عورت کا مقام
اسپیشل فیچر
اقبال کیا آگاہ نہیںتھے ...؟پروفیسر سیّد محمد نصیر(مرحوم) کا شمار فعال علمی اور ادبی شخصیات میں ہوتا ہے۔وہ کئی کالجوں کے پرنسپل رہے اور یونیورسٹیوں سے بھی وابستہ رہے۔وہ سیاست،تعلیم،معیشت اور ادب پر مادری زبان میں مگر منطقی استدلال سے آراستہ مضامین لکھا کرتے تھے۔ان کا ایک مضمون پیشِ خدمت ہے جو آج کے حالات میں تازگی کے لیے ہوئے ہے۔*********************اقبال نے عورت پر بڑے ظلم وستم ڈھائے ہیں۔ اقبال کو اس کا بدلہ بھی مل رہاہے، اور یہ بدلہ مرد لے رہے ہیں۔ وہ اقبال پر وہ وہ جوروستم ڈھارہے ہیں کہ علامہ صاحب یاد ہی کرتے ہوں گے۔ راہ نمائوں کو تو جانے دیجیے اب تو سُورما بھی سُورما بنتے جارہے ہیں اور بڑی شان سے اقبال کا فلسفہ اپنے طور پر بگھاررہے ہیں۔ ادیبوں کا تو خیر اقبال پر پورا حق ہے، خواہ وہ اسلامی اَدب کے شیدائی ہوں یا مارکسی ادب کے پروانے،جماعت اسلامی کے اسلامی ادیب اقبال کو شاعر جماعت اسلامی کہتے ہیں اور دوسری طرف ترقی پسند ادیب حالی کے بعد اقبال کو ترقی پسند اَدب کا امام گردانتے ہیں۔اور نازی اَدب کے دیوانوں کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ نازی تھا اور تو اور جن لوگوں نے نہ تو اقبال کو دیکھا، نہ سنا، نہ پڑھا وہ اقبال پر بولتے بھی ہیں، مضمون بھی لکھتے ہیں اور مذاکرے بھی منعقد کراتے ہیں۔ ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ دوسرے لوگ برانہ مان جائیں اور ایمان داری کی بات بھی یہی ہے کہ ایک مضمون لکھنے کے لیے دو تین کتابوں کو الٹ پلٹ لینے کو پڑھنا نہیں کہتے لیکن میں بالکل مجبور تھا۔ ’’عبرت‘‘ میں جب میں نے مذاکرے کا یہ عنوان پڑھا تو میں چونک پڑا، پاکستان میں اور وہ بھی اقبال پر ایسا موضوع! میں نے سوچا کہ لوبھائی آئی مذاکرہ کرانے والوں کی کم بختی، پھر پتا چلا کہ نواب شاہ کے ڈپٹی کمشنر نے یہ موضوع رکھا ہے تو اور تعجب ہوا کہ یااﷲ ڈپٹی کمشنر بھی ایسے ہوتے ہیں۔ میں تو یہ سمجھتا تھا کہ کیانی نے جنت الفردوس سے یہ تحفہ بھیجا ہے یا کوئی نواب شاہ والا کیانی صاحب سے یہ موضوع چرالایا ہے۔ سوچا تھا اس موضوع پرہونے والے مذاکرے میں ضرو جائوں گا، لیکن ہوا یہ کہ کل عابد بھائی کا جو یوں تو سب کے عابد بھائی ہیں لیکن میرے واقعی ہیں۔ فون آیا کہ تمہیں نواب شاہ آنا ہے اور ایک مختصر سا مقالہ بھی لکھ کر لانا ہے۔ میں نے عابد بھائی سے کہا کہ آپ کو اگر حکومت مل گئی ہے یا ٹھیکا ہاتھ آگیا ہے تو کیا آپ اپنے خاندان والوں کو ہی ساری دولت دے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یوں تو ابراہیم جلیس، سیّد محمد جعفر وغیرہ بھی ہیں، لیکن جب کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تو میں کیوں جانے دوں۔ تم بھی دولت سمیٹ لو۔ میں نے بھی موقع غنیمت جانا اور اس مضمون کا مالک بن بیٹھا۔اس وقت عورت اور مردوں پر جو ظلم وستم ہورہے ہیں اور ہر سمت سے جو چیخیں سنائی دے رہی ہیں ان سے بے پروا ہوکر اور مصطفیٰ زیدی کی نظم ’’سایہ‘‘ بند کرکے’’ضرب کلیم‘‘ کھولی اور عورت سے متعلق اشعار کا مطالعہ شروع کردیا تاکہ یہ پتا لگے کہ اقبال نے عورت پر کیا ظلم و ستم ڈھائے ہیں۔ سب سے پہلے نظر ’’عورت‘‘ پر پڑی، پہلا شعر تھا ؎وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میںرنگاِسی کے ساز سے سے زندگی کا سوزِ دُروںاور میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اس مضمون میں اس موضوع کے خلاف اپنا فیصلہ صادر کروں گا۔ اس کے بعد ’’آزادیٔ نسواں‘‘ اور ’’عورت کی حفاظت‘‘ پڑھی تو نتیجہ نکالا کہ اقبال نے عورت کے ساتھ واقعی ظلم کیا ہے۔ ’’آزادیٔ نسواں‘‘ میں اقبال نے عورت کو سمجھایا ہے کہ زمرد کا گلوبند آزادیٔ نسواں سے آرائش وقیمت میں زیادہ ہے اور ’’عورت کی حفاظت‘‘ میں کہتے ہیں ؎نے پردہ نہ تعلیم نئی ہوکہ پرانینسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرداور اسی شعر کے ساتھ مجھے اقبال کے تین شعر یادآگئے ہیں جنہیں میں بہت دنوں تک اکبر الٰہ آبادی کے شعر سمجھتا رہا اور یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا کہ اقبال نے بھی ایسے شعر کہے ہوں گے۔ یہ شعر آپ نے بھی سنے ہوں گے ۔لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزیڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہرَوش مغربی ہے مدّنظروضع مشرق کو جانتے ہیں گناہیہ ڈراما دکھائے گا کیا سینپردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہبھلا یہ ظلم نہیں تو کیا ہے کہ عورت انگریزی پڑھ لے تو قوم برباد اور مرد انگریزی پڑھ لیں تو ملک فلاحی مملکت بن جائے۔ لیکن میں تو یہ کہوں گا کہ امت اور حکومت حکیم الامت کا یہ کہنا مان لے تو لڑکیوں کے اسکولوں اور کالجوں سے تو کم از کم انگریزی کو نکالا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ایک آرڈیننس بھی جاری کردیا جائے کہ عورتیں اُردو میں شاعری کریں گی اور مرد انگریزی میں تاکہ قوم فلاح کی راہ سے نہ بھٹکے اور بقول اقبال یہ سب کام مرد ہی کوکرنا ہیں کیوں کہ عورت کی نمود تو مردوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن جب اقبال یہ کہتے ہیں کہ ؎جوہرِمرد عیاں ہوتا ہے بے منتِ غیرغیر کے ہاتھ میں ہے جو ہر عورت کی نمودتو وہ ایک بار پھر عورت پر ظلم کرتے ہیں، اس لیے نہیں کہ انہوں نے اس شعر کے ذریعے یہ ثابت کردیاکہ مرد عورت سے افضل ہے بل کہ اس لیے کہ جب انہوںنے مرد کی فضیلت کی بات کی تو انہوںنے موجودہ سماجی حقیقت کو سامنے رکھا اور جب عورت کی بات کرنے لگے تو انہوںنے بائیولوجیکل حقیقت کا سہارا تلاش کرلیا۔اقبال کا اقبال بلند اور میں ایک مشتِ خاک پھر جان کا بھی ڈر اس لیے مجھے یہ فکر لاحق ہوئی کہ اقبال کے اس تصّور کی تعبیر پیش کروں او ریہ کہوں کہ علامہ اقبال نے مغرب کا جو روپ دیکھا تو اس سے وہ متنفر ہوگئے۔ انہوںنے دیکھا کہ وہ چراغِ خانہ کے بجائے شمع محفل بن گئی ہے، اس کی نسوانیت ختم ہورہی ہے، ’’جاوید نامہ‘‘ میں اقبال نے تجدّد پسند عورت کا جو خاکہ پیش کیا ہے اس سے بھی یہی بات پتا چلتی ہے کہ وہ ایسی آزادی کے خلاف تھے جو عورت کی نسوانیت اور عمومیت چھین لے اور یہی بات اقبال نے ’’عورت اور تعلیم‘‘ میں کہی کہ ؎ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کاثمر موتجس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زنکہتے ہیں اسی علم کو ارباب ہنُر موتجب میں نے یہ مضمون اپنی بیوی کو سنایا تو وہ کہنے لگیں کہ مرد پھر مرد ہے، وہ عورت پر اقبال کے جوروستم کی کیا داستان لکھے گا۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر ضرور ڈنڈی مارجائے گا۔ اقبال تو صرف یہ چاہتا ہے کہ عورت بچے پالے اور باورچی خانے میں گھُسی رہے تاکہ وہ مرد کی ہمیشہ دست نگر رہے اور ان کے کہتے ہی مجھے یہ خیال آیا کہ ہٹلر نے بھی یہی کہا تھا:\"She must go back to the Kicthen\" لیکن یہ بات میں نے اپنی بیوی کو نہیں بتائی۔ بات دراصل یہ ہے کہ ایک جانب اقبال پر نطشے کا اثر، دوسری جانب مغرب کی بے راہ روی سے طبیعت مکدر اور تیسری جانب عطیہ فیضی سے۔ خیر جانے دیجیے۔ ان تینوں باتوں کے اثر سے اقبال نے یہ نتیجہ نکالا کہ عورت ماں بن کر رہے تو ہی اچھا ہے اس لیے وہ ’’ایک سوال‘‘ میں کہتا ہے ؎کوئی پوچھے حکیم یورپ سےہند و یوناں ہیں جن کے حلقہ بگوشکیا یہی ہے معاشرت کا کمالمرد بے کار اور زن تہی آغوشاور اگر اس نے اس وقت اس انداز سے سوچ لیا تو بھلا کون سا بڑا ظلم ہوگیا وہ تو عورت کی مشت خاک کو بھی ثریا سے اشرف سمجھتا ہے، ہاں وہ یہ نہیں سوچ پایا کہ صحیح معنوں میں عورت کی اقتصادی آزادی اور اس کی تعلیم بنی نوع انسان کی روحانی زندگی اور خاندانی وحدت کے رشتے کو مضبوط بنادے گی۔