سورہ اخلاص کے فضائل
اسپیشل فیچر
اس سورہ مبارکہ کو ایک تہائی قرآن کہا گیا ہے ،جو شخص تین بار سورہ اخلاص کی تلاوت کرے گا اسے پورے قرآن کا ثواب ملے گا ***** اللہ اپنی ذات و صفات اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتاوبے نظیر ہے ،وہ صمد ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں (ابن کثیر )*****قرآن حکیم کی تلاوت باعث برکت و ثواب ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن حکیم کی بعض سورتوں کے بڑے فضائل بیان فرمائے ہیں جن کے پڑھنے سے جہاں دنیاوی اور اخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں روز مرہ زندگی کے امور میں برکت ہوتی ہے ۔ان فضائل کی ایک دوسری حکمت یہ بھی ہے کہ ان میں روز مرہ زندگی گزارنے کا طریقہ اور سلیقہ بھی بتایا گیا ہے ۔انہی سورتوں میں قرآن حکیم کے آخری پارے میں موجود ایک مختصر اور انتہائی آسان سورہ مبارکہ ’’سورہ اخلاص ‘‘ ہے ۔ سورہ اخلاص بڑی فضیلت کی حامل ہے ،اسے نبی کریم ؐ نے ’’ثلث القرآن‘‘ یعنی ایک تہائی (1/3) قرآن قرار دیا ہے اور اسے رات کو پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے ۔بعض صحابہ ؓ ہر رکعت میں دیگر سورتوں کے ساتھ سورہ اخلاص ضرور پڑھتے تھے جس پر نبی کریم ؐ نے انہیں فرمایا کہ ’’تمہاری اس کے ساتھ محبت تمہیں جنت میں داخل کر ے گی‘‘ ۔(ترمذی) سورہ اخلاص کے شان نزول کے بارے حضرت عکرمہ ؒ سے روایت ہے کہ’’ یہود کہتے تھے ہم حضرت عزیز ؑکو اس لئے پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں ، نصرانی کہتے تھے ہم حضرت مسیح ؑ کو اس لئے پوجتے ہیںکہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں، مجوسی کہتے تھے ہم سورج چاند کی پرستش کرتے ہیں اور مشرکوں کا کہنا تھا کہ ہم بت پرست اس لئے ہیں کیونکہ یہ بت ہماری حاجتیں پوری کرتے ہیں۔ ان سب کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ اُتاری۔ اللہ تعالیٰ احد ہے اُس جیسا کوئی نہیں، اس کا کوئی وزیر نہیں، اس کا کوئی ہمسر نہیں ، اس کے برابر اور کوئی نہیں، اس کے سوا کسی میں الوہیت نہیں ۔ اللہ اپنی ذات و صفات اور اپنے حکمت بھرے کاموں میں یکتاوبے نظیر ہے ۔وہ صمد ہے یعنی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں (ابن کثیر )سورہ اخلاص سے جو خاص محبت رکھتا ہے تواللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اور وہ جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐ نے ایک شخص کو فوج کا سردار بنا کر بھیجا ۔ سردار فوج کو جب کبھی نماز پڑھاتے ، قرآن کی قرات کرتے تو ہمیشہ سورہ اخلاص پر ختم کر تے ۔ فوج جب واپس آئی تو سپاہیوں نے رسول ؐاللہ سے اس بات کا ذکر کیا، آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’اُن سے پوچھو کہ وہ کیوں ایسا کرتے تھے ؟‘‘پس صحابہ کرام ؓ نے سردار سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیاکہ’’ یہ رحمن کی صفت ہے اور میں یہ بات پسند کرتا ہوں کہ اس کو پڑھا کروں‘‘۔ آپ ؐنے فرمایا کہ’’ ان سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت رکھتا ہے‘‘ ۔(بخاری)حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری مسجد قباء میں ہماری امامت کے فرائض ادا کرتے تھے ۔ان کی عادت تھی کہ جب بھی نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورہ پڑھنے لگتے تو پہلے سورہ اخلاص پڑھتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے۔ صحابہؓ نے ان سے کہا کیا آپ سورہ اخلاص پڑھنے کے بعد یہ سوچتے ہیں کہ یہ کافی نہیں بھر دوسری باربھی پڑھتے ہیں ۔انہوں نے فرمایا میں اسے ہرگز نہیں چھوڑوں گا ۔اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ میں تمہاری امامت کروں تو ٹھیک ہے ورنہ میں چھوڑ دیتا ہوں ۔ نمازی انہیں اپنے میں سب سے افضل سمجھتے تھے لہٰذا کسی اور کی امامت پسند نہیں کرتے تھے ،چنانچہ جب رسول ؐاللہ تشریف لائے توصحابہ کرام ؓنے نبی کریم ؐسے یہ واقعہ بیان کیا۔آپ ؐنے امام مسجد سے پوچھا ’’ تمہیں اپنے دوستوں کی تجویز پر عمل کرنے سے کونسی چیز روکتی ہے اور کیا وجہ ہے کہ تم ہر رکعت میں سورہ اخلاص پڑھتے ہو۔انہوں نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ میں اس سورہ سے محبت کرتا ہوں آپ ؐنے فرمایا تمہیں اس سورہ سے محبت یقینا جنت میں داخل کرے گی ‘‘۔(ترمذی)روایات میں اس سورہ مبارکہ کو ایک تہائی قرآن کہا گیا ہے ،یعنی جو شخص تین بار سورہ اخلاص کی تلاوت کرے گا اسے پورے قرآن کا ثواب ملے گا ۔ سیدنا ابو الدرداء ؓ نبی کریم ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؐ نے فرمایا :کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ ہر رات ایک تہائی قرآن پڑھ لے ؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کوئی تہائی قرآن کیسے پڑھ سکتا ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ (قل ھو اللہ احد) ایک تہائی قرآن کے برابر ہے ۔(بخاری)ایک روایت میں حضرت انس ؓ سے منقول ہے کہ ہم رسول کریم ؐ کے ہمراہ تھے کہ اچانک حضرت جبرائیل ؑ تشریف لائے ان سے پوچھا کہ سورج کے لیے ایسا کیا سبب پیش آیا کہ میں اس کو ایسی روشنی و نور کے ساتھ دیکھ رہا ہوں کہ پہلے کبھی اس طرح طلوع ہوتے نہیں دیکھا ؟انہوں نے کہا اس کا سبب یہ ہے کہ آج مدینہ میں معاویہ ابن معاویہ لیثی کا انتقال ہو گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ستر ہزار فرشتے بھیجے تاکہ وہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں۔آپ ؐ نے پوچھا کہ اے جبرائیل ! اس فضیلت و کرامت کا سبب کیا ہے ؟حضرت جبرائیل ؑ نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قل ہو اللہ احد بہت زیادہ پڑھتے تھے کھڑے بیٹھے ،چلتے پھرتے اور دن و رات کے دوسرے اوقات میں ،پھر جبرائیل ؑ نے عرض کی کیا کہ میں آپ ؐکے لیے زمین سمیٹ لوں تاکہ آپ ؐ ان کی نماز جنازہ پڑھا سکیں ؟ آپؐ نے کہا ہاں ۔چنانچہ آپ ؐ نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی ( ابن کثیر بحوالہ المقصدالعلی فی زوائد ابی یعلی الموصلی)مسند احمد میں ہے رسولؐ اللہ فرماتے ہیں جو شخص اس پوری سورہ کو دس مرتبہ پڑھ لے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک محل تعمیر کرے گا ۔حضرت عمر ؓ نے عرض کی یا رسولؐ اللہ پھر تو ہم بہت سے محل بنوالیں گے ۔آپ ؐ نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ اور اس سے بھی اچھا دینے والا ہے‘‘ ۔ حدیث میں ہے جو شخص سونے کے لیے اپنے بستر پر جائے پھر داہنی کروٹ لیٹ کر سو مرتبہ اس سورۃ کو پڑھ لے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا’’اے میرے بندے اپنی داہنی طرف سے جنت میں چلا جا‘‘۔(ترمذی شریف)دعا ہے اللہ رب العزت ہمیں نیک اعمال کرنے اور سنت نبوی ؐ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ٭…٭…٭