حضرت خواجہ معین ا لدّین چِشتی اَجمیری رحمتہ اللہ علیہ

حضرت خواجہ معین ا  لدّین  چِشتی اَجمیری رحمتہ اللہ علیہ

اسپیشل فیچر

تحریر : مولانامحمد ناصر خان چشتی


عطائے رَسولؐ فی الہند،بانی سلسلۂ چشتیہ،سلطانُ الہندسلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ 14 رجب المرجب536ھ/1141 ء پیرکے دن قصبہ ’’سجستان‘‘میںمتولّد ہوئے۔آپ کے والدحضرت سیّدناخواجہ غیاث الدین ؒ برگزیدہ اورکامل ولی اللہ تھے۔ آپ کی والدئہ محترمہ حضرت بی بی ماہِ نورؒ بھی عابدہ اورزاہدہ خاتون تھیں۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نجیب الطرفین سیّد ہیں۔آپ کاسلسلۂ نسب تیرہویںپشت میں حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جاملتاہے۔سلطان الہندنے مقتدائے زمانہ ہستیوںسے علومِ دینیہ یعنی علم ِقرآن، حدیث، تفسیر، فقہ ، منطق اورفلسفے کی تعلیم حاصل کی۔آپ نے علم ظاہری کے حصول میں تقریباًچونتیس (34)برس صرف کیے۔ علم معرفت وسلوک کی تمناآپ کوایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی رہی۔ عراقِ عجم (ایران) میں پہنچ کر آپ نے مرشدِکامل کی تلاش کی اور بالآخر نیشاپور کے قصبے ’’ہارون‘‘میں حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی ؒ ایسے عظیم المرتبت بزرگ کی خدمت میںحاضرہوئے اورآپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے۔حضرت شیخ عثمان ہارونی ؒ نے آپ کو دولتِ بیعت ،خرقۂ خلافت اوراپناخاص مصلّٰی (جائے نماز)، عصااورپاپوش مبارک بھی عنایت فرمائے۔خواجہ غریب نواز ؒ اپنے پیرو مرشد کے ہمراہ بیس سال تک رہے اور بغداد شریف سے اپنے شیخ طریقت کے ہمراہ زیارتِ حرمین شریفین کا مبارک سفر اختیار فر ما یا ۔مکہ مکرمہ پہنچ کر مناسکِ حج ادا کر کے حضرت خواجہ شیخ عثمان ہا روَنی ؒ نے آپ ؒ کا ہاتھ پکڑ ا اور میزابِ رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر با رگاہِ خدا وندی میں دُعا فر ما ئی :’’اے میرے پروردگار! میرے معین الدین حسن کو اپنی با ر گاہ میں قبول فرما۔‘‘ غیب سے آوازآئی: ’’معین الدین !ہمارا دوست ہے، ہم نے اسے قبول فر ما یا اور عزّت و عظمت عطا کی۔‘‘ حضرت خواجہ عثمان ہا رونی ، خواجہ غریب نواز ؒ کو لے کر مدینہ منوّرہ میں بار گاہِ مصطفویؐ پہنچے اوردرودو سلام پیش کیا : ’’ الصلوٰ ۃ والسلام علیکم یا سیّد المرسلین و خاتم النبینؐ۔‘‘روضئہ اقدس سے جواب عنایت ہوا:’’ وعلیکم السلام یا قطب المشائخ۔‘‘ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ با ر گاہ ِ رسالت مآبؐ سے سلام کا جواب اورقطب المشائخ کا خطاب سُن کر بے حد خوش ہو ئے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ لا ہور تشریف لا ئے اورحضور دا تا گنج بخش سیّدعلی ہجویری ؒ کے مزار شریف پر حاضری دی ۔چالیس دن تک معتکف بھی رہے اور یہاں بے بہا انوارو تجلّیات سے فیض یا ب ہو ئے تو رخصت ہو تے وقت یہ شعر حضور داتا صاحب کی شان میں پیش کیا ۔گنج بخش ، فیض ِعالم ، مظہر نورِ خدا ناقصاں را پیر کامل ، کا ملاں رَا رہنما اس شعر کو اتنی شہرت نصیب ہو ئی کہ اس کے بعد حضور داتا گنج بخش سیّد علی ہجویری ؒ ’’داتا گنج بخش‘‘کے نام سے مشہور ہوگئے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میںایک نہایت ہی زرّیں با ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔لاکھوں کی تعداد میںلوگوں نے اسلام قبول کیا جب کہ آپ ؒ کے عقیدت مندوںمیں شامل سلطان شہاب الدین غوری،اُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمّت اور عادل حکم راں نے سیاسی اقتدار مستحکم کیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سُنّت کا قابلِ رشک نمونہ تھی۔ آپؒ دن میں روزہ رکھتے اور رات قیام میں گزارتے تھے۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبویؐ کا مکمل نمونہ تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ غرباء اور مساکین کے لیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے،اسی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘کے عظیم لقب سے یا د کرتی ہے۔ آپؒ فرماتے: ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اسے اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اُس کی رضا وخوش نودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوندِ قدوس اُسے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مظہر بن جائے۔‘‘سلطان الہندؒ جب علم و عرفاںاورمعرفت وسلوک کی منازل طے کرچکے تواپنے وطن واپس تشریف لے گئے ۔وطن میںقیام کیے ابھی تھوڑی مدّت ہوئی تھی کہ دل میںبیت اللہ اورروضہ نبویؐ کی زیارات کے لیے تڑپ پیدا ہوئی۔ اسی وقت مقدس سفرکے لیے چل پڑے۔ حضورسیّدِعالمؐ کے روضۂ اقدس کے پاس کئی دن تک عبادت میں مشغول رہے۔