نوحہ خوانی ورثے میں ملی ہے
اسپیشل فیچر
محبتیں بانٹنی چاہئیں کہ ہم رحمت اللعالمین نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ماننے والے ہیںاکبر نقی کے چھوٹے بھائی عباس نقی سے پوچھا کہ آپ کے دونوں بھائی نوحہ خوانی کرتے ہیں،کہیں حسد تو محسوس نہیں ہوتا تو اُنہوں نے کہا کہ ذکرِ امام حسینؑ میںحسد نہیں ہوتا یہ وہ ذکر ہے جو صبر وبرداشت کا درس دیتا ہے اور پڑھنے والا دنیا کو بھول کر دین سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ایّامِ عزا حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کا مہینا ہے جس میں امامِ مظلوم نے اپنے72 رفقاء اور18 بنو ہاشم کے ساتھ میدانِ کرب و بلا میں ظلم کے خلاف جہاد کیا۔ امام حسین، اُن کے حرم اور انصاروں نے قلیل تعداد کے باوجود اکثریت کے خلاف قیام کرکے درس دیا کہ ظلم جتنا بھی بڑا ہو حق اُس کے آگے جُھکتا نہیں۔ ایّامِ عزا کی آمد سے قبل ہی ہر پیر وجوان کمرکَستا نظر آتا ہے، کہیں بچّے سبیلیں لگاتے دکھائی دیتے ہیں، کہیں نوجوان عَلم سجاتے اور کہیں نوحہ خوانی کی مشق کی کرتے اورکہیں محرم الحرام سے قبل نوحے ریکارڈ کرتے نظر آتے ہیں۔ اِنہی نوجوانوں میں ایک نام سیّد محمد اکبر نقی کا بھی ہے۔ اکبر معروف نوحہ خواں سیّد محمد نقی کے منجھلے صاحب زادے ہیںاور اُن کے بڑے بھائی علی اور چھوٹے عباس بھی نوحہ خوانی کرتے ہیں۔26 نومبر1991 کو پیدا ہونے والے اکبر نقی کا کہنا ہے کہ نوحہ خوانی ہماری وراثت ہے۔ وہ آٹھ سال کی عمر سے اپنے والد کے ساتھ پڑھ رہے تھے جب کہ پچھلے دو سال سے اکیلے(solo) پڑھ رہے ہیں۔ اکبر نقی اقرا یونی ورسٹی کے میڈیا سائنس کے طالب علم ہیں،اُنہوںنے ابتدائی تعلیم ایجوکیشن سینٹر،سٹی اسکول اور پی اے ایف چیپٹر سے حاصل کی اور امریکا روانہ ہوگئے۔حال ہی میں امریکا سے ہائی اسکول پاس کرکے پاکستان آئے۔ اکبر نقی ایڈیٹنگ اور مکسنگ سے دل چسپی رکھتے ہیں اور مستقبل میںاُن کا پروڈکشن ہاؤس کھولنے کا ارادہ ہے۔جب پوچھا کہ کھانے میں کیا پسند ہے تو بولے:’’سب اللہ کا شکر ادا کرکے کھالیتا ہوں مگر ارہر کی دال، چاول بہت پسندہیں۔ نوجوان نوحہ خواں سے محرم الحرام اور نوحہ خوانی کے حوالے سے کی گئی گفتگو نذر قارئین ہے۔دنیا : نوحہ خوانی کی جانب رغبت والد کی وجہ سے ہوئی؟اکبر نقی : میرے والد اور تایا سب ہی نوحہ خواں ہیں جب کہ گھر میںمجالس کا سلسلہ آنکھ کھولتے ہی دیکھا۔ میرے دادا اور دادی بڑے عزادار تھے تو نوحہ خوانی ہماری میراث ہے۔ پھر ہم فاطمہ زہرا علیہ السلام کی دعا ہیں تو یہ ہمارے خون میں شامل ہے۔ ماتم یا نوحہ پڑھنا ہمیں سکھایا نہیں جاتا بل کہ ہر بچّہ خود بہ خود مظلومِ کربلا کا غم لیے پیدا ہوتاہے اور یہ ہمارا نہیں امام حسین علیہ السلام کا معجزہ ہے کہ یہ قوم مٹانے سے بھی مٹتی نہیں بل کہ بڑھتی ہے۔دنیا: نوحہ خوانی ہو یا خطابت ہواُسے پیشہ بنالیا گیا ہے، اِس حوالے سے کیا کہیں گے؟اکبر نقی: یہ افسوس کا مقام ہے۔دنیا: آپ اپنے والد کے ساتھ نوحہ خوانی کرتے نظر آتے ہیں۔اکبر نقی: میں کم عمری ہی سے بابا کے ساتھ پڑھتاتھا لیکن پچھلے دو سال سے اکیلے نوحے ریکارڈ کروارہا ہوں۔ بابا کے نوحہ البم جس کا نام ’’اذانِ غم ہے‘‘ اُس میں میرا پہلا نوحہ’’ اے یوسفِ لیلیٰ علی اکبر...علی اکبر‘‘ ریکارڈ کروایا جسے بہت عقیدت سے سُنا گیا اور پذیرائی ملی۔دنیا: اس سال کے البم میں آپ نے کون سا نوحہ پڑھا؟اکبر نقی: بابا ہی کے البم میں میرا دوسرا نوحہ تصویرِ پیغمبر ؐ اکبرؑ… علی اکبرؑ! آرہا ہے ۔دراصل شہزادے علی اکبر اٹھارہ سال کے نوجوان تھے،نوجوانوں کی آواز اُن کے لیے پڑھے ہوئے نوحے پسند کیے جاتے ہیں۔ یہی سلسلہ ہے کہ ہمارے ہاں صبح ِ عاشور کی اذان بھی نوجوان مؤذن سے دلوائی جاتی ہے تاکہ جنابِ علی اکبرؑ کی یاد تازہ کی جاسکے جنہیں واقعی کربلا کے روز اذان کہنے کا حکم اِس لیے دیاگیا کہ وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کے ہم شکل اور ہم آوازتھے۔ باطل پر حق کی فتح ظاہر کرنے کے لیے علی اکبرؑ سے اذان دلوائی گئی۔دنیا: محافل میلاد میں شرکت کرتے ہیں تو کس حمد گو یا نعت خواں کو سُننا اچھا لگتا ہے؟اکبر نقی: ہم خود بھی حمد اور نعت خوانی کرتے ہیں، میرے پسندیدہ سمیع یوسف ہیں۔اُن کی حمد ’’وہ اللہ کون ہے‘‘ میرے دل کو چھولیتی ہے۔ مجھے فصیح الدین سہروردی بھی پسند ہیں،ان کی آواز میں’’میں تو پنجتن کا غلام ہوں‘‘ بہت اعلیٰ کلام ہے۔دنیا: نوحہ خوانی اور خطابت میںکون کون پسند ہے؟اکبر نقی: میرے گھرانے کا ایک بڑا نام ندیم رضا سرور ہیں جو میرے تایا ہیں، اُن کی نوحہ خوانی پسند ہے جب کہ عراقی نوحہ خواں باسم کربلا ئی بھی پسند ہیں۔ عربی ہماری زبان نہیں لیکن اُن کے لہجے کا درد اور خلوص بہت متاثر کرتا ہے۔علّامہ طالب جوہری اور عرفان حیدر مرحوم کے علاوہ مجھے ضمیر اختر نقوی کا انداز بھی اچھا لگتا ہے۔دنیا: آپ کیا سمجھتے ہیں نوحہ خوانی کے لیے لحن، آواز یا لہجے کا درد کیا زیادہ ضروری ہے؟اکبر نقی: میں سمجھتا ہوں اِن سب سے زیادہ امام حسینؑ کی محبت ضروری ہے جب میں نوحہ خوانی کرتا ہوں تو دماغ میںصرف ایک منظر،کربلا کا ہوتا ہے پھر میں نوحہ پڑھتے ہوئے اپنی آواز کی خوب صورتی وغیرہ پر غور نہیں کرتا بل کہ ذکر کی اہمیت اور پیغام کی ترسیل کواہم سمجھتا ہوں۔دنیا: کلام کا انتخاب آپ کے والد کرتے ہیں یا آپ خود؟اکبر نقی: ہمارا کلام معروف شاعر ڈاکٹر ریحان اعظمی لکھتے ہیں ۔ میںاور بابا دونوں مل کر انتخاب کرتے ہیں جب کہ پچھلے سال کے نوحے کا انتخاب میرے تایا ندیم سرور نے کیاتھا۔ دنیا: آپ حال میں پاکستان آئے ہیں باہر ملک کے افراد پاکستان کے محرم اور حالات کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟اکبر نقی: زیادہ تر کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسا محرم دنیا میںکہیں نہیں ہوتا اور جہاں تک سوال حالات کی خرابی کا ہے تو یقینا یہ منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔ دنیا: محرم الحرام کو احترام کامہینا قرار دیاگیا لیکن ہمارے ہاں اِسے خونریزی کا مہینا بنادیاگیا ،آپ نوحہ پڑھنے جاتے ہیں تو خوف محسوس ہوتا ہے؟ اکبر نقی: گھر والوں کو خوف ہوتا ہے لیکن موت بر حق ہے، اگر محبت حسین علیہ السلام میںآئے شہادت جیسی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ایسی موت تو خوش نصیبوں کے لیے ہوتی ہے جو مظلوم کی حمایت میں آگے بڑھیںاورظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔دنیا: والدہ جانے کی اجازت دے دیتی ہیں؟اکبر نقی: جی ہاں بل کہ وہ خود ہمارے ساتھ موجود ہوتی ہیں۔دنیا: حالات دگرگوں ہیں، تفرقہ بازی کو ہوادی جارہی ہے، آپ شیعہ سُنی مسالک کے نوجوانوں کو کیا پیغام دیں گے؟ اکبر نقی: نوجوان اپنے ذہن میں بٹھالیں کہ شیعہ سُنی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمیں برداشت سے کام لینا چاہیے۔ محبتیں بانٹنی چاہئیں کہ ہم رحمت اللعالمین نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ماننے والے ہیں۔ایک بات یہ بھی کہوں گا کہ نوجوان اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ ضرور کریں،اِس سے ان کی معلومات میںاضافہ ہوگا اور دوسرا برداشت کا مادّہ پیدا ہوگا ۔