کلمات تشکر پیش کرنے کا فن
اسپیشل فیچر
جب سے نئی نسل ادب سے بے بہرہ ہوئی ہے ادبی نشستوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے اور مشاعروں کی تعداد بھی۔ بہت سے ادب نواز اپنے وسیع و عریض غریب خانوں پر ادبی محفلیں سجانے لگے ہیں۔ ہر ادبی نشست کے اختتام پر میزبان محفل کو کلمات تشکر ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اب یہ ضروری تو نہیں ہر امیر آدمی پڑھا لکھا بھی ہو۔ بعض ادب نواز ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ادب سے لگائو تو ہوتا ہے لیکن انگوٹھا چھاپ ہوتے ہیں۔ یا زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ یہ کلمات تشکر ایسے ہی ادب نواز لوگوں کے لیے لکھے گئے ہیں۔ انہیں ذہن نشین کر لیا جائے تو بغیر کسی رد و بدل کے ہر ادبی محفل میں کام آسکتے ہیں یہ آفاقی کلمات تشکر ہیں۔جناب صدر۔ محترم مہمان خصوصی اور معزز سامعین۔ ہمارا ارادہ تو ہدیہ دل پیش کرنے کا تھا لیکن ناظم محفل نے کلمات تشکر پیش کرنے کو کہا۔ اس طرح ہم بے دل ہونے سے بچ گئے۔ تقریر ہمارے بس کی بات نہیں۔ بھری محفل میں چند جملے بھی کہنا پڑجائیں تو ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیٹھ کر تقریر کریں تو گائو تکیہ سامنے رکھ لیتے ہیں۔ کھڑے ہو کر تقریر کریں تو روسٹرم کا سہارا لیتے ہیں۔ہم جانتے تھے ہمیں کلمات تشکر ادا کرنے کی دعوت ضرور دی جائے گی۔ یہی سوچ کر کل رات ہم نے اپنے ایک خیر خواہ سے پوچھا۔ ’’یار یہ کلمات تشکر کیسے ادا کیے جاتے ہیں۔‘‘ کہنے لگے ’’جیسے چاہو ادا کردینا، کلمات تشکر ہی تو ہیں کسی بینک کا قرضہ تو نہیں۔ بس اتنا خیال رکھنا مولوی صاحب کی دعا کی طرح طویل نہ ہوں۔ کھانا ٹھنڈا ہونے لگتا ہے۔ سامعین کا خون کھولنے لگتا ہے۔‘‘یہ سوچ کر کہ کہیں بوکھلاہٹ میں کوئی الٹی سیدھی بات منہ سے نہ نکل جائے ہم کلمات تشکر لکھ کر پیش کررہے ہیں۔ لکھا ہوا مستند سمجھا جاتا ہے یہ اور بات ہے بہت سے لوگ لکھے پر ناحق پکڑے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے صدر محترم کا شکریہ‘ جنہوں نے انتہائی مصروفیت کے باوجود اس محفل کی صدارت قبول کی۔ اپنی قیمتی آراء سے نوازا جو کہا کھل کر کہا کیوں نہ کہتے اس محفل کے صدر ہیں ملک کے نہیں۔شعراء حضرات کا شکریہ اس لیے ادا کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں اپنے فکر انگیز کلام سے نوازا ان کے کلام میں گہرائی بھی تھی اور گیرائی بھی۔ گیرائی کے معانی تو ہمیں نہیں معلوم پر اتنا جانتے ہیں کہ یہ لفظ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے۔محترم مہمان خصوصی کا شکریہ اس لیے ادا کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران میں چند فارسی اشعار پڑھے جو ہمارے بالکل پلّے نہیں پڑے۔ ان کی تقریر سن کر ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہر پڑھے لکھے آدمی کو تھوڑی سی فارسی بھی آنی چاہیے کم از کم اتنی تو آتی ہو کہ معروف فارسی کے اشعار کو سمجھ سکے۔شرکائے محفل کا شکریہ اس لیے ادا کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اس محفل کو رونق بخشی۔ شعراء کو بھرپور داد دی۔ اگر تشریف نہ لاتے تو ان کا کلام کون سنتا۔ شعراء تو اپنے سوا کسی کی سننا نہیں چاہتے۔ اکثر شعراء کو اپنے کلام کے سوا کسی اور کا کلام ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ سمجھ دار شعراء شعر سنانے سے پہلے یہ ضرور کہتے ہیں۔ ’’اپنا یہ شعر مجھے بہت پسند ہے۔ جب بھی پڑھتا ہوں سر دھننے لگتا ہوں۔‘‘ یہ اور بات ہے کہ یہ بات سن کر دوسرے شعراء اپنا سر پیٹ لیتے ہیں۔ ان کا بھی شکریہ جنہیں ادب سے کوئی لگائو نہیں لیکن یہ دیکھنے چلے آئے۔ دیکھیں کیا پکا ہے۔ ’’ دیر سے بو کباب کی سی ہے۔‘‘ہم جانتے ہیں ہماری آواز کسی غیرت ناہید کی تان کی طرح نہیں۔ ریگ مال کی طرح ہے۔ فرش سماعت پر خراشیں پیدا کررہی ہوگی۔ اس سمع خراشی پر بے پناہ قوت برداشت کا مظاہرہ کرنے پر آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔تھوڑے سے رد و بدل کے ساتھ ہر ادبی محفل میں ان کلمات تشکر سے کام لیا جاسکتا ہے۔ کبھی موقع ملے تو آزما کر دیکھیے گا۔ آزمائش شرط ہے ادب نواز بہتیرے۔