ایک دن روضۂ نبویؐ سے یہ سعادت افروزآوازآئی: ’’اے معین! تُوہمارے دین کامعین ومددگارہے،ہم نے تمہیںہندوستان کی ولایت پرفائزکیاہے، لہٰذااجمیرجاکرقیام کرو، وہاںکفر، شرک،گم راہی اورضلالت کی تاریکیاںپھیلی ہوئی ہیں۔تمہارے وہاں ٹھہرنے سے اسلام وہدایت کے سورج کی روشنی چہارسوپھیلے گی۔‘‘ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندو ستان میں اجمیرکہاں ہے؟ اچانک غنودگی ہوئی اور حضور سیّدِ دو عالمؐ کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپؐ نے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا۔وسط ہندکا مشہورشہراجمیر شریف توحیدورسالت کے اَنوارو تجلّیات اور علم وعرفاںکاروحانی مرکزبننے کے لیے بے حد مناسب تھا۔حضرتِ والانے مناسب جگہ پر مسکن بنایا۔ ذِکر، فکراوریادِخداوندی میں مشغول ہوگئے۔لوگوںنے جب آپ کی سیرت کردار،علم ا ورفضل دیکھاتووہ آپ کی طرف متوجّہ ہوتے گئے۔ایک مشہورروایت کے مطابق تقریباً نوّے (90) لاکھ غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہوکرمسلمان ہوئے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با ر گاہِ رسالت مآبؐ سے ’’قطب المشائخ‘‘کا لقب عطا ہوا۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔ انتہائی قلیل مدّت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حُسنِ اخلاق سے آپ کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دانگِ عالم بجنے لگا۔ اس ملک میں جہاں پہلے ’’نا قوس ‘‘ بجا کرتے تھے ، اب جگہ جگہ ’’صدائے اللہ اکبر‘‘ گونجنے لگی ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لاکھوں افراد کے دل درست، عقائد، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق کے نشیمن بنادیے۔ یوں تو ہزاروں کرامتیںآپؒ سے ظہور پزیر ہوئیں، لیکن آپؒ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کی انقلاب آفریں جدو جہد کے طفیل ہندوستان میںدین ِ اسلام کی حقانیت کا بو ل با لا ہوا۔ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی ابدی سلطنت نے اجمیر شریف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بہشتِ عقیدت اور جنّت ِمعرفت بنا دیا۔آپ ؒ نے تقریباً 45برس تک اجمیر شریف میں مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر مایا ۔سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ لاہور سے دہلی تشریف لے گئے، جہاںاُس دور میںہر طرف کفرو شرک اورگم راہی کادوردورہ تھا۔ آپ ؒنے یہاں کچھ عرصے قیام فرمایااورپھراپنے خلیفۂ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کو مخلوق کی ہدایت اورراہنمائی کے لیے متعین فرما کر خود حضور سیّدِ دوعالمؐ کے فرمان کے مطابق اجمیر جانے کاقصد فرمایا،آپ کی آمدسے نہ صرف اجمیر بلکہ پورے ہندوستان کی قسمت جاگ اٹھی۔ جب سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اجمیر شریف میں رونق افروز ہوئے تواُن دنوںوہاںپرہندوراجا پرتھوی کی حکمرانی تھی۔آپؒ کی آمدپر پرتھوی راج اور ہندو جوگیوں اور جادوگروں نے سخت مزاحمت کی تاکہ آپؒ اجمیر کو اپنا مرکزو مسکن نہ بنائیں،لیکن آپؒ کوتوبہ طورِخاص اسلام کی شمع روشن کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ مخالفت ہوتی رہی اور مقابلہ بھی ہوتارہا،لیکن آپؒ اپنے عظیم مقصدومشن میںلگے رہے اوربالآخر کام یابی نے آپؒ ہی کے قدم چومے۔ کچھ ہی عرصے میںراجا پرتھوی راج کے سب سے بڑے مندرکا سب سے بڑا پجاری ’’سادھورام‘‘سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا۔ اس کے بعد اجمیرکے مشہور جوگی’’جے پال‘‘نے بھی اسلام قبول کرلیا اور یہ دونوںبھی دعوتِ اسلام وہدایت اوراسلامی و روحانی مشن کی تبلیغ واشاعت میںخواجہ غریب نوازؒ کے ساتھ ہوگئے۔ اجمیرکاراجا پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوںسے حضرت والاکو تکلیف پہنچانے کی کوششیںکرتارہتالیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کی ہرتدبیراُلٹی ہوجاتی۔آخر تھک ہارکر پرتھوی راج نے نہایت ناشائستہ انداز و الفاظ میں18ہزارعالمین کامشاہدہ کرنے والے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کواجمیرسے نکل جانے کا کہاتو حضور خواجہ غریب نواز ؒ بے ساختہ مسکرادیے اورجلال میںآکر فرمایا: ’’میںنے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکرِاسلام کے سپردکردیا۔‘‘ آپؒ کافرمان درست ثابت ہوا اور تیسرے ہی روزفاتحِ ہند سلطان شہاب الدین غوری ؒ نے ہندوستان کوفتح کرنے کی غرض سے دہلی پر لشکرکشی کی۔راجا پرتھوی راج لاکھوںکا لشکر لے کرمیدانِ جنگ میںپہنچا۔کفرواسلام کے درمیان زبردست معرکے کے بعد سلطان غوری نے لشکرِ کفرکوشکستِ فاش دے کرپرتھوی راج کو گرفتار کرلیااوربعدازاں قتل ہوکرواصلِ جہنم ہوگیا۔ پرتھوی راج کی ذلت آمیز شکست، عبرت ناک قتل اور سلطان غوری ولشکر اسلام کی عظیم الشّان فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ جوق درجوق اسلام قبول کرنے لگے۔ یوں اجمیر شریف میںسب سے پہلے اسلامی پرچم سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے نصب فرمایا۔فاتحِ ہندسلطان شہاب الدین غوری بہ صدعجزو انکسارسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی خدمتِ عالیہ میںحاضرہوا اورآپ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ روایت ہے کہ دہلی فتح کرنے کے بعدجب سلطان شہاب الدین غوری اجمیرشریف میںداخل ہوئے تو شام ہوچکی تھی۔ مغرب کاوقت تھا، اذانِ مغرب سُنی تودریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ ایک درویش کچھ عرصے سے یہاں اقامت پزیرہیں۔ چناں چہ سلطان غوری فوراً مسجد کی طرف چل پڑے۔جماعت کھڑی ہوچکی تھی اور سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ مصلّے پرفائزہوکرامامت فرما رہے ہیں۔ سلطان غوری بھی جماعت میںشامل ہوگئے۔ نماز ختم ہوئی اوراُن کی نظر خواجہ غریب نوازؒ پرپڑی تویہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اُن کے سامنے وہی بزرگ جلوہ فرماہیں، جنہوںنے اُنہیں خواب میں’’فتح دہلی‘‘ کی بشارت دی تھی۔سلطان شہاب الدین غوری آگے بڑھے اورخواجہ غریب نوازؒکے قدموں میں گرگئے ، درخواست کی:’’ حضور!مجھے بھی اپنے مریدوں اور غلاموںمیںشامل فرمالیں۔‘‘ آپ ؒنے اس خواہش کو شرف ِقبولیت بخش کر اُنہیںمرید بنالیا۔ خواجہ اجمیریؒ آفتابِ طریقت بھی تھے اور ماہتابِ شریعت بھی۔ بڑے بڑے اولوالعزم شاہانِ زمانہ آپؒ کے آستانے پر حاضر ہو کر آپؒ کی قدم بوسی کو سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے۔سلطان شہاب الدین غوری آپ کی قدم بوسی کے لیے آیا۔کبھی سلطان شمس الدین التمش نے سر ِارادت جھکایااور یہ سلسلہ بعد از وصال بھی جاری رہا۔ کبھی سلطان محمود خلجی آپ کے روضۂ انور پر فتح کی دُعا مانگتا ہے تو فتح یاب ہوتا ہے ، کبھی اکبر بادشاہ درگاہِ عالیہ میں اولاد کی درخواست پیش کرتا ہے تو بامُراد لوٹتا ہے اور کبھی جہانگیر اپنی شفایابی پر سرِ دربار آپ ؒ کا غلام ہو جاتا ہے۔اُس وقت سے لے کر آج تک ہندوستان کے سارے حکم راں بلا امتیاز عقیدہ و مسلک، اس آستانہ ٔعالیہ پر اپنا سر نیاز جھکاتے آئے ہیں۔ آپ کے وسیلے اور قدومِ میمنتِ لزوم کے صدقے میں سر زمینِ ہند رشکِ آسماں بنی رہے گی۔اولیائے کرام آپؒ کے دربار کی خاک چوم کر اپنے قلب و روح کو مجلّٰی کرکے عروج پاتے ہیں۔ آج بھی آپ کی شانِ غریب نوازی کار فرما ہے۔ صاحبِ دل،اہلِ محبت اور اہلِ طریقت آپ ؒکے حُسنِ باطن اور عشقِ حقیقی کے تصرفات سے آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آپؒ کے نورِ ولایت کا آفتاب آج بھی چمک رہا ہے۔ آپ ؒ کا قلبی نور آج بھی ضیاء بخش عالم ہے۔آپؒ کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو آج بھی آبِ حیات اور بارانِ رحمت کی طرح فیض رساں ہیں۔حضرت خواجۂ خواجگان، قطب الاقطاب، سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒسے اِن جلیل القدر ہستیوں کو بھی خلافت حاصل ہوئی۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ، حضرت علائو الدّین علی بن احمد صابر کلیریؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب ِالٰہی، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ شامل ہیں۔یہ برگزیدہ اور عظیم المرتبت بزرگ اپنے وقت کے ولیٔ کامل اور باکرامت اولیاء اللہ ہوئے۔ آپؒ کی ساری زندگی امربالمعروف ونہی عن المنکرپر عمل کرتے ہوئے گزری۔بالآخریہ عظیم پیکرِعلم وعرفاں، حاملِ سُنّت وقرآں، محبوبِ یزداں، محب سروروکون ومکاں، شریعت وطریقت کے نیرتاباںحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ 6رجب المرجب633ھ/1236ء کو غروب ہو کر واصلِ ربِّ دوجہاںہوگیا۔روایات میں آتا ہے کہ جس وقت آپؒ کا وصال ہوا،آپؒ کی پیشانی مبارکہ پرنورانی خط میں تحریرتھا…مَاتَ حَبِیْبُ اللّٰہ،فِیْ حُبِّ اللّٰہ…یعنی اللہ کا دوست، اللہ کی محبت میں وصال فرماگیا۔خواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کا مزارپُرانوار اجمیر شریف(انڈیا) میں مرجع خلائق ہے۔آپ کے مزارِ پر مسلمان ہی نہیں ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے بھی لاکھوں افراد عقیدت و محبت کے ساتھ حاضر ہو تے ہیں۔ درگاہِ عا لیہ آج بھی ایمان و یقین اور علم و معرفت کے نو ر بر ساتی ہے اور ہزاروں خوش نصیب لو گ فیض یاب ہو تے ہیں۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال ناصرف اجمیرشریف میں بلکہ پورے پاک وہند میں پورے عقیدت واحترام اورتزک واحتشام کے ساتھ منایاجاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
نمونیابچوں کو نگلنے والا مرض

