حضرت خواجہ معین ا لدّین چِشتی اَجمیری رحمتہ اللہ علیہ

حضرت خواجہ معین ا  لدّین  چِشتی اَجمیری رحمتہ اللہ علیہ

اسپیشل فیچر

تحریر : مولانامحمد ناصر خان چشتی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

عطائے رَسولؐ فی الہند،بانی سلسلۂ چشتیہ،سلطانُ الہندسلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ 14 رجب المرجب536ھ/1141 ء پیرکے دن قصبہ ’’سجستان‘‘میںمتولّد ہوئے۔آپ کے والدحضرت سیّدناخواجہ غیاث الدین ؒ برگزیدہ اورکامل ولی اللہ تھے۔ آپ کی والدئہ محترمہ حضرت بی بی ماہِ نورؒ بھی عابدہ اورزاہدہ خاتون تھیں۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نجیب الطرفین سیّد ہیں۔آپ کاسلسلۂ نسب تیرہویںپشت میں حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جاملتاہے۔سلطان الہندنے مقتدائے زمانہ ہستیوںسے علومِ دینیہ یعنی علم ِقرآن، حدیث، تفسیر، فقہ ، منطق اورفلسفے کی تعلیم حاصل کی۔آپ نے علم ظاہری کے حصول میں تقریباًچونتیس (34)برس صرف کیے۔ علم معرفت وسلوک کی تمناآپ کوایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی رہی۔ عراقِ عجم (ایران) میں پہنچ کر آپ نے مرشدِکامل کی تلاش کی اور بالآخر نیشاپور کے قصبے ’’ہارون‘‘میں حضرت خواجہ شیخ عثمان ہاروَنی ؒ ایسے عظیم المرتبت بزرگ کی خدمت میںحاضرہوئے اورآپ کے دست مبارک پرشرف ِبیعت سے فیض یاب ہوئے۔حضرت شیخ عثمان ہارونی ؒ نے آپ کو دولتِ بیعت ،خرقۂ خلافت اوراپناخاص مصلّٰی (جائے نماز)، عصااورپاپوش مبارک بھی عنایت فرمائے۔خواجہ غریب نواز ؒ اپنے پیرو مرشد کے ہمراہ بیس سال تک رہے اور بغداد شریف سے اپنے شیخ طریقت کے ہمراہ زیارتِ حرمین شریفین کا مبارک سفر اختیار فر ما یا ۔مکہ مکرمہ پہنچ کر مناسکِ حج ادا کر کے حضرت خواجہ شیخ عثمان ہا روَنی ؒ نے آپ ؒ کا ہاتھ پکڑ ا اور میزابِ رحمت کے نیچے کھڑے ہو کر با رگاہِ خدا وندی میں دُعا فر ما ئی :’’اے میرے پروردگار! میرے معین الدین حسن کو اپنی با ر گاہ میں قبول فرما۔‘‘ غیب سے آوازآئی: ’’معین الدین !ہمارا دوست ہے، ہم نے اسے قبول فر ما یا اور عزّت و عظمت عطا کی۔‘‘ حضرت خواجہ عثمان ہا رونی ، خواجہ غریب نواز ؒ کو لے کر مدینہ منوّرہ میں بار گاہِ مصطفویؐ پہنچے اوردرودو سلام پیش کیا : ’’ الصلوٰ ۃ والسلام علیکم یا سیّد المرسلین و خاتم النبینؐ۔‘‘روضئہ اقدس سے جواب عنایت ہوا:’’ وعلیکم السلام یا قطب المشائخ۔‘‘ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ با ر گاہ ِ رسالت مآبؐ سے سلام کا جواب اورقطب المشائخ کا خطاب سُن کر بے حد خوش ہو ئے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ لا ہور تشریف لا ئے اورحضور دا تا گنج بخش سیّدعلی ہجویری ؒ کے مزار شریف پر حاضری دی ۔چالیس دن تک معتکف بھی رہے اور یہاں بے بہا انوارو تجلّیات سے فیض یا ب ہو ئے تو رخصت ہو تے وقت یہ شعر حضور داتا صاحب کی شان میں پیش کیا ۔گنج بخش ، فیض ِعالم ، مظہر نورِ خدا ناقصاں را پیر کامل ، کا ملاں رَا رہنما اس شعر کو اتنی شہرت نصیب ہو ئی کہ اس کے بعد حضور داتا گنج بخش سیّد علی ہجویری ؒ ’’داتا گنج بخش‘‘کے نام سے مشہور ہوگئے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی انقلاب آفرین شخصیت ہندوستان کی تاریخ میںایک نہایت ہی زرّیں با ب کی حیثیت رکھتی ہے ۔لاکھوں کی تعداد میںلوگوں نے اسلام قبول کیا جب کہ آپ ؒ کے عقیدت مندوںمیں شامل سلطان شہاب الدین غوری،اُن کے بعدسلطان قطب الدین ایبک اور سلطان شمس الدین التمش ایسے با لغ نظر ، بلند ہمّت اور عادل حکم راں نے سیاسی اقتدار مستحکم کیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی حیاتِ مبارکہ قرآن و سُنّت کا قابلِ رشک نمونہ تھی۔ آپؒ دن میں روزہ رکھتے اور رات قیام میں گزارتے تھے۔ آپ مکارمِ اخلاق اور محاسن اخلاق کے عظیم پیکر اوراخلاقِ نبویؐ کا مکمل نمونہ تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ غرباء اور مساکین کے لیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے،اسی وجہ سے دنیا آپ کو ’’غریب نواز‘‘کے عظیم لقب سے یا د کرتی ہے۔ آپؒ فرماتے: ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اسے اپنی محبت عطا فرماتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن اور ہمہ وقت اُس کی رضا وخوش نودی کے لیے وقف کر دیتا ہے تو خداوندِ قدوس اُسے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مظہر بن جائے۔‘‘سلطان الہندؒ جب علم و عرفاںاورمعرفت وسلوک کی منازل طے کرچکے تواپنے وطن واپس تشریف لے گئے ۔وطن میںقیام کیے ابھی تھوڑی مدّت ہوئی تھی کہ دل میںبیت اللہ اورروضہ نبویؐ کی زیارات کے لیے تڑپ پیدا ہوئی۔ اسی وقت مقدس سفرکے لیے چل پڑے۔ حضورسیّدِعالمؐ کے روضۂ اقدس کے پاس کئی دن تک عبادت میں مشغول رہے۔