لالی وڈ کی مونا لیزا کہاں ہے؟

اسپیشل فیچر
دیبا نے کئی فلموں میں ناقابل فراموش اداکاری کی*****1960ء کی دہائی میں زیبا اور شمیم آرا کے بعد جس اداکارہ نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی وہ تھی دیبا۔ اداکاری کے علاوہ دیبا کو ایک اور درجہ سے بھی بہت پسند کیا جاتا تھا اور وہ تھی ان کی مونا لیزا جیسی مسکراہٹ ۔ اس حوالے سے انہیں فلمی صنعت کی مونا لیزا بھی کہا جاتا تھا۔ ہم اپنے قارئین کو سب سے پہلے مونا لیزا کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں کہ یہ خاتون کون تھی؟بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مونا لیزا شاید کوئی خیالی کردار ہے لیکن یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں۔ سولہویں صدی عیسوی میں اٹلی کی ایک آرٹسٹ لیونارڈو داونسی نے ایک عورت کا پورٹریٹ بنایا جس کا نام تھا لیزا غیر ارداتی ۔ خیال یہی کیا جاتا ہے کہ یہ پورٹریٹ 1503ء سے 1506ء کے عرصے کے دوران بنایا گیا۔ آرٹ کی دنیا میں جتنی شہرت اس پورٹریٹ کو ملی اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس پورٹریٹ میں لیزا کی جو خفیف سی مسکراہٹ نظر آتی ہے وہ قدرت نے صرف اس کو ہی عطا کی تھی۔ بعد میں یہ پورٹریٹ فرانس کے بادشاہ فرانکس ون نے حاصل کر لیا اور اب یہ فرانسیسی حکومت کی ملکیت ہے اسے پیرس کے عجائب گھر میں رکھا گیا ہے اور اسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد کمی نہیں آئی۔ مونا لیزا پر برطانیہ میں فلم بھی بنائی گئی جو زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔2003ء میں ہالی وڈ میں مونا لیزا سمائل (Mona Lisa Smile)کے نام سے ایک باکمال فلم بنائی گئی۔ اس میں شہرہ آفاق اداکار جولیا رابرٹس نے زبردست اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔یہ فلم مونا لیزا کی مسکراہٹ کے حوالے سے بنائی گئی۔پاکستانی اداکارہ دیبا کو مونا لیزا کا خطاب ملنا ان کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔1942ء میں پیدا ہونے والی دیبا رومانوی اور المیہ کردار نگاری کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ان کا اصلی نام راحیلہ ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے چائلڈ سٹار کی حیثیت سے فلم ’’فیصلہ‘‘ میں کام کیا اس کے بعد 1962ء میں فضل کریم فضلی کی فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ میں سائیڈ رول ادا کیا اور ان کی اداکاری کا نوٹس لیا گیا۔ ’’چراغ جلتا رہا‘‘ محمد علی اور زیبا کی پہلی فلم تھی۔ اس کے بعد ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ میں ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ ان کے ساتھی فنکاروں نے بھی انہیں بہت داد دی۔’’پھر صبح ہو گی‘‘ میں ان کی فنی صلاحیتیں مزید نکھر کر سامنے آئیں۔ اس میں انہوں نے مرکزی کردار اداکیا۔ اگلی تین فلموں نے دیبا کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچ دیا۔ یہ فلمیں تھیں ’’ملن، میرے بچے میری آنکھیں اور دل دیوانے‘‘ اس کے بعد انہوں نے ’’عاشق ، وعدہ اور آئینہ‘‘ میں بھی متاثر کن اداکاری سے فلم بینوں کے دل جیت لئے۔ ہدایت کار دلجیت مرزا نے انہیں اپنی فلم ’’رواج‘‘ میں ذہنی معذور لڑکی کا کردار دیا جو انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے ادا کیا۔ اس فلم میں ان کی اداکاری چونکا دینے والی تھی۔ ’’سنگدل‘‘ بھی ان کی سپرہٹ فلم تھی جس میں ان کے ہیرو ندیم تھے۔ اس فلم کے نغمات کے علاوہ دیبا کی اداکاری بھی لاجواب تھی۔‘‘ ’’کوشش، تمہی ہو محبوب میرے، دل دے کے دیکھو، پردیس، درد اور زندگی ایک سفر ہے‘‘ ان کی وہ فلمیں تھیں جو باکس آفس پر بہت کامیاب ہوئیں ۔ دیبا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی کامیاب فلموں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ پاکستانی فلموں کی مونا لیزا کی ایک اور بڑی خوبی گانوں کی پکچرائزیشن تھی۔ خاص طور پر المیہ گانے پکچرائز کرانے میں تو انہیں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ اسی طرح المیہ کرداروں میں وہ اتنی ڈوب کر اداکاری کرتی تھی کہ حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ مرد فلم بینوں کے علاوہ وہ عورتوں میں بھی بہت مقبول تھیں۔ فلم ’’ہم دونوں‘‘ میں رونا لیلیٰ کے گائے ہوئے اس نغمے کو جس خوبصورتی سے دیبا نے پکچرائز کروایا اس پر ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس نغمے کے بول کچھ یوں تھے۔’’ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا‘‘۔ اسی طرح حسن طارق میں انہوں نے طلعت صدیقی کے ساتھ غضب کی اداکاری کی۔ یہ ایک جذباتی کردار تھا۔ فلمی پنڈتوں کے نزدیک ’’بہن بھائی‘‘ کی کامیابی میں سید کمال اور دیبا کی اعلیٰ درجے کی اداکاری کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ فلم ’’زندہ لاش‘‘ میں انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا سب سے انوکھا کردار ادا کیا۔ خواجہ سرفراز کی اس فلم کو پاکستانی ڈریکولا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس فلم کا مرکزی کردار ریحان نے ادا کیا تھا لیکن حبیب او ر دیبا کی اداکاری کو بھی بہت سراہا گیا۔ پھر ’’اک نگینہ‘‘ نے دیبا کی شہرت میں مزید اضافہ کیا۔ انہوں نے وحید مراد کے ساتھ گانوں کی پکچرائزیشن اتنی زبردست کرائی کہ فلم بین عش عش کر اٹھے۔اس دلکش اداکارہ نے پنجابی فلموں میں بھی اپنی خداد داد صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ہدایت کار افتخار خان کی سپر ہٹ فلم ’’سجناں دور دیا‘‘ میں شاندار اداکاری پر انہیں نگار ایوارڈ دیا گیا۔ان کی دیگر قابل ذکر پنجابی فلموں میں ’’کون دلاں دیا جانے‘‘، بھولا سجن اور نشہ جوانی دا‘‘ شامل ہیں۔1971ء میں دیبا نے کیمرہ مین نعیم رضوی سے شادی کر لی۔ اور فلمی صنعت سے کنارہ کش ہو گئیں۔1987ء میں انہوں نے فلمی صنعت میں دوبارہ قدم رکھا اور چند فلموں میں کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے سامنے آئیں۔ ان میں ’’دیوانے تیرے پیار کے، ہوائیں اور چوڑیاں‘‘ شامل تھیں۔ یہ تینوں فلمیں سید نور کی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ سید نور نے ہی انہیں کیریکٹر ایکٹریس کے طور پر دوبارہ فلموں میں کام کرنے کی دعوت دی تھی۔ ان تینوں فلموں میں دیبا نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ ہر قسم کے کردار بخوبی ادا کر سکتی ہیں۔ ’’دیوانے تیرے پیار کے اور چوڑیاں‘‘ میں وہ معمر رانا کی ماں بنیںجبکہ ’’ہوائیں‘‘ میں سعود ان کے بیٹے کے طور پر جلوہ گر ہوئے۔ یہ تینوں فلمیں باکس آفس پر بے حد کامیاب ہوئیں اور خاص طور پر ’’چوڑیاں‘‘ نے تو کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ مذکورہ تینوں فلمیں میں دیبا نے بڑی پختہ اداکاری کی۔ آواز کا اتار چڑھائو۔ مکالموں کی ادائیگی کا قدرتی انداز اور چہرے کے تاثرات ان کی اداکاری کی وہ خوبیاں تھیں جن کا نوٹس لیا گیا۔دیبا نے اپنے وقت کے تمام نامور ہیروز کے ساتھ کام کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب ہیروز کے ساتھ ان کی جوڑی کو پسند کیا گیا اور ان کے بارے میں یہ کبھی نہیں کہا گیا کہ فلاں ہیرو کے ساتھ ان کی جوڑی سب سے مناسب لگتی ہے۔ ان کے ہیروز میں محمد علی، وحید مراد، ندیم، شاہد ،حبیب اور اعجاز شامل ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی ملنسار اور خوش اخلاق خاتون ہیں۔انہوں نے شہرت کے لئے کبھی عریانی کا سہارا نہیں لیا اور بڑا صاف ستھرا کام کیا۔ پورے فلمی کیریئر کے دوران ان کا کسی کے ساتھ کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ فلمی حلقوں میں آج بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ فلمی صنعت سے تو وہ ایک مرتبہ پھر کنارہ کش ہو چکی ہیں۔ فلم بین بہرحال یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لالی وڈ کی مونا لیزا آج کل کہاں ہے؟٭…٭…٭