بوڑھا برگد جدید بھارتی ادب کا ایک نمائندہ افسانہ
اسپیشل فیچر
گلی شبھ ناتھ میں صرف ایک درخت استادہ تھا… برگد کا بوڑھا درخت! ننھے علی کی پتنگ اسی کی شاخوں میں جا پھنسی۔ برہنہ پا لڑکا معمولی قمیض میں ملبوس تھا۔ وہ گلی میں بھاگتا آخری سرے پہنچا جہاں اس کا دادا دھوپ تاپتے اونگھ رہا تھا۔ لڑکا چلایا ’’دادا !میری پتنگ گئی‘‘۔ لمبی سفید ڈاڑھی والا بوڑھا ہڑبڑا کر اپنے خوابوں سے نکلا ، سر اٹھایا اور پوچھا ’’کیوں کیا ہوا؟ تنکا ٹوٹ گیا؟چہ چہ، آج کل پہلے کی طرح مضبوط تنکے نہیں رہے‘‘۔ ’’دادا یہ بات نہیں، پتنگ برگد کی شاخوں میں جا گھسی ہے‘‘۔ بوڑھا مسکرا کر بولا ’’علی! تمہیں اب تک پتنگ اڑانی نہیں آئی۔ افسوس ، میں اتنا بوڑھا ہو چکا کہ تمہیں پتنگ اڑانا نہیں سکھا سکتا‘‘۔ اس نے کچھ دیر پہلے تنکوں، کاغذ اور دھاگے سے پتنگ بنائی تھی۔ اب وہ دھوپ میں پڑی سوکھ رہی تھی۔ وہ چھوٹی سی سرخ دم والی گلابی رنگ پتنگ تھی۔ بوڑھے نے اُسے اٹھایا اور دیکھا بھالا، کاغذ سوکھ کر سخت ہو چکا تھا… پتنگ اڑنے کو تیار تھی۔ دادا نے پوتے کو پکڑائی تو وہ خوشی سے گلنار ہو گیا، اُچک کر دادا کا نرم گال چوما اور بھاگ پڑا۔ بوڑھا دھوپ تاپتے پھر اپنے خیالوں میں کھو گیا۔ وہ پتنگیں بنا کر بیچتا تھا مگر دکان کئی سال پہلے بند ہو چکی۔ سارا سامان کباڑیئے کو بیچ دیا گیا۔ اب وہ پوتے کے لیے پتنگیں بناتا تھا۔ کمپیوٹر اور موبائلوں کے اس دور میں لوگ پتنگ ہی کم خریدتے۔ جب کوئی تہوار آتا، تب ہی پتنگیں فروخت ہوتیں۔ بچے بڑے دیگر مشغلوں پر رقم خرچ کرنے لگے تھے۔ پھر پتنگ اڑانے کے لیے میدان بھی کم رہ گئے ۔بڑھتی آبادی ان سرسبز وسیع میدانوں کو کھا گئی جو پہلے چہار سو پھیلے تھے۔ بوڑھا وہ وقت یاد کرنے لگا جب سیکڑوں مرد میدانوں میں پتنگیں اڑایا کرتے ۔ تب شرطیں بندھتیں۔ نیلا آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے سج جاتا۔ زبردست پیچ لڑتے۔ کوئی پتنگ کٹتی تو ہوا میں لچکتی ڈولتی انجان سمت بڑھ جاتی۔ ماضی میں امرا بھی پتنگ بازی کرتے۔ بوڑھے کو یاد آیا ،کئی نواب مصاحبوں کے ہمراہ میدان میں آتے اور پتنگیں اڑا کر دل بہلاتے ۔ اس زمانے میں وقت بہت تھا اور سبھی اطمینان سے پتنگ اڑاتے۔ اب زمانہ تیز رفتار ہو چکا اور خواہشیں بھی بڑھ گئیں۔ پتنگ اور خواب جیسی نفیس و نازک چیزیں پیروں تلے روندی جانے لگیں۔ بوڑھا محمود نوجوانی میں مشہور پتنگ باز تھا۔ عمدہ پتنگیں بھی بناتا جو منہ مانگے داموں فروخت ہوتیں۔مگر یہ بات قصۂ ماضی بن چکی۔ اب قدردان رہے تھے اور نہ فرصت کے مشغلے! ان کے وارث بھی کنگال ہو چکے تھے۔ ایک دور میں شاعروں کی طرح پتنگ بازوں کے بھی سرپرست تھے۔ لیکن اب کوئی محمود کو نہ جانتا ۔ کوئی اس کا نام و پیشہ نہ پوچھتا۔ گلی بھی انجان لوگوں سے بھر چکی تھی ۔ نوجوانی میں ایک بار محمود بیمار ہوا تو علاقہ بھر سے لوگ اس کی خیریت پوچھنے آئے ۔ اب موت سر پہ پہنچ چکی تھی اور کوئی محمود سے ملنے نہ آتا۔ اس کے بیشتر دوست بھی گزر گئے۔ بچے بھی بڑے ہوکر اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے۔ جو بچے کبھی اس سے پتنگیں خریدتے تھے ، جوان ہو گئے۔ اب وہ زندہ رہنے کی جدوجہد میں محو تھے ۔ ان کے پاس بوڑھے اور اس کی یادیں سننے کے لیے بالکل وقت نہ تھا۔ وہ تیز رفتار اور مسابقت والی دنیا میں رہ رہے تھے، چنانچہ بوڑھے پتنگ باز کو کہنہ سال برگد کی طرح بے پروائی سے دیکھتے ۔ بوڑھا اور برگد… دونوں اردگرد پھیلے انسانوں کے ہجوم سے کٹ گئے تھے۔ اب لوگ اپنے مسائل اور خوابوں پہ باتیں کرنے برگد تلے جمع نہ ہوتے۔ بس گرمیوں میں کچھ افراد دھوپ سے بچنے کی خاطر اس کے نیچے پناہ لیتے۔ لیکن ہاں وہ لڑکا، اس کا پوتا ضرور موجود تھا… خوش قسمتی سے محمود کا ایک بیٹا اسی کے ساتھ رہتا تھا۔ بہو تمیزدار تھی۔ پوتا بھی محبت کرنے والا ملا۔ جب وہ موسم سرما کی روپہلی دھوپ میں کھیلتا تو بوڑھے کا دل مسّرت سے بھر جاتا۔ پوتا دادا کی نگاہوں کے سامنے نوخیز بوٹے سے توانا درخت کی شکل اختیار کر رہا تھا۔ انسان اور درخت کے مابین خاصی مماثلت ہے۔ دونوں کو پلتے بڑھتے یہ خطرہ دامن گیر رہتا ہے کہ کوئی انھیں کاٹ نہ ڈالے، زخمی نہ کردے۔ نوجوانی میں وہ خوبصورت اور تروتازہ ہوتے لیکن بڑھاپے میں ان کی کمر جھک جاتی ہے۔ خدوخال بگڑتے اور وہ آہیں بھرنے لگتے ہیں۔ محمود بھی بوڑھے برگد کے مانند تھا۔ اس کے ہاتھ کسی ضعیف درخت کی طرح مڑ چکے تھے۔ اور علی… آم کے اس نوخیز پودے جیسا جو گلی کے نکڑ پہ اُگ آیا تھا۔ دونوں چند ہی برس میں نوجوانی کی طاقت و اعتماد حاصل کر لیں گے۔ اچانک محمود کو محسوس ہوا کہ وہ اپنے خیالوں میں زیادہ ہی کھو گیا۔ وہ واپس دنیا میں آیا اور پوتے کے لیے نئی پتنگ بنانے لگا۔ وہ علی کے لیے یہی ورثہ چھوڑ سکتا تھا۔ تھوڑے عرصے بعد محمود کو دور سے پوتے کی آواز آئی لیکن وہ کچھ سمجھ نہ سکا، اس کے حواس ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ پوتا دادا سے پوچھ رہا تھا کہ کیا ماں بازار سے واپس آ گئی؟ جب دادا نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ قریب آ گیا۔ بوڑھے کا چہرہ سورج کی روشنی سے منور تھا۔ ایک ننھی تتلی ڈاڑھی کے قریب منڈلا رہی تھی۔ وہ بالکل ساکت تھا۔ علی نے اپنا گندمی ہاتھ محمود کے کاندھے پر رکھا تو اسے کوئی جواب نہ ملا… دادا کا بدن ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ علی خوفزدہ ہو گیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ جب اسے کوئی نظر نہ آیا تو چیختے چلاتے ماں کو بلانے بازار کی سمت دوڑ پڑا۔ بوڑھے کی ڈاڑھی کے گرد منڈلاتی تتلی آم کے پودے کی طرف چلی گئی۔ اسی وقت ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور برگد کی شاخوں میں پھنسی پتنگ آزاد ہو کر ہوا میں ڈولنے لگی۔ وہ دنیا کی تیز رفتار زندگی سے دور، بہت دور نیلے آسمان کی طرف اڑے جا رہی تھی۔ ٭…٭…٭