پشاور , ورسک اور درہ خیبر کی سیر

پشاور , ورسک اور درہ خیبر کی سیر

اسپیشل فیچر

تحریر : رضیہ فصیح احمد (حصّہ اول)


پیارے بچّو!قلم کاروںکی دُنیا میں رضیہ فصیح احمد کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں،1965ء میں انہوں نے بچّوں کے لیے ’’سیرِ پاکستان ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی،جس میں انہوں نے دوکرداروںگٹّو اور مٹّو (بلی کے دوبچوں) کے ذریعے بچّوں کو پاکستان کے معروف شہروں کی سیر کرائی تھی،اُن کی تحریر کا خاصہ یہ ہے کہ 48سال گزرنے کے باوجود یہ تحریر پرانی محسوس نہیں ہوتی۔آپ بھی گٹّو اور مٹّو کے ہم راہ اپنے وطن کے مختلف شہروں کی سیر کیجیے۔************پشاور چھائونی میں رہتی تھی ایک بلّی۔ اس کے دو منّے منّے بچے تھے، ایک دودھ کی طرح سفیداور دوسرا رات کی طرح کالا۔ سفید بچے کانام تھا مٹّو، کالے بچے کا نام تھاگٹّو۔ مٹّوسمجھ دار تھا اورگٹّوشریر۔ گٹّو اپنی شرارت سے اکثرمٹّوکو پریشان کیاکرتا مگر دونوں بھائیوں میں بے حد محبت تھی۔ جب گھرکے بچّے ماسٹرصاحب سے پڑھتے تویہ دونوں بھی چُپ چاپ کرسیوں کے کونے پر ٹِک جاتے اور ماسٹرصاحب کی بات غورسے سُناکرتے۔ مٹّو پڑھائی کازیادہ شوقین تھا اس لیے اس نے چھوٹاموٹا حساب، تاریخ، جغرافیہ اور عام معلومات کی بہت سی باتیں سمجھ لیں مگر گٹّو مشکل سے اُردو اور انگریزی پڑھ سکتا تھا اوردوچار جملے بول بھی پاتاتھامگر زیادہ تر وہ اپنی مادری زبان میائوں میائوں ہی بولتے تھے کیوں کہ اُن کی امی نے بتایاتھا کہ مادری زبان میں بات کرنا اچھا ہوتا ہے، دوسری زبانیں علم حاصل کرنے کے لیے سیکھنی چاہئیں۔ وہ بات تو نہیں سمجھتے تھے ،ہاں اتنا ضرورجانتے تھے کہ میائوں میائوں زبان بہت آسان اور میٹھی ہے، ہر ایک کو اپنی مادری زبان آسان اورمیٹھی معلوم ہوتی ہے۔مٹّو اور گٹّو سیر وتفریح کے اتنے شوقین تھے کہ حد نہیں۔ آس پاس جگہیں تو انہوں نے دیکھ لی تھیں۔کمپنی باغ کئی مرتبہ جاچکے تھے۔ صدر بازار کے بھی چکر لگاچکے تھے۔ ایک دومرتبہ بچوں کااسکول بھی دیکھاتھامگر اب جو انہوں نے ماسٹرصاحب کی زبانی نئے نئے نام سُنے تو انہیں نئی جگہ دیکھنے کاشوق ہوا۔ ایک دن مٹّو بولا:’’امّی میں تو امریکا دیکھنے جائوں گا۔‘‘گٹّو نے قلابازی کھائی اور بولا:’’اور میں جائوںگا جاپان۔‘‘امّی ہنسیں اور بولیں:’’ پہلے اپنا ملک دیکھ لو،پھر امریکا اورجاپان جانا۔‘‘ یہ بات دونوں کی سمجھ میں آگئی۔گٹّو بولا ’’تو امّی جائیں؟‘‘’’ارے ابھی نہیں۔‘‘ امی آدمیوں کے بچّوں کی اَمّیوں کی طرح بولیں:’’ ابھی تم چھوٹے ہو، جب بڑے ہوجائو تو خوب سیرکرنا۔ سب سے پہلے تو پشاوراور آس پاس جگہیں دیکھنا۔ پشاور بڑا پرانا شہر ہے۔ یہاں یونانیوں، بدھ مذہب کے ماننے والوں، ہندوئوں، مغلوں اورسکھوں نے حکومت کی ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں یہ انگریزوں کے پاس تھااوراب پاکستان کا ایک بڑا اور مشہور شہر مانا جاتاہے۔‘‘ جلدی بڑے ہونے کے شوق میں وہ خوب کھاناکھانے اور کھیل کھیل کر خوب ورزش کرنے لگے۔ رات کو سونے سے پہلے وہ اَمّی سے بہت سی کام کی باتیں سُنا کرتے۔ اب وہ ماسٹرصاحب کی باتیں بھی زیادہ غور سے سُنتے اور دوپہرکوسب کے ساتھ سوجانے کے بعد اٹلس میں اپنے ملک کا نقشہ دیکھ کر سیرکے پروگرام بناتے۔ گھر والے اُٹھتے توحیران ہوتے کہ اتنے بہت سے کھلونے چھوڑکرگٹو مٹو اٹلس کے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہیں۔ بلی کے بچّے جلد بڑے ہوجاتے ہیں۔ کچھ مہینے بعد جب انہوں نے اَمّی سے سیر کی اجازت مانگی تو انہوں نے کہا:’’ ہاں بھئی ،شوق سے جائو مگردیکھو آپس میں لڑنا جھگڑنا نہیں۔ خطرے سے دُور رہنااور اپنے سے کم زوروںکو بلاوجہ نہ ستانا۔ دونوں نے ننّھے مُنّے سرہلا کرہامی بھری۔ امّی کو سلام کیا اور کودتے پھاندتے باہر نکل گئے۔ یہاں سے وہ سیدھے شہر میں بسوں کے اڈے پر پہنچے اور ٹورسٹ بس میںسیٹ کے نیچے چھپ کر بیٹھ گئے۔ انہیں معلوم تھا کہ اتوار کے اتوار یہ بس لوگوں کو سب جگہوں کی سیرکراتی ہے۔ پہلے وہ ورسک ڈیم پہنچے جو پشاور سے اَٹھارہ میل دورہے۔ چاروںطرف خشک پہاڑیاں ہیں۔ دریائے کابل پریہ ڈیم کئی سال کی محنت کے بعد تیارہوا ہے۔ مٹو اورگٹو حیران ہورہے تھے کہ اتنے تیز رفتار دریا پر اتنی اُونچی دیوارکیسے بنائی گئی ہوگی۔ وہاں کوئی صاحب اپنے بچوں کو بندکی تعمیرکے بارے میں بتارہے تھے۔ یہ دونوں بھی وہاں پہنچ کرسُننے لگے۔ انہوں نے کہا:’’ گرمیوں میں خوب بارش ہوتی ہے۔ پہاڑوں کی برف بھی پگھلتی ہے تو اس کا پانی دریائوں میں آتا ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا اس زمانے میںدریا کے پاٹ کتنے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس پانی کوجمع کرکے بہت سے کاموں میںلایاجاسکتا ہے۔ ڈیم اسی لیے بنائے جاتے ہیں۔ دیکھو ،یہ سامنے ڈیم کی دیوار کس قدر اُونچی ہے اس کی وجہ سے پانی کی سطح بھی اتنی اُونچی ہوگئی ہے اور پیچھے کیسی اچھی جھیل بن گئی ہے۔ اس جھیل کاپانی بہت سے کاموں میں لایاجاتا ہے۔ وہ دیکھو دریاکے پار سامنے جو عمارت نظر آرہی ہے، وہ بجلی گھر ہے۔ اس جھیل سے پانی وہاں جاتا ہے، اُوپر سے گرا کربجلی گھر میں لایا جاتا ہے، جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اس جمع کیے پانی سے نہریںنکال کر کھیتوںمیں پانی دیاجاتا ہے۔ ڈیم کے اوپر جو لوہے کے دروازے نظر آرہے ہیں، انہیںکھولا اوربند کیا جاسکتا ہے اور ضرورت کے مطابق پانی لیا جاسکتا ہے۔ جھیل منظر کی خوب صورتی بھی بڑھاتی ہے۔ اس جھیل میںمچھلیاں پالی جاتی ہیں۔یہ کشتیوں کی سیر اور پکنک کے لیے بہترین جگہ ہے۔‘‘’’ ابو! ڈیم اور بیراج میں کیا فرق ہے۔‘‘ مٹو کی طرح معلومات کا شوقین ایک لڑکا بول اُٹھا۔ (باقی آیندہ)ابّو بولے:’’ڈیم میں پانی جمع کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کی سطح بہت بلند کی جاتی ہے۔ ڈیم پہاڑی علاقوں میںبنائے جاتے ہیں۔ بیراج میںدریا کے پانی کو روک کرنہریں نکالی جاتی ہیں۔ پانی کو سیدھاجانے دینے کے بجائے نہروں میں منتقل کردیتے ہیں۔ بیراج میدانوں میں بنتے ہیں۔‘‘یہ معلومات حاصل کرکے گٹو اور مٹو سیرکے لیے بھاگ کھڑے ہوئے۔ جھیل کی سیرکی۔ خشک اُونچی اُونچی پہاڑیوں پر چڑھے۔ ڈیم کے اوپر سے گزرکردوسری طرف چلے گئے۔ وہاں چُھپ کر پاورہائوس میں داخل ہوئے۔ بڑی بڑی مشینوں اور پانی کی دھائیں دھائیں جب کان کے پردے پھاڑنے لگے تو وہاں سے بھاگے۔ واپس پہنچے تو بعض لوگ کھانا کھارہے تھے۔ بچوں نے جو اتنے پیارے دو بلّی کے بچّے دیکھے تو انہیں پکڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ مٹو اور گٹو بھاگ گئے، تو انہیں پچکا ر کر شامی کباب، پلائو اور دودھ دیا۔ شاید ان کا ارادہ ہو کہ اس طرح بہلا پھسلا کر ساتھ لے چلیں گے مگر گٹو مٹو جلدی جلدی سب کچھ کھاکر اور بچّوں کوکھانے میں مشغول دیکھ کرزبانیں چاٹتے سرپٹ بھاگے۔ گٹو جلدی سے ایک بڑی سی کار کی ڈگّی میں گھس گیاجس کاڈھکن زیادہ سامان ہونے کی وجہ سے اچھی طرح بند نہیں ہوسکاتھا۔ مٹو نے اسے بلایا تو وہ بولا: ’’ بس کی سیٹ کے نیچے سے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا یہاں سے تو مزے سے جھانکتے جائیں گے۔‘‘ مجبوراً مٹو کو بھی اُس میں گھسنا پڑا۔ اس کار کے لوگ جب سیرکرکے لوٹے تو مٹو اور گٹو مزے سے ان کے ساتھ پشاور شہرپہنچ گئے۔جن کی کار میں مٹّوگٹّو آئے تھے وہ بڑی عمر کے امریکن مرد اورعورتیں تھیں۔ ان سے دونوںکوکوئی خطرہ نہ تھا۔ اس لیے وہ ان کے ساتھ ساتھ پھرتے رہے۔ قصّہ خوانی بازار،جہاں پُرانے زمانے میں داستان گو قصّے سُنایا کرتے تھے اورچوک یادگار آدمیوں سے بھرا ہوتاتھا۔ یہاں نمدے پوستین، کڑھی ہوئی ٹوپیوں، سنہری جوتے اور خشک میوؤں کی بہت سی دُکانیں ہیں۔ یہ سب پشاورکی مشہور چیزیںہیں۔ مردوں نے پشاوری چپل، ٹوپیاں اورواسکٹ لیں۔ عورتوں نے اُونٹ پر بیٹھنے کی لکڑی کی بنی ہوئی خوب صورت کاٹھیاںلیں،جووہ اپنے ملاقاتی کمرے میں رکھتی ہیں۔ کیفے مارکیٹ یہاں ایک کپڑے کابازار ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے نزدیک کی ایک گلی میں داخل ہو کروہ چینی کے برتن بنانے والے کارخانے میں پہنچے۔ یہاںسے ان عورتوںنے گل دان اور دیواروںپر لگانے کے لیے رَنگ برنگے پرندے خریدے اور سب قہوہ خانے میں قہوہ پینے گئے کیوںکہ انہوں نے سُن رکھا تھا کہ یہاں کے قہوہ خانے بہت مشہور ہیں۔ اس کے بعد برتنوں کی دوکان پرگئے، جہاں کانسی اور پیتل کے بنے ہوئے بڑے بڑے تھال تھے ،جن پرنقش نگاربنے ہوئے تھے۔ خوب صورت گل دان، راکھ دان اور سجاوٹ کی چیزیں بھی تھیں۔ یہ بھی یہاں کی مشہور چیزیں ہیں۔ اب یہ کارکی طرف بڑھے۔ وہ لوگ آہستہ آہستہ چل رہے تھے کیوںکہ سامان سے لدے پھندے تھے مگرگٹو مٹو خالی ہاتھ تھے، اس لیے جلدی سے بھیڑ میںچُھپ کرکار کے نزدیک پہنچ گئے اورجھٹ سے پھرڈگّی میں چھپ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے مہابت خان کی مسجد دیکھی ،جسے شاہ جہاں کے مغل گورنرمہابت خان نے بنوایا تھا۔ پشاورکا قلعہ دیکھا اور پھر عجائب گھر پہنچے۔ جہاں مہاتمابدھ کے بے شمارکالے پتھر کے خوب صورت مجس،مے ٹیکسلاکی کھدائی سے نکلی ہوئی چیزیں اورایک طرف بہت سی پرانی کتابیں رکھی تھیں۔ جب وہ ڈگّی میںگھس رہے تھے تو ایک عورت نے انہیں اندر جاتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس نے دونوں کو باہر نکالا مگر اِن کی خوب صورتی اورسیر کے شوق سے متاثر ہوکر اپنی گود میں بٹھالیا۔ پہلے تو یہ دونوں کچھ ڈرے۔ کچھ دیربعد اطمینان ہوگیا کہ یہ لوگ نقصان نہیں پہنچائیں گے توکھڑکیوں میں سے باہر دیکھ کر لطف اندوز ہونے لگے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہاں کے رہنے والے پٹھان اچھی صحت والے سرخ وسپیدلوگ ہیں۔ شلواریں، لمبے لمبے چوغے، سر پرکلاہ اور پگڑیاں باندھے ہیں۔ بعض لوگوں نے واسکٹیں اورسنہری کام کی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔ یہاں سے یہ سب ایک اُونچی چہاردیواری والی عمارت کے پھاٹک میں داخل ہوئے۔ جب اندر پہنچے تو مٹوگٹو کو پتا چلا کہ یہ ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت ہے۔ یہاں انہوںنے مختلف اسٹوڈیو دیکھے، جہاں سے موسیقی تقریریں اورڈرامے نشر ہوتے ہیں۔کنٹرول روم دیکھا،جہاںعجیب وغریب مشین لگی ہوئی تھیں۔ یہاں سے پشاور صدر اور چھائونی کی سیرکرتے ہوئے یہ یونی ورسٹی کی طرف نکل گئے۔ یونی ورسٹی پشاور صدر سے پانچ میل دور ہے۔ کار سے اُترکرجب یہ یونی ورسٹی کی سیرکو نکلے تو دونوںعورتوں نے گٹومٹوکو بھی ساتھ لے لیا۔ اس طرح ان لوگوں نے بڑے بڑے شان دارکمروں، تجربہ گاہوں، لائبریری، لیکچر ہال کی خوب سیرکی۔ ہرشعبے کے لیے ایک الگ خوب صورت عمارت ہے ۔اس یونی ورسٹی سے گٹو مٹو کے علاوہ انہیںساتھ لانے والے بھی متاثر نظر آتے تھے۔ یونی ورسٹی، سڑکیںاور بنگلے صاف ستھرے تھے۔ باہر سبزہ اور رنگ برنگے پھول تھے ،جنہیںدیکھ کرجی خوش ہوتاتھا۔ انہوںنے یہاںکاانجینئرنگ کالج،میڈیکل کالج اور اسلامیہ کالج بھی دیکھا۔ عورتیں ہوم اکنامکس کالج دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔مٹو دل ہی دل میں دُعائیں مانگ رہاتھا کہ کیا ہی اچھا ہو یہ لوگ درۂ خیبر دیکھنے جائیں اورانہیںبھی ساتھ لے جائیں۔ اصل میں درّہ ٔخیبر دیکھنے کا پروگرام گٹو مٹو پہلے ہی بناچکے تھے۔ گٹو چاہتاتھا کہ پشاور سے ریل میں بیٹھ کر لنڈی کوتل تک جائیں۔ گٹو کوچھوٹے بچّے کی طرح ریل کی سواری میں بہت مزہ آتاتھا۔ کھٹا کھٹ کرتی ریل پہاڑی علاقوں پر کہیں دُہری ہوجاتی ہے کبھی سُرنگ میں چلی جاتی ہے۔ اندھیرا گھپ اور چلتی اتنی آہستہ ہے کہ آپ جب چاہیں کود جائیں اور جب چاہیں دوڑ کر پھر سوار ہوجائیں، مگر مٹوکو کار کی سواری ہی پسند تھی۔ آخر مٹو کی دُعاہی قبول ہوئی۔ اس نے دیکھا کہ یونی ورسٹی سے نکل کرکار پشاور لوٹنے کے بجائے تیزی سے آگے بڑھ گئی ۔یہی سڑک درّۂ خیبر کے درمیان سے افغانستان کی سرحد طورخم تک جاتی ہے۔ نومیل کے فاصلے پرجمرود کاقلعہ آیا،جو دور سے جنگی جہاز معلوم ہوتاہے۔ دومیل آگے سے درّۂ خیبر شروع ہوگیا۔ مٹّو نے میائوںمیائوں میں گٹو کودرّۂ خیبر کی تاریخ بتانی شروع کی۔’’