ایک دن روضۂ نبویؐ سے یہ سعادت افروزآوازآئی: ’’اے معین! تُوہمارے دین کامعین ومددگارہے،ہم نے تمہیںہندوستان کی ولایت پرفائزکیاہے، لہٰذااجمیرجاکرقیام کرو، وہاںکفر، شرک،گم راہی اورضلالت کی تاریکیاںپھیلی ہوئی ہیں۔تمہارے وہاں ٹھہرنے سے اسلام وہدایت کے سورج کی روشنی چہارسوپھیلے گی۔‘‘ابھی آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ہندو ستان میں اجمیرکہاں ہے؟ اچانک غنودگی ہوئی اور حضور سیّدِ دو عالمؐ کی زیارت سے شرف یا ب ہوئے ۔ آپؐ نے مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب تمام ہندوستان کی سیر کر ادی اور اجمیر کا پہاڑ بھی دکھا دیا۔وسط ہندکا مشہورشہراجمیر شریف توحیدورسالت کے اَنوارو تجلّیات اور علم وعرفاںکاروحانی مرکزبننے کے لیے بے حد مناسب تھا۔حضرتِ والانے مناسب جگہ پر مسکن بنایا۔ ذِکر، فکراوریادِخداوندی میں مشغول ہوگئے۔لوگوںنے جب آپ کی سیرت کردار،علم ا ورفضل دیکھاتووہ آپ کی طرف متوجّہ ہوتے گئے۔ایک مشہورروایت کے مطابق تقریباً نوّے (90) لاکھ غیر مسلم اسلام کی دولت سے فیض یاب ہوکرمسلمان ہوئے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے مقام و منصب کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ کو با ر گاہِ رسالت مآبؐ سے ’’قطب المشائخ‘‘کا لقب عطا ہوا۔ آج ہندوستان کا گوشہ گوشہ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے فیوض و برکات سے ما لامال ہے ۔ انتہائی قلیل مدّت میں اجمیر شریف اسلامی آبادی کا عظیم مر کز بن گیا اور آپ کے حُسنِ اخلاق سے آپ کی غریب نو ازی کا ڈنکا چہار دانگِ عالم بجنے لگا۔ اس ملک میں جہاں پہلے ’’نا قوس ‘‘ بجا کرتے تھے ، اب جگہ جگہ ’’صدائے اللہ اکبر‘‘ گونجنے لگی ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے لاکھوں افراد کے دل درست، عقائد، عملِ صالح اور پا کیزہ اخلاق کے نشیمن بنادیے۔ یوں تو ہزاروں کرامتیںآپؒ سے ظہور پزیر ہوئیں، لیکن آپؒ کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ کی انقلاب آفریں جدو جہد کے طفیل ہندوستان میںدین ِ اسلام کی حقانیت کا بو ل با لا ہوا۔ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی ابدی سلطنت نے اجمیر شریف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بہشتِ عقیدت اور جنّت ِمعرفت بنا دیا۔آپ ؒ نے تقریباً 45برس تک اجمیر شریف میں مخلوقِ خدا کو فیض یاب فر مایا ۔سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ لاہور سے دہلی تشریف لے گئے، جہاںاُس دور میںہر طرف کفرو شرک اورگم راہی کادوردورہ تھا۔ آپ ؒنے یہاں کچھ عرصے قیام فرمایااورپھراپنے خلیفۂ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کو مخلوق کی ہدایت اورراہنمائی کے لیے متعین فرما کر خود حضور سیّدِ دوعالمؐ کے فرمان کے مطابق اجمیر جانے کاقصد فرمایا،آپ کی آمدسے نہ صرف اجمیر بلکہ پورے ہندوستان کی قسمت جاگ اٹھی۔ جب سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اجمیر شریف میں رونق افروز ہوئے تواُن دنوںوہاںپرہندوراجا پرتھوی کی حکمرانی تھی۔آپؒ کی آمدپر پرتھوی راج اور ہندو جوگیوں اور جادوگروں نے سخت مزاحمت کی تاکہ آپؒ اجمیر کو اپنا مرکزو مسکن نہ بنائیں،لیکن آپؒ کوتوبہ طورِخاص اسلام کی شمع روشن کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ مخالفت ہوتی رہی اور مقابلہ بھی ہوتارہا،لیکن آپؒ اپنے عظیم مقصدومشن میںلگے رہے اوربالآخر کام یابی نے آپؒ ہی کے قدم چومے۔ کچھ ہی عرصے میںراجا پرتھوی راج کے سب سے بڑے مندرکا سب سے بڑا پجاری ’’سادھورام‘‘سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوا۔ اس کے بعد اجمیرکے مشہور جوگی’’جے پال‘‘نے بھی اسلام قبول کرلیا اور یہ دونوںبھی دعوتِ اسلام وہدایت اوراسلامی و روحانی مشن کی تبلیغ واشاعت میںخواجہ غریب نوازؒ کے ساتھ ہوگئے۔ اجمیرکاراجا پرتھوی راج روزانہ نت نئے طریقوںسے حضرت والاکو تکلیف پہنچانے کی کوششیںکرتارہتالیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کی ہرتدبیراُلٹی ہوجاتی۔آخر تھک ہارکر پرتھوی راج نے نہایت ناشائستہ انداز و الفاظ میں18ہزارعالمین کامشاہدہ کرنے والے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کواجمیرسے نکل جانے کا کہاتو حضور خواجہ غریب نواز ؒ بے ساختہ مسکرادیے اورجلال میںآکر فرمایا: ’’میںنے پرتھوی راج کوزندہ سلامت لشکرِاسلام کے سپردکردیا۔‘‘ آپؒ کافرمان درست ثابت ہوا اور تیسرے ہی روزفاتحِ ہند سلطان شہاب الدین غوری ؒ نے ہندوستان کوفتح کرنے کی غرض سے دہلی پر لشکرکشی کی۔راجا پرتھوی راج لاکھوںکا لشکر لے کرمیدانِ جنگ میںپہنچا۔کفرواسلام کے درمیان زبردست معرکے کے بعد سلطان غوری نے لشکرِ کفرکوشکستِ فاش دے کرپرتھوی راج کو گرفتار کرلیااوربعدازاں قتل ہوکرواصلِ جہنم ہوگیا۔ پرتھوی راج کی ذلت آمیز شکست، عبرت ناک قتل اور سلطان غوری ولشکر اسلام کی عظیم الشّان فتح کے نتیجے میں ہزاروں لوگ جوق درجوق اسلام قبول کرنے لگے۔ یوں اجمیر شریف میںسب سے پہلے اسلامی پرچم سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے نصب فرمایا۔فاتحِ ہندسلطان شہاب الدین غوری بہ صدعجزو انکسارسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی خدمتِ عالیہ میںحاضرہوا اورآپ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ روایت ہے کہ دہلی فتح کرنے کے بعدجب سلطان شہاب الدین غوری اجمیرشریف میںداخل ہوئے تو شام ہوچکی تھی۔ مغرب کاوقت تھا، اذانِ مغرب سُنی تودریافت کرنے پرمعلوم ہواکہ ایک درویش کچھ عرصے سے یہاں اقامت پزیرہیں۔ چناں چہ سلطان غوری فوراً مسجد کی طرف چل پڑے۔جماعت کھڑی ہوچکی تھی اور سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ مصلّے پرفائزہوکرامامت فرما رہے ہیں۔ سلطان غوری بھی جماعت میںشامل ہوگئے۔ نماز ختم ہوئی اوراُن کی نظر خواجہ غریب نوازؒ پرپڑی تویہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اُن کے سامنے وہی بزرگ جلوہ فرماہیں، جنہوںنے اُنہیں خواب میں’’فتح دہلی‘‘ کی بشارت دی تھی۔سلطان شہاب الدین غوری آگے بڑھے اورخواجہ غریب نوازؒکے قدموں میں گرگئے ، درخواست کی:’’ حضور!مجھے بھی اپنے مریدوں اور غلاموںمیںشامل فرمالیں۔‘‘ آپ ؒنے اس خواہش کو شرف ِقبولیت بخش کر اُنہیںمرید بنالیا۔ خواجہ اجمیریؒ آفتابِ طریقت بھی تھے اور ماہتابِ شریعت بھی۔ بڑے بڑے اولوالعزم شاہانِ زمانہ آپؒ کے آستانے پر حاضر ہو کر آپؒ کی قدم بوسی کو سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے۔سلطان شہاب الدین غوری آپ کی قدم بوسی کے لیے آیا۔کبھی سلطان شمس الدین التمش نے سر ِارادت جھکایااور یہ سلسلہ بعد از وصال بھی جاری رہا۔ کبھی سلطان محمود خلجی آپ کے روضۂ انور پر فتح کی دُعا مانگتا ہے تو فتح یاب ہوتا ہے ، کبھی اکبر بادشاہ درگاہِ عالیہ میں اولاد کی درخواست پیش کرتا ہے تو بامُراد لوٹتا ہے اور کبھی جہانگیر اپنی شفایابی پر سرِ دربار آپ ؒ کا غلام ہو جاتا ہے۔اُس وقت سے لے کر آج تک ہندوستان کے سارے حکم راں بلا امتیاز عقیدہ و مسلک، اس آستانہ ٔعالیہ پر اپنا سر نیاز جھکاتے آئے ہیں۔ آپ کے وسیلے اور قدومِ میمنتِ لزوم کے صدقے میں سر زمینِ ہند رشکِ آسماں بنی رہے گی۔اولیائے کرام آپؒ کے دربار کی خاک چوم کر اپنے قلب و روح کو مجلّٰی کرکے عروج پاتے ہیں۔ آج بھی آپ کی شانِ غریب نوازی کار فرما ہے۔ صاحبِ دل،اہلِ محبت اور اہلِ طریقت آپ ؒکے حُسنِ باطن اور عشقِ حقیقی کے تصرفات سے آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آپؒ کے نورِ ولایت کا آفتاب آج بھی چمک رہا ہے۔ آپ ؒ کا قلبی نور آج بھی ضیاء بخش عالم ہے۔آپؒ کی آنکھوں سے نکلے ہوئے آنسو آج بھی آبِ حیات اور بارانِ رحمت کی طرح فیض رساں ہیں۔حضرت خواجۂ خواجگان، قطب الاقطاب، سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒسے اِن جلیل القدر ہستیوں کو بھی خلافت حاصل ہوئی۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ، حضرت علائو الدّین علی بن احمد صابر کلیریؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب ِالٰہی، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ شامل ہیں۔یہ برگزیدہ اور عظیم المرتبت بزرگ اپنے وقت کے ولیٔ کامل اور باکرامت اولیاء اللہ ہوئے۔ آپؒ کی ساری زندگی امربالمعروف ونہی عن المنکرپر عمل کرتے ہوئے گزری۔بالآخریہ عظیم پیکرِعلم وعرفاں، حاملِ سُنّت وقرآں، محبوبِ یزداں، محب سروروکون ومکاں، شریعت وطریقت کے نیرتاباںحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ 6رجب المرجب633ھ/1236ء کو غروب ہو کر واصلِ ربِّ دوجہاںہوگیا۔روایات میں آتا ہے کہ جس وقت آپؒ کا وصال ہوا،آپؒ کی پیشانی مبارکہ پرنورانی خط میں تحریرتھا…مَاتَ حَبِیْبُ اللّٰہ،فِیْ حُبِّ اللّٰہ…یعنی اللہ کا دوست، اللہ کی محبت میں وصال فرماگیا۔خواجہ غریب نوازحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کا مزارپُرانوار اجمیر شریف(انڈیا) میں مرجع خلائق ہے۔آپ کے مزارِ پر مسلمان ہی نہیں ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے بھی لاکھوں افراد عقیدت و محبت کے ساتھ حاضر ہو تے ہیں۔ درگاہِ عا لیہ آج بھی ایمان و یقین اور علم و معرفت کے نو ر بر ساتی ہے اور ہزاروں خوش نصیب لو گ فیض یاب ہو تے ہیں۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال ناصرف اجمیرشریف میں بلکہ پورے پاک وہند میں پورے عقیدت واحترام اورتزک واحتشام کے ساتھ منایاجاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
خلائی سیاحت سائنسی تحقیق کی راہ میں  ایک بری رکاوٹ ہے

