پاکستان کے آثارِ قدیمہ کیچ
اسپیشل فیچر
کیچ کی تاریخ بہت طویل ہے قدیم زمانے میں اس کا نام گنج آباد تھا لیکن بعد میں اس کا نام بدل کر کیچ رکھ دیا گیا کیچ(تربت جسے اب سرکاری حکم کے مطابق کیچ کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے) مکران ڈویژن کا ہیڈکوارٹر ہے اور مکران صوبہ بلوچستان کا چھٹا ڈویژن ہے۔ مکران میں کھجور کی پیداوار پورے پاکستان میں بلکہ باہر کے ملکوں میں بھی بھیجی جاتی ہے۔ یہاں ایک پرانا قلعہ اور کھنڈرات بھی ہیں۔ رائے بہادر ہنورام کے مطابق وجہ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ اول اس ملک کا نام گنج آباد تھا یہاں کی حکومت ملک شہر یارخان کے ہاتھ میں تھی۔ اس وقت کے حکمران نے شاہ ایران کی تابعداری منظور نہ کی جس کے باعث بادشاہ مذکور نے فوج بھیج کر گنج آباد کو ویران کر دیا اس وقت ایرانی فوج نے اظہار فخر میں یہ کلمہ نکالا کہ گنج آباد کو ہیچ کر دیا گیا ہے تب سے غلط عام میں یہ ہیچ سے کیچ ہوگیا۔ حدود اربعہ شرقاً غرباً زمانہ قدیم میں کولواہ تک اور حد غرباً زمانہ قدیم میں کسر کندو ملکی چھیدو فی الحال ٹمب تک حد شمالاً بلیدہ جہل جنوباً گوادر علاقہ والئی مسقط پسنی بندر اور ماڑہ بندر، علاقہ جام صاحب والئی لسی بیلا مواضعات ذیل ان حدود میں واقع ہیں۔ قلعہ تربت خانجات، قلعہ گنشک خانجات، قلعہ کوش قلات، گوادر قلات، قلعہ ناصر آباد، قلعہ نواز، قلعہ چرکب خانجات، قلعہ ٹمپ، قلعہ پل آباد، قلعہ دشت کدہ، آب سر، جوسک مری کہن خانجات، ڈگاری کان، ملک آباد، گوک دان، قلعہ پیلارک، قلعہ نوڈیرو، قلعہ بان، کوچہ پاڈال، بیلدار، کوٹری خانجات، گودی، بالاچی خاص ماتحت خان صاحب والئی قلات کے ہیں۔ سرداران کا ان سے کچھ واسطہ نہیں۔ تربت نائب خان صاحب کا صدر مقام تھا۔ کوش قلات سردار گچکی کا صدر مقام ہے۔ جہاں ایک عمدہ قلعہ ہے۔ میر عبدالکریم برادر زادہ سردار رہتا ہے نودز میں ایک چھوٹا سے قلعہ ہے اس میں بہرام خان گچکی رہتا ہے اس موضع کی مالیات نصف خان صاحب اور نصف بہرام خان مذکور کے پاس ہے ناصر آباد میں خوب مضبوط قلعے اولاً یہ قلعہ میر محراب خان ولد دوست محمد خان گچکی کی ملکیت تھا مگر اب شیر محمد ولد میر حسن گچکی نے محراب خان کو نکال کر خود قبضہ کرلیا ہے۔ چرکب میں سردار شیر محمد مذکور سکونت پذیر ہے۔ دشت میں بہت سا رقبہ ویران پڑا ہے اور ایک بارانی ندی ہے جس کے سبب کمی مخلوق اور بے امنی ہے بشرط امن آبادی میں خوب ترقی ہو سکتی ہے۔ یہاں سردیوں میں کم سردی ہوتی ہے، لیکن گرمیوں میں سخت گرمی پڑتی ہے علاقہ سیاہ آب ہے یہاں مشہور ندی کیچ کور ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو کہ کیچ کا نام کیچ کیسے پڑا۔ نام کی یہ تبدیلی برصغیر پاک و ہند پر انگریزی دور حکومت میں واضح ہوئی۔ انگریزوں کے فارسی دان منیشوں اور اہل کارواں کے کیچ کی دور آفتادگی، اس راستے کی دشوار گزاری، اونٹوں اور گھوڑوں جیسے پرانے ذرائع آمد و رفت، علاقے کی پسماندگی اور اس علاقے کے موسموں کی شدت کی وجہ سے اسے قبر سے تشہبیہ دی جسے فارسی زبان میں تربت کہا جاتا ہے۔