نمونیابچوں کو نگلنے والا مرض

12 نومبر کو دنیا بھر میں نمونیا سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ یہ دن منانے کا مقصد اس بیماری سے بچائو اور احتیاطی تدابیر سے متعلق لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔نمونیا پھیپھڑوں میں ہونے والے انفیکشن کو کہتے ہیں۔یہ مرض لاحق ہونے کی صورت میں جسم میں آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور بالآخر انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں شیر خوار بچوں کی اموات کی بڑی وجہ نمونیا ہے۔ اس کی ابتدائی علامات نزلہ اور زکام ہوتی ہیں تاہم اس کی درست تشخیص کیلئے ایکسرے کیا جانا ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فائونڈیشن کے اشتراک سے عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیا ہے۔ ان ممالک میں انگولا، ایتھوپیا، نائجیریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔ اسی طرح ایشیا میں بھی یہ شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا سبب بننے والی بیماری ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر سال کم و بیش 70 ہزار سے زائد بچے نمونیا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں دنیا بھر میں 4 لاکھ37 ہزار بچوں کی موت نمونیا کی وجہ سے ہوئی۔ سب سے زیادہ نمونیا پائے جانے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں 2018ء کے اعدادو شمار کے حوالے سے نمونیا سے متاثرہ ممالک کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے، جس میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے جبکہ بھارت دوسرے اور نائیجیریا پہلے نمبر پر ہے۔ عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی رپورٹ کے مطابق ہر 39 سیکنڈ میں ایک بچہ نمونیا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے جبکہ روزانہ کم از کم 2200 بچے نمونیا کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق زیادہ تر اموات 2 سال سے کم عمر بچوں میں دیکھنے میں آئیں جبکہ سالانہ ایک لاکھ 53 ہزار بچے زندگی کے پہلے مہینے میں ہی نمونیا کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق بچوں کی طرح بزرگ افراد بھی نمونیا کے باعث موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ ایسے افراد جو پہلے ہی کسی مرض میں مبتلا ہوں جیسے دمہ، ذیابیطس اور امراض قلب،انہیں اگر نمونیا ہوجائے تو یہ ان کیلئے شدید خطرے کی بات ہے۔جن افراد کی قوت مدافعت کمزور ہو وہ بھی نمونیا کے باعث موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔علامات : بلغم والی کھانسی ،تیز بخار، سانس لینے میں دشواری ،سینے میں درد ،بہت زیادہ پسینے آنا، معدہ یا پیٹ کا درد ،پھیپھڑوں میں سے چٹخنے کی سی آوازیں آنا ،بھوک ختم ہونا کھانسی یا بلغم کو نگلنے کی وجہ سے قے ہونا ،حد درجہ تھکاوٹ، ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر پریشانی محسوس ہونا۔علاج: نمونیا میں ماہرین صحت اینٹی بائیوٹکس کا کورس تجویز کرتے ہیں جسے پورا کرنا ازحد ضروری ہے۔ اگر کورس کے دوران مریض کی حالت بہتر ہوجائے تب بھی کورس کو ادھورا نہ چھوڑا جائے۔نمونیا ایک ایسا انفیکشن ہے جو ایک یا دونوں پھیپھڑوں میں ہوا کی نالیوں میں سوجن پیدا کرتا ہے۔ڈاکٹر کیا کر سکتا ہے؟: اگر ڈاکٹر کو نمونیا کا شبہ ہوتو ممکن ہے کہ آپ کے بچے کے سینے کا ایکسرکرے۔ ڈاکٹر آپ کے بچے کے خون کے کچھ ٹیسٹ بھی کروانے کی ہدایت دے سکتا ہے۔ وائرس کے باعث ہونے والے نمونیا کا علاج اینٹی بائیوٹک سے کرنے کی ضرورت نہیں لیکن وائرل اور بیکٹیریل کی الگ الگ وجوہات بتانا مشکل ہو سکتی ہیں۔ اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کرنے سے پہلے آپ کے بچے کا ڈاکٹر بہت سے عوامل کو مدنظر رکھے گا۔ اس مرض سے متاثرہ شدہ پھیپھڑے ایکسرے میں سفید آتے ہیں یہ سفید سایہ پھیپھڑوں کی ہوا کی نالیوں میں مادہ بننے کی وجہ سے نظر آتا ہے۔کھانسی :اس بات کا بھی امکان ہے کہ آپ کے بچے کی کھانسی صحیح ہونے سے پہلے شدید ترین ہو جائے، جیسے ہی نمونیا تحلیل ہوتا ہے آپ کا بچہ بلغم سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے کھانسے گا۔ ممکن ہے کہ اس کی کھانسی کچھ ہفتوں تک جاری رہے۔ احتیاط :اکثر لوگ کھانسی کی عام شکایت دور کرنے کیلئے چند سادہ اور گھریلو نسخوں کا سہارا لیتے ہیں جو کارآمد بھی ثابت ہوتے ہیں، لیکن بعض صورتوں میں یہ نظامِ تنفس میں خرابیوں کا سبب بن سکتے ہے۔ اس کی وجہ سے حلق کی سوزش، سانس کی نالی میں انفیکشن یا پھیپھڑوں کے مسائل جنم لیتے ہیں اور موثر علاج نہ کیا جائے تو یہ مسئلہ خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ماہرینِ صحت کے مطابق شدید کھانسی کی شکایت تین ہفتے سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے۔ عام طور پر بازار میں دستیاب ادویات کے استعمال سے افاقہ ہو جاتا ہے، لیکن بعض صورتوں میں کھانسی سے نجات حاصل کرنے میں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ کھانسی کا تعلق نظام تنفس کی پیچیدگیوں سے ہوتا ہے۔ یہ خشک اور شدید قسم کی ہو یا اس کی وجہ سے حلق کی سوزش کا مسئلہ پیدا ہو گیا ۰ہو۔متاثرہ فرد کو فوراً طبی علاج کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ 

