راجپوت:600 ء سے 1200ء تک
اسپیشل فیچر
آرین اور قدیم ہندوئوں کے زمانے میں جو راجہ سردار اور سپاہی ہوا کرتے تھے۔ وہ کھشتری تھے۔ بدھ مت کے زمانے میں بھی جیسا کہ بدھ خود تھا اکثر راجا اور سردار کھشتری ہوتے تھے۔ گو بعض مثلاً چندر گپت اور اشوک شودر تھے۔ بدھ مت کے عہد کے وسط سے لے کر مسیح سے تقریباً پانچ سو سال بعد تک شمال مغربی ہند کے بہت سے ملکوں میں ستھین یا سکا قوم کے راجا راج کرتے تھے۔ بکرما جیت کے زمانے میں ستھین اور کھشتری راجائوں اور ان کی سلطنتوں کا ذکر سننے میں نہیں آتا۔ بجائے ان کے 600ء سے 1200ء تک جدھر نظر جاتی ہے۔ راجپوت راجائوں کے راج دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ راجپوت کون تھے؟ راجپوتوں کا اپنا دعویٰ یہ ہے کہ ہم کھشتری ہیں۔ رام چندر جی اور شری کرشن سے اور قدیم زمانے کے اور کھشتری خاندانوں سے ہمارے نسب نامے ملتے ہیں اور بعض عالموں کا یہ خیال ہے کہ یہ دعویٰ صحیح ہے۔ لفظ راجپوت کے معنی ہیں راجائوں کے بیٹے، زمانہ سلف کے کھشتری واقعی راجائوں کے بیٹے پوتے ہوتے تھے اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ دفعتاً کھشتریوں کی قوم کا خاتمہ ہو گیا ہو۔بعض عالموں کا یہ خیال ہے کہ راجپوت ستھین یا سکا قوم سے ہیں، جو سن عیسوی کے ابتدائی پانچ سو سال میں بڑی کثرت سے شمال مغربی ہند میں آ کر آباد ہوئے اور اس فرقہ اہل یونان سے ہیں جو سکا سے پہلے وہاں آباد تھا۔ اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ راجپوتوں کی خاص خاص قومیں مثلاً وہ جو دہلی، قنوج اور ہندوستان کے مرکز میں حکمران تھیں۔ اصل کھشتری نسل سے ہیں اور بعض اور قومیں جن کا نام اول ہی اول راجپوتانہ، مالوہ اور گجرات میں سننے میں آتا تھا۔ جہاں سکا کے خیل کے خیل حملہ آور ہو کر آباد ہوئے۔ ستھین نسل سے ہیں۔ راجپوت بڑی شریف اور اعلیٰ قوم سے ہیں۔ بڑے بہادر ہیں۔ چونکہ یہ لوگ جنگ و جدال میں بڑے مرد ہیں۔ وہ بدھ کے دیا دھرم کو پسند نہیں کرتے کیونکہ بدھ کہتا ہے کہ نہ کسی جاندار کو مارو اور نہ ستائو۔ انہوںنے جہاں تک ہوا برہمنوں کی مدد کی۔ بدھ مت کو دبایا اور پرانے ہندو مذہب کو ازسر نو پھیلایا۔ جس زمانے کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ اس میں بہت سے راجپوت راجا ہوئے ہیں۔ اس سبب سے کہہ سکتے ہیں کہ 600ء سے 1200ء تک راجپوتوں کی سلطنت کا زمانہ ہے۔ آرین عہد میں گجرات کو شری کرشن کی دوار کا کہتے تھے، بعد میں اس کا نام سورٹھ یا سوراشٹر ہوا۔ یہاں 416ء سے لے کر تقریباً 300 سال تک بلبھی خاندان کے راجا راج کرتے تھے۔ جب چینی سیاح ہیوان سانگ سوراشٹر میں آیا تو اس نے دیکھا کہ یہ ایک زبردست سلطنت ہے۔ جہاں بلبھی راجائوں کا راج ہے۔ ملک خوشحال اور مالدار ہے اور دور دراز ملکوں سے تجارت ہوتی ہے۔ 746ء سے مسلمانوں کے زمانے تک سوراشٹر میں راجپوتوں کی عملداری تھی یہ چالو کیہ کہلاتے تھے۔ اتھلواڑہ یا انھل پٹن جس کو اب فقط پٹن کہتے ہیں ان کی راج دھانی تھی۔ مالوے میں بکرما جیت کی اولاد حکمران رہی۔ اس خاندان کا سب سے بڑا راجہ بکرما جیت کے بعد شیلادتیہ دوم تھا جس کا حال چینی سیاح ہیوان سانگ کے سفر نامے سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کے بعد راجپوتوں کا دور شروع ہوا۔ بعد کے زمانے میں مالوہ راجپوتوں کی نہایت زبردست سلطنتوں میں شمار ہوتا تھا۔اڑیسہ قدیم زمانے میں اندھیر کی سلطنت کے نام سے مشہور تھا۔ 474ء سے 1132ء تک یہاں کیسری خاندان کے راجپوت حکومت کرتے تھے۔ بھوونیشور ان کا پایۂ تخت تھا۔ جہاں انہوں نے بڑے بڑے خوبصورت اور شاندار مندر بنائے۔ اس خاندان کے اول راجہ کا نام پیاتی کیسری تھا۔ اس کی راج دھانی کے نام سے ظاہر ہے کہ گو زمانہ سلف میں اڑیسہ میں بدھ مت کا زور تھا۔ اس وقت وہاں کل ملک میں ہندو مذہب پھیلا ہوا تھا اور شِوجی کی پرستش ہوتی تھی۔کیسری راجائوں کے بعد گنگا پتر خاندان کا دور شروع ہوا۔ یہ بھی راجپوت تھے۔ 1132ء سے 1534ء تک انہوں نے اڑیسہ میں حکومت کی۔ 1560ء میں یہ ملک مسلمانوں نے لے لیا۔ گنگا پتر وشنو کی پرستش کرتے تھے۔ پوری میں جوجگن ناتھ جی کا مشہور مندر ہے۔ وہ اسی خاندان کے ایک راجہ کا بنایا ہوا ہے۔ دریائے نربدا سے لے کر دریائے کرشنا تک کل دکن میں سات سو برس یعنی 500ء سے 1200ء تک چالوکیہ خاندان کے راجپوت حکومت کرتے تھے۔ اس خاندان کی دو شاخیں تھیں۔ مشرقی شاخ کا پایۂ تخت دریائے گوداوری پر راج مہندری تھا۔ مغربی کا پایۂ تخت مہاراشٹر میں کلیان تھا۔ اب ان راجائوں کے فقط نام ہی نام باقی ہیں۔ میسور کے ملک میں 900ء سے 1310ء تک بلال خاندان کے راجپوت فرمانروا تھے اور ان کا پایۂ تخت دوار سمدر تھا۔ جہاں انہوں نے ہلے بید کا مشہور مندر تعمیر کیا۔ مسلمانوں نے اس خاندان کو شکست دی اور خود ملک کے حاکم اور فرمانروا بنے۔ تلنگانے میں تقریباً 1100ء سے لے کر 1323ء تک ککاتی خاندان کے راجپوت راج کرتے تھے۔ ان کا پایۂ تخت وار منگل تھا۔ 1323ء میں مسلمانوں نے وارمنگل لے لیا اور اس کو اپنا دارلخلافہ بنا کر گولکنڈے کی سلطنت قائم کی۔بنگال میں پانچ سو برس تک پال اور سین خاندانوں کے راجا راج کرتے تھے۔ 800ء کے قریب سے لے کر 1050ء تک پال راجائوں نے راج کیا اور 1050ء سے 1300ء کے قریب تک سین خاندان کا دور دورہ رہا۔ اس کے بعد یہ ملک بھی مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ دیو گری واقع مہاراشٹر میں 1100ء کے قریب سے 1300ء کے قریب تک یادو نبسی راجپوت راج کرتے تھے۔ یہ کہتے تھے کہ ہم شری کرشن کی نسل سے یا دو نبسی کھشتری ہیں۔ 1300ء کے قریب مسلمانوں نے دیوگری فتح کر کے اس کا نام دولت آباد رکھ دیا۔ راٹھور، چوہان اور تنوار راجپوتوں کے مشہور خاندان ہوئے ہیں۔ 1190ء کے قریب قنوج، اجمیر اور دہلی میں ان کی حکومت تھی مگر 1190ء میں غور کے مسلمان ہند میں آ گئے۔(ای - مارسڈن کی کتاب ’’تاریخِ ہند‘‘ سے ماخوذ،ناشر: بُک ہوم،لاہور)٭…٭…٭