سلام کرنے کا طریقہ اور معانقے کاپس منظر
اسپیشل فیچر
حدیث مبارکہ ہے: ’’فرشتے اُمّت کا دُرود و سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں،میں جواب دیتا ہوں‘‘ہر قوم کے افراد میں ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے مخصوص طریقے رائج ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں اہل ِعرب حیات اﷲ( اﷲ تُجھے زندہ رکھے) کہتے تھے۔ ہندو رَام رَام کہتے اور سیتا رام جواب دیتے ہیں۔ آریہ نمستے کہتے ہیں۔ عیسائی گڈ مارننگ، گڈ آفٹر نون، گڈ ایوننگ اور گڈ نائٹ کہتے ہیں۔ سکھ جے گرو کہتے ہیں، مجوسی صرف منہ پر ہاتھ رکھتے ہیں، یا جُھک کر تعظیم کرتے ہیں۔ پارسی شہادت کی انگلی اُٹھادیتے ہیں۔ یہودی ہاتھ سے اشارہ کرتے ہیں، مگر ان تمام طریقوں اور سلاموں میں اسلامی سلام بہت بامعنیٰ ہے۔ سلام کے معنیٰ ہیں کہ تم دُنیا میں، مرتے وقت، قبر میں اور حشر میں آفتوں، بلائوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہو یا سلامت رہو۔ پوری اُمت کے لیے سلام کے ایک ہی الفاظ سکھا کر مساوات کا مثالی درس دیا گیا۔ باپ ہو یا بیٹا، اُستاد ہو یا شاگرد، غریب ہو یا امیر، حاکم ہویا محکوم، عالم ہو یا جاہل، چھوٹا ہویا بڑا، عربی ہو یا عجمی ملاقات کے وقت اسلام نے ہمیں السّلامُ وعلیکم ورحمتہ اﷲ و برکاتہ کے الفاظ عطا کرکے امن، سلامتی، محبت، مروّت، دُعا اور خیر خواہی کا پیغام سنایا۔ سلام اسلام کے بالکل ابتدائی زمانے میں شروع ہُوا، تاکہ مسلمان اور کافر کے درمیان فرق ہو۔ سلام کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی، جب اﷲ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمایاتو حکم دیا کہ فرشتوں کی جماعت جو وہاں بیٹھی ہوئی ہے، اُنہیں سلام کریں،حضرت آدم ؑ نے انہیں السّلامُ وعلیکم کہا ۔فرشتوں نے جواب میں وعلیکم السّلام ورحمتہ اﷲ کہا۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا: ’’یہ سلام تمہاری اور تمہاری اولاد کی دُعا ہے۔ جو ایک دوسرے کو دیں گے۔‘‘ حدیثِ مبارکہ میں ہے، سلام اﷲ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جو بخشش و مغفرت کا سبب ہے۔ سلام وجواب دونوں مثل ِ صدقہ ہیں۔ سلام جنّت میں داخلے و محبت کا سبب ہے۔ دس مسلمانوں کو سلام کرنا، ایک غلام آزاد کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔ جس نے بیس مسلمانوں کو سلام کیا اور اُسی دن فوت ہوگیا تو اس پر جَنّت واجب ہوگئی۔ (آدابِ ملاقات، تفسیرِ نعیمی)حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے ملاقات کرے،تو اُسے سلام کرے۔ اگر دونوں کے درمیان کوئی درخت یا پتھر حائل ہوجائے اور دوبارہ ملاقات ہو تو دوبارہ سلام کرے۔ مصافحہ کرتے وقت اگلے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ جیسے ایک مرد دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کرسکتا ہے، اسی طرح ایک عورت دوسری عورت سے معانقہ و مصافحہ کرسکتی ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ مصافحہ کرنے سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ حدیث ِ مبارکہ میں ہے: ’’مصافحہ کیا کرو، اس سے تمہارے دلوں سے حسد و کینہ نکل جائے گا۔‘‘ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سے منقول ہے:’’ دُنیا میں سب سے پہلے معانقہ کرنے والے حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام ہیں۔ جب حضرت ذُوالقرنین سفر کرتے ہوئے، مکّے میںمقام ِبطخ پر پہنچے تو اِنہیں کسی نے بتایا کہ یہاں اﷲ کے خلیل حضرت ابراہیم ؑ رَونق افروز ہیں۔ یہ سُن کر حضرت ذُوالقرنین سواری سے اُتر کر پیدل چلے اور حضرت ابراہیم ؑ سے ملاقات کی، حضرت ابراہیم ؑ نے سلام کرکے حضرت ذوالقرنین سے معانقہ فرمایا۔ دُنیا میں اس سے پہلے کسی نے معانقہ نہیں کیا تھا۔(الجراالرائق) حضرت سلیمان ؑ سے روایت ہے کہ حضور پاک ؐ نے فرمایا: ’’مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی سے ملے اور مصافحہ کرے تو ان دونوں کے گناہ ایسے گرتے ہیں، جیسے تیز آندھی سے خشک درخت کے پتّے۔ اُن کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘(ابن ماجہ، طبرانی) انگلیوں کے اشارے سے سلام کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے۔ ہتھیلیوں کے اشارے سے سلام کرنا نصاریٰ کا طریقہ ہے۔(ترمذی) حضوراکرم ؐ نے حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ ، عثمانؓ ، علیؓ، زیدؓ، جعفر،ؓ ہالہؓ، ابوذرغفاریؓ، عکرمہ ؓ سے معانقہ فرمایا۔(ترمذی، ابودائود، تسکین السالکین)حضرت سہیل بن سعد ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ؐ کی خدمت میں ایک صحابی ؓنے تنگ دستی کا شکوہ کیا، آپ ؐ نے فرمایا:’’ جب تم گھر میں داخل ہُوا کرو تو سلام کیا کرو، خواہ گھر میں کوئی ہو یا نہ ہو، پھر اُس کے بعد مجھ پر دُرود و سلام بھیجو اور پھر سورۂ اخلاص ایک بار پڑھ لیا کرو۔ اُن صحابیؓ نے ایسا ہی کیا، جس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے اُن پر کشائش فرمائی اور اتنی روزی عطا فرمائی کہ وہ اپنے پڑوسیوں اور قرابت داروں میں تقسیم کرتے تھے۔‘‘ (آدابِ ملاقات)اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں بارہ مواقع پر مومن پر سلام کاذکر فرمایا:’’ یہ ازل میں رَبّ نے بندوں پرسلامتی اُتاری ،اس لیے اُس نے اپنا نام سلام رکھا یعنی بندوں کو سلامتی دینے والا۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا: ’’اے نوح ؑ!کشتی سے اُترو،ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں لے کر۔‘‘(سورۂ ھود) حضور اکرمؐ کی معرفت سلام بھیجا،سلام ہو میرے پیارے بندوں پر۔‘‘حضور اکرمؐ کوہدایت دی کہ اپنی اُمّت کو سلام فرمائو، ’’جو ایمان لائے، اُن پر سلام ہو۔‘‘(سورہ انعام54) خود اﷲ تعالیٰ نے بِلاواسطہ سلام فرمایا:’’ مہربان رَبّ کی طرف سے سلام ہو۔