معلوم ہے گٹو، یہ وہ درّۂ خیبر ہے، جہاںسے ایرانیوں، یونانیوں اورمغلوں نے ہندوستان پر حملے کیے ۔ محمود غزنوی اسی راستے سے سترہ مرتبہ ہندوستان میں داخل ہوا تھا۔‘‘’’تو میںکیا کروں؟‘‘ گٹو چڑ کر بولا۔ اصل میں وہ اس بات پر خفا تھا کہ اس کا ریل سے لنڈی کوتل جانے کا پروگرام ختم ہوگیا تھا ۔ ’’تم نے وہ گانا سنا ہے گٹو۔‘‘ مٹّو بولا:’’ سکندر نے پورس سے کی تھی لڑائی، جو کی تھی لڑائی تو میں کیا کروں۔‘‘گٹو ہنس پڑا اور اس کا موڈ ٹھیک ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ عورت کے ہاتھوں سے نکل کر پیچھے شیشے کے نزدیک والی جگہ جا بیٹھا۔ گٹو کودیکھ کر مٹّو بھی وہیں آگیا۔دونوں باہرکامنظر دیکھنے لگے۔ وہ دونوںخود باہر سے یوںمعلوم ہورہے تھے جیسے سچ مچ کی بلیاں نہ ہوں بلکہ لمبے لمبے بالوںوالے چابی سے چلنے والے کھلونے ہوں۔ یہاں سے جو منظر انہیں نظر آرہاتھا۔ وہ اُونچے اُونچے خشک پہاڑ تھے، جن کے درمیان بل کھاتی، چِکنی اور بہت اچھی سڑک تھی جس پر اُن کی بڑی سی کار یوںپھسل رہی تھی جیسے پانی پر تیر رہی ہو۔ایک مرتبہ جب ریلوے لائن سڑک سے نظر آئی اور گٹو نے اس پرچلتی ہوئی ریل گاڑی دیکھی تو مچل گیا کہ ابھی کارسے اُترپڑیں اوردوڑکر گاڑی میںسوار ہوجائیں۔ آخر مٹّو نے وعدہ کیاکہ واپسی میں اگر ریل موجود ہوئی تو وہ ضرور اسی سے لوٹیں گے۔ کوئی آدھ گھنٹے میں وہ لنڈی کوتل پہنچے اور وہاں سے پانچ میل آگے چل کرطورخم جوپاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع ہے اورپشاور سے چونتیس میل دور ہے، یہاں پاکستان سے آنے والی سڑک ایک دائرے میں ختم ہوجاتی ہے۔ دوستونوں کے درمیان پڑی ہوئی زنجیرکھول کرجس سڑک پر جاتے ہیں، وہ افغانستان کے علاقے میںافغانستان کی سڑک ہے، اور پاسپورٹ کے بغیروہاں نہیں جا سکتے۔ کانٹوں کے تار سے بنی ہوئی یہ حد سامنے ہے۔ اس بورڈ پر یہ بھی لکھا ہے کہ افغانستان میں گاڑیاں بجائے بائیںکے دائیں طرف چلتی ہیں۔طورخم میں چند منٹ ٹھہرکر واپس ہوئے اور لنڈی کوتل میں اُترے۔ یہ چھوٹاساقصبہ ہے، جہاں چھوٹے چھوٹے گھر اورچھوٹی چھوٹی دُکانیں ہیں، مگر سامان سے بھری ہوئی ہیں۔ یہاں معمولی قسم کے چائے خانے بھی موجود ہیں۔ یہاں سے بازار کے چکر میںمٹّو اورگٹو ایک دکان میںکپڑوں کے ڈھیرکے پیچھے چھپ گئے کیوںکہ اب وہ گاڑی سے واپس جاناچاہتے تھے جب وہ کارچلی گئی تو یہ باہر نکلے اوراسٹیشن پہنچے۔ گاڑی کھڑی تھی۔ یہ مزے سے ایک ڈبّے میںچڑھ کر سیٹ پرڈَٹ گئے۔ اتفاق سے اُن کے ڈبے میں کوئی نہیں آیااور یہ سیٹ پر لیٹتے، بیٹھتے کھیلتے اورباہرجھانکتے رہے۔ جب گاڑی کسی سُرنگ میں داخل ہوتی تو دونوں بہت خوش ہوتے۔ اس طرح مٹّو کی خوشی بھی ہوگئی اور گٹو کی بھی یعنی کار کی سیر بھی ہوئی اور ریل کی بھی اور دونوںمزے سے پشاور چھائونی پہنچ گئے۔ یہاں کے اسٹیشن کی عمارت کے بڑے بڑے شیشے روشنی میں خوب چمک رہے تھے۔ اسٹیشن سے باہر رکھی ہوئی وزن کرنے کی مشین میں لال، ہرے بلب جل رہے تھے۔ ایک لڑکے کو شرارت سوجھی، اس نے ان دونوںکو پکڑا۔ جیب سے دواِکنّیاں نکالیں۔ پہلے مٹُوکاوزن کیا اور اس کاکارڈ اس کے منہ میںدے دیا، جس پر لکھاتھا: ’’وزن: پانچ پائونڈ۔‘‘ تمہارے پائوںمیں چکّر ہے۔ تم خوب سیرکرو گے مگر اپنے بھائی کی طرف سے غافل نہ رہو۔‘‘ گٹو کے کارڈ پر لکھاتھا:’’ جلد ہی تمہارے سمندر پار جانے کا امکان ہے مگر شرارت کرنا چھوڑدو۔ ورنہ تکلیف اُٹھائو گے۔‘‘دونوں کارڈ منہ میںدبائے، ہنسی خوشی گھر بھاگ آئے جو یہاں سے نزدیک ہی تھا۔ ان کی اَمّی نے دونوںکاکھانا سنبھال کر رکھ دیاتھالہٰذا خوب ڈَٹ کرکھایا۔ مٹّو اَمّی کو سیر کے قصّے سنانے لگا۔ گٹو نے بھی بیچ میںبولنے کی کوشش کی مگر وہ اتنا تھک چکاتھا کہ آدھی بات کہنے سے پہلے ہی اَمّی کے نرم نرم پائوںپر سر رکھ کرسوگیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

