جیسا کرو گے ویسا بھرو گے
اسپیشل فیچر
ایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی تھی۔ دونوں کا آپس میں بڑا پیار تھا۔ ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا کہ کیوں نہ ہم دونوں پاس پاس رہیں۔ میرے ننھے بچوں کا کوئی محافظ نہیں ہے۔ پیٹ بھرنے کی فکر میں گھر سے باہر چلی جاتی ہوں تو دھیان میرا بچوں ہی میں لگا رہتا ہے۔ کتنا اچھا ہو جو تم یہیں کہیں پاس میں آ رہو۔ میرے بچوں کا خیال تو رکھو گی۔چیل کو لومڑی کی بات بڑی پسند آئی۔ دونوں کوئی ایسی جگہ دیکھنے لگیں جہاں وہ پاس پاس رہ سکیں۔ تلاش کرتے کرتے آخر انہیں ایک پرانا پیڑ نظر آیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس میں شگاف تھا۔ چیل نے بھی اپنے بچوں کے ساتھ اسی پیڑ پر گھونسلا بنا لیا۔ وہاں رہتے ہوئے انہیں کچھ عرصہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ایک دن لومڑی شکار کرنے جنگل میں گئی۔ وہ اور اس کے بچے بڑے بھوکے تھے اور پیڑ پر چیل بھی اپنے بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی۔ لومڑی کے بچوں کا کوئی محافظ نہ تھا۔ جونہی چیل کی ان پر نظر پڑی تو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے وہ اپنی سہیلی لومڑی کے ایک بچے کو اٹھا کر اوپر گھونسلے میں لے اور اور اس کا گوشت نوچ نوچ کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔ جب لومڑی باہر سے واپس آئی تو ایک بچہ غائب پایا۔ اس نے اپنے بچے کو ادھر ادھر تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔چیل بھی دکھاوے کا افسوس کرتی رہی۔دوسرے دن لومڑی پھر جنگل میں شکار کرنے چلی گئی۔ واپس آئی تو ایک اور بچہ غائب پایا۔ تیسرے روز بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کا ایک بچہ غائب ہوگیا۔چیل لومڑی کے سارے بچے کھا گئی اور لومڑی کا شک یقین میںبدل گیا کہ اس کے سب بچے چیل ہی نے کھائے ہیں۔ مگر وہ چپ رہی۔ چیل سے کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔ہر وقت روتی رہتی تھی اور خدا سے یہی کہتی تھی کہ اے خدا مجھے ایک دن کے لیے اڑنے کی طاقت دے دے تاکہ اپنی دوست نما دشمن چیل سے اپنا انتقام لے سکوں۔خدا نے لومڑی کی دعا سن لی اور چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ وہ ایک روز اپنی بھوک مٹانے کا سامان تلاش کرتے ہوئے جنگل میںاڑی جارہی تھی کہ ایک جگہ اس کو دھواں اٹھتا نظر آیا۔ وہ جلدی سے اس طرف آئی۔ دیکھا تو ایک جگہ شکاری آگ جلا کراپنا شکار بھون رہے تھے۔چیل بڑی بھوکی تھی اور اسے اپنے بھوکے بچوں کا بھی بڑا خیال تھا۔ صبر نہ کرسکی۔ جھپٹا مارا اور بھنتا ہوا گوشت اٹھا کر لے گئی۔ اس گوشت کے ساتھ کئی چنگاڑیاں چپکی ہوئی تھیں۔ گھونسلے میں بچھے تنکوں اور گھاس پھوس کو چنگاریوں سے آگ لگ گئی۔گھونسلا بھی سلگنے لگا۔ اسی عرصہ میں ہوا تیز تیز چلنے لگی۔ گھونسلا جلنے لگا تو پہلے چیل جل کر راکھ ہوگئی اور پھراس کے بچے جو ابھی اڑ نہ سکتے تھے۔ تڑپ تڑپ کر گھونسلے سے نیچے گرنے لگے تو لومڑی انہیں چبا چبا کر کھا گئی۔جو کسی کے کنواں کھودتا ہے خود بھی اس کنویںمیں گر جاتا ہے۔ انسان کی برائی اس کے اپنے آگے بھی آتی ہے۔