فتح مکہ کا تاریخی خطبہ
اسپیشل فیچر
رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’ آج تمام مفاخر، تمام انتقامِ قدیم،تمام خوں بہا سب میرے قدموں کے نیچے ہیں‘‘********فتحِ مکّہ کے پس منظر میں بنو بکر کا بنو خزاعہ پر وہ حملہ تھا، جو بہت عرصے سے صلح حدیبیہ کی وجہ سے رُکا ہوا تھا۔جب بنو بکر نے حملہ کیا تو رؤسائے قریش نے اُن کی اعلانیہ مدد کی۔لڑائی میں بنو خزاعہ نے خانہ ٔ کعبہ میں پناہ لینا چاہی لیکن قریش نے خانۂ کعبہ کا احترام نظر انداز کر کے حدود ِکعبہ میں خون بہایا۔بنو خزاعہ کی جانب سے چالیس سوار فریاد لے کر حضوراکرمؐ کے پاس آئے۔ آپ نے واقعات سُنے اور جواب میں تین شرائط لکھ کر قریش کی جانب بھیجیں جو یہ تھیں:مقتولوں کا خوں بہا دیا جائے،قریش بنو بکر کی حمایت سے الگ ہو جائیںیااعلان کر دیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔قریش نے جواب دیا کہ تیسری شرط منظور ہے، لیکن ایلچی کے جانے کے بعد اُنہیں ندامت ہوئی۔آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مکّے کی تیاریاں کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اتحادیوں کی طرف قاصد بھیجے، اِس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ تمام کام خاموشی سے انجام پائیں۔صحابی حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے ایک خط خفیہ طور پراہلِ قریش کو لکھا کہ رسولؐ اللہ مکّے کی تیاریاں کرتے ہیں۔ رسولؐ اللہ کو خبر ہو گئی۔ آپؐ نے صحابہ کرامؐ کو بھیجا کہ خط لے کر آئیں، خط چھین لیا گیا اور حضرت حاطبؓ کے خط کے بارے میں سُن کر دیگر صحابہ ٔ کرامؓ کو حیرت ہوئی ۔ حضرت عمرفاروق ؓنے فرمایا:’’ یارسولؐ اللہ آپ حُکم دیں ،تو اس کا سر اُڑا دوں۔‘‘ لیکن نبی کریم ؐ کی پیشانی مبارک پر ایک شکن نہ تھی، آپ ؐ نے فرمایا: ’’عمرؓ! تمہیں کیا خبر کہ اللہ نے اہلِ بدر کو مخاطب کر کے کہہ دیا ہو کہ تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔‘‘لشکرِ اسلام جو دس ہزار افراد پر مشتمل تھا ایک شان کے ساتھ مکّہ مکرّمہ کی جانب بڑھا۔مرا الظہران پہنچ کر لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ یہاں پہنچنے تک راستے کے بہت سے قبائل بھی لشکر کا حصّہ بنتے گئے تھے۔یہ مقام مکّہ سے ایک منزل کے فاصلے پر تھا۔رسولؐ اللہ نے فوج کو دور تک پھیل جانے کا حکم دیا، فوج نے الگ الگ آگ روشن کی تو تمام صحرا یک دم سے وادیٔ ایمن بن گیا۔قریش کو خبر ہوئی کہ لشکرِ اسلام مکّہ مکرّمہ کی طرف آرہاہے۔ انہوں نے ابو سفیان ، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقا کو بھیجا۔خیمۂ نبویؐ پر موجود دَستے نے ابو سفیان کو آتے دیکھ لیا تھا۔حضرت عمر فاروق ؓنے رسولؐ اللہ سے عرض کی کہ کفار کے استیصال(جڑ سے اُکھاڑ دینے) کا وقت آگیا لیکن حضرت عباسؓ نے جاں بخشی کی گزارش کی( بعض روایات کے مطابق اس وقت ابو سفیان اسلام قبول کر چکے تھے) لشکر ِ اسلام کعبے کی طرف روانہ ہوا، حکمِ نبوی ؐ کے مطابق ابو سفیان کو ایک پہاڑی پر کھڑا کر دیا گیا کہ وہ لشکرِ اسلام کے جلال کانظارہ کر سکیں۔