دنیا جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، اسی رفتار سے انسان ایک دوسرے سے دور بھی ہوتا جا رہا ہے۔ مفادات، تعصبات اور خود غرضی نے انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں نفرت، بے حسی اور ناانصافی فروغ پا رہی ہے۔ ایسے پُرآشوب دور میں انسانی یکجہتی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انسانی یکجہتی وہ احساس ہے جو انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حوصلہ دیتا ہے اور معاشرے میں امن، برداشت اور باہمی احترام کی فضا قائم کرتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو بکھرتی ہوئی انسانیت کو ایک مضبوط رشتے میں پرو سکتی ہے اور دنیا کو ایک بہتر اور محفوظ مقام بنا سکتی ہے۔انسانی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرے، مشکلات میں ساتھ دے اور اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی بھلائی کیلئے کام کرے۔ یہ تصور ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں امن، ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب مضبوط افراد کمزوروںکا سہارا بنیں اور خوشحال اقوام پسماندہ معاشروں کیلئے تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن ہر سال 20 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے انسانوں میں باہمی ہمدردی، تعاون، مساوات اور مشترکہ ذمہ داری کے شعور کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن دسمبر 2002ء سے منایا جا رہا ہے، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی فنڈ قائم کیا۔ یہ فنڈ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کو فنڈ دینے کیلئے فروری 2003ء میں قائم کیا گیا تھا ، جس نے غربت کے خاتمے کیلئے کام کیا۔ 22 دسمبر 2005ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی کے طور پر یکجہتی کی نشاندہی کی۔اقوام متحدہ کے اعلامیے کے مطابق یکجہتی ان بنیادی اقدار میں سے ایک ہے جو صحت مند بین الاقوامی تعلقات کیلئے ضروری ہے۔ اس طرح، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی یقین دہانی کرائی کہ غربت کا مقابلہ کرنے کیلئے یکجہتی کی ثقافت اور مشترکہ جذبے کو فروغ دینا ضروری ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عالمی یوم یکجہتی ایک ایسا دن ہے جو حکومتوں کو بین الاقوامی معاہدوں کو یاد دلا نے اور ان کا احترام کرنے کی حوصلہ افزائی کراتا ہے۔ انسانی یکجہتی کا عالمی دن ایک ایسا دن ہے جو غربت کے خاتمے اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والی عوام کے درپیش مسائل کا مل کر مقابلہ کے اور ان مسائل کیخلاف اقدامات اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔آج کی دنیا جنگوں، غربت، بھوک، ماحولیاتی تبدیلی، مہاجرین کے بحران اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں انسانی یکجہتی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ عالمی وبائیں ہوں یا قدرتی آفات، یہ حقیقت بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ اگر قومیں مل کر کام کریں تو بڑے سے بڑا بحران بھی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا تاکہ دنیا بھر میں تعاون اور اشتراکِ عمل کو فروغ دیا جا سکے۔دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے ۔اسلام انسانی یکجہتی کا سب سے مضبوط درس دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں بارہا انسانوں کے درمیان بھائی چارے، عدل، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تمام انسان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ تعلیمات ہمیں عملی طور پر انسانی یکجہتی اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔پاکستانی معاشرہ فطری طور پر ہمدردی اور ایثار کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے یا کسی قومی سانحے کے موقع پر عوام کا ایک دوسرے کیلئے کھڑا ہونا انسانی یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جذبہ صرف ہنگامی حالات تک محدود نہ رہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی انصاف، برداشت اور تعاون کی صورت میں نظر آئے۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری پیغام ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر دنیا کو پرامن، محفوظ اور خوشحال بنانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کیلئے جینا سیکھنا ہوگا۔ جب تک انسان انسان کا درد نہیں سمجھے گا، ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے رہیں گے۔ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اختلافات کے باوجود متحد رہیں اور ایک بہتر عالمی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو شر و فساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیاجنت کا منظر پیش کرنے لگے۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ''ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جائواور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ''جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا‘‘انسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے عملی تقاضےانسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ:٭...غربت اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔٭...تعلیم اور صحت کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔٭...نفرت، تعصب اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی شعور اجاگر کیا جائے۔٭...انسان دوستی اور خدمت خلق کو قومی و سماجی اقدار کا حصہ بنایا جائے۔  

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

٭... یکم جنوری 1948ء کو وادی ہنزہ میں پیدا ہوئے، گوجرانوالہ میں پلے بڑھے،اصل نام فخر الدین حیدر راٹھورتھا۔٭...گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف اے کرنے کے بعد ٹی اینڈ ٹی میں ملازم ہوئے۔ اداکاری کے میدان میں داخل ہونے سے قبل پہلوانی بھی کی۔٭... فنی کریئر کا آغاز تھیڑ سے کیا اور بعدازاں انہوں نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ہر قسم کے کردار کو بخوبی نبھایا تاہم ہیجڑے، بوڑھے اور مجذوب شخص کے کرداروں پر انہیں دسترس تھی۔ ٭... کریئرکے پہلے ٹی وی ڈرامہ ''آپ بیتی‘‘ میں عبدالشکور کریک کا کردار نبھایا اور ''پاکستانی کوجک‘‘ کے طور پر مشہور ہوئے۔دوسرا کھیل ''لازوال‘‘ بھی بہت مقبول ہوا، جس میں ان کا ڈائیلاگ''میں کھویا کھائوںگا‘‘ زبان زدعام ہوا۔٭...ان کے شہرہ آفاق ڈرامہ ''بشیرا ان ٹربل‘‘کوپاکستان کے پہلے سپرہٹ کمرشل ڈرامہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیگر مشہور ٹی وی ڈراموں میں ''شب دیگ‘‘، ''سونا چاندی‘‘، ''ریزہ‘‘ اور'' ایندھن‘‘ شامل تھے۔٭...فخری احمد نے فلموں میں بھی لازوال اداکاری کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں بطور کریکٹر ایکٹر اور ولن جلوہ ہوئے۔ یاد گار فلموں میں '' مس قلو پطرہ‘‘،'' مہربانی‘‘ اور ''شکرا‘‘شامل ہیں۔ ٭...اپنے کریئر میں سب سے زیادہ تھیڑ میں خدمات پیش کیں، ان کے کریڈٹ میں پانچ سو کے قریب ڈرامے ہیں۔ جن میں ''کتکتاڑیاں، سلوک سوکناں دا، تماشا ہائوس، گھر گھر بشیرا، بول نی گڈو، نہ چھیڑ ملنگا نوں، گنجے فرشتے، سسرال چلو، چاندنی راتیں، منڈا آیا سسرال، منڈا پٹواری دا، منڈا آیا ولائتوں، ٹبر ویلیاں دا، ساڈی وی سنو، کمبل نہیں چھڈدا‘‘ شامل ہیں۔٭...انہیں ان کے جونیئر اور سینئر ''تایا‘‘ کہا کرتے تھے اور یوں وہ لاہور کے ثقافتی حلقوں میں تایا فخری احمد کے نام سے مشہور ہوئے۔٭... 20دسمبر 1995ء کو تماثیل تھیڑ میں ڈرامہ ''جنم جنم کی میلی چادر‘‘ میں پرفارم کرتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ عالم جاودانی کو سدھار گئے۔  

2025ء : حیران کن ریکارڈز کا سال

2025ء : حیران کن ریکارڈز کا سال

