پشاور , ورسک اور درہ خیبر کی سیر
اسپیشل فیچر
پیارے بچّو!قلم کاروںکی دُنیا میں رضیہ فصیح احمد کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں،1965ء میں انہوں نے بچّوں کے لیے ’’سیرِ پاکستان ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی،جس میں انہوں نے دوکرداروںگٹّو اور مٹّو (بلی کے دوبچوں) کے ذریعے بچّوں کو پاکستان کے معروف شہروں کی سیر کرائی تھی،اُن کی تحریر کا خاصہ یہ ہے کہ 48سال گزرنے کے باوجود یہ تحریر پرانی محسوس نہیں ہوتی۔آپ بھی گٹّو اور مٹّو کے ہم راہ اپنے وطن کے مختلف شہروں کی سیر کیجیے۔************پشاور چھائونی میں رہتی تھی ایک بلّی۔ اس کے دو منّے منّے بچے تھے، ایک دودھ کی طرح سفیداور دوسرا رات کی طرح کالا۔ سفید بچے کانام تھا مٹّو، کالے بچے کا نام تھاگٹّو۔ مٹّوسمجھ دار تھا اورگٹّوشریر۔ گٹّو اپنی شرارت سے اکثرمٹّوکو پریشان کیاکرتا مگر دونوں بھائیوں میں بے حد محبت تھی۔ جب گھرکے بچّے ماسٹرصاحب سے پڑھتے تویہ دونوں بھی چُپ چاپ کرسیوں کے کونے پر ٹِک جاتے اور ماسٹرصاحب کی بات غورسے سُناکرتے۔ مٹّو پڑھائی کازیادہ شوقین تھا اس لیے اس نے چھوٹاموٹا حساب، تاریخ، جغرافیہ اور عام معلومات کی بہت سی باتیں سمجھ لیں مگر گٹّو مشکل سے اُردو اور انگریزی پڑھ سکتا تھا اوردوچار جملے بول بھی پاتاتھامگر زیادہ تر وہ اپنی مادری زبان میائوں میائوں ہی بولتے تھے کیوں کہ اُن کی امی نے بتایاتھا کہ مادری زبان میں بات کرنا اچھا ہوتا ہے، دوسری زبانیں علم حاصل کرنے کے لیے سیکھنی چاہئیں۔ وہ بات تو نہیں سمجھتے تھے ،ہاں اتنا ضرورجانتے تھے کہ میائوں میائوں زبان بہت آسان اور میٹھی ہے، ہر ایک کو اپنی مادری زبان آسان اورمیٹھی معلوم ہوتی ہے۔مٹّو اور گٹّو سیر وتفریح کے اتنے شوقین تھے کہ حد نہیں۔ آس پاس جگہیں تو انہوں نے دیکھ لی تھیں۔کمپنی باغ کئی مرتبہ جاچکے تھے۔ صدر بازار کے بھی چکر لگاچکے تھے۔ ایک دومرتبہ بچوں کااسکول بھی دیکھاتھامگر اب جو انہوں نے ماسٹرصاحب کی زبانی نئے نئے نام سُنے تو انہیں نئی جگہ دیکھنے کاشوق ہوا۔ ایک دن مٹّو بولا:’’امّی میں تو امریکا دیکھنے جائوں گا۔‘‘گٹّو نے قلابازی کھائی اور بولا:’’اور میں جائوںگا جاپان۔‘‘امّی ہنسیں اور بولیں:’’ پہلے اپنا ملک دیکھ لو،پھر امریکا اورجاپان جانا۔‘‘ یہ بات دونوں کی سمجھ میں آگئی۔گٹّو بولا ’’تو امّی جائیں؟‘‘’’ارے ابھی نہیں۔‘‘ امی آدمیوں کے بچّوں کی اَمّیوں کی طرح بولیں:’’ ابھی تم چھوٹے ہو، جب بڑے ہوجائو تو خوب سیرکرنا۔ سب سے پہلے تو پشاوراور آس پاس جگہیں دیکھنا۔ پشاور بڑا پرانا شہر ہے۔ یہاں یونانیوں، بدھ مذہب کے ماننے والوں، ہندوئوں، مغلوں اورسکھوں نے حکومت کی ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں یہ انگریزوں کے پاس تھااوراب پاکستان کا ایک بڑا اور مشہور شہر مانا جاتاہے۔‘‘ جلدی بڑے ہونے کے شوق میں وہ خوب کھاناکھانے اور کھیل کھیل کر خوب ورزش کرنے لگے۔ رات کو سونے سے پہلے وہ اَمّی سے بہت سی کام کی باتیں سُنا کرتے۔ اب وہ ماسٹرصاحب کی باتیں بھی زیادہ غور سے سُنتے اور دوپہرکوسب کے ساتھ سوجانے کے بعد اٹلس میں اپنے ملک کا نقشہ دیکھ کر سیرکے پروگرام بناتے۔ گھر والے اُٹھتے توحیران ہوتے کہ اتنے بہت سے کھلونے چھوڑکرگٹو مٹو اٹلس کے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہیں۔ بلی کے بچّے جلد بڑے ہوجاتے ہیں۔ کچھ مہینے بعد جب انہوں نے اَمّی سے سیر کی اجازت مانگی تو انہوں نے کہا:’’ ہاں بھئی ،شوق سے جائو مگردیکھو آپس میں لڑنا جھگڑنا نہیں۔ خطرے سے دُور رہنااور اپنے سے کم زوروںکو بلاوجہ نہ ستانا۔ دونوں نے ننّھے مُنّے سرہلا کرہامی بھری۔ امّی کو سلام کیا اور کودتے پھاندتے باہر نکل گئے۔ یہاں سے وہ سیدھے شہر میں بسوں کے اڈے پر پہنچے اور ٹورسٹ بس میںسیٹ کے نیچے چھپ کر بیٹھ گئے۔ انہیں معلوم تھا کہ اتوار کے اتوار یہ بس لوگوں کو سب جگہوں کی سیرکراتی ہے۔ پہلے وہ ورسک ڈیم پہنچے جو پشاور سے اَٹھارہ میل دورہے۔ چاروںطرف خشک پہاڑیاں ہیں۔ دریائے کابل پریہ ڈیم کئی سال کی محنت کے بعد تیارہوا ہے۔ مٹو اورگٹو حیران ہورہے تھے کہ اتنے تیز رفتار دریا پر اتنی اُونچی دیوارکیسے بنائی گئی ہوگی۔ وہاں کوئی صاحب اپنے بچوں کو بندکی تعمیرکے بارے میں بتارہے تھے۔ یہ دونوں بھی وہاں پہنچ کرسُننے لگے۔ انہوں نے کہا:’’ گرمیوں میں خوب بارش ہوتی ہے۔ پہاڑوں کی برف بھی پگھلتی ہے تو اس کا پانی دریائوں میں آتا ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا اس زمانے میںدریا کے پاٹ کتنے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ اس پانی کوجمع کرکے بہت سے کاموں میںلایاجاسکتا ہے۔ ڈیم اسی لیے بنائے جاتے ہیں۔ دیکھو ،یہ سامنے ڈیم کی دیوار کس قدر اُونچی ہے اس کی وجہ سے پانی کی سطح بھی اتنی اُونچی ہوگئی ہے اور پیچھے کیسی اچھی جھیل بن گئی ہے۔ اس جھیل کاپانی بہت سے کاموں میں لایاجاتا ہے۔ وہ دیکھو دریاکے پار سامنے جو عمارت نظر آرہی ہے، وہ بجلی گھر ہے۔ اس جھیل سے پانی وہاں جاتا ہے، اُوپر سے گرا کربجلی گھر میں لایا جاتا ہے، جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اس جمع کیے پانی سے نہریںنکال کر کھیتوںمیں پانی دیاجاتا ہے۔ ڈیم کے اوپر جو لوہے کے دروازے نظر آرہے ہیں، انہیںکھولا اوربند کیا جاسکتا ہے اور ضرورت کے مطابق پانی لیا جاسکتا ہے۔ جھیل منظر کی خوب صورتی بھی بڑھاتی ہے۔ اس جھیل میںمچھلیاں پالی جاتی ہیں۔یہ کشتیوں کی سیر اور پکنک کے لیے بہترین جگہ ہے۔‘‘’’ ابو! ڈیم اور بیراج میں کیا فرق ہے۔‘‘ مٹو کی طرح معلومات کا شوقین ایک لڑکا بول اُٹھا۔ (باقی آیندہ)ابّو بولے:’’ڈیم میں پانی جمع کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کی سطح بہت بلند کی جاتی ہے۔ ڈیم پہاڑی علاقوں میںبنائے جاتے ہیں۔ بیراج میںدریا کے پانی کو روک کرنہریں نکالی جاتی ہیں۔ پانی کو سیدھاجانے دینے کے بجائے نہروں میں منتقل کردیتے ہیں۔ بیراج میدانوں میں بنتے ہیں۔‘‘یہ معلومات حاصل کرکے گٹو اور مٹو سیرکے لیے بھاگ کھڑے ہوئے۔ جھیل کی سیرکی۔ خشک اُونچی اُونچی پہاڑیوں پر چڑھے۔ ڈیم کے اوپر سے گزرکردوسری طرف چلے گئے۔ وہاں چُھپ کر پاورہائوس میں داخل ہوئے۔ بڑی بڑی مشینوں اور پانی کی دھائیں دھائیں جب کان کے پردے پھاڑنے لگے تو وہاں سے بھاگے۔ واپس پہنچے تو بعض لوگ کھانا کھارہے تھے۔ بچوں نے جو اتنے پیارے دو بلّی کے بچّے دیکھے تو انہیں پکڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ مٹو اور گٹو بھاگ گئے، تو انہیں پچکا ر کر شامی کباب، پلائو اور دودھ دیا۔ شاید ان کا ارادہ ہو کہ اس طرح بہلا پھسلا کر ساتھ لے چلیں گے مگر گٹو مٹو جلدی جلدی سب کچھ کھاکر اور بچّوں کوکھانے میں مشغول دیکھ کرزبانیں چاٹتے سرپٹ بھاگے۔ گٹو جلدی سے ایک بڑی سی کار کی ڈگّی میں گھس گیاجس کاڈھکن زیادہ سامان ہونے کی وجہ سے اچھی طرح بند نہیں ہوسکاتھا۔ مٹو نے اسے بلایا تو وہ بولا: ’’ بس کی سیٹ کے نیچے سے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا یہاں سے تو مزے سے جھانکتے جائیں گے۔‘‘ مجبوراً مٹو کو بھی اُس میں گھسنا پڑا۔ اس کار کے لوگ جب سیرکرکے لوٹے تو مٹو اور گٹو مزے سے ان کے ساتھ پشاور شہرپہنچ گئے۔جن کی کار میں مٹّوگٹّو آئے تھے وہ بڑی عمر کے امریکن مرد اورعورتیں تھیں۔ ان سے دونوںکوکوئی خطرہ نہ تھا۔ اس لیے وہ ان کے ساتھ ساتھ پھرتے رہے۔ قصّہ خوانی بازار،جہاں پُرانے زمانے میں داستان گو قصّے سُنایا کرتے تھے اورچوک یادگار آدمیوں سے بھرا ہوتاتھا۔ یہاں نمدے پوستین، کڑھی ہوئی ٹوپیوں، سنہری جوتے اور خشک میوؤں کی بہت سی دُکانیں ہیں۔ یہ سب پشاورکی مشہور چیزیںہیں۔ مردوں نے پشاوری چپل، ٹوپیاں اورواسکٹ لیں۔ عورتوں نے اُونٹ پر بیٹھنے کی لکڑی کی بنی ہوئی خوب صورت کاٹھیاںلیں،جووہ اپنے ملاقاتی کمرے میں رکھتی ہیں۔ کیفے مارکیٹ یہاں ایک کپڑے کابازار ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے نزدیک کی ایک گلی میں داخل ہو کروہ چینی کے برتن بنانے والے کارخانے میں پہنچے۔ یہاںسے ان عورتوںنے گل دان اور دیواروںپر لگانے کے لیے رَنگ برنگے پرندے خریدے اور سب قہوہ خانے میں قہوہ پینے گئے کیوںکہ انہوں نے سُن رکھا تھا کہ یہاں کے قہوہ خانے بہت مشہور ہیں۔ اس کے بعد برتنوں کی دوکان پرگئے، جہاں کانسی اور پیتل کے بنے ہوئے بڑے بڑے تھال تھے ،جن پرنقش نگاربنے ہوئے تھے۔ خوب صورت گل دان، راکھ دان اور سجاوٹ کی چیزیں بھی تھیں۔ یہ بھی یہاں کی مشہور چیزیں ہیں۔ اب یہ کارکی طرف بڑھے۔ وہ لوگ آہستہ آہستہ چل رہے تھے کیوںکہ سامان سے لدے پھندے تھے مگرگٹو مٹو خالی ہاتھ تھے، اس لیے جلدی سے بھیڑ میںچُھپ کرکار کے نزدیک پہنچ گئے اورجھٹ سے پھرڈگّی میں چھپ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے مہابت خان کی مسجد دیکھی ،جسے شاہ جہاں کے مغل گورنرمہابت خان نے بنوایا تھا۔ پشاورکا قلعہ دیکھا اور پھر عجائب گھر پہنچے۔ جہاں مہاتمابدھ کے بے شمارکالے پتھر کے خوب صورت مجس،مے ٹیکسلاکی کھدائی سے نکلی ہوئی چیزیں اورایک طرف بہت سی پرانی کتابیں رکھی تھیں۔ جب وہ ڈگّی میںگھس رہے تھے تو ایک عورت نے انہیں اندر جاتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس نے دونوں کو باہر نکالا مگر اِن کی خوب صورتی اورسیر کے شوق سے متاثر ہوکر اپنی گود میں بٹھالیا۔ پہلے تو یہ دونوں کچھ ڈرے۔ کچھ دیربعد اطمینان ہوگیا کہ یہ لوگ نقصان نہیں پہنچائیں گے توکھڑکیوں میں سے باہر دیکھ کر لطف اندوز ہونے لگے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہاں کے رہنے والے پٹھان اچھی صحت والے سرخ وسپیدلوگ ہیں۔ شلواریں، لمبے لمبے چوغے، سر پرکلاہ اور پگڑیاں باندھے ہیں۔ بعض لوگوں نے واسکٹیں اورسنہری کام کی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔ یہاں سے یہ سب ایک اُونچی چہاردیواری والی عمارت کے پھاٹک میں داخل ہوئے۔ جب اندر پہنچے تو مٹوگٹو کو پتا چلا کہ یہ ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت ہے۔ یہاں انہوںنے مختلف اسٹوڈیو دیکھے، جہاں سے موسیقی تقریریں اورڈرامے نشر ہوتے ہیں۔کنٹرول روم دیکھا،جہاںعجیب وغریب مشین لگی ہوئی تھیں۔ یہاں سے پشاور صدر اور چھائونی کی سیرکرتے ہوئے یہ یونی ورسٹی کی طرف نکل گئے۔ یونی ورسٹی پشاور صدر سے پانچ میل دور ہے۔ کار سے اُترکرجب یہ یونی ورسٹی کی سیرکو نکلے تو دونوںعورتوں نے گٹومٹوکو بھی ساتھ لے لیا۔ اس طرح ان لوگوں نے بڑے بڑے شان دارکمروں، تجربہ گاہوں، لائبریری، لیکچر ہال کی خوب سیرکی۔ ہرشعبے کے لیے ایک الگ خوب صورت عمارت ہے ۔اس یونی ورسٹی سے گٹو مٹو کے علاوہ انہیںساتھ لانے والے بھی متاثر نظر آتے تھے۔ یونی ورسٹی، سڑکیںاور بنگلے صاف ستھرے تھے۔ باہر سبزہ اور رنگ برنگے پھول تھے ،جنہیںدیکھ کرجی خوش ہوتاتھا۔ انہوںنے یہاںکاانجینئرنگ کالج،میڈیکل کالج اور اسلامیہ کالج بھی دیکھا۔ عورتیں ہوم اکنامکس کالج دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔مٹو دل ہی دل میں دُعائیں مانگ رہاتھا کہ کیا ہی اچھا ہو یہ لوگ درۂ خیبر دیکھنے جائیں اورانہیںبھی ساتھ لے جائیں۔ اصل میں درّہ ٔخیبر دیکھنے کا پروگرام گٹو مٹو پہلے ہی بناچکے تھے۔ گٹو چاہتاتھا کہ پشاور سے ریل میں بیٹھ کر لنڈی کوتل تک جائیں۔ گٹو کوچھوٹے بچّے کی طرح ریل کی سواری میں بہت مزہ آتاتھا۔ کھٹا کھٹ کرتی ریل پہاڑی علاقوں پر کہیں دُہری ہوجاتی ہے کبھی سُرنگ میں چلی جاتی ہے۔ اندھیرا گھپ اور چلتی اتنی آہستہ ہے کہ آپ جب چاہیں کود جائیں اور جب چاہیں دوڑ کر پھر سوار ہوجائیں، مگر مٹوکو کار کی سواری ہی پسند تھی۔ آخر مٹو کی دُعاہی قبول ہوئی۔ اس نے دیکھا کہ یونی ورسٹی سے نکل کرکار پشاور لوٹنے کے بجائے تیزی سے آگے بڑھ گئی ۔یہی سڑک درّۂ خیبر کے درمیان سے افغانستان کی سرحد طورخم تک جاتی ہے۔ نومیل کے فاصلے پرجمرود کاقلعہ آیا،جو دور سے جنگی جہاز معلوم ہوتاہے۔ دومیل آگے سے درّۂ خیبر شروع ہوگیا۔ مٹّو نے میائوںمیائوں میں گٹو کودرّۂ خیبر کی تاریخ بتانی شروع کی۔’’معلوم ہے گٹو، یہ وہ درّۂ خیبر ہے، جہاںسے ایرانیوں، یونانیوں اورمغلوں نے ہندوستان پر حملے کیے ۔ محمود غزنوی اسی راستے سے سترہ مرتبہ ہندوستان میں داخل ہوا تھا۔‘‘’’تو میںکیا کروں؟‘‘ گٹو چڑ کر بولا۔ اصل میں وہ اس بات پر خفا تھا کہ اس کا ریل سے لنڈی کوتل جانے کا پروگرام ختم ہوگیا تھا ۔ ’’تم نے وہ گانا سنا ہے گٹو۔‘‘ مٹّو بولا:’’ سکندر نے پورس سے کی تھی لڑائی، جو کی تھی لڑائی تو میں کیا کروں۔‘‘گٹو ہنس پڑا اور اس کا موڈ ٹھیک ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ عورت کے ہاتھوں سے نکل کر پیچھے شیشے کے نزدیک والی جگہ جا بیٹھا۔ گٹو کودیکھ کر مٹّو بھی وہیں آگیا۔دونوں باہرکامنظر دیکھنے لگے۔ وہ دونوںخود باہر سے یوںمعلوم ہورہے تھے جیسے سچ مچ کی بلیاں نہ ہوں بلکہ لمبے لمبے بالوںوالے چابی سے چلنے والے کھلونے ہوں۔ یہاں سے جو منظر انہیں نظر آرہاتھا۔ وہ اُونچے اُونچے خشک پہاڑ تھے، جن کے درمیان بل کھاتی، چِکنی اور بہت اچھی سڑک تھی جس پر اُن کی بڑی سی کار یوںپھسل رہی تھی جیسے پانی پر تیر رہی ہو۔