خلائی سیاحت سائنسی تحقیق کی راہ میں ایک بری رکاوٹ ہے

''خلائی سیاحت‘‘ (Space Tourism) ایک نئی اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صنعت ہے، جس میں ارب پتی افراد اور تجارتی کمپنیاں خلا میں سفر کرنے کے مواقع تلاش کر رہی ہیں۔ تاہم ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ سرگرمیاں سائنسی تحقیق کیلئے چیلنجز پیدا کر سکتی ہیں، خاص طور پر چاند اور دیگر خلائی اجسام پر ہونے والے تجربات کیلئے۔ماہرین فلکیات کے مطابق چاند اور دیگر خلائی اجسام پر سائنسی تحقیق کیلئے مخصوص مقامات پر بے قابو انسانی سرگرمیاں مستقبل میں فلکیاتی دریافتوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ارب پتی خلائی سیاحوں اور لالچی نجی کمپنیوں کی سرگرمیاں کائنات کی تاریخ دریافت کرنے کی امیدوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔سائنسی تحقیق کو لاحق خطراتچاند کا دور دراز حصہ نظام شمسی میں سب سے زیادہ خاموش مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ایک ریڈیو ٹیلی سکوپ کی تنصیب سے ہم کائناتی تاریک دور (Cosmic Dark Ages)کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، خلائی سیاحوں اور تجارتی کمپنیوں کی بے ترتیب سرگرمیاں ان تجربات میں خلل کا سبب بن سکتی ہیں۔ابدی تاریکی کے گڑھوں کی تباہیچاند کے وہ علاقے جو ہمیشہ سائے میں رہتے ہیں، دور انفرا ریڈ فلکیات (Far Infrared Astronomy) کیلئے انتہائی قیمتی ہیں۔ یہ مشاہدات کائنات کے پوشیدہ رازوں کو آشکار کر سکتے ہیں، مگر خلائی سیاحت اور معدنی وسائل کے حصول کیلئے ہونے والی کھدائی ان مقامات کی سائنسی اہمیت کو ختم کر سکتی ہے۔غیر منظم خلائی دوڑاس وقت کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں جو چاند کے سائنسی مقامات کے تحفظ کو یقینی بنا سکے۔ یہ ایک ''پہلے آئیے، پہلے پائیے‘‘ والی صورتحال بن چکی ہے، جس کے باعث ممالک اور کمپنیاں بغیر کسی ضابطے کے اپنے مفادات کے تحت چاند پر سرگرمیاں شروع کر رہی ہیں۔ماہرین کی تشویش اور ممکنہ حلڈاکٹر مارٹن ایلوس، جو بین الاقوامی فلکیاتی تنظیم کے رکن ہیں کا کہنا ہے کہ خلائی سیاحت اور تجارتی سرگرمیوں کے سبب سائنسی مواقع ضائع ہو سکتے ہیں۔ وہ ایک بین الاقوامی معاہدے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو تحقیقی مقامات کے تحفظ کو یقینی بنائے اور چاند کو ایک سائنسی تجربہ گاہ کے طور پر برقرار رکھے۔اگر اگلی دہائی میں کوئی مناسب حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو کائنات کی تاریخ جاننے کے سنہری مواقع ہمیشہ کیلئے ضائع ہو سکتے ہیں۔ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر فلکیات ڈاکٹر مارٹن ایلوس کا کہنا ہے کہ چاند کے دور دراز حصے میں کچھ مخصوص مقامات فلکیاتی تحقیق کیلئے بے مثال مواقع فراہم کرتے ہیں۔یہ سائنسی مطالعے ہمارے نظامِ شمسی، زمین سے باہر زندگی کے امکانات اور کائنات کی ارتقائی تاریخ کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔تاہم، ان خصوصی مقامات کے تحفظ کیلئے کوئی بین الاقوامی قوانین موجود نہیں ہیں اور موجودہ ''آزادانہ رسائی‘‘ کا رجحان مستقبل کی تحقیقی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔بوسٹن میں ''امریکی ایسوسی ایشن برائے سائنسی ترقی‘‘ (AAAS) کی کانفرنس سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں ڈاکٹر ایلوس نے کہا: چاند پر انسانوں کی موجودگی ہمیں حیرت انگیز نئی چیزیں کرنے کے قابل بنائے گی، جو آج کی جدید دوربینوں کو کھلونوں کی طرح بنا دے گی، لیکن انسانی سرگرمیاں اس ماحول کو متاثر کر سکتی ہیں جس کے مطالعے کیلئے ہم وہاں جا رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چاند کی سطح کا رقبہ تو وسیع ہے، لیکن وہ مخصوص علاقے جہاں انسان جانا چاہتے ہیں، زیادہ بڑے نہیں ہیں۔چاند پر ایک ریڈیو ٹیلی سکوپ کی تنصیب کائناتی ''تاریک دور‘‘کا مطالعہ ممکن بنا سکتی ہے۔یہ وہ دور تھا جب کائنات کے ابتدائی مراحل میں روشنی کے ذرائع ایک گھنے کہر میں لپٹے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ، یہ تحقیق زمین جیسے دیگر سیاروں کی رہائش کے امکانات کو بھی واضح کر سکتی ہے۔اسی طرح، چاند پر موجود ''ابدی تاریکی کے گڑھے‘‘(Pits of Eternal Darkness)ایسے علاقے جو مسلسل سائے میں رہتے ہیں،دور انفرا ریڈ فلکیات کیلئے بے حد فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ تحقیق ہمیں کائنات کے وہ راز دکھا سکتی ہے جو عام طور پر پوشیدہ رہتے ہیں۔ڈاکٹر مارٹن ایلوس نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے سائنسی اور غیر سائنسی مشنز ان اہم مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں، جس کے باعث ان کی سائنسی قدر کم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کون سی تجارتی سرگرمیاں سائنسی تحقیق کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں تو انہوں نے کہا''میرا اندازہ ہمیشہ خلائی سیاحت پر ہوگا۔ ارب پتی طبقے کی یہ خواہش ہے کہ میں چاند پر ایک ہفتہ گزارنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ تجارتی کمپنیاں چاند پر پانی کی کان کنی (Water Mining)میں دلچسپی رکھتی ہیں، جبکہ بعض کمپنیاں ہیلیم3 (Helium-3) نکالنے کیلئے بھی منصوبے بنا رہی ہیں، جو کوانٹم کمپیوٹنگ کی کچھ شکلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ڈاکٹر ایلوس نے ایک بنیادی سوال اٹھایا ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کوئی مخصوص مقام فلکیاتی تحقیق کیلئے مختص ہوگا یا پانی کی کان کنی کیلئے؟۔ انہوں نے خبردار کیا کہکسی ملک یا کمپنی کو اس سے کیا روک سکتا ہے کہ وہ آ کر کہے مجھے پرواہ نہیں، یہ میرا پسندیدہ مقام ہے، اور میں یہاں کھدائی اور پانی کی کان کنی کروں گا‘‘۔فی الحال، اس سوال کا کوئی واضح اور حتمی جواب موجود نہیں ہے۔ڈاکٹر مارٹن ایلوس بین الاقوامی فلکیاتی تنظیم کے ایک ورکنگ گروپ کے شریک سربراہ ہیں، جو ان مسائل کی تحقیق اور انہیں عالمی سطح پر ممالک کی توجہ میں لانے کیلئے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم حکومتوں کو اس بات پر قائل کر سکیں کہ انہیں سائنسی تحقیق کا اسی قدر خیال رکھنا چاہیے جتنا کہ وہ تجارتی مفادات یا انسانی دریافتوں کا رکھتے ہیں۔  

  دنیا کی 25 سو سے زائد  مادری زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار

دنیا کی 25 سو سے زائد مادری زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار

مادری زبانوں کا عالمی دن21 فروری کودنیا بھر میں منایا جاتا ہےاقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم کی جنرل کانفرنس کے موقع پریونیسکو نے 17 نومبر 1999ء میں مادری زبانوں کا عالمی دن21 فروری کومنانے کا اعلان کیااور اِسی ادارے کے زیر اہتمام سال2000ء سے اِس روز دنیا بھر میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تاہم اسے 2002ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کے لوگوں کے ذریعہ استعمال کی جانے والی تمام زبانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اور ان کو فروغ دینا ہے۔گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں کئی مقامی زبانیں معدومیت کے دہانے پر ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلے کو تسلیم کیا اور اس دن کا آغاز کیا تاکہ لوگوں کو اپنی مادری زبان کا احترام اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے ترغیب دی جا سکے۔ بنگلہ دیش پہلا ملک تھا جس نے عالمی یوم مادری زبان منانے کے خیال کو نہ صرف پیش کیا،بلکہ اس نے اس دن کو پورے جوش و خروش سے منایا بھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریبا ً7000 زبانیں بولی جاتی ہیں اور اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق 1950سے لے کر اب تک 230 مادری زبانیں ناپید ہو چکی ہیں۔برٹش کونسل کی جانب جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 350 ملین افراد کی مادری زبان انگریزی ہے۔ جب کہ باقی لوگ ثانوی زبان کی حیثیت سے انگریزی بولتے ہیں۔ زبانوں پر تحقیق کرنے والے امریکی ادارے کے مطابق ملکوں کے حوا لے سے انگریزی سب سے زیادہ یعنی 112 ممالک میں بولی جاتی ہے۔اس کے بعد 60 ممالک میں فرنچ، 57 میں عربی، 44 میں ہسپانوی اور جرمن بھی 44 ممالک میں بولی جاتی ہے۔ اردو 23، ہندی 20 ممالک میں بولی جاتی ہے۔ پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں نمبر پر ہے جب کہ سب سے زیادہ 196 زبانوں کو بھارت میں خطرات لاحق ہیں۔ امریکا کی 191،برازیل کی 190، انڈونیشیا کی 147اور چین کی 144 زبانوں کی بقاء کو خطرہ ہے۔ہر زبان ایک میراث ہے۔ جسے ثقافتی تنوع اور بین الثقافتی مکالمے کو یقینی بنانے کے لیے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔بلا شبہ انسان کی مختلف شناختیں ہوتی ہیں۔ اس کا نام، اس کا خاندانی نام، اس کا قبیلہ، اس کا علاقہ، اس کی قومیت، اس کا مذہب۔ یہ سب شناختیں ہیں اور ہر شناخت اسے عزیر ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک بہت طاقتور شناخت وہ زبان ہے جو وہ بولتا ہے۔ کیونکہ دیگر انسانوں سے رابطہ وہ زبان کے ذریعے رکھتا ہے۔ خصوصاً وہ زبان جو اس کا خاندان بولتا ہے اور اس نے پیدائش کے بعد سب سے پہلے وہی زبان سیکھی ہے، اس کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس زبان کو اس کی مادری زبان کہتے ہیں۔ صرف اسی زبان میں وہ اپنے خیالات کے اظہار پر مکمل طور پر قادر ہوتا ہے۔ وہ کسی دوسری زبان میں اگر بولتا یا لکھتا بھی ہے، تو خیالات کو سوچتا اپنی مادری زبان میں ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین انسان کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں دینے کی سفارش کرتے ہیں۔ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ان کے بولنے والے خود ہیں ۔جو بتدریج ان زبانوں کے استعمال کو کم کرتے جا رہے ہیں اور پھر یوں یہ زبانیں اپنا اصل اسلوب ختم کرتے ہوئے کسی دوسری زبان میں ضم ہوجاتی ہیں۔زبان سیکھنے کا عمل ایک طویل مرحلے کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔کوئی زبان ،اس کے قوائد و ضوابط،لغت ودیگر اسرار و رموزایک تھکا دینے والا کام ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ بچہ ماں کی گود میں زبان کے ان سب امور پر یوں دسترس حاصل کر لیتا ہے کہ ساری عمر کیلئے وہ اس زبان کا ماہر بن جاتا ہے ۔یہ زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے۔ دراصل ماں کی گود بچے کا پہلا مکتب ہوتی ہے اور بچہ اس مکتب کے ذریعہ وہی کچھ سیکھتا ہے جو ایک ماں اپنے بچہ کو سکھاتی ہے۔ ماں کی گود اور روٹیاں پکانے والے چولھے کے گرد بچوں کے جمگٹھے میں زبان اپنا ارتقائی سفر بڑی عمدگی سے طے کر رہی ہوتی ہے ۔ مادری زبان سے انسان کی فطرت کھلتی اور نکھرتی ہے۔ اسی زبان کے ایشو پر ہمارے ملک کا ایک حصہ الگ ہوگیا لیکن پھر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اب بھی ایک زبان کے علاوہ باقی زبانوں کو قومی زبان تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ستم طریفی یہ ہے کہ واحد قومی زبان بھی عدم توجہ کے سبب زبوں حالی کا شکار ہے اور اسے صحیح معنوں میں قومی زبان کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔زبان کا تحفظ ہی درحقیقت تہذیب، ثقافت اورکلچر کا تحفظ کہلاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب والدین اپنے بچوں کو مادری زبان نہیں سکھاتے تو زبانوں کے متروک ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔حکومتِ وقت مادری و علاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعراء اور محققین کی سرپرستی کرے۔ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر عالمی زبانوں کی کتب کو قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے ۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ ابتدائی کلاسز میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ دنیا کے کئی ممالک نے مادری زبانوں کی ضرورت و اہمیت کو مانتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ ہر بچے کو اپنی مادری زبان میں تعلیم کا حق حاصل ہے اور تمام زبانوں کی بلا امتیاز ترویج و ترقی شہریوں کے بنیادی حقوق اور ریاستی فرائض کا حصہ ہے۔لیکن پاکستان میں آج بھی علاقائی زبانوں کی اہمیت اور مقام و مرتبے پر بحث جاری ہے۔ اگرچہ سندھ میں سندھی، خیبر پختونخوا میں پشتو اور بلوچستان میں بلوچی ابتدائی تعلیمی درجات میں پڑھائی جاتی ہے لیکن پنجاب میں علاقائی زبانوںکی ترویج و اشاعت کی سرکاری سطح پر کبھی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلد نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں اور اس سے بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس سے زبان کی آبیاری ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پرائمری سے تمام صوبوں میں مقامی زبانوں کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔   

آج کا دن

آج کا دن

سلطان محمد فاتح تخت نشین ہوئے 1451ء میں آج کے روز سلطان محمد فاتح دوسری بار تخت نشین ہوئے۔ 1444ء میں مراد دوئم کی جگہ سلطان محمد خان نے تخت سنبھالا جس کی مخالفت میں چاندارلی خلیل پاشا اور دیگر اہم درباری شخصیات پیش پیش تھے۔ جس کے بعد مراد دوئم دوبارہ تخت نشین ہو گئے جن کے انتقال کے7 سال بعد سلطان محمد خان فاتح دوسری بار دوبارہ تخت نشین ہوئے۔ڈائیگو میٹرو سب وے آتشزدگی18 فروری 2003 کو، ایک آتش زدگی نے ڈائیگو میٹرو سب وے ٹرین کو آگ لگا دی جب وہ جنوبی کوریا کے وسطی ڈیگو میں جنگنگنو اسٹیشن پر پہنچی۔ اس کے نتیجے میں آگ، جو اسی اسٹیشن پر دوسری ٹرین کے رکنے پر پھیلی، اس میں 192 افراد ہلاک اور دیگر 151 زخمی ہوئے۔ یہ جنوبی کوریا کی امن کے وقت کی تاریخ میں جان بوجھ کر پیش آنے والے کسی ایک واقعے میں جان کا سب سے مہلک نقصان ہے، جو 1982 میں وو کی جانب سے کیے گئے شوٹنگ کے ہنگامے کو پیچھے چھوڑتا ہے۔ایران فضائی حادثہایران اسمان ایئر لائنز کی پرواز 3704 تہران کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے جنوب مغربی ایران میں یاسوج کیلئے طے شدہ ایرانی مسافر بردار پرواز تھی۔ 18 فروری 2018ء کو یہ پرواز یاسوج تک پہنچنے سے قبل ہی صوبہ اصفہان کے سیمیروم کاؤنٹی کے نوقول گاؤں کے قریب پہاڑ سے ٹکرا کر زمین بوس ہو گیا۔ جہاز میں سوار تمام 66 افراد بشمول 60 مسافر اور عملے کے 6 افراد ہلاک ہو گئے۔قبلائی خان کا انتقال18 فروری 1294ء منگول حکمران قبلائی خان کا انتقال ہوا۔ 1271ء میں چینی یوآن خاندان قائم کرتے ہوئے 23 سال تک حکمرانی کے دوران قبلائی خان نے سانگ خاندان کا صفایا کرتے ہوئے پورے چین کو متحد کیا۔ چین میں پہلے کاغذی نوٹ کا اجرا بھی اسی دور میں ہوا۔ قبلائی خان کے دور میں متعدد یورپی شخصیات بھی چین آئی تھیں جن میں مارکو پولو قابل ذکر رہے۔ 

