میراؔ جی : جدید اُردو شعر و اد ب کا معمارِ اوّل
اسپیشل فیچر
میراؔجی کی بیش تر نظمیں انگریزی اور امریکی شاعری کی نظموں کا مزاج رکھتی ہیں ،جو اُردو میں آ ج بھی نئی ہیں ،اُن کی غزل بھی بہت بدلی بدلی، لیکن روایت سے جڑی ہوئی ہے*********** میَں نے بالائی سندھ کے شہر لاڑ کانہ میں ہوش سنبھالا ۔ہم لوگ ’’ ناگو شاہ گِٹّی (گلی) ‘‘ کے قریب ایک ایسے مکان میں رہتے تھے، جو تین قطعہ تھا۔ اس کے ایک حصہ میں اُردو کے پریم چند ،ڈاکٹر اعظم کریوی(مرحوم)کا خاندان آباد تھا ۔ اُن کی دونوں بیٹیاں میری سہیلیاں تھیں ۔ ہمارے محلے سے کچھ دُوری پر مشہور شاعر اخترؔ شیرانی کے خاندان کے لوگ رہتے تھے ،جو شیرانی فیملی کے نام سے مشہور تھے۔اس خاندان کی ایک لڑکی رضیہ شیرانی میری دوست ہوا کر تی تھی ۔ لاڑ کانہ کے مشہور لاہوری محلے (نواب لاہوری کے حوالے سے ) سے ذرا ہٹ کر اُر دو فکشن کی عظیم ادیبہ قرۃا لعین کے بھائی کی رہائش گاہ تھی ۔ ہمارے گھر کے چند قدموں کے فاصلے پر حیدرآباد دکن سے آئے ہو ئے، مشہور شاعر صمد رضوی سازؔ رہتے تھے، جنھوں نے لاڑ کانہ کی مشہور ادبی انجمن ’’ بز مِ ادب ‘‘ تشکیل دے رکھی تھی ۔۔۔اُن کی اکلوتی بیٹی نجمہ رضوی سکول میں مجھ سے تین سال سینئر تھی۔ میرے اپنے چچا شوکت عابدی( مرحوم )شا عر تھے۔ وہ بزمِ ادب کے فعال رُکن اورسیکریٹری تھے۔ میرے اس بیان کا سبب یہ بتانا تھا کہ میَں چاروں کھُوٹ ادب کے حصار میں چار برس کی عمر سے( جھانسی انڈیا سے ہجرت کے بعد ) پروان چڑھی ۔شہر لاڑکانہ کا معا شر تی ماحول گنگا جمنی تھا ۔مسلمان ، ہندو ، سندھی ،سرائیکی، بلوچی ، پنجابی اور مہاجر سب گھلے ملے رہتے تھے۔سندھی ،سرائیکی اور اُردو مشاعروں اور مذاکروں کا انعقاد ہو ا کر تا تھا ۔ اس ادبی ماحول کے باوجود میں میراؔجی سے بہت تا خیر سے واقف ہو ئی ۔جدید شعرا میںاختر ؔشیرانی ، فیضؔ ، راشدؔ ، ساحرؔ،مجازؔ ، مخدومؔ وغیرہ کے چر چے تھے ۔ جو شؔ ، فیضؔ ، ندیمؔ ، قتیلؔ شفائی ، حبیب جالبؔ کو بھی سنا ،لیکن میراؔجی کا بس نام ہی پڑھنے میں آ یا تھا ۔ میراؔ جی کو پڑھنے سے پہلے اس کی شخصیت کے بارے میں پڑھا۔ ہر کوئی اس کی ذات کو مو ضو عِ گفت گو بنا لیتا تھا ۔اس کی ظاہری ہیئت کذائی نے اس کی ادبی حیثیت تک پہنچنے نہیں دیا، لیکن جب یہ پر دے اُٹھے، تو میرا جی ؔاُردو شعر و ادب کا بطل ِجلیل نظر آ یا ۔ ثنا ء اللہ ڈار (میراؔجی )نے اپنے کئی نام بھی رکھے اور تخلص بھی ۔جتنے نام اور تخلص رکھے، قریب قریب شعر و ادب کی اتنی ہی جہات کے دروازے کھٹکھٹائے ، دستکیں دیں اور اُن کو وَا یا نیم وَا کیا۔ نتیجہ اس نے تھوڑے وقت میں بہت سارا اور بڑا کام کر دکھایا ۔ میَں نے جب اُن کو پڑھا، تو پڑھتی چلی گئی اورآج بھی پڑھ رہی ہو ں ۔ میَں ایک افسانہ نویس ہو ں اور چاہتی ہوں افسانہ نویس ہی رہوں۔ اس کے باوجود کسی کسی قلم کار پر کچھ لکھ ڈالنے سے اپنے قلم کو روک نہیں پاتی ۔ میراؔجی کا معاملہ یہ ہے کہ پڑھنا ہی چل رہا ہے۔ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ اس کی شاعری کو ہی لیجئے ، غز لیں اس نے بہت کم کہیں ،لیکن غزل ایسی کہی اور اس قدر جدید کہی کہ شاید ہی کو ئی اور شا عر کہہ پایا ۔ میَںیہ نہیں کہتی کہ میراؔجی نے غزل کی روایت کو توڑ مروڑ دیا ۔ غزل ایسی صنف ہی نہیں،جس کو روایت سے با لکل قطع کیا جا سکے ، جو کوئی ایسا کر نا چا ہے گا، وہ آپ ہی قطع ہو جا ئے گا۔ میراؔ جی کی غزل بھی بہت بدلی بدلی، لیکن غزل کی روایت سے جڑی ہوئی ہے ۔ میراؔ جی کی غزل بھی اقبالؔ کی غزل کی مانندنئی تو ہو ئی، لیکن غزل کی روایت سے وا بستہ ہے :سدھ بسرے پر ہنسنے والو چاہ کی راہ چلو تو جانیں اوچھا پڑتا ہے ہر دائو جب یہ جادو چل جاتا ہے مندر جہ بالا شعر کی مدد سے میَں یہ دکھانا چاہتی ہوں کہ میراؔجی کی غزل روایت سے جڑی ہو نے کے باوجودجدید ہے۔اس کو کسی کسی نے گیت کے قریب بتا یا ہے۔اس مغالطے کا سبب میراؔجی کی شاعری کی زبان ہے، جواُردو کا ہندی روپ ہے۔عربی فارسی سے قدرے ہٹا ہوا ،درج ذیل غزل کی زبان اور لہجے پر غور فر ما ئیے،لیکن یہ گیت نہیں کہلا ئی جا سکتی :نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیاکیا ہے ترا، کیا ہے میرا، اپنا پرایا بھول گیاکیا بھولا، کیسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو کارن دوش نہیں ہے کوئی، بھولا بھالا بھول گیا میراؔجی کی ایک اور غزل کا مطلع دیکھئے :گناہوں سے نشو و نما پا گیا دلدرِ پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل اس مطلع میں ’ نشو نما ‘ اور ’ درِ پختہ کاری ‘ کے استعمال سے گیتوں سے بہت دُورہو رہے ہیں ۔اس کو غزل کی روایت سے جڑا ہوا ہی ماننا پڑے گا ۔ یہ آج کے دَور میں بھی جدید کہلا یا جا سکتا ہے ۔ اگر کو ئی یہ کہے کہ میرا ؔجی کی غزل میرؔ کے قریب ہو جاتی ہے۔،تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے ۔ایسی قربت بھی کبھی کبھار سامنے آتی ہے۔ میراؔجی نے میرؔ کی زمین میں غزل بھی کہی ہے۔ میرا ؔجی کا مندرجہ ذیل مقطع میرؔ کے کسی مقطع کی بو باس رکھتا ہے:شعر کہتے تھے اپنے میرا ؔ جیلوگ سنتے تھے آہ کرتے تھے میراؔجی کی نظموں کے بارے میں ، میَں یہی کہوں گی کہ بیش تر نظمیں انگریزی اور امریکی شاعری کی نظموں کا مزاج رکھتی ہیں ۔ اُردو میں آ ج بھی نئی ہیں ۔ میرا ؔجی نے غزلیں بہت کم کہی ہیں ۔ وہ نظم کے شاعر تھے اور ہیں ۔ اُن کی نظمیں اُردو کے شعری ادب میں بیش بہا اضافہ ہیں اور اُردو شاعری کو عالمی شعر و ادب میں اُونچا اُٹھا رہی ہیں ۔ اُن کی شاعری میں جنس زدگی کا عنصر نہیں ملتا (اُن کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈ النا میں غیر ضروری خیال کرتی ہوں) میراؔجی کے ترجموں نے اُن کے عصر میں اُردو کو ، اُردو کے قا رئین کو اور اور قلم کاروں کو ڈھیر ساری آگا ہی دی۔اُن تر جموں نے اُن کو قلم کاروں کے صفِ اوّل میں کھڑا کر دیا ۔ اُن تراجم کے لیے میراؔ جی نے ا پنے انتخاب کو عا لمی ادب کے انتخاب کی صورت دی ۔ اس کو کسی ایک ملک یا ایک زبان تک محدود نہیں رکھا۔