مسائل اعتکاف
اسپیشل فیچر
’’اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایاکرتے۔‘‘آپؓ فرماتی ہیں:’’ معتکف پرسُنّت(یعنی حدیث سے ثابت )یہ ہے کہ نہ مریض کی عیادت کے لیے جائے ‘نہ جنازے میں حاضر ہو،نہ زوجہ کو ہاتھ لگائے اور نہ مباشرت کرے اور نہ کسی حاجت کے لیے جاسکتا ہے ،مگر وہ اُس حاجت کے لیے جاسکتا ہے، جوضروری ہے اور اعتکاف بغیر روزے کے نہیں ۔اعتکاف والا جماعت مسجد میں کرے ۔‘‘اﷲعزّوجل ارشاد فرماتاہے: ’’ازواج سے مباشرت نہ کرو ،جب تم مسجد وں میںا عتکاف کیے ہُوئے ہو۔‘‘حضرت ابنِ عبا س ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐنے معتکف کے بارے میں فرمایا:’’ وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اُسے اِس قدر ثواب ملتا ہے، جیسے اُس نے تمام نیکیاں کیں۔ ‘‘’’بیہقی حضرت امام حسین ؓ سے راوی ہیں کہ حضورِ اقدسؐ نے فرمایا:’’ جس نے رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرلیا تو ایسا ہے جیسے دو حج اور عمرے کیے۔ ‘‘مسجد میںاﷲتعالیٰ کے لیے نیّت کے ساتھ ٹھہرنااعتکاف ہے اور اس کے لیے مسلمان عاقل اور جنابت وحیض ونفاس سے پا ک ہونا شرط ہے،بلوغ شرط نہیں بلکہ نابالغ جوتمیز رکھتا ہے، اگربہ نیّتِ اعتکاف مسجد میں ٹھہرے تو یہ اعتکاف صحیح ہے۔ آزاد ہونابھی شرط نہیں لہٰذا غلام بھی اعتکاف کرسکتا ہے، مگر آقا سے اجازت لینی ہوگی اور آقا کوبہر حال منع کرنے کاحق حاصل ہے ۔سب سے افضل مسجد حرمِ شریف میں اعتکاف ہے، پھر مسجدِ نبویؐ میں علیٰ صاحب الصّلوٰۃ والتّسلیم، پھر مسجدِ اقصیٰ پھر اُس مسجدمیں جہاں بڑی جماعت ہوتی ہو۔اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔ پہلا واجب اعتکاف، دوسرا اعتکافِ سُنّت مؤکدہ کہ رمضان کااخیر عشرہ یعنی آخری دس دن میں کیاجائے ،بیس رمضان کوسورج ڈوبتے وقت بہ نیتِ اعتکاف مسجد میں ہواور تیسویں کے غروب کے بعد یاانتیس کوچاندہونے کے بعد نکلے اورتیسرااعتکافِ نفلی،اس کا کوئی وقت مقرر نہیں، جب بھی مسجد میں داخل ہو تو صرف نیت کرلے ۔اعتکاف ہوجائے گا ۔اعتکافِ مستحب کے لیے نہ روزہ شرط ہے، نہ اس کے لیے کوئی خاص وقت مقرر ہے، بلکہ جب مسجد میں اعتکاف کی نیّت کرلی تو جب تک مسجد میں ہے معتکف ہے، چلا جائے تواعتکاف ختم ہوگیا ۔یہ بغیر محنت کے ثواب مل رہا ہے کہ فقط نیّت کرلینے سے اعتکاف کا ثواب ملتا ہے، اُسے تو نہیں کھونا چاہیے۔ مسجد میں اگر دروازے پر یہ عبارت لکھ دی جائے کہ اعتکاف کی نیّت کرلواعتکاف کا ثواب پاؤ گے تو بہتر ہے کہ جو اس سے ناواقف ہیں انہیں معلوم ہوجائے اور جو جانتے ہیں اُن کے لیے یاد دہانی ہو۔اعتکافِ سُنّت یعنی جورمضان کریم کی پچھلی دس تاریخوں میں کیا جاتا ہے، اس میں روزہ شرط ہے ، لہٰذا اگر کسی مریض یا مسافر نے اعتکاف تو کیا مگر روزہ نہ رکھا تو سُنّت ادا نہیںہُوئی بلکہ صرف نفل ہُوا۔منّت کے اعتکاف میں روزہ شرط ہے، یہاں تک کہ اگر ایک مہینے کے اعتکاف کی منّت مانی اور یہ کہا کہ روزہ نہ رکھے گا جب بھی روزہ رکھنا واجب ہے ۔عور ت نے اعتکاف کی منّت مانی تو شوہر منّت پوری کرنے سے روک سکتا ہے اور بائن ہونے یا شوہرکی موت کے بعد منّت پوری کرلے ۔اس طرح لونڈی یا غلام کو اُن کا مالک منع کرسکتا ہے، یہ آزاد ہونے کے بعد پوری کرلیں ۔اعتکافِ واجب میں معتکف کومسجد سے بغیر عذر نکلنا حرام ہے، اگر نکلا تو اگرچہ بُھول کر نکلا ہو، یہ اعتکاف سُنّت بھی بغیر عذ رنکلنے سے جاتا رہتا ہے۔اسی طرح عورت نے مسجدِ بیت میں اعتکاف واجب یامسنون کیا تو بغیر عذر وہاں سے نہیں نکل سکتی ،اگر وہاں سے نکلی اگر چہ گھر ہی میں رہی، اعتکاف جاتا رہا۔معتکف کے لیے مسجد سے نکلنے کے دو عذر ہیں۔ ایک حاجتِ طبعی کہ جو مسجد میں پوری نہ ہوسکے، جیسے پاخانہ ،پیشاب ،استنجاء ،وضو،اگر ضرورت ہوتوغسل ،مگر غسل و وضومیں یہ شرط ہے کہ مسجد میں ہوسکیں، یعنی کوئی ایسی چیز نہ ہوجس میں وضوا ورغسل کاپانی لے سکے۔ اس طرح کہ مسجد میں پانی کی کوئی بوندنہ گرے کہ وضو وغسل کا پانی مسجد میں گرانا ناجائز ہے اور لگن وغیرہ موجو د ہوکہ اس میں وضو اس طرح کرسکتا ہے کہ کوئی چھینٹ مسجد میںنہ گرے، تو وضو کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں، نکلے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا ،اسی طرح مسجد میں اگروضو وغسل کے لیے جگہ بنی ہویاحوض ہوتو باہر جانے کی اجازت نہیں ۔دوم حاجتِ شرعی مثلاًعید یاجمعہ کے لیے جانایااذان کہنے کے لیے مینارے پر جانا،جب مینارے پرجانے کے لیے باہر ہی سے راستہ ہواور اگر مینارے کا راستہ اندر سے ہوتو غیر مؤذن بھی مینارہ پر جاسکتا ہے، مؤذن کی تخصیص نہیں۔اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کیا، جہاں جماعت نہیں ہوتی تو جماعت کے لیے نکلنے کی اجازت ہے ۔عورت کے لیے مسجد میںا عتکاف مکروہ ہے۔ وہ گھر میں ہی اعتکاف کرے، مگر اُ س جگہ کرے جو اُس نے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کررکھی ہے، جسے مسجدِ بیت کہتے ہیں اور عورت کے لیے مستحب بھی ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مقرّر کرلے اور اُس جگہ کوپاک صاف رکھے ۔ بہتر یہ ہے کہ اس جگہ کوچبوترے وغیرہ کی طرح بلند کرے، بلکہ مردکو بھی چاہیے کہ نوافل کے لیے گھر میں کوئی جگہ مقرّر کرلے کیوں کہ نوافل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے ۔معتکف کابیسویں روزے کو سورج غروب ہونے سے پہلے مسجد میں داخل ہونا شرط ہے ،غروبِ آفتاب کے ایک لمحہ بعد بھی داخل ہوگا، تو اعتکاف نہ ہوگا۔معتکف سگریٹ یاحقّے کے لیے باہر نہیں جاسکتا ،استنجاء خانے جاتے وقت سگریٹ پی سکتا ہے ۔معتکف غسلِ فرض کے علاوہ کسی غسل کے لیے نہیں جاسکتا ۔معتکف ہاتھ دھونے کے لیے وضو خانے نہیں جاسکتا ،البتہ مسجد میں برتن کا انتظام کرلے اور مسجد کا احترام ملحوظ رکھے۔ معتکف بہت زیادہ بیمار ہواور ڈاکٹر کا انتظام نہ ہو،تو مسجد کے باہر جاسکتا ہے۔اگر مسجد میں بجلی فیل ہوجائے تو معتکف مسجد کی چھت پر جاکر سو سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ زینہ مسجد کی حدود کے اندر ہو۔وضوخانے یا استنجا ء خانے پر رَش ہونے کی صورت میں معتکف مسجد کے اند رکھڑا ہوکر انتظار کرے ۔معتکف اگر استنجاء خانے گیا اور وہاں پانی ختم ہوگیا تو وہ اپنے معتکف ساتھی کو نہیں بلاسکتا بلکہ کسی دوسرے کو بلاسکتا ہے ۔معتکف اعتکاف کے دوران بلند آوازسے تلاوت اور ذِکرواذکار میں احتیاط کرے ۔دوسروں کی عبادت یا آرام میں خلل واقع نہ ہوتو بلند آواز سے تلاوت اور ذکر واذکار کرسکتاہے ۔ڈاڑھی منڈاناحرام ہے۔ مسجد میں بیٹھ کر اور اعتکاف کی حالت میں مزید سخت گنا ہ ہے ۔خط ،زلفیں وغیرہ بھی مسجد میں بنانا جائز نہیں۔معتکف کا کسی وجہ سے اگرروزہ فاسد ہوجائے تو اعتکاف بھی فاسد ہوجائے گا۔عور ت کو دوران اعتکاف حیض آجائے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا،البتہ پاک ہونے کے بعد اُس دن کی قضا کرے ۔محلے میں آگ لگنے یاکسی حادثے کی صورت میں معتکف مدد کے لیے باہر نہیں جاسکتا ہے ۔معتکف کپڑے میلے ہونے کی صورت میں کپڑے تبدیل کرنے غسل خانے نہیں جاسکتا،چادر وغیرہ کا انتظام پہلے سے کرلے ۔معتکف مسجد میں اعتکاف کے دنوں میں کچی پیاز ،نسوار ،لہسن وغیرہ استعمال نہیں کرسکتا۔ معتکف کامسجد سے بغیر عذر نکلنا حرام ہےمعتکف بہت زیادہ بیمار ہواور ڈاکٹر کا انتظام نہ ہو،تو مسجد کے باہر جاسکتا ہےاگر مسجد میں بجلی فیل ہوجائے تومسجد کی چھت پر جاکر سو سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ زینہ مسجد کی حدود کے اندر ہو