ڈیتھ اسٹار لیزرہتھیار

ڈیتھ اسٹار لیزرہتھیار

لیزر ٹیکنالوجی کے بغیر ہم آج کے جدید طرزِ زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیزر وہ روشنی ہے، جو قدرتی طور پر ہماری کائنات میں وجود نہیں رکھتی۔ یکساں رفتار کے ساتھ حرکت کرنے والی اور یوں ایک دوسرے کو اور زیادہ طاقتور بنانے والی اِن لہروں کے بارے میں پیش گوئی تو آئن سٹائن نے بھی کی تھی لیکن ان کی باقاعدہ دریافت 64سال پہلے ہوئی۔پہلی مرتبہ لیزر شعاعوں کو سولہ مئی 1960ء کو امریکی انجینئر تھیوڈور میمن نے دنیا سے متعارف کروایا تھا۔64 سال پہلے جب اِس ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا گیا تو بہت سے لوگوں نے اِسے کسی مسئلے کے حل کی بجائے الٹا اِسے ایک مسئلہ قرار دیا تھا۔ لیزر شعاعیں دھات کی موٹی تہوں کو کاٹنے اور کسی خلیے کے اندر تک جھانک کر ساری تفصیلات دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اِنہیں کاروں کے مختلف حصوں کو ویلڈنگ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ ملانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فائبر گلاس کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک ڈیٹا پہنچا سکتی ہیں۔اِن شعاؤں کے بغیر نہ تو موبائل فونز کی بیٹریاں تیار کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں کیلئے ہارٹ پیس میکر بنایا جا سکتا ہے۔ اور تو اور، لیزر شعاعوں کے بغیر نہ تو سی ڈی کا وجود ہوتا اور نہ ہی ڈی وی ڈی کا۔ اِس قدر کامیابیوں کے باوجود انسان ابھی لیزر کے تمام تر امکانات سے واقف نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ا ِن شعاعوں پر تحقیق کا سلسلہ پوری دْنیا میں جاری ہے۔حال ہی میں چین کے سائنسدانوں نے ایک حقیقی ''ڈیتھ اسٹار‘‘لیزر ہتھیار میں اہم پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ نیا ہائی پاور مائیکروویو ہتھیار کئی چھوٹی برقی مقناطیسی لہروں کو یکجا کر کے ایک بڑا لیزر بیم بناتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ''اسٹار وارز‘‘کی ڈیتھ اسٹار نے کئی چھوٹی شعاعوں کو یکجا کر کے ایک طاقتور شعاع سے سیاروں کو تباہ کیا تھا۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت ''ultra-high time precision synchronization‘‘ کے عمل میں ہے، جو شعاعوں کو آپس میں جوڑنے اور ایک ہی مقام پر مرکوز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔سائنسدانوں کے مطابق، چھوٹی لیزر شعاعوں کے درمیان وقت کی تفریق 170 پیکو سیکنڈز سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، یعنی سیکنڈ کے کھربوں حصوں کے برابر۔ محققین نے یہ کامیابی آپٹیکل فائبرز کی مدد سے حاصل کی۔ یہ عظیم ٹیکنالوجی کی ترقی جو آپٹیکل فائبرز کے استعمال سے ممکن ہوئی نے ہتھیار کے نظام کو فوجی تجربات میں کامیاب ہونے کی اجازت دی۔چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار امریکی جی پی ایس اور دیگر سیٹلائٹس کے سگنلز کو دبا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ شعاعوں کی مشترکہ طاقت انفرادی شعاعوں کی طاقت سے زیادہ ہو سکتی ہے۔یہ ہتھیار خلا میں استعمال کیلئے بنائے گئے ہیں نہ کہ زمینی، بحری یا فضائی افعال کیلئے۔ چین لیزر ہتھیاروں پر طویل عرصے سے کام کر رہا ہے۔ پچھلے سال یہ انکشاف ہوا تھا کہ چینی حکومت ایک ''دماغی خلل ڈالنے والا‘‘ ہتھیار تیار کر رہی ہے۔ یہ پروگرام غیر ملکی ممالک کے فوجی اور حکومتی عہدیداروں کو ہدف بنانے کیلئے بنایا گیا تھا۔ سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ایسٹ ایشین انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو نے کہا کہ یہ ہتھیار ممالیہ کے دماغوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور حتیٰ کہ ان پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔ چین نے چند سال قبل ایک پروٹو ٹائپ لیزر رائفل بھی تیار کی تھی جو نصف میل کی دوری سے ہدف کو جلا سکتی تھی۔ 