کیچ یا تربت کی تہذیب کافی قدیم ہے اس کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اطالوی اور فرانسیسی ماہرین آثار قدیمہ کی نئی تحقیقات کے مطابق قلعہ میری، قلعہ قلات اور قلعہ تربت سمیت یہاں کے قلعے موہنجودڑو کی تہذیب سے بھی ڈھائی ہزار سال پرانی اور کم و بیش ساڑھے سات ہزار سال قدیم ہے ان کے کہنے کے مطابق یہ سب قدیم عراقی تہذیب مسموپوٹیما کا حصہ تھی جو دنیا کی انتہائی قدیم تمدنی تہذیب خیال کی جاتی ہے۔ مشہور یونانی فاتح سکندر اعظم، ہندوستان پر حملہ کرنے کے بعد واپسی پر اپنے لائو لشکر سمیت اس علاقے سے گزرا تھا۔ سندھ و بلوچستان کی مشترکہ رومانوی داستان’’سسی پنوں‘‘ کا تعلق بھی اس علاقے سے تھا۔ اس طرح بلوچستان کی رومانوی داستان’’درویش و بیگم‘‘ کے ہیرو درویش کا تعلق بھی اس علاقے سے تھا۔ تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ کیچ اور مکران پر وقتاً فوقتاً مختلف طاقتیں حملہ آور یا قابض رہیں جن میں ایرانی، عرب، منگول، انگریز، پرتگالی اور یونان وغیرہ شامل ہیں۔ کیچ مکران میں بلوچوں کی آمد بارہویں صدی عیسوی سے ثابت ہے کیچ مکران میں آنے والے پہلے بلوچ طائفے کا سردار طائفے کے کیچ میں پہنچنے سے پہلے فوت ہو چکا تھا اس لیے یہاں پہنچنے کے بعد اس کا لڑکا میر جلال خان اس بلوچ طائفے کا سردار نامزد ہوا۔ میر جلال خان کے پانچ لڑکے تھے جن میں رند، لاشار، قراء، ہوت اور جتوئی شامل تھے پہلے چاروں مسمات فاطمہ بنت مرزا جہاں بیگ کے بطن سے تھے۔میر جلال خان کے بعد ان کا بیٹا میر ہوت، کیچ کا حکمران بن گیا اور میرہوت کے بعداس کا بیٹا میر عالی تخت نشین ہوا اس کے دور حکومت میں ’’سسّی پنوں‘‘ کارومان وجود میں آیا اس وقت تک بلوچستان کو مکران کہا جاتا تھا یہی وجہ ہے ’’پنوں‘‘ کیچ مکران کا شہزادہ مشہور ہے بلوچستان کا نہیں۔ کہتے ہیں کہ مکران کو بلوچستان کا نام مشہور ایرانی فاتح نادر شاہ درانی نے بلوچی عظمت اور شان و شوکت سے متاثر ہو کر دیا تھا جس کا دور حکومت 1734ء تا1774ء تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب مکران کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو تربت کو اس کا صدر مقام بنا دیا گیا لیکن پھر 1977ء میں ضلع مکران کو ڈویژن کا درجہ دے کر تین اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا جن میں ضلع تربت، ضلع گوادر اور ضلع پنجگور شامل ہیں جب تربت کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو اس میں قدیم کیچ کے پیشتر علاقوں کو شامل کیا گیا جن میں تربت کے علاوہ مند، دشت، نگور، بلیدہ، زعمران اور نگران وغیرہ کے علاقے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کیچ اس لیے بھی مشہور ہے کہ مشہور رومانوی کردار پنوں کا قلعہ بھی یہیں ہے پنوں وہ مشہور کردار ہے جس کی سسی سے لازوال محبت کے افسانے آج بھی شہرت رکھتے ہیں آج سے کچھ عرصہ قبل فرانس کے آثار قدیمہ کی ایک ٹیم نے پنوں کے قلعے کا سروے کیا تھا ان کے مطابق یہاںسے کچھ نادر ظروف برآمد ہوئے ہیں جوکہ تقریباً تین ہزار سال پرانے ہیں۔٭…٭…٭