2025ء میں انسانی دلچسپی، حیرت اور تفریح سے بھرپور ایسے منفرد لمحات سامنے آئے جنہوں نے دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ کہیں طاقت کے ناقابلِ یقین مظاہرے دیکھنے کو ملے تو کہیں دیوقامت کھانوں نے ریکارڈز کی فہرست میں جگہ بنائی۔ 2025ء کے یہ منفرد ریکارڈز اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا میں حیران کرنے والی کہانیاں آج بھی جنم لے رہی ہیں۔چار ٹانگوں والے لیجنڈزاپریل میں دنیا کے سب سے لمبے کتے ''ریجی‘‘ اور سب سے چھوٹے کتے ''چیہوا ہوا پرل‘‘ کی پہلی ملاقات ہوئی۔ اگرچہ ریجی کی اونچائی کندھوں تک 3 فٹ 3 انچ ہے اور پرل کی اونچائی محض 3.59 انچ (9.14 سینٹی میٹر) ہے، مگر اپنی ملاقات کے دوران یہ دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔اکتوبر میں ہماری ملاقات دو ریکارڈ ساز گدھوں سے ہوئی۔ ڈائنامک ڈیرک دنیا کا سب سے لمبا زندہ گدھا ہے، جس کی اونچائی 5 فٹ 5 انچ ہے، جبکہ بامبو کے پاس دنیا کے سب سے لمبے کانوں کا ریکارڈ ہے، جن کی لمبائی 1 فٹ 1 انچ (35 سینٹی میٹر) ہے۔فروری میں دنیا کا سب سے لمبابھینسا منظر عام پر آیا۔اس کی اونچائی 6 فٹ 0.8 انچ (185 سینٹی میٹر) ہے۔مشہور شخصیاتاگست میں کنٹری میوزک کی لیجنڈ ڈولی پارٹن کو گنیز ورلڈ ریکارڈز آئیکون قرار دیا گیا۔ انہوں نے موسیقی کی تاریخ کے چند سب سے یادگار گیت تخلیق کیے ہیں۔جون میں کھیلوں کے سپرسٹار اوسین بولٹ کو گنیز ورلڈ ریکارڈز آئیکون کا اعزاز دیا گیا۔ اسپرنٹر نے اپنی 100 میٹر ریکارڈز کی معلومات کا امتحان دیا، جو کتاب کے ایڈیٹر ان چیف کریگ گلینڈے کی طرف سے تیار کیے گئے ایک کوئز میں لیا گیا۔کول کڈزمئی میں چار بہت ہی خاص بچوں نے اپنی پہلی سالگرہ منائی۔لینی، کالی، لینن اور کوئن برائنٹ دنیا کے قبل از وقت پیدا ہونے والے چار جڑواں بچے ہیں جو 23 ہفتے اور 4 دن کی حمل کی مدت میں پیدا ہوئے اور ان کا وزن 577 گرام (1 پاؤنڈ 4.4 اونس) سے 647 گرام (1 پاؤنڈ 6.8 اونس) کے درمیان تھا۔فروری میں، آٹھ سالہ جمناسٹ کِنلی ہیمن، جنہیں ''Kynlee the Great‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے گنیز بک میں جگہ بنائی۔ انہوں نے 30 سیکنڈ میں سب سے زیادہ جمناسٹک بار ٹوٹوہینڈ موومنٹس (18) انجام دیے۔لیگو بلاکس پر دوڑنے کا مظاہرہستمبر میںنیوزی لینڈکی گیبریل وال نے لیگو بلاکس پر ننگے پاؤں 100 میٹر کی سب سے تیز دوڑ لگائی۔انہوں نے یہ کارنامہ محض 24.76 سیکنڈز میں مکمل کیا۔مئی میں چار ٹانگوں والے روبوٹ ڈاگ ''Whiterhino‘‘ نے 100 میٹر کی سب سے تیز دوڑ محض 16.33 سیکنڈز میں مکمل کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ایک دھماکہ خیز لمحہبرطانیہ میں اگست میں ایک انتہائی متاثر کن ریکارڈ توڑنے والی تقریب کا انعقاد کیا گیاجس میں آٹھ کولنگ ٹاورز کو ایک ساتھ دھماکہ خیز مواد کے ذریعے منہدم کیاگیا۔اس کارروائی نے سب سے زیادہ کولنگ ٹاورز کو کنٹرول شدہ دھماکوں سے بیک وقت منہدم کرنے کا ریکارڈ توڑ دیا۔طاقت کا مظاہرہوسپی جمی خراڈی(Vispy Jimmy Kharadi) نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہیویسٹ ویٹ ہولڈنگ ہرکولیس پلرز کا ریکارڈ توڑا۔ انہوں نے اگست میں اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے 261 کلوگرام وزن اٹھایا۔مارچ میں، اولیویا ونسن (آسٹریلیا) نے فٹنس کی دنیا کو حیران کر دیا جب انہوں نے 24 گھنٹوں میں سب سے زیادہ پل اپس (خواتین) لگانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ان کی کل تعداد 7,079 تھی، جو پچھلے ریکارڈ کے تقریباً دوگنا تھی۔جنوری میں، سارہ بلیک مین (امریکہ) نے ابڈومینل پلینک (خواتین) کرنے کی سب سے بڑی عمر کی خاتون بن کر تاریخ رقم کی، جب ان کی عمر 82 سال اور 229 دن تھی۔اسی طرح، مردوں کا ریکارڈ بھی دو بار ٹوٹا، مائنارڈ ولیمز (نیوزی لینڈ) نے 78 سال 135 دن کی عمر میںاور رابرٹ شوارٹز (امریکہ) نے 81 سال 16 دن کی عمر میں یہ ریکارڈ قائم کیا۔ ستمبر میں بھارت میں ایک گروپ نے تاریخ کی سب سے لمبی انسانی ہرم قائم کی، جسے پہلی بار 10ویں منزل تک پہنچایا گیا۔دلچسپ مجموعےفروری میں، یوٹیوبر کرچی (امریکہ) نے ہمیں اپنے سب سے بڑے ''Polly Pocket ‘‘ کے مجموعے کے بارے میں بتایا۔ ان کے پاس اپنے بچپن کے محبوب کھلونے کی 534 منفرد اقسام موجود ہیں۔جولائی میں ''The Legend of Zelda ‘‘ کے سپر فین کونستانٹائن ایڈمز (امریکہ) نے ہمیں اپنا ریکارڈ توڑنے والا یادگار مجموعہ دکھایا۔ان کے پاس 3,918 اشیاء موجود ہیں۔شاندار کھانے جون میں فینکس راس اور اولی پیٹر سن (برطانیہ) نے مل کر سب سے بڑا اسکاچ انڈہ بنایا۔ یہ دیوقامت ناشتہ 7.81 کلوگرام (17 پاؤنڈ 3.48 آونس) وزنی تھا اور بنیادی طور پر یہ دونوں دوست کئی ہفتوں تک کھاتے رہے۔ستمبر میں، نائجیریا کی ہلڈا باچی جو اپنی ککنگ میراتھن کی شہرت رکھتی ہیں، نے جینو کے ساتھ مل کر سب سے بڑی نائجیریائی طرز کی جولوف رائس ڈش تیار کی۔ یہ دیوقامت ڈش 8,780 کلوگرام وزنی تھی ۔حیرت انگیز انسانمارچ میں ''St David's Day 2025‘‘ کی تقریبات کے دوران برطانوی سپر ماڈل مارملیڈنے لباس پر سب سے زیادہ پھول لگانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے 1,862 پھول اپنے گاؤن پر چسپاں کیے۔جون میں، ویٹومیر ماریچک (کروشیا) نے ایک ایسا ریکارڈ توڑا جسے بہت سے لوگ ناقابلِ شکست سمجھتے تھے۔انہوں نے 29 منٹ 3 سیکنڈ تک سانس روک کر سب سے طویل وقت تک زیر آب سانس روکنے (مرد) کا اعزاز حاصل کیا۔ستمبر میں جان فرگوسن (کینیڈا) نے آسمان کی بلندیوں میں جا کر سب سے چھوٹے قد والے شخص کے طور پر ونگ واک کرنے (مرد) کا ریکارڈ قائم کیا، جس کا قد 4 فٹ 1.12 انچ (1.24 میٹر) تھا۔یہ سب محض ایک چھوٹی سی جھلک ہے اُن بے شمار حیرت انگیز ریکارڈز کی جو اس سال ٹوٹے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ایڈولف ہٹلر کو سزا1923ء میں ایڈولف ہٹلر اور اس کے ساتھیوں نے جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی، جسے تاریخ میں ''میونخ بغاوت‘‘ کہا جاتا ہے۔20 دسمبر 1924ء کو اس مقدمے میں اسے قید کی سزا سنائی گئی، تاہم وہ صرف تقریباً نو ماہ ہی جیل میں رہا۔ بوئنگ707کی پہلی پرواز20دسمبر1957ء کو ''بوئنگ 707‘‘ نے پہلی اڑان بھری۔''بوئنگ 707‘‘ ایک امریکی، طویل فاصلے تک سفر کرنے والا جہازہے جسے بوئنگ 387-80کے پروٹوٹائپ سے تیار کیا گیاجو پہلی مرتبہ1954ء میں اڑایا گیا تھا۔ پین امریکن ورلڈ ائیر ویز نے26اکتوبر1958ء کو باقاعدہ 707 سروس شروع کی ۔ناردرن بینک چوری20دسمبر2004ء کو شمالی آئرلینڈ کے ناردرن بینک کے ہیڈ کوارٹر سے 2 کروڑ 65 لاکھ پاؤنڈ کی چوری ہوئی۔چوروں نے بینک کے دو اہلکاروں کے اہل خانہ کو یرغمال بناکر انہیں چوری میں مدد کرنے پر مجبور کیا۔چوری کی گئی رقم کو دو گاڑیوں میں بینک سے نکالاگیا۔اسے برطانیہ کی تاریخ کی سب سے بڑی بینک ڈکیتیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ایم وی ڈونا پاز حادثہایم وی ڈونا پاز ایک جاپانی ساختہ مسافر فیری تھی جو 20 دسمبر 1987ء کو آئل ٹینکر سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گئی۔اس جہاز کو 608 مسافروں کی گنجائش کے ساتھ 25 اپریل 1963ء کو '' ہیمیموری مارو‘‘ کے نام سے لانچ کیا گیا تھا۔ جون 1979 ء میں جہاز میں آگ لگنے کے بعد، اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور اس کا نام ڈونا پاز رکھا گیا۔امریکن ائیر لائنز حادثہامریکن ایئر لائنز کی پرواز 965 میامی، فلوریڈا کے میامی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کالی، کولمبیا کے الفانسو بونیلا آراگون انٹرنیشنل ایئرپورٹ کیلئے شیڈول پرواز تھی۔ 20 دسمبر 1995ء کو، بوئنگ 757 بوگا، کولمبیا میں ایک پہاڑ سے ٹکرا گیا، جس میں سوار 155 مسافروں سمیت عملے کے آٹھ ارکان ہلاک ہو گئے۔یہ حادثہ امریکہ اور کولمبیا میں پیش آنے والا سب سے مہلک ایوی ایشن حادثہ تھا۔ یہ اس وقت بوئنگ 757 کے ساتھ ہونے والا سب سے مہلک حادثہ بھی تھا۔کولمبیا کے سول ایروناٹکس کے خصوصی انتظامی یونٹ نے حادثے کی تحقیقات کیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پرواز کے عملے کی غلطیوں کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔  

 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