آج کا دن

آج کا دن

مائی لائی قتل عام12 نومبر 1969ء کو امریکہ کے ''پولٹزر ایوارڈ‘‘ یافتہ صحافی سیمر ہیرش نے دنیا کو ویتنام میں ہونے والے ''مائی لائی قتل عام‘‘ سے آگاہ کیا۔ اس قتل عام میں امریکی فوجیوں نے بچوں اور عورتوں سمیت 500 سے زائد شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ویت نام جنگ کے دوران ریاستہائے متحدہ امریکہ کے فوجیوں نے مائی لائی اور میرا کیہ کے گاؤں میں ویتنامی شہریوں کا یہ قتل عام 6 مارچ 1968ء کو کیا تھا۔جرمنی میں ریفرنڈم12نومبر1933ء کو جرمنی میں لیگ آف نیشنز سے دستبرداری کیلئے ایک ریفرنڈم کروایا گیا۔اس ریفرنڈم کو95.1فیصد لوگوں نے منظور کیا۔ یہ ہٹلر کی قیادت میں ہونے والا پہلا ریفرنڈم تھا۔ بیلٹ پیپر پر یہ سوال تحریر کیا گیا تھا کہ '' کیا آپ جرمن حکومتی پالیسی کو منظور کرتے ہیں اور کیا آپ اپنی رائے اور مرضی کے اظہار کے طور پر اس بات کا اعلان کرنے کیلئے تیار ہیں‘‘؟پیرس نمائش 12 نومبر 1900ء میں بین الاقوامی پیرس نمائش دیکھنے والے زائرین کی تعداد 50 ملین (5کروڑ)کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔ اس نمائش میں سلطنت عثمانیہ کے آجروں سمیت 76 ہزار سے زائد آجروں نے شرکت کی۔ نمائش میں سینما ، فلمیں اورچلتی سیڑھیاں زائرین کی توجہ کا مرکز بنیں۔جہازوں کا ہوا میں تصادم12نومبر1996ء کو بھارت کی فضا میں ایک ہولناک حادثہ پیش آیا۔ سعودی عرب کی پرواز 763 اور قازقستان ایئر لائنز کی پرواز 1907دہلی کے مغرب میں 100کلومیٹر دور واقعہ چرخی دادری میں ایک دوسرے سے ہوا میں ٹکرا گئیں۔ اس حادثے میں دونوں طیاروں میں سوار349افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ فضاء میں ہونے والے حادثات میں سب سے مہلک حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ حادثے کی وجہ قازقستان ایئر لائنز کے عملے کا جہاز کی بلندی برقرار نہ رکھنا تھا۔ ایس ٹی ایس ٹو خلائی شٹل''ایس ٹی ایس ٹو‘‘ ناسا کی جانب سے بھیجا جانے والا دوسرا خلائی شٹل مشن تھا۔ جس کا آغاز 12نومبر1981ء کو کیا گیا اور دو دن بعد14نومبر کو یہ اپنے مدار میں داخل ہوا۔ اس شٹل کے ذریعے بہت سے تجربات کئے گئے جن میں شٹل امیجنگ ریڈار کا بھی استعمال کیا گیا۔ اس شٹل کی جانب سے سرانجام دیئے جانے والے اہم کاموں میں ''آربیٹل مینیوورنگ سسٹم‘‘ پر مختلف ٹیسٹ بھی شامل تھے۔ جن میں مدار میں رہتے ہوئے انجن کو شروع کرنا اور اس کے مدار میں مختلف ایڈجسٹمنٹ کرنا سب سے مشکل کام تھا۔ایردوت معاہدہایردوت معاہدہ 12نومبر1995ء کو جمہوریہ کروشیا اور مقامی حکام کے درمیان سرکاری طور پر طے کیا جانے والا ایک معاہدہ تھا۔ مشرقی کروشیا میں جنگ آزادی کے پرامن حل پر مشرقی سلاونیا، بارانجا اور مغربی سیرمیم کے علاقے کے سرب حکام نے مرکزی حکومت کے کنٹرول کا عمل شروع کیا اور اقلیتوں کے حقوق اور پناہ گزینوں کی واپسی پر ضمانتوں کا ایک سیٹ فراہم کیا۔ اس معاہدے کا نام ایردوت Erdut رکھا گیا تھا کیونکہ اس پر دستخط ایردوت گاؤں میں کئے گئے تھے۔

