دوربین اور خردبین
آج سے تقریباً ساڑھے تین سو سال قبل ہالینڈ کے ایک عینک ساز ،پرشی نے پہلی دور بین بنائی تھی۔اس نے عینک کے دو شیشوں کو ذرا فاصلے پر رکھ کر ان سے دور کی چیز کو دیکھا اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جو چیزیں صرف دور ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتی تھیں۔اب صاف نظر آنے لگی ہیں۔لیکن پرشی نے اپنی اس ایجاد سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔اس کے استعمال کا سہرا گلیلیو کے سر ہے۔گلیلیو گیلیلی اٹلی کے ایک شہر پسیا میں1564 میں پیدا ہوا۔اس کا باپ ایک مالدار تاجر تھا،اس لیے گلیلیو نے اچھی تعلیم پائی۔گلیلیو جب بڑا ہوا تو اپنے شہر کے مدرسے میں مدرس ہوگیا۔وہ کہا کرتا تھا کہ جب تک کسی بات کی سچائی عقل کی کسوٹی پر نہ پرکھ لی جائے اس وقت تک اس کو نہیں ماننا چاہیے۔چناچہ اس نے یونان کے فلسفی ارسطو کے اس نظریے کی مخالفت کی کہ اگر مختلف قسم کی دو چیزیں ایک ساتھ نیچے گرائی جائیں تو وہ زمین پر اپنے وزن کے اعتبار سے جلد اور دیر میں گریں گی۔جب کہ گلیلیو کاکہنا تھا کہ مختلف وزن کی دو چیزیں ایک ساتھ زمین پر گریں گی۔گلیلیو کے مخالفوں نے اس پر الزام لگایا کہ یہ بات کہہ کر اس نے بزرگوں کی توہین کی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے ملازمت سے نکال دیا گیا۔لیکن اس کے دوستوں نے کہیں زیادہ تنخواہ پر اسے شہر پیدور میں ملازم کروا دیا۔یہیں اس کو پرشی کی دریافت کا حال معلوم ہوا۔گلیلیو نے جست کی ایک نلکی اور عینک کے دو شیشے لیے ۔ان دونوں شیشوں کو مناسب جگہ پر قائم کرکے اس نے ایک آلہ بنایا جس سے تین گنا فاصلے کی چیزیں بہت صفائی سے نظر آنے لگیں۔دوربین کے ذریعے گلیلیو نے ایسے ستارے معلوم کیے جو کہکشاں میں نظر آتے تھے۔اسے بے شمار چھوٹے چھوٹے ستارے گروہ در گروہ نظرآئے۔گلیلیو نے رفتہ رفتہ دوربین کی طاقت بڑھائی اور اس کے ذریعے اس نے چاند کو دیکھا۔چاند میں اسے پہاڑ ،خندقیں اور جنگل دکھائی دیے۔زہرہ کو دیکھنے پر اس کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے سیارے گھومتے نظر آئے۔گلیلیو نے بتایا کہ یہ زہرہ کے چار چاند ہیں۔اس نے آفتاب میں بھی متعدد نئی دریافت کیں،لیکن قدیم خیال کے لوگ اس کے سخت خلاف ہوگئے اور انہوں نے اس آلے کو دیکھنا بھی گناہ سمجھا۔اب گلیلیو نے کہا کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا۔بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔اس پر لوگ اس کے سخت خلاف ہوگئے۔انہوں نے پاپائے روم کو بھڑکایا کہ گلیلیو بائبل کو جھٹلاتا ہے۔آخر کاراسے عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ججوں میں ایک بھی سائنس سے واقف نہ تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے گلیلیو سے ایسے خیالات ترک کرنے کو کہا اور دھمکی دی کہ اگر وہ ان خیالات سے باز نہ آیا تو اسے قید خانے میں ڈال دیا جائے گا۔قید کی سختیوں سے خوف زدہ ہوکر گلیلیو نے اپنے خیالات کو چھوڑ دینا منظور کر لیا لیکن وہ اس فیصلے پر زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔آخر ستر برس کی عمر میں اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔جیل میں رہنے سے اس کی صحت جواب دے گئی۔اور 78 سال کی عمر میں ہی وہ اس دنیا سے چل بسا۔مگر اس کا نام اس دنیا میں باقی رہ گیا۔شہر فلورنس میں آج بھی اس کا مجسمہ نصب ہے۔دوربین کے بعد سائنس دانوں نے ایک اور آلہ ’’خردبین‘‘ بنایا جس کے ذریعے چھوٹی چیزوں کو بڑا کرکے دیکھا جاتا ہے۔اگر شیشے کو دوسرے شیشے سے کسی قدر فاصلے پر لگایا جائے تو چھوٹی چھوٹی اشیاء اپنے اصلی قدوقامت سے کہیں بڑی نظر آتی ہیں۔خردبین میں یہی اصول کام کرتا ہے۔خردبین کی ایجاد 1591 ء میں ہالینڈ کے دو سائنس دانوں ،ہینز اور زیچارئیس نے کی۔اس سے پہلے دوربین ایجاد ہوچکی تھی۔اسی سے ان سائنس دانوں کو خردبین کی ایجادمیں مدد ملی۔خردبین کی ایجاد نے سائنس دانوں کو نئی باتیں سمجھائیں۔ذرات اور جراثیم خردبین کے ذریعے لاکھوں گنا بڑے نظر آتے ہیں۔اگر پانی کے ایک قطرے کا کسی اچھی خردبین سے مشاہدہ کیا جائے تو اس میں بے شمار جاندار کلیلیں کرتے ایک دوسرے پر حملہ کرتے نظر آئیں گے۔