ٹیکنالوجی اور نوجوان نسل: فوائد اور چیلنجز

ٹیکنالوجی اور نوجوان نسل: فوائد اور چیلنجز

آج کے دور میں ٹیکنالوجی انسانی زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکی ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کیلئے جو ڈیجیٹل دور میں پیدا ہوئی ہے، سمارٹ فونز، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ روزمرہ کی عادات کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کیا ٹیکنالوجی نوجوانوں کیلئے ترقی کے نئے دروازے کھول رہی ہے یا پھر یہ ان کے ذہنی، سماجی اور اخلاقی وجود کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے؟ اس مضمون میں ہم ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ نوجوان نسل کو اس دو دھاری تلوار سے کیسے نمٹنا چاہیے۔ تعلیمی انقلاب ٹیکنالوجی نے تعلیم کے دائرے کو وسیع کر دیا ہے۔ آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز جیسا کہ ''Khan academy Coursera ‘‘اور YouTube کے ذریعے نوجوان دنیا بھر کے اساتذہ سے سیکھ سکتے ہیں۔ یہ وسائل خصوصاً ان علاقوں کے طلبہ کیلئے مفید ہیں جہاں معیاری تعلیمی اداروں تک رسائی محدود ہے۔ مزید برآں ورچوئل کلاس رومز اور ایڈاپٹیو لرننگ سافٹ ویئر طلبہ کی انفرادی ضروریات کو پورا کرتے ہیں جس سے تعلیم زیادہ مؤثر ہو گئی ہے۔ ڈیجیٹل دور نے فری لانسنگ، گرافک ڈیزائننگ، کوڈنگ اور ڈیٹا انیلسس جیسے شعبوں میں روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔نوجوان آن لائن کورسز کے ذریعے نئی مہارتیں سیکھ کر گلوبل مارکیٹ میں کام کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں بہت سے نوجوان Up workاور Fiverr جیسے پلیٹ فارمز پر کام کر کے خاطر خواہ آمدن حاصل کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو دنیا بھر کے لوگوں سے جڑنے کا موقع دیا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز ثقافتی تبادلے، آگاہی پھیلانے اور سماجی تحریکوں (جیسے ماحولیاتی تحفظ) کو تقویت دینے کا ذریعہ بنے ہیں۔ نوجوان اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر بیان کر کے معاشرتی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔تخلیقی صلاحیتوں کی ترقی ٹیکنالوجی نے آرٹ، میوزک، رائٹنگ اور ویڈیو ایڈیٹنگ جیسے شعبوں میں تخلیقی اظہار کو آسان بنا دیا ہے۔ نوجوان TikTok، Instagram یا YouTube جیسے پلیٹ فارمز پر اپنی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں جو کہ روایتی میڈیا میں ممکن نہیں تھا۔ ٹیکنالوجی کے خطرات ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو بہت آسان بنا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ سنگین خطرات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں چند اہم ٹیکنالوجی کے خطرات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ ذہنی صحت پر اثرات: مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال نوجوانوں میں تنہائی، اضطراب اور ڈپریشن کا سبب بن رہا ہے۔ ''سماجی موازنہ کا نظریہ‘‘ (Social Comparison Theory) بتاتا ہے کہ لوگ اپنی زندگی کا دوسروں کی ہائی لائٹڈ تصویروں سے موازنہ کر کے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سمارٹ فونز کی لت نے نیند کے مسائل اور توجہ کی کمی جیسے مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔انٹرنیٹ پر جعلی خبریں، سازشی تھیوریاں اور پروپیگنڈا تیزی سے پھیلتا ہے۔ نوجوان جن میں تنقیدی سوچ کی کمی ہوتی ہے اکثر ان معلومات کو سچ سمجھ لیتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف ان کی ذہنی تشکیل کو متاثر کرتی ہے بلکہ معاشرے میں انتشار کا بھی باعث بنتی ہے۔پرائیویسی اور ڈیٹا کا تحفظ:آج کل ہر شخص کی معلومات آن لائن موجود ہیں اور ہیکرز یا کمپنیوں کے ذریعے ان کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا، ایپس اور ویب سائٹس اکثر صارفین کا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں، جو پرائیویسی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ سائبر بلینگ، ہیکنگ اور آن لائن ہراسانی جیسے واقعات نوجوانوں کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں۔ سوشل اسکلز میں کمی:ٹیکنالوجی نے لوگوں کو ورچوئل طور پر جوڑ دیا ہے لیکن حقیقی زندگی میں تعلقات کمزور ہو رہے ہیں۔ نوجوان اکثر دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے سکرین میں گم رہتے ہیں۔ اس سے تنہائی، تعلقات میں کمزوری اور جذباتی ہم آہنگی میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ توازن کیسے ممکن ہے؟ ٹیکنالوجی کو مواقع یا خطرات میں تبدیل کرنے کا انحصار اس کے استعمال پر ہے۔ چند تجاویز درج ذیل ہیں۔ ڈیجیٹل تعلیم: نوجوانوں کو انٹرنیٹ پر محفوظ رہنے، معلومات کی تصدیق کرنے اور وقت کے انتظام کی تربیت دی جانی چاہیے۔ والدین اور اساتذہ کا کردار: بچوں کے آن لائن فعالیت پر نظر رکھنا اور انہیں متوازن عادات اپنانے میں مدد دینا ضروری ہے۔ پالیسی سازی: حکومتوں کو سائبر جرائم کے خلاف سخت قوانین بنانے چاہئیں اور پرائیویسی کو یقینی بنانا چاہیے۔ ذمہ دارانہ استعمال: ٹیکنالوجی خود کوئی مسئلہ نہیں، اس کا استعمال ہی اسے مفید یا مضر بناتا ہے۔ نوجوان نسل اگر ڈیجیٹل ذمہ داری، تعلیم اور اخلاقی اقدار کو اپنائے تو ٹیکنالوجی ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے روشن پہلوؤں سے فائدہ اٹھائیں، لیکن اس کے تاریک اثرات سے بچنے کیلئے ہوشیار رہیں۔

مزاح پارے:پڑیئے گر بیمار!

مزاح پارے:پڑیئے گر بیمار!