مارٹن کوپر موبائل فون کا بانی

مارٹن کوپر موبائل فون کا بانی

یہ 3 اپریل 1973ء کا ایک دن تھا جب ناسا کے زیر انتظام ''اپولو پروگرام‘‘ کے ایک سابق امریکی انجینئر جوئل اینجل، بیل لیبز نامی کمپنی کی لیبارٹری میں معمول کا کام کر رہے تھے جب ان کے لینڈ لائن فون پر گھنٹی بجی۔انہوں نے فون اٹھایا، ہیلو کیا تو دوسری طرف سے آواز آئی، '' ہیلو جوئل‘‘۔ یہ آواز ''موٹورولا ‘‘ نامی ریڈیو اور الیکٹرانکس کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر کی تھی۔کوپر نے اپنے مخاطب اینجل کو فاتحانہ اور جذباتی انداز میں مخاطب کر کے کہا ،'' مسٹر اینجل ! کیا تم سوچ سکتے ہو کہ اس وقت میں تم سے ایک موبائل فون کے ذریعے بات کر رہا ہوں۔ایک حقیقی موبائل فون،ایک ایسا فون جسے ہاتھ میں تھامے کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے‘‘۔یہ آج سے لگ بھگ 51 سال پہلے دنیا کے سب سے پہلے موبائل فون کی وہ گفتگو تھی جو دو سائنسدانوں کے درمیان ہوئی تھی ، صرف یہی نہیں بلکہ فون پر بجنے والی یہ گھنٹی بھی کسی موبائل فون کے ذریعے پہلی گھنٹی تھی۔ موبائل فون کی ایجاد کا آئیڈیا دراصل دو کمپنیوں یعنی '' موٹورولا‘‘ اور '' بیل لیبز‘‘ کے ذہنوں میں ایک عرصہ سے چل رہا تھا اور دونوں کمپنیوں کے انجینئر ز سر توڑ کوششو ں میں مصروف تھے کہ انہیں ایک ایسے فون کی ایجاد تک رسائی میں کامیابی ہو جائے جو تاروں کے جھنجھٹ سے آزاد ہو تاکہ اسے کہیں بھی باآسانی لے جایا جا سکے۔ چنانچہ اس مسابقتی جنگ میں 1973ء میں موٹورولا کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر پہل کرکے تاریخ کے پہلے '' موبائل فون موجد‘‘ کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام رقم کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ کوپر کو '' موبائل فون کا باپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔2010ء میں مارٹن کوپر نے برطانوی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتا یا، میرے ذہن میں اکثر یہ خیال آتا تھا کہ چونکہ ہم سو سال سے زیادہ عرصہ سے ایک تار کے ذریعے گھر یا دفتر کے فون سے بندھے ہوئے ہیں جبکہ ہماری سوچ یہ تھی کہ انسان بنیادی طور پر ایک متحرک مخلوق ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوں ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔ ہمیں ایک ایسے آلے کی خواہش تھی جو ہماری ان خواہشات پر پورا اترتا ہو۔ ہم اپنی اس خواہش کے ہدف تک پہنچنے کی کوشش میں دن رات جتے رہتے تھے۔ہم نے سب سے پہلے جو آلہ ایجاد کیا، وہ ایک چھوٹی سی ہینڈ ہیلڈ ڈیوائس تھی،جسے ''کمیونیکیٹر‘‘کا نام دیا گیا۔یہ ڈیوائس تقریباً 4 انچ لمبی اور اس کا وزن آدھ کلوگرام تھا۔ اس کے ذریعے شروع میں صرف بیس منٹ تک بات ہو سکتی تھی کیونکہ اس کی بیٹری کا دورانیہ ہی اتنا ہوتا تھا۔یہ پہلا فون اینٹ کی شکل کا ہوتا تھا جس میں ایک بڑا انٹینا لگا ہوتا تھا مگر اس میں کوئی سکرین نہیں تھی۔اگرچہ یہ دیکھنے میں کوئی خوبصورت اور پرکشش نہیں تھا، تاہم یہ ایک تاریخ رقم کرنے میں ضرور کامیاب ہو گیا تھا۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 1973ء میں دنیا کے پہلے موبائل فون کی پہلی کال کی ایجاد اس قدر مقبول ہو جائے گی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس موبائل فون کی صنعتوں کا جال بچھ جائے گا۔ شروع شروع میں یہ ایک انتہائی مہنگا پراجیکٹ تھا۔اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1983ء تک ایک موبائل فون کی قیمت 4 ہزار ڈالر تھی جو آج کل قدر کے حساب سے 10 ہزار ڈالر بنتے ہیں ( یعنی پاکستانی 27 لاکھ 92ہزار روپے تقریباً )۔ شروع شروع میں ان کی ٹیم کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ ہزار کے لگ بھگ پرزوں پر مشتمل فون کے حجم کو کیسے کم کیا جائے کیونکہ اس نئے فون کا ایک بڑا حصہ بھاری بھر کم بیٹری پر مشتمل تھا۔ اس بیٹری کا دورانیہ صرف 20 منٹ پر مشتمل تھا۔اسی ا نٹر ویو میں مارٹن نے بتایا کہ پہلا موبائل فون بنانے پر موٹورولا کمپنی کا تقریباً دس لاکھ ڈالر خرچہ آیا تھا۔ اس وقت تک انہیں قطعاً یہ اندازہ نہیں تھا کہ صرف 35سال میں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس اپنا موبائل فون ہو گا اور یہ کہ ٹوئٹر اور فیس بک نامی سہولتیں بھی معرض وجود میں آئیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں مارٹن نے کہا موبائل فون بنانے کا ابتدائی مقصد تو ڈاکٹرز اور ہسپتال کے عملے کے درمیان موثر رابطوں کو بہتر کرنا تھا لیکن ایسا ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن سگریٹ کی ڈبیہ جتنا یہ آلہ ہر عام و خاص کی جیب میں ہو گا۔ ٹیکنالوجی کی اس دوڑ میں کمپیوٹر چپس اور ٹرانزسٹر چھوٹے سے چھوٹے اور تیز سے تیز ہوتے چلے گئے جن سے ان آلات کی فعالیت اور استعمال کو وسعت ملتی چلی گئی۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ تکنیکی صلاحیتیں دن بدن بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔یہاں تک کہ آج کے سمارٹ فونز میں بنکنگ سے لے کر ہر شعبہ زندگی کی سہولت موجود ہے۔گویا آپ کا پرسنل اسسٹنٹ آپ کی جیب میں ہے اور تو اور آپ کا کیمرہ ، آپ کی سینما سکرین، آپ کا میوزک سسٹم آپ کا بیرو میٹر، تھرما میٹر ، میگنیومیٹر ، انفراریڈ سینسرز ، فنگر پرنٹ سینسرز ، سکینر سمیت اور بہت کچھ صرف آپ کے ایک '' ٹچ‘‘ کے تابع ہیں۔ موبائل فونز کے انٹر نیٹ کی رفتار میں بہتری کے بعد اب ان کی کمپیوٹیشنل صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔مثال کے طور پر اگر میڈیسن کے شعبے کی بات کریں تو دماغ کی سرجری میں آئی فون نے پہلے ہی ان مہنگے آلات کی جگہ لینی شروع کردی ہے جو انڈوسکوپ کے ذریعے لی گئی ویڈیو ز دکھاتے ہیں۔ یہی حال ویڈیو کالنگ کا ہے جو دور دراز علاقوں میں مریضوں کے ساتھ بات چیت اور ان کی تشخیص کو ممکن بناتی ہے غرضیکہ موبائل فون کے استعمال اور سہولیات کا دائرہ کار اس قدر وسیع ہے کہ بادی النظر میں عقل اسے تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ سمارٹ فون نعمت تو ہے لیکن موبائل فون جس تیزی سے ہماری ذاتی اورمعاشرتی زندگیوں کا جزولاینفک بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کا اندازہ خود اس کے خالق، مارٹن کوپر کو بھی نہ تھا ، تبھی تو اس نے ایک موقع پر کہا تھا ''لوگ ایک جنون کی طرح اس کو استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔ جب میں کسی کو سڑک پار کرتے وقت موبائل فون استعمال کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ ایسے لوگوں کا دماغ خراب ہے، اگر ایسے میں ان پر کوئی گاڑی چڑھ دوڑے تو پھر افسوس کرنے کا کیا فائدہ۔ آگے چل کر اسی انٹرویو میں مارٹن کوپر کہتے ہیں ، میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا کہ موبائل فون ایسے استعمال ہو گا جیسے میرے پوتے اور نواسے کرتے ہیں‘‘۔  

