حضرت سلیمان علیہ السلام اور ہد ہد کا قصہ
اسپیشل فیچر
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مقام پر شاہی خیمہ نصب کیا۔ پرندوں نے جب انہیں اپنا ہم زبان اور محرم پایا تو سب تیزی سے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنے نغموں اور چہچہوں کو چھوڑ کر وہ سب حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ صدق و صفا سے باتیں کرنے لگے۔ ہر کسی کی خواہش تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اسے اپنی پیشی میں رکھیں۔ اس لیے سارے پرندے اپنے اپنے ہنر اور عقل کے متعلق بڑھ چڑھ کر بیان کررہے تھے۔جب ہد ہد کی باری آئی ،تو اس نے عرض کیا کہ بات مختصر ہی اچھی ہوتی ہے ،میں لمبی چوڑی تفصیلات میں نہیں جائوں گا۔ فقط اپنا ایک چھوٹا سا ہنر بیان کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ بڑی خوشی سے بیان کرو۔ ہدہد نے کہا جب میں بلندی پر ہوتا ہو تو وہیں سے یقین کی نظر سے میں ہر چیز کو دیکھ سکتا ہوں۔ حتیٰ کہ زمین کی تہہ میں جو پانی ہے اس کی گہرائی اور اس کے رنگ تک کو دیکھ سکتا ہوں۔ اس لیے میری گزارش ہے کہ سفر میں فوجی کیمپ کے ساتھ مجھے ہی رکھیے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی عرض قبول کرلی اور حکم دیا کہ تم رات دن ہمارے ساتھ رہا کرو تاکہ لشکر کو پیاس کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ اس کے بعد ہدہد ہمیشہ ان کی خدمت میں حاضر رہنے لگا۔کوّے نے یہ فیصلہ سنا تو مارے حسد کے جل گیا، حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: ’’یا حضرت! اول تو بادشاہوں کے حضور بڑھ چڑھ کر باتیں بنانا ہی بے ادبی ہے، لیکن شیخی کی وہ باتیں جو سرے سے غلط اور جھوٹی ہوں ان کے بیان پر یقیناً گستاخی کی سزا ملنی چاہیے۔ ہد ہد نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ذرا اس سے یہ تو پوچھیے کہ اگر اس کی نظراتنی ہی دور بین ہے تو اسے زمین پر بچھا ہوا جال کیوں نظرنہیں آتا‘‘۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد سے کہا: ’’اگر تجھے جھوٹ بولنا ہی تھا تو اس کے لیے اور بہتیرے موقعے ہوسکتے تھے۔ پہلی ہی بات میں جھوٹی شیخی پر تو کیوں آیا؟‘‘۔ہدہد نے نہایت ادب سے عرض کیا :’’ اے پیغمبر میں نے جو بات کہی ہے اگر غلط ثابت ہو تو میری گردن مار دیجیے، لیکن خدا کے واسطے مجھ غریب کے خلاف اس دشمن کی باتوں پر توجہ نہ دیں۔ کوّا میرا حاسد ہے اور قضائے الٰہی کا منکر بھی ہے۔ میرا یہ دعویٰ قضا کے خلاف نہیں تھا۔ میں اڑتے وقت ان بلندیوں سے پانی کو اگر زمین کی تہہ میں دیکھ سکتا ہوں تو یقیناً زمین پر بچھے ہوئے جال کو بھی دیکھ سکتا ہوں بشرطیکہ قضا میری آنکھوں پر پردہ نہ ڈال دے۔ کوّے نے مجھ پر جھوٹ بول کر جو تہمت لگائی ہے سراسر غلط ہے۔ اس لیے کہ جب قضا آتی ہے تو عقل سو جاتی ہے۔ خود حضرت آدم علیہ السلام کو لیجیے۔ ان کے علم اور فضل کی حد نہ تھی، لیکن اس کے باوجود جب قضا آئی تو وہ غلطی کھا گئے۔ پھر میں کس شمار میں؟‘‘٭…٭…٭