پچھلے جاڑوں کا ذکر ہے۔ میں گرم پانی کی بوتل سے سینک رہا تھا کہ ایک بزرگ جو80 کے پیٹے میں ہیں خیر و عافیت پوچھنے آئے اور دیر تک قبر و عاقبت کی باتیں کرتے رہے جو میرے تیمار داروں کو ذرا قبل از وقت معلوم ہوئیں۔ آتے ہی بہت سی دعائیں دیں، جن کا خلاصہ یہ تھا کہ خدا مجھے ہزاری عمر دے تاکہ اپنے اور ان کے فرضی دشمنوں کی چھاتی پر روایتی مونگ دلنے کیلئے زندہ رہوں۔ اس کے بعد جانکنی اورفشارگورکااس قدر مفصل حال بیان کیا کہ مجھے غریب خانے پر گور غریباں کا گمان ہونے لگا۔ عیادت میں عبادت کا ثواب لوٹ چکے تو میری جلتی ہوئی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھاجس میں شفقت کم اور رعشہ زیادہ تھا اور اپنے بڑے بھائی کو(جن کا انتقال تین ماہ قبل اسی مرض میں ہوا تھاجس میں، میں مبتلا تھا) یاد کر کے کچھ اس طرح آب دیدہ ہوئے کہ میری بھی ہچکی بندھ گئی۔ میرے لئے جو تین عددسیب لائے تھے وہ کھا چکنے کے بعد جب انھیں کچھ قرار آیا تو وہ مشہور تعزیتی شعرپڑھاجس میں ان غنچوں پرحسرت کا اظہار کیا گیا ہے جوبن کھلے مرجھا گئے۔میں فطرتاً رقیق القلب واقع ہوا ہوں اور طبیعت میں ایسی باتوں کی سہاربالکل نہیں ہے۔ ان کے جانے کے بعد ''جب لاد چلے بنجارا‘‘ والا موڈ طاری ہو جاتا ہے اور حالت یہ ہوتی ہے کہ ہر پرچھائیں بھوت اور ہر سفید چیز فرشتہ دکھائی دیتی ہے۔ ذرا آنکھ لگتی ہے تو بے ربط خواب دیکھنے لگتا ہوں۔ گویا کوئی ''کالک‘‘ یا باتصویرنفسیاتی افسانہ سامنے کھلا ہوا ہے۔کیا دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر میری لاش پر انجکشن کی پچکاریوں سے لڑ رہے ہیں اور لہولہان ہو رہے ہیں۔ ادھر کچھ مریض اپنی اپنی نرس کو کلوروفارم سنگھارہے ہیں۔ ذرا دور ایک لا علاج مریض اپنے ڈاکٹر کویاسین حفظ کرا رہا ہے۔ ہر طرف ساگودانے اور مونگ کی دال کی کھچڑی کے ڈھیر لگے ہیں۔ آسمان بنفشی ہو رہا ہے اور عناب کے درختوں کی چھاؤں میں، سناکی جھاڑیوں کی اوٹ لے کر بہت سے غلمان ایک مولوی کو غذا بالجبر کے طور پر معجونیں کھلا رہے ہیں۔ تا حد نظر کافور میں بسے ہوئے کفن ہوا میں لہرا رہے ہیں۔ جا بجا لوبان سلگ رہا ہے اورمیراسرسنگ مرمر کی لوح مزار کے نیچے دبا ہوا ہے اوراس کی ٹھنڈک نس نس میں گھسی جا رہی ہے۔ میرے منہ میں سگرٹ اور ڈاکٹر کے منہ میں تھرمامیٹر ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ سرپربرف کی تھیلی رکھی ہے۔ میرے منہ میں تھرما میٹر ٹھنسا ہواہے اور ڈاکٹر کے ہونٹوں میں سگریٹ دبا ہے۔لگے ہاتھوں، عیادت کرنے والوں کی ایک اورقسم کا تعارف کرا دوں۔ یہ حضرات جدید طریق کار برتتے اورنفسیات کا ہر اصول داؤں پر لگا دیتے ہیں۔ ہر پانچ منٹ بعد پوچھتے ہیں کہ افاقہ ہوا یا نہیں ؟ گویا مریض سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ عالم نزع میں بھی ان کی معلومات عامہ میں اضافہ کرنے کی غرض سے RUNNING COMMENTARY کرتا رہے گا۔ ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح مریض پر ثابت کر دیں کہ محض انتقاماً بیمار ہے یا وہم میں مبتلا ہے اورکسی سنگین غلط فہمی کی بناپراسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ ان کی مثال اس روزہ خور کی سی ہے جو انتہائی نیک نیتی سے کسی روزہ دار کا روزہ لطیفوں سے بہلانا چاہتاہو۔ مکالمہ نمونہ ملاحظہ ہو:ملاقاتی:ماشاء اللہ ! آج منہ پر بڑی رونق ہے۔مریض: جی ہاں ! آج شیو نہیں کیا ہے۔ملاقاتی:آواز میں بھی کرارا پن ہے۔مریض کی بیوی:ڈاکٹر نے صبح سے ساگودانہ بھی بند کر دیا ہے۔ملاقاتی : (اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر) بیگما!یہ صحت یاب ہو جائیں تو ذرا انھیں میری پتھری دکھانا جو تم نے چارسال سے اسپرٹ کی بوتل میں رکھ چھوڑی ہے (مریض سے مخاطب ہو کر) صاحب! یوں تو ہر مریض کو اپنی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر معلوم ہوتا ہے۔ مگر یقین جانیے، آپ کا شگاف توبس دو تین انگل لمباہو گا، میرا تو پورا ایک بالشت ہے۔ بالکل کھنکھجورا معلوم ہوتا ہے۔مریض: (کراہتے ہوئے )مگر میں ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوں۔ملاقاتی: (ایکا ایکی پنترا بدل کر)یہ سب آپ کا وہم ہے۔ آپ کو صرف ملیریا ہے۔مریض: یہ پاس والی چارپائی، جواب خالی پڑی ہے، اس کا مریض بھی اسی وہم میں مبتلا تھا۔ملاقاتی: ارے صاحب!مانئے تو! آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ اٹھ کر منہ ہاتھ دھوئیےمریض کی بیوی: (روہانسی ہو کر) دو دفعہ دھو چکے ہیں۔ صورت ہی ایسی ہے۔اس وقت ایک دیرینہ کرم فرما یاد آ رہے ہیں، جن کا طرز عیادت ہی اور ہے۔ ایساحلیہ بنا کر آتے ہیں کہ خود ان کی عیادت فرض ہو جاتی ہے۔ ''مزاج شریف!‘‘ کو وہ رسمی فقرہ نہیں، بلکہ سالانہ امتحان کاسوال سمجھتے ہیں اورسچ مچ اپنے مزاج کی جملہ تفصیلات بتانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دن منہ کا مزہ بدلنے کی خاطر میں نے ''مزاج شریف!‘‘کے بجائے ''سب خیریت ہے ؟‘‘ سے پرسش احوال کی۔ پلٹ بولے ''اس جہان شریت میں خیریت کہاں ؟‘‘اس مابعد الطبیعاتی تمہید کے بعد کراچی کے موسم کی خرابی کا ذکر آنکھوں میں آنسوبھرکرایسے اندازسے کیا گویا ان پرسراسرذاتی ظلم ہو رہا ہے، اوراس کی تمام تر ذمہ داری میونسپل کارپوریشن پر عائد ہوتی ہے۔ 