لشکر آگے بڑھا،عرب کے مسلم قبائل سمندری موجوں کی طرح آگے بڑھے۔ سب سے آگے قبیلۂ غفار تھا،پھر سعد بن ہذیم تکبیر کے نعرے مارتے ہوئے نکل گئے۔ ابو سفیان ہر بار مرعوب ہو جاتے تھے اور پھر جب اُن کی نگاہ انصار پر پڑی ،تو بے اختیار پکاراُٹھے :’’یہ لشکر کس کا ہے؟‘‘اسی وقت انصار کی فوج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ پاس سے گزرے اور انہوں نے فرمایا: ‘‘آج گھمسان کا دن ہے، آج کعبہ حلال کر دیا جائے گا۔‘‘سب سے آخر میں لشکرِ نبوی ؐتھا، علَمِ نبویؐ حضرت زبیرؓ بن العوام کے ہاتھ میں تھا۔ حضور اکرمؐ نے جب سُنا کہ سعد بن عبادہ نے یہ کہا تو فرمایا:’’ آج کعبے کی عظمت کا دن ہے اور ساتھ ہی حکم دیا کہ انصار کا علم سعد بن عبادہ سے لے کر اُن کے بیٹے کو دے دیا جائے۔‘‘مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے،شہنشاہِ دو جہاں ؐ کا سرِ اقدس قدرے جُھکا ہوا تھا اور چشمانِ مبارک نم تھیں، حکم ہُوا کہ علَمِ نبویؐ ، مقامِ حجون پر نصب کر دیا جائے۔حضرت خالد ؓ کو حکمِ نبوی ؐہوا کہ فوج کو لے کر بالائی حصّے کی طرف آئیں۔رسولؐ اللہ کی جانب سے اعلان کر دیا گیا:’’ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا، ابو سفیان کے گھرمیں پناہ لے گا یا خانۂ کعبہ میں پناہ لے گا، اُسے امن دیا جائے گا۔‘‘ اس کے باوجود بھی کفار کے ایک گروہ نے حملہ کیا۔ تین صحابۂ کرامؓ شہید ہوئے، حضرت خالدؓنے مجبوراً حملہ کیا اور دشمن 13 لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ نبی کریم ؐ کو خبر ہوئی تو حضرت خالدؓ سے باز پرس کی، حقیقت معلوم ہوئی تو فرمایا:’’ یہ قضائے الٰہی تھی۔‘‘اِس کے بعد خانہ کعبہ سے تمام تر بُتوں کو نکلوایا گیا، پھر کعبے کی کنجیاں طلب کی گئیں اور رسول ؐاللہ نے وہاں نماز ادا کی، بعض روایات میں آتاہے کہ صرف تکبیر کہی۔اُس کے بعد فتح کا خطبہ دیا:’’ایک اللہ کے سوا اور کوئی خُدا نہیں، اُس کا کوئی شریک نہیں، اُس نے اپنا وعدہ سچّا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور تمام جتھوں کو تنہا توڑ دیا،ہاں، تمام مفاخر، تمام انتقامِ قدیم،تمام خوںبہا سب میرے قدموں کے نیچے ہیں، صرف حرمِ کعبہ کی توّلیت اور حجاج کی آب رسانی اس سے مستثنیٰ ہیں۔اے قریش! اب جاہلیت کا غرور اور نسب کا افتخار اللہ تعالیٰ نے مٹا دیا۔‘‘اس کے بعد قرآن کی یہ آیت تلاوت کی:’’لوگو میں نے تم تمہیںمرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے پہچان لیے جاؤلیکن اللہ کے نزدیک شریف وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہو۔اللہ تعالیٰ دانا اور واقف کار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کی خرید و فروخت حرام کر دی۔‘‘