میں ایک دھماکے سے شروع ہوئی تھی۔صورتحال دیکھتے ہوئے فوراً فائر بریگیڈ کو بلایا گیا لیکن آگ بجھانے والے89انجن اور400سے زائد فائر مین مل کر بھی اس آگ پر قابو پانے میں ناکام رہے۔چند ہی گھنٹو ں میں پورا کرسٹل محل تباہ ہو گیا۔