اُن کا انتخاب مشرق و مغرب اور جدید و قدیم کا احاطہ کر تا ہے۔ اُن کے ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ تر جمہ اصلی محسوس ہو تا ہے،ترجمہ نہیں ۔ وہ فرانسیسی زبان سے نا واقف تھے، لیکن اُنھوں نے ملارمے ؔ کی ایک مشکل اور اہم نظم کا ترجمہ ( انگریزی میں کیے، ہوئے ایک سے زائد تر جموں کی وساطت سے) کیا۔ وہ ایک مشکل پسند قلم کار تھے ۔ صرف کاغذ سیاہ کر کے نام کمانا اُن کے مزاج میں نہ تھا ۔ اُنھوں نے سنسکرت شا عر دامودر گپتؔ کی کتاب کا نثری تر جمہ کیا، جو ایک بے حد مشکل کام تھا ۔ میراؔجی نے جس ادبی کام میں ہاتھ ڈالا اس کو مہارت سے انجام دیا ۔’’ادبی دنیا ‘‘ اور ’’ خیال ‘‘ کی ادارت کرکے بطورِ مدیر (ادبی جراید) اپنا لوہا منوا یا۔ ریڈ یو کے لیے لکھا تو مشاقی دکھائی۔۔۔ بچوں کے لیے لکھا تو خوب لکھا۔ ’’ وہ بے اُستادے ‘‘ (self taught )تھے۔ اُنھوں نے ’’ حلقۂ اربابِ ذوق ‘‘ کو محض ترقی پسندوں کا حریف ادارہ بنانے کے بجائے ایک علیحدہ شناخت رکھنے والی ا ُردو زبان وادب کی مثبت تحریک بنا کر چھوڑا۔ حلقے نے اُردو کو بعض بڑے اور معتبر شاعر و ادیب دیئے، اُن کا سب سے بڑا کام میرے خیال میں اُن کی کتاب ’’اس نظم میں ‘‘ مطبوعہ ساقی بک ڈپو، دہلی(1944ء) ہے، جس نے پڑھنے والوں میں فوری مقبولیت حاصل کی۔ اس کتاب سے نسل در نسل اُردو شا عری کے پرستا روں نے بہت کچھ سیکھا اور آج بھی سیکھ رہے ہیں۔٭…٭…٭سب کے اپنے میرا ؔجی : میراؔجی ، جن کا اصل نام محمد ثنا اللہ تھا۔ منشی محمد مہتاب الدین کے ہاں 25 مئی 1912ء کو لاہور میں پیداہوئے۔ پہلے ’’ساحری‘‘ تخلص کرتے تھے۔،لیکن ایک بنگالی دوشیزہ ’’میراسین‘‘ کے یک طرفہ عشق میں گرفتار ہو کر ’’میراؔجی‘‘ تخلص اختیار کر لیا۔ میراؔجی کی ذات سے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ اُن کی ذات عام آدمی کے لیے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ اُن کا حلیہ اور اُن کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اُنھوں نے سلسلہ ملامتیہ میں بیعت کر لی ہے۔ لمبے لمبے بال ،بڑی بڑی مونچھیں ، گلے میں مالا ، شیروانی پھٹی ہوئی، اُوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں، اُوپر کی جب میلی ہوگئی، تو نیچے کی اُوپر اور اُوپر کی نیچے بدل جاتی۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دابے بڑی سڑک پر پھرتا تھااور چلتے ہوئے ہمیشہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا تھاتاہم اُس نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے لیے شعر کہے گا۔ صرف 38 سال کی عمر میں3نومبر 1949ء کواس دنیا سے منہ موڑ لیا۔ اس مختصر سی عمر میں میراؔجی کی تصانیف میں ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ ،’’اس نظم میں ‘‘،’’نگار خانہ‘‘،’’خیمے کے آس پاس‘‘ شامل ہیں جب کہ ’’میراؔجی کی نظمیں ‘‘،’’ گیت ہی گیت‘‘،’’ پابند نظمیں اور تین رنگ‘‘ بھی شاعر ی کے مجموعے ہیں۔٭…٭…٭