‘‘(سورۂ یٰسین58) اُمّتِ محمدؐ کو سلام کرنے کا حکم دیا: ’’جب تمہیں کوئی سلام کرے تو تم اس سے بہترالفاظ میں سلام کا جواب دو۔‘‘ (سورۃالنساء 86) ’’ملک الموت ؑ کی معرفت سلام بھیجا۔‘‘(سورۂ نحل،آیت32) جنّت میں داخلے کے وقت فرشتوں سے سلام کہلوایا ،ارشاد فرمایا: ’’تم پرسلامتی ہو، گناہوں سے بچنے ،اطاعت پر قائم رہنے، مصائب برداشت کرنے کی وجہ سے۔‘‘(سورہ ٔرعد)سلام کرنا سُنّت ہے،جواب سلام واجب ہے۔ زیادہ ثواب سلام کرنے والے کوملتا ہے۔ سلام کرنے والے کو نوّے (90) نیکیوں کا ثواب ملے گا۔سلام کرنے والے کو چاہیے کہ بلند آواز سے سلام کرے تاکہ سامنے والا سُن لے۔ جماعت میں سے ایک نے سلام کرلیا، سب کی طرف سے ادا ہوگیا۔ اگر کسی نے نہ کیا تو سب سُنّت کے تارک ہوئے۔حضور اکرمؐ اپنے احباب سے اکثر ملاقات کرتے تھے۔ جو شخص مسلمان بھائی سے ملاقات کرتا ہے تو ستّر ہزار فرشتے اُس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس کے لیے بخشش و مغفرت کی دُعا کرتے ہیں۔ ملاقات کے لیے کھانے پینے اور سونے کے وقت نہیں جانا چاہیے۔(آداب ملاقات) سُنّت یہ ہے کہ سوار پیدل کو ،چلنے والا بیٹھے ہُوئے کو، تھوڑی جماعت بڑی جماعت کو اور چھوٹی عمر والا بڑی عمر والے کو سلام کرے۔ بہ وقتِ ملاقات پہلے سلام کرے، بچّوں کے پاس جائو تو انہیں بھی سلام کرو کہ رسول اﷲ ؐ ایسا ہی کرتے تھے۔لوگ ایک دوسرے کو سلام کریں۔ جب اپنے گھر میں آئو تو اپنے بیوی بچّوں کو سلام کرو، اِس سے اتحاد ، اتفاق اور رزق میں برکت ہوتی ہے۔ جب خالی گھر میں جائو تو یوں سلام کرو ،السّلامُ وعلیکم یَا اَیّھا النّبیؐ و رحمتہ اﷲ وبرکاتہ، جب مسجد میں داخل ہو تو کہو بسم اﷲ و السّلامُ علیک یارسولِؐ اﷲ ۔عام قبرستان میں جائو تو یوںسلام کرو السّلامُ علیکم یا اہل القبور،(یعنی پوری دُعا)۔ جب او لیاء اﷲ کے مزارات پر حاضری دو تو یوں سلام کرو، السّلامُ علیکم بما کسبتم فنعم عقبی الدار۔ جب شہداء کے مزار پر حاضری دو تو یوں سلام کروالسَّلامُ علیکم بماصبر تم فنعم عقبی الدار۔ جب حضور اکرم ؐ کے روضۂ انور پر حاضری نصیب ہو تو وہ سلام کرو جو سفر نامۂ قبلتین میں ہے۔(تفسیرِ نعیمی) حضوراکرمؐ پر تقریباً ہر حالت میں صلوٰۃ و سلام بھیجنا چاہیے مگر جمعے کے دن و رات، صبح وشام، مسجد میں آتے جاتے، روضۂ مطہرہ کی زیارت کے وقت دُعا کے اوّل و آخر اور بیچ میں حج و عمرہ میں تلبیہ کے بعد۔ وضو کے وقت، وعظ کہتے وقت، درس، خطبۂ نکاح کے وقت، التحیّات میں حضور اکرم ؐ کے اسمائے مبارک لیتے یا لکھتے وقت، ہر اہم کام کرتے وقت بالخصوص دُرود وسلام بھیجناچاہیے۔ یہ درحقیقت حضوراکرم ؐ سے سلام کاجواب لینے کی تدبیر ہے۔ یقینا حضوراکرمؐ سلام کا جواب دیتے ہیں۔‘‘(تفسیرِنعیمی) حدیثِ مبارکہ میں ہے:’’ اﷲ کے بہت سے فرشتے زمین میں ہیں، جو اُمّت کا دُرود و سلام پہنچاتے ہیں،میںسلام کاجواب بہر صورت دیتا ہُوں۔‘‘الصلوٰۃ وَالسَّلامُ علیک یارسُول اﷲ ؐ الصلوٰۃ و السَّلامُ علیک یا نبی اﷲ ؐ کہا جائے۔(تبلیغی نصاب)