مجددطب اور عظیم دانشور حکیم محمد سعید شہید کی ’’مادّرِ ہمدرد‘‘
اسپیشل فیچر
ایک دن کسی واقف کار نے مجھ سے کہا :حافظ عبدالمجید مرحوم کی بیوی بڑی نصیب والی ہیں۔ ان کو دست ِغیب کا عمل بتادیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے خاوند کا دواخانہ ہمدرد دن دونی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ مادرِ ہمدرد کی ابتدائی زندگی صدیوں پہلے کی مشہور خواتین کی سی زندگی تھی۔ وہ اپنے شوہر کی اطاعت اور خدمت اس عمدگی سے کرتیں کہ حکیم صاحب کو اپنا گھر جنت معلوم ہوتا تھا۔ خدا نے اس خوش نصیب خاتون کو ان کی محنت اور شرافت کا بہت اچھاصلہ دیا، یعنی ان کو پانچ بچے عطا فرمائے۔ پہلے لڑکی پیدا ہوئیں، ان کا حمیدی بیگم نام رکھا گیا۔ پھر ایک لڑکا پیدا ہوا جن کا نام عبدالحمید رکھا گیا۔ اس کے بعد دوسری لڑکی پیدا ہوئیں جن کا نام محمودی بیگم رکھا گیا۔ ان کے بعد ایک اور لڑکے پیدا ہوئے جن کا نام عبدالوحید رکھا گیا، مگر افسوس کہ حافظ عبدالوحید نے عین جوانی کی حالت میں انتقال کیا۔ مادر ہمدرد کو آخری فرزند عطا ہوئے تو محمد سعید نام رکھا گیا۔ رابعہ بیگم اپنے شوہر کی زندگی میں بھی گھر کے سب کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں اور شوہر کی وفات کے بعد بھی انہوں نے گھر کے کام کیلئے کبھی کوئی عورت نوکر نہیں رکھی، البتہ آخر زمانے میں محص ہاتھ بٹانے کیلئے دو ایک مامائیں ان کے ہاں تھیں ، مگر پھر بھی گھر کا سب کام خود اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔ ان کے انتظام کا یہ عالم تھا کہ روزانہ نوکر سے سبزی کا نرخ معلوم کراتیں۔ موسم کی جو سبزی سب سے کم نرخ کی ہوتی وہی منگواتی تھیں۔ مگر اس سے زیادہ قابل ذکر اولاد کی سعادت مندی ہے۔ والدہ جوکچھ پکاکر سامنے رکھتیں بچے بخوشی کھالیتے تھے۔بانی ہمدرد کی وفات کے وقت سب سے بڑے لڑکے کی عمر تیرہ برس تھی۔ اس لیے ماننا پڑتا ہے ہمدرد کو جو بینظیر عروج حاصل ہوا وہ سب مادر ہمدرد کی نیک نیتی اور حسن تدبیر کانتیجہ ہے ،جو لوگ پردے کے مخالف ہیں ان کو یہ معلوم کرکے حیرت ہوگی کہ اس پردہ نشین خاتون نے اپنے گھرمیں بیٹھے بیٹھے اولاد کو بھی تربیت دی اور دواخانے کو بھی کامیابی سے چلایا کہ روزبروزترقی ہی کرتا رہا اور آج وہ دواخانہ ہندوستان (برصغیر ) میں ہی نہیں بلکہ ایشیا کا سب سے بڑا یونانی دواخانہ ہے۔حکیم محمد سعید اور ان کے بھائی بہن اپنی والدہ ماجدہ کو آپا کہہ کر پکارتے تھے۔ حکیم محمد سعید لکھتے ہیں:’’ہماری تربیت کی ذمہ داری ہماری والدہ پر تھی جنہوں نے یہ ذمہ داری بڑی خوبی سے نبھائی۔‘‘ جب حکیم محمد سعید کے والد کا انتقال ہوا تو ان کے دادا اور چچا اور ماموئوں نے ہمدرد پر قبضہ جمانے کی کوشش کی، اس وقت ان کی والدہ ہی تھیں جنہوں نے پردے میں رہ کر اس پودے کی آبیاری کی۔ حکیم محمد سعید لکھتے ہیں:’’حکیم حافظ عبدالمجید کی آنکھیں بند ہوتے ہی ہمدرد کے چاروں طرف فتنے جاگ اٹھے۔ حرص وآزکی آنکھ واہوگئی۔ دادا اور چچا دعویدار بنے کہ ہمدردان کی ملکیت ہے۔ وہ بہرطورہم سب کو حق سے محروم کردینے کے درپے تھے اور دونوں ماموں جو ہمدرد میں بااختیار کارکن کی حیثیت سے کام کررہے تھے اپنی محنت کے صلے میں حالات سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر ہمدرد کو اپنے زیر نگیں رکھنا چاہتے تھے۔ ‘‘ایسے سازشی اور حرص ولالچ کے ماحول میں اس خاتون نے حالات کا بڑی بہادری اور استقامت سے مقابلہ کیا۔ تب مولانا قاضی مشرف علی بدایونی، جوہمدرد کے ایک مخلص کارکن تھے، سہارا بنے۔ حکیم محمد سعید لکھتے ہیں:’’بالآخر ہماری آپا نے دلیرانہ فیصلہ کیا کہ دادا اور چچا جان کا جوحق ہے وہ انہیں ادا کردیا جائے اور ماموں حافظ محمد کو ایک مؤثر کارکن کی حیثیت سے کام کی دعوت دی جائے۔ ان کا یہ بھی ایک مستحکم فیصلہ تھاکہ ان کی حیثیت قطعی طورپر ملازموں کی سی ہوگی اور ان کا حق محنت ان کو ادا کردیا جائے گا اور وقت آنے پر عبدالحمید، حکیم محمدسعید کے بڑے بھائی پوری قطعیت کے ساتھ بااختیار ہوں گے۔‘‘ مادر ہمدرد ایک مثالی خاتون تھیں۔ وہ زندگی بھر پابندی اور لگن سے نماز کا فریضہ انجام دیتی رہیں۔ وہ اخلاق کی کوئی کوتاہی کسی قیمت پر برداشت نہیں کرتی تھیں۔ اس معاملے میں وہ بڑی سخت گیر تھیں۔ توازن قائم رکھنے کا گربھی جانتی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکیم سعید کے الفاظ میں ’’اگر ان میں یہ عظمتیں نہ ہوتیں تو ابا جان کے انتقال کے بعد ہمدرد باقی کہاں رہ سکتا تھا۔ ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہمدرد کے قیام میں وہ اپنے عظیم شوہر کی دست راست تھیں۔ خالص روغن بادام کیلئے وہ رات رات بھربادام توڑ کر گریاں نکالا کرتی تھیں۔ حبوب مقوی معدہ کی گولیاں برسا برس اپنے ہاتھوں سے بناتی رہی تھیں۔ زندگی میں انہوں نے کبھی کوئی نماز قضا کی اور ایک دن پردہ نہ چھوڑا ۔ وہ بہت کفایت شعار تھیں جو پکاتی تھیں اس میں ایک لذت ہوتی تھی۔ ان کے شوہر دن بھر کی محنت کے بعد گھر آتے تو وہ ان کا خوشدلی کے ساتھ استقبال کرتیں۔ وہ کھانا لاکرسامنے رکھ دیتی تھیں اور ان کے شوہر کے سامنے جو لاکر رکھ دیا اسے اطمینان اور مسرت کے ساتھ کھالیتے تھے۔ دن بھر کی آمدنی لے کر وہ گنتی کرتیں۔ وہ اس آمدنی سے کچھ پیسے غائب کردیتی تھیں۔ برسوں یہ سلسلہ جاری رہا۔ یوں وہ تھوڑی تھوڑی رقم الگ کرکے رکھتی رہیں۔ ان کے شوہر کو سب علم تھا، لیکن بے خبر بنے رہتے۔ بالآخر وہ وقت آیا جب کاروبار کی توسیع کیلئے ایک عمارت کی خریداری ناگزیر ہوگئی، مگر سرمایہ نہیں تھا۔ ایک رات ان کے شوہر تھکے ہارے گھر آئے۔ چہرے پر پریشانی تھی۔ بیگم نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا :’’سامنے کی دکان کی ضرورت ہے۔ دلال نے جو رقم بتائی ہے وہ ہے نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کیا جائے۔‘‘ وفا شعار دست راست بیوی سے اپنے شوہر کی پریشانی دیکھی نہ گئی۔ انہوں نے اپنی چارپائی سرکائی، پیچھے کی دیوار کو توڑا اس میں سے ایک تھیلی نکالی۔ وہی پس انداز کی ہوئی رقم جوں کی توں بیوی نے شوہر کے حوالے کردی۔ اس طرح وہ عمارت خریدلی گئی جہاں ہمدرد آج بھی قائم ہے۔ یہ حکیم محمد سعید کی عظیم والدہ کی تعلیم و تربیت، ایثار و قربانی ، منصوبہ بندی اور جرأت کا فیضان تھا کہ ان کی اولاد نے کامیابیاں اور فتوحات کا ایک عظیم سلسلہ قائم کیا جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ حکیم محمد سعید کی والدہ ماجدہ کو گیارہویں شریف سے بے حد شغف تھا۔ وہ سال بھر اس کیلئے تیاریاں کرتیں۔ حکیم محمد سعید لکھتے ہیں: ’’ہمارے بچپن میں یاد ہے کہ اول شام 35-40بکرے آیا کرتے تھے۔ بکرے رات کو کٹتے اور گوشت بنتا ۔ رتجگا ہوتا اور اس میں بڑے چھوٹے سب ہی شریک ہوتے ۔ پھر صبح قصائی رخصت ہوتے اور اللہ بندہ باورچی کندھے پر بڑا سا آہنی کفگیر رکھے اپنے مددگاروں کے ساتھ آموجود ہوتا ۔اللہ بندے کوآپا کو اڑ کے پیچھے کھڑے ہوکر ہدایات دیتیں۔ اتنی دیگیں بریانی کی اور اتنی قورمے کی پکنی ہیں۔ زردہ اتنے سیر چاولوں کا پکے گا۔ دوپہر تک درجنوں دیگیں تیار ہوجاتیں اور رات تک سینکڑوں غریب غربا کھانا کھاتے رہتے۔ اس خدمت میں گھر کا ہرفرد مصروف رہتا۔ ‘‘ وہ زندگی بھر ہم کو انتہائی سستا کھاناکھلا کر جوان کرتی رہیں۔ مشہور تھا کہ رابعہ کے گھر جو ترکاری پکے سمجھو کہ وہ ترکاری ان دنوں سستی ہے مگر وہ بڑی رقمیں پس انداز کرکے ضرورت مندوں کو خود جاجاکر خاموشی سے پہنچاتی رہیں۔ عظیم مائیں یقینا ایسی ہی ہوتی ہیں۔٭…٭…٭