اچھی نیند کیلئے درست تکیے کی اہمیت

اچھی نیند کیلئے درست تکیے کی اہمیت

نیند انسانی صحت اور روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ نیند کے دوران جسم اور دماغ کو سکون ملتا ہے، جس سے اگلے دن کیلئے توانائی بحال ہوتی ہے۔ اچھی نیند کا انحصار صرف وقت پر نہیں بلکہ اس کے معیار پر بھی ہے۔ زیادہ تر لوگ نیند کیلئے گدے پر توجہ دیتے ہیں اور اسے ایک اہم سرمایہ کاری سمجھتے ہیں، لیکن تکیہ جو نیند کے معیار میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے، اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ ایک مناسب تکیہ نہ صرف جسم کو آرام فراہم کرتا ہے بلکہ نیند کے دوران جسمانی توازن کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ آئیے، ہم تکیے کی اہمیت، درست انتخاب اور اس کی دیکھ بھال کا جائزہ لیتے ہیں۔ تکیے کا کردار اور اس کی اہمیتتکیہ نیند کے دوران جسم کوسہارا فراہم کرتا ہے، خاص طور پر گردن، کندھوں اور ریڑھ کی ہڈی کو۔ نیند کے دوران جسم کاسیدھا رہنا ضروری ہے، کیونکہ اگر گردن یا ریڑھ کی ہڈی غیر متوازن ہو جائے تو اس کے نتیجے میں گردن، کندھے یا کمر میں درد ہو سکتا ہے۔ ایک غیر آرام دہ تکیہ نیند کو متاثر کر سکتا ہے، جس سے تھکن، چڑچڑاپن اور دیگر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔تکیہ نیند کے انداز کے مطابق جسم کو سہارا دیتا ہے۔ کمر کے بل سونے والے افراد کیلئے ایک پتلا تکیہ بہتر ہوتا ہے، کیونکہ یہ گردن کو مناسب زاویے پر رکھتا ہے۔ پہلو کے بل سونے والوں کیلئے ایک موٹا اور مضبوط تکیہ ضروری ہے، جو کندھے اور گردن کے درمیان خلا کو پر کرے۔ پیٹ کے بل سونے والوں کو ایک نرم اور پتلا تکیہ استعمال کرنا چاہیے تاکہ گردن پر دباؤ کم ہو اور ریڑھ کی ہڈی غیر متوازن نہ ہو۔تکیے کی عمر اور تبدیلی کی ضرورتزیادہ تر لوگ اپنے تکیے کی عمر کے بارے میں نہیں سوچتے اور اسے سالوں تک استعمال کرتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ عام طور پر تکیے کی عمر 18 ماہ سے 3 سال تک ہوتی ہے، لیکن یہ مواد اور معیار پر منحصر ہے۔ فوم اور قدرتی مواد کے تکیے زیادہ دیرپا ہوتے ہیں۔پرانے تکیے جلد کے مردہ خلیات، دھول، پھپھوندی اور دیگر جراثیم جمع کر لیتے ہیں، جو صحت کیلئے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ یہ الرجی، سانس کی بیماریوں اور جلد کے مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس لیے تکیے کو وقتاً فوقتاً تبدیل کرنا ضروری ہے۔ تکیے کی حالت جانچنے کیلئے ''فولڈ ٹیسٹ‘‘کریں۔ تکیے کو آدھا فولڈ کریں، اگر یہ اپنی اصلی حالت میں واپس نہیں آتا تو یہ اشارہ ہے کہ تکیہ تبدیل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔تکیہ منتخب کرتے وقت اہم عواملتکیہ خریدتے وقت چند اہم عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، تاکہ آپ کیلئے ایک ایسا تکیہ منتخب ہو جو نہ صرف آرام دہ ہو بلکہ آپ کی نیند کی ضروریات کو بھی پورا کرے۔مواد کا انتخاب:تکیے مختلف مواد سے بنے ہوتے ہیں، جیسے پرندوں کے پر، مصنوعی فائبر، اون، کپاس، لیٹیکس اور فوم۔ ہر مواد کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ پرندوں کے پروں والے تکیے نرم اور ہلکے ہوتے ہیں لیکن الرجی پیدا کر سکتے ہیں۔ فائبر کے تکیے کم الرجی پیدا کرتے ہیں لیکن یہ دیرپا نہیں ہوتے۔ فوم کے تکیے گردن اور سر کو بہترین سپورٹ فراہم کرتے ہیں لیکن یہ بھاری ہو سکتے ہیں۔وزن:تکیے کا وزن بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہلکے تکیے آسانی سے شکل بدل لیتے ہیں جبکہ بھاری تکیے مضبوط ہوتے ہیں اور اپنی جگہ پر برقرار رہتے ہیں۔سائز:تکیے کا سائز بھی نیند کے آرام پر اثر انداز ہوتا ہے۔ معیاری سائز کے تکیے زیادہ تر افراد استعمال کرتے ہیں، لیکن اگر آپ بڑے گدے پر سوتے ہیں تو بڑے سائز کا تکیہ منتخب کریں۔معیار:اعلیٰ معیار کے تکیے زیادہ دیرپا اور آرام دہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ مہنگے ہو سکتے ہیں، لیکن یہ صحت اور نیند کے معیار کیلئے ایک بہترین سرمایہ کاری ہیں۔ نیند کی عادات:آپ کی نیند کے انداز کے مطابق تکیے کا انتخاب بہت اہم ہے۔ اگر آپ کمر کے بل سوتے ہیں تو پتلا تکیہ مناسب ہوگا۔ پہلو کے بل سونے والوں کو ایک موٹا اور مضبوط تکیہ استعمال کرنا چاہیے، جبکہ پیٹ کے بل سونے والوں کے لیے نرم اور پتلا تکیہ بہتر ہے۔تکیے کی دیکھ بھال تکیے کی عمر بڑھانے اور اسے صاف رکھنے کیلئے مناسب دیکھ بھال ضروری ہے۔ تکیے کو باقاعدگی سے دھونا یا دھوپ میں رکھنا، اس میں موجود دھول اور جراثیم کو کم کرتا ہے۔ تکیے کے کور کا استعمال بھی ضروری ہے کیونکہ یہ تکیے کو صاف اور محفوظ رکھتا ہے۔ اپنی نیند کی ضروریات کے مطابق تکیہ منتخب کریں، اس کی حالت باقاعدگی سے جانچیں اور وقت پر تبدیل کریں۔ پرسکون نیند آپ کی زندگی کے معیار کو بہتر بناتی ہے اور اس میں تکیے کا کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اپنی نیند کو بہتر بنانے کیلئے آج ہی اپنے تکیے پر توجہ دیں۔