ایک مرتبہ جب ریلوے لائن سڑک سے نظر آئی اور گٹو نے اس پرچلتی ہوئی ریل گاڑی دیکھی تو مچل گیا کہ ابھی کارسے اُترپڑیں اوردوڑکر گاڑی میںسوار ہوجائیں۔ آخر مٹّو نے وعدہ کیاکہ واپسی میں اگر ریل موجود ہوئی تو وہ ضرور اسی سے لوٹیں گے۔ کوئی آدھ گھنٹے میں وہ لنڈی کوتل پہنچے اور وہاں سے پانچ میل آگے چل کرطورخم جوپاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع ہے اورپشاور سے چونتیس میل دور ہے، یہاں پاکستان سے آنے والی سڑک ایک دائرے میں ختم ہوجاتی ہے۔ دوستونوں کے درمیان پڑی ہوئی زنجیرکھول کرجس سڑک پر جاتے ہیں، وہ افغانستان کے علاقے میںافغانستان کی سڑک ہے، اور پاسپورٹ کے بغیروہاں نہیں جا سکتے۔ کانٹوں کے تار سے بنی ہوئی یہ حد سامنے ہے۔ اس بورڈ پر یہ بھی لکھا ہے کہ افغانستان میں گاڑیاں بجائے بائیںکے دائیں طرف چلتی ہیں۔طورخم میں چند منٹ ٹھہرکر واپس ہوئے اور لنڈی کوتل میں اُترے۔ یہ چھوٹاساقصبہ ہے، جہاں چھوٹے چھوٹے گھر اورچھوٹی چھوٹی دُکانیں ہیں، مگر سامان سے بھری ہوئی ہیں۔ یہاں معمولی قسم کے چائے خانے بھی موجود ہیں۔ یہاں سے بازار کے چکر میںمٹّو اورگٹو ایک دکان میںکپڑوں کے ڈھیرکے پیچھے چھپ گئے کیوںکہ اب وہ گاڑی سے واپس جاناچاہتے تھے جب وہ کارچلی گئی تو یہ باہر نکلے اوراسٹیشن پہنچے۔ گاڑی کھڑی تھی۔ یہ مزے سے ایک ڈبّے میںچڑھ کر سیٹ پرڈَٹ گئے۔ اتفاق سے اُن کے ڈبے میں کوئی نہیں آیااور یہ سیٹ پر لیٹتے، بیٹھتے کھیلتے اورباہرجھانکتے رہے۔ جب گاڑی کسی سُرنگ میں داخل ہوتی تو دونوں بہت خوش ہوتے۔ اس طرح مٹّو کی خوشی بھی ہوگئی اور گٹو کی بھی یعنی کار کی سیر بھی ہوئی اور ریل کی بھی اور دونوںمزے سے پشاور چھائونی پہنچ گئے۔ یہاں کے اسٹیشن کی عمارت کے بڑے بڑے شیشے روشنی میں خوب چمک رہے تھے۔ اسٹیشن سے باہر رکھی ہوئی وزن کرنے کی مشین میں لال، ہرے بلب جل رہے تھے۔ ایک لڑکے کو شرارت سوجھی، اس نے ان دونوںکو پکڑا۔ جیب سے دواِکنّیاں نکالیں۔ پہلے مٹُوکاوزن کیا اور اس کاکارڈ اس کے منہ میںدے دیا، جس پر لکھاتھا: ’’وزن: پانچ پائونڈ۔‘‘ تمہارے پائوںمیں چکّر ہے۔ تم خوب سیرکرو گے مگر اپنے بھائی کی طرف سے غافل نہ رہو۔‘‘ گٹو کے کارڈ پر لکھاتھا:’’ جلد ہی تمہارے سمندر پار جانے کا امکان ہے مگر شرارت کرنا چھوڑدو۔ ورنہ تکلیف اُٹھائو گے۔‘‘دونوں کارڈ منہ میںدبائے، ہنسی خوشی گھر بھاگ آئے جو یہاں سے نزدیک ہی تھا۔ ان کی اَمّی نے دونوںکاکھانا سنبھال کر رکھ دیاتھالہٰذا خوب ڈَٹ کرکھایا۔ مٹّو اَمّی کو سیر کے قصّے سنانے لگا۔ گٹو نے بھی بیچ میںبولنے کی کوشش کی مگر وہ اتنا تھک چکاتھا کہ آدھی بات کہنے سے پہلے ہی اَمّی کے نرم نرم پائوںپر سر رکھ کرسوگیا۔