موبائل فون زحمت بھی ہے

موبائل فون زحمت بھی ہے

جیسے کہا جاتا ہے کہ زندگی میں ہر چیز کی زیادتی باعث نقصان ہو سکتی ہے ۔ یہی حال موبائل فون کے بے جا استعمال کے نقصانات کا ہے ، جس کا زیادہ استعمال بچوں ، بوڑھوں بلکہ سبھی کی صحت کو درپیش ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں موبائل فون کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے آنکھوں میں تابکاری اثرات کی وجہ سے ''مائیوپیا‘‘ اور دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں۔آگے چل کر اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تابکاری کے یہ اثرات دماغ اور جلد پر بھی براہ راست اثر انداز ہو رہے ہیں ، یہی نہیں بلکہ دماغ میں ٹیومر جیسی بیماریوں کے خطرات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے کچھ سال پہلے موبائل فون استعمال کرنے والوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ موبائل ریڈی ایشن ، درد شقیقہ اور پٹھوں کے مستقل درد کا باعث بن سکتا ہے۔ماہرین ایک دن میں دو گھنٹے سے زیادہ موبائل فون کے استعمال سے منع کرتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ آنکھوں اور موبائل فون کے درمیان کم از کم 18 انچ فاصلے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ مسلسل سکرین پر نظر جمانے سے آنکھوں میں تنائو کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کب بنی،کیسے ختم ہوئی،چند حیران کن حقائق

ایسٹ انڈیا کمپنی کب بنی،کیسے ختم ہوئی،چند حیران کن حقائق

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی ایک نجی کارپوریشن تھی جسے دسمبر 1600ء میں تشکیل دیا گیا تاکہ مصالحہ جات کی منافع بخش تجارت میں برطانوی موجودگی یقینی بنائی جا سکے۔ اس وقت تک اس تجارت پر ہسپانویوں اور پرتگالیوں کی اجارہ داری تھی۔ وقت کے ساتھ یہ کمپنی جنوبی ایشیا میں برطانوی سامراج کے انتہائی طاقت ور کارندے کی حیثیت کر گئی اور ہندوستان کے بڑے علاقے کی حقیقی حکمران بن گئی تھی۔ وسیع بدعنوانی اور دیگر وجوہ کی بنا پر تجارت پر کمپنی کی اجارہ داری اور سیاسی کنٹرول کو ختم کر دیا گیا، اور 1858ء میں ہندوستان میں اس کی جائیدادوں کو تاج برطانیہ نے قومیا لیا۔ 1874ء میں ایک ایکٹ کے تحت رسمی طور پر اسے تحلیل کر دیا گیا۔ ۱۔ غلاموں کی تجارت سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے غلاموں کی تجارت پر انحصار کیا۔ حجم میں یہ بحراوقیانوس کے آر پار غلاموں کی تجارت کرنے والی رائل افریقن کمپنی جیسی انٹرپرائزز کی نسبت چھوٹی تھی، تاہم ایسٹ انڈیا کمپنی کو غلاموں کو دور دراز علاقوں تک پہنچانے میں مہارت حاصل تھی۔ ۲۔ اپنی فوج کمپنی کی اپنی فوج تھی۔ 1800ء میں اس کے پاس دو لاکھ سپاہ تھی۔ اس وقت کی برطانوی فوج کے مقابلے میں یہ تعداد دگنی تھی۔ ان ہندوستانی ریاستوں کو زیرنگیں کرنے کے لیے کمپنی نے اپنی فوج استعمال کی جن کے ساتھ پہلے اس نے تجارتی معاہدے کر رکھے تھے۔ اس کا مقصد من مرضی کے ظالمانہ ٹیکس اور پابندیاں لاگو کرنا اور معاشی فائدے کے لیے مقامی ہنر مند اور غیر ہنرمند محنت کشوں کا استحصال کرنا تھا۔ 1857-58ء کی ناکام جنگ آزادی میں کمپنی کی فوج نے گھناؤنا کردار ادا کیا۔ اس جنگ کے خاتمے پر کمپنی کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔ ۳۔ افیون کی فروختانیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان سے چائے اور دیگر سامان خریدنے کیلئے مالی وسائل پیدا کرنے کی خاطر کمپنی نے چین میں غیرقانونی طور پر افیون فروخت کرنا شروع کی۔ چین میں اس تجارت کی مزاحمت نے پہلی اور دوسری جنگ افیون (1839-42، 1856-60ء) کو جنم دیا۔ دونوں جنگوں میں برطانویوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ۴۔ کم خرچکمپنی کا انتظام و انصرام انتہائی مؤثر اور کم خرچ تھا۔ شروعاتی 20 برسوں میں یہ اپنے گورنر سر تھامس سمیتھ کے گھر سے چلائی جاتی رہی جس میں کام کرنے والا عملہ صرف چھ افراد پر مشتمل تھا۔ 1700ء میں اسے لندن کے ایک چھوٹے سے دفتر سے چلایا جاتا تھا جس میں 35 مستقل ملازمین کام کرتے تھے۔ 1785ء میں، جب یہ لاکھوں کی آبادی کے علاقوں کو کنٹرول کرتی تھی، لندن میں اس کا مستقل عملہ 159 افراد پر مشتمل تھا۔ ۵۔ اختیارات کا غلط استعمالاختیارات کے غلط استعمال اور 1770ء میں بنگال میں آنے والے بڑے قحط کے بعد کمپنی کے مالیہ اراضی میں بہت کمی آئی۔ اس کمی کے بعد اس نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے 1772ء میں10 لاکھ پاؤنڈ کے فوری قرضے کی درخواست دی۔ اگرچہ برطانوی حکومت نے کمپنی کی مدد کی لیکن اس پر سخت تنقید ہوئی اور پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے بعد حکومت نے اس کے انتظام و انصرام کی نگرانی شروع کر دی۔ بعد ازاں انڈین ایکٹ 1784ء کے ذریعے ہندوستان میں اس کی سیاسی پالیسی کو بھی حکومتی کنٹرول میں لایا گیا۔