صابرہ سلطانہ
حسن ،نفاست اور ذہانت کا شاندار امتزاج1960ء کی دہائی میں لالی وڈ میں اپنی الگ شناخت بنائیپاکستان کی فلمی صنعت میں ابتداء میں جن اداکارائوں نے اپنے نام کا ڈنکا بجایا ان میں صبیحہ خانم، مسرت نذیر اور بہار کا نام سرفہرست ہے۔ 60ء کی دہائی میں نیر سلطانہ، شمیم آراء، زیبا، دیبا، فردوس ،شیریں اور نغمہ فلمی سکرین پر چھائی رہیں۔ ان سب نے بڑی محنت اور لگن سے کام کیا اور فلمی صنعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ 60ء کی دہائی میں ایک اور اداکارہ نے بڑی تیزی سے فلم بینوں کی توجہ حاصل کی اُس اداکارہ کا نام ہے صابرہ سلطانہ۔21ستمبر 1945ء کو ممبئی میں پیدا ہونے والی صابرہ سلطانہ نہایت دلکش شخصیت کی مالک تھیں۔ پانچ فٹ پانچ اِنچ قد،سرخ و سفید رنگ ،تیکھے نقوش، دمکتا چہرہ، موتیوں کی طرح چمکتے دانت اور پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہت اچھی اداکارہ… یہ سب خوبیاں آپس میں مل جائیں تو صابرہ سلطانہ کا پیکر وجود میں آتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ وہ کسی رومانی ناول کی شہزادی لگتی تھیں…سب سے پہلے ہدایت کار اے ۔ایچ ۔صدیقی نے ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کو بھانپا، اور انہیں اپنی فلم ’’انصاف‘‘ میں کاسٹ کر لیا۔ یوں ’’انصاف‘‘ صابرہ سلطانہ کی پہلی فلم ٹھہری۔ اس فلم میں نیلو اور کمال نے مرکزی کردار ادا کئے۔ یہ فلم کراچی میں بنائی گئی اس کے بعد اپنے وقت کے نامور فلمساز اور ہدایت کار شباب کیرانوی نے اپنی دو فلموں میں انہیں مرکزی کردار کے لئے کاسٹ کر لیا۔ ان فلموں کے نام تھے ’’جمیلہ‘‘ اور ’’شکریہ‘‘ ، ان فلموں میں علائوالدین اور حبیب ان کے ساتھ تھے۔اس کے بعد ہدایت کار حسن طارق نے انہیں اپنی فلم ’’کنیز‘‘ میں صبیحہ خانم کی ماں کا کردار ادا کرنے کے لئے کاسٹ کر لیا۔ اس فلم میں صابرہ سلطانہ کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ صبیحہ خانم کی ماں کا کردار ادا کرنے پر صبیحہ کو توبہت فائدہ ہوا لیکن صابرہ سلطانہ نے نوجوانی کے عالم میں ایسا کردار ادا کرنے پر نقصان اُٹھایا۔ فلمی پنڈتوں نے ان پر بوڑھے کرداروں کی چھاپ لگا دی۔صابرہ سلطانہ کی کامیابی کی ایک اور وجہ ان کی دلکش مسکراہٹ تھی جو فلم بینوں کو بہت پسند تھی۔ ’’انسان‘‘ ان کی یادگار فلم ہے جس میں ان کے مدمقابل سنتوش کمار تھے۔ اس فلم میں انہوں نے ایک مثالی مشرقی خاتون کا کردار ادا کیا، شائقین فلم نے ان کی اداکاری کو بہت سراہا۔اِس فلم کے بعد ’’مجاہد‘‘ میں ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ اس فلم میں اسلم پرویز نے ان کے بھائی کا کردار ادا کیا جو ایک عیسائی گورنر ہے۔ صابرہ سلطانہ ایک مجاہد (سدھیر) کے دینی مشن کی تکمیل میں اس کی مدد کرتی ہے۔ ’’عادل‘‘ میں وہ ملکہ بنیں اور اس شاندار اور باوقار ملکہ کی اداکاری کو فلم بینوں نے خوب سراہا۔ یہ سخت مقابلے کا دور تھا اور ان حالات میں اپنے آپ کو منوانا خاصا مشکل تھا۔’’برما روڈ‘‘، ’’اعلان‘‘ اور ’’بہادر‘‘ میں ایک بار پھر صابرہ سلطانہ نے سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ وہ ایک کامیاب اور باصلاحیت اداکارہ کے طور پر تسلیم کی جا چکی تھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔’’شام سویرے‘‘ اور ’’بزدل‘‘ وہ فلمیں ہیں جو ان کے مداحین کبھی نہیں بھول سکتے۔ انہوں نے ان فلموں میں اپنے چہرے کے تاثرات اور مکالموں کی ادائیگی سے فلم بینوں کی ایک کثیر تعداد کو متاثر کیا۔ وہ عورتوں میں بھی بہت مقبول تھیں۔ وہ صاف ستھری فلموں کا دور تھا اور کسی بھی فلم میں فحاشی یا عریانی کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا۔ صابرہ سلطانہ مشرقی عورت کا جیتا جاگتا نمونہ تھیں، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ اس دور کی نوجوان عورتوں کے لئے رول ماڈل کا درجہ رکھتی تھیں۔’’چودہ سال‘‘ ،’’شریک حیات‘‘اور ’’معجزہ‘‘ بھی ان کی قابل ذکر فلموں میں شامل ہیں۔ خاص طور پر ’’شریک حیات‘‘ میں انہوں نے نہایت متاثر کن اداکاری کی۔ اس فلم میں انہو ں نے شبنم کی بڑی بہن کا کردار ادا کیا تھا، اور ہیرو کے کردار میں سید کمال جلوہ گر ہوئے تھے۔ کیریئر کے دوسرے حصے میں انہوں نے کچھ فلموں میں کریکٹر ایکٹرس کے طور پر کام کیا۔ 1975ء میں ریلیز ہونے والی ’’بے مثال‘‘ ان کی آخری فلم تھی۔ یہ واحد فلم تھی جس میں صابرہ سلطانہ نے منفی کردار ادا کیا اور اس کردار میں بھی وہ فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کامیاب رہیں۔ اس فلم کے بعد وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔صابرہ سلطانہ آج کل ایک اشتہاری کمپنی کے لئے کام کر رہی ہیں اور وہ بہت مطمئن ہیں۔ ان کے بقول تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں کے ماحول میں پرفارم کرنے کا لطف کچھ اور ہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ یہاں کام کرنا فلم سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔ وہ اس بات پر بہت نازاں ہیں کہ وہ 21ستمبر کو پیدا ہوئیں ،ان کے بقول 21ستمبر کو ان شخصیات نے جنم لیا جنہوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ ان شخصیات میں صوفیہ لارین، کرینہ کپور اور بلاول بھٹو زرداری شامل ہیں۔ پاکستانی اداکاروں میں انہیں سنتوش کمار اور حبیب کے ساتھ کام کرنا اچھا لگا جبکہ وحید مراد ان کے پسندیدہ ہیرو تھے۔ بھارتی اداکاروں میں انہیں امیتابھ بچن اور نصیرالدین شاہ بہت پسند ہیں جبکہ دلیپ کمار کو وہ لیجنڈ کا درجہ دیتی ہیں۔انہیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ مسلمان فنکاروں نے بھارتی فلم انڈسٹری پر ہر دور میں حکومت کی۔ گزشتہ 15برسوں سے تین خان بالی وڈ پر چھائے ہوئے ہیں۔ گلو کاروں میں محمد رفیع کا کوئی جواب نہیں اور نوشاد صاحب کو موسیقار ِاعظم کہا جاتا ہے۔ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ فلمی صنعت کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دینے والے فنکاروں کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ کوئی حکومت یہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتی کہ ماضی کے درخشاں فنکار آج کس حالت میں ہیں۔ اس کے برعکس بھارت میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں پرانے فنکاروں کی بہت توقیر کی جاتی ہے اور انہیں ان کی فلمی صنعت کسی نہ کسی کام پر لگائے رکھتی ہے تاکہ ان کی روٹی روزی کا سلسلہ چلتا رہے۔ حکومتی سطح پر بھی ایسے فنکاروں کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کئی فنکار کسمپرسی کی حالت میں اس جہاں سے رخصت ہو گئے اور جو حیات ہیں وہ نجانے کیسے اپنی زندگی کی گاڑی کو دھکا دے رہے ہیں۔ صابرہ سلطانہ نے معاشی تنگ دستی کے باوجود کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ کردار کی پختگی کی وجہ سے بھی ان کا آج تک احترام کیا جاتا ہے…صابرہ سلطانہ کے ذہن کی تختی پر جو کچھ لکھا ہوا ہے وہ انمٹ ہے۔اس تختی پر پاکستانی فلمی صنعت کے عروج کی کہانی لکھی ہے۔ شوبز سے دلچسپی رکھنے والے ہمارے آج کے نوجوانوں کو پاکستان کی فلمی صنعت کے سنہری دور کے بارے میں بھی علم ہونا چاہئے۔ وہ دور جس میں اعلیٰ درجے کے ہدایت کار،اداکار ،گلوکار، موسیقار اور نغمہ نگار اپنے اپنے فن کے جوہر دکھا رہے تھے۔ یہ تمام لوگ فلمی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کی خدمات کو کھلے دل سے تسلیم کیا جانا چاہئے۔٭…٭…٭