پروانہ شمع رسالت امام احمد رضا
اسپیشل فیچر
علم تاریخ نے اپنے دامن میں اچھی اور برُی ہر دوصفت کی حامل شخصیات کو سمیٹ کر پناہ دی ہے اس طرح انہیں زمانے کی دست برد اور شکستگی سے محفوظ کردیا ہے تاکہ آئینہ تاریخ میں ماضی کے عکس و نقش کا مشاہدہ حال ومستقبل کو جاندار اور شاندار بنانے میں معاون ہو۔ لیکن بعض شخصیات کا پیکرِ احساس اتنا جاندار و شاندار ہوتا ہے کہ جنہیں تاریخ محفوظ رکھنے کا اہتمام کرے یا نہ کرے وہ شخصیات اپنی تاریخ آپ مرتب کرلیتی ہیں اس لئے کہ وہ عہد ساز اور تاریخ ساز ہستیاں ہوتی ہیں یہ شخصیات اپنی پہچان کیلئے مورخ کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ ان نادر زمن ہستیوں کے خوبصورت تذکرے کو تاریخ اپنے صفحات کی زینت بنانے کیلئے خود محتاج ہے اور مورخ ان کے تذکرے لکھ کر خود کو متعارف کرانے کا محتاج ہوتا ہے۔ان عہد ساز ہستیوں میں ایک ہستی ایسی ہیں جن کی نیک نامی پاک بازی ولایت اور وعلم کے ڈنکے مشرق ومغرب عرب وعجم میں آج بھی بج رہے ہیں وہ ہستی شیخ الاسلام ، محدث عصر، مجدد دین و ملت ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانؒ کے نام سے جانتے اور مانتے ہیں ۔اما م احمد رضاؒ علم و فضل کا وہ خورشیدِدرخشاں ہیں کہ جس کی جلوہ گری انیسویں صدی عیسویں کے نصف آخرمیں ہوئی، آپؒ کا سن ولادت 1372ھ 1856ء اور سالِ وصال 1340ھ؍ 1921ء ہے ۔ امام احمد رضاؒ نے فقہی بصیرت اور مدبرانہ فراست کے ذریعے ملت کی راہنمائی کا جو فریضہ انجام دیا وہ صرف آپ ہی کا خاصہ ہے۔ آپ ؒنے جو شمع عشق رسالتؐ فروزاں کی وہ آج بھی ملتِ اسلامیہ کیلئے مینارہ نورکی حیثیت رکھتی ہے۔ اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں ۔آپؒ علوم وفنون اور رشد وہدایت کا وہ سرچشمہ ہیں جس سے مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی سیراب ہورہے ہیں علوم وفنون میں آج تک آپؒ کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔اعلیٰ حضرتؒ نے چار برس کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ کیا ۔ اردو فارسی اور عربی پڑھنے کے بعد آپ ؒ نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا نقی علی خان ؒ سے عربی زبان میں دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور تیرہ برس دس مہینے کی عمر میں ایک عالم دین بن گئے۔14شعبان 1286ھ مطابق 19 نومبر 1869ء میں آپؒ کودرس نظامی (یعنی عالم کورس مکمل کرنے ) کی سنددی گئی ۔اعلیٰ حضرت کے والد گرامی نے آپؒ کی علمی کیفیت سے مطمئن ہوکر آپؒ کو فتویٰ نویسی کی اجازت مرحمت فرمادی ،فتویٰ نویسی کی یہ خدمات آپؒ نے تاحیات انجام دی۔ آپ ؒکے بے شمار فتاویٰ جات مسلمانوں کے دینی ودنیا مسائل کے حل میں بہترین معاون ثابت ہورہے ہیں۔ تحقیق و ریسرچ کے مطابق صرف سائنسی علوم میں آپؒ کی کتابوں کی تعداد 150 کے قریب پہنچتی ہے۔فاضل بریلوی ؒ نے اپنے دیوان میں اپنے مرشد طریقت کی شان میں ایک منقبت لکھی جس کا مطلع ہے۔خوشا دے کہ دہندش دلائے آل رسولؐخوشا مرے کہ کنندش فدائے آل رسولؐاعلیٰ حضرت اور علم سائنسآپؒ کی شخصیت میں بیک وقت کئی سائنس داں گم تھے ، ایک طرف ان میں ابن الہیثم جیسی فکری بصارت اور علمی روشنی تھی تو دوسری طرف جابر بن حیان جیسی صلاحیت، الخوارزمی اور یعقوب الکندی جیسی کہنہ مشقی تھی، تو دوسری طرف الطبری ، رازی اور بو علی سینا جیسی دانشمندی، فارابی ، البیرونی ، عمر بن خیام، امام غزالی اور ابن رُشد جیسی خداداد ذہانت تھی۔ دوسری طرف امام ابو حنیفہؒ کے فیض سے فقیہانہ وسیع النظری اور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒسے روحانی وابستگی اور لگاؤ کے تحت امام احمد رضاؒ کا ہر رخ ایک مستقل علم و فن کا منبع تھا۔آپ ؒ تمام کمالات و اوصاف میںبدرجہ اولیٰ نظر آتے ہیں۔ دین اسلام کی اساسیات اور ایمان کی جملہ فروعات و جُزئیات پر بیک وقت مشرق و مغرب سے حملے ہورہے تھے ، ایسے موقع پر ضرورت تھی کہ مشرق میں فتنہ اُٹھانے والے مُنافقین کا مقابلہ عشق رسول ؐ کے لازوال ہتھیار سے کیا جائے اور مغرب کے مُلحد سائنس دانوں کے کائنات سے متعلق گمراہ کن نظریات کا مقابلہ قرآن وسنت کی روشنی میں کیا کہ اسلام دشمن عناصر کے قدم اکھڑ گئے۔جیسا کہ عرض کیا گیا کہ امام احمد رضا ؒنے علومِ دینیہ کے ہر شعبے کے علاوہ صرف سائنسی علوم و فنون سے متعلق جو کتابیں تصنیف کیں ان کی تعداد 150 تک پہنچتی ہے۔جو آپؒ کی منفرد قوتِ متخیلہ اور مہتم بالشان تحقیقی ذہن کی نشان دہی کرتی ہیں ۔ مثلاً فزکس ، کیمسٹری ، بیالوجی، میتھس، جیومیٹری ، لوگارتھم، ٹوپولوجی، سائکولوجی، پیراسائکولوجی، فونیٹکس، فونالوجی، اسٹرالوجی ، اسٹرا نومی وغیرہ وغیرہ علوم و فنون پر آپ کی تصانیف مشتمل ہیں۔ایٹم کے انشقاق Nuclear Fission سے متعلق آٹو ہان نے 1938ء میں جبکہ امام احمدرضا ؒنے 1919ء میں اس موضوع پر اپنی کتاب الکلمۃ الملہمہ فی الحکمۃ المحکمہ میں کافی تفصیل سے بحث کی ہے۔ کوویلنٹ بانڈ سے متعلق جی این لیوِس نے 1916ء میں جب کہ امام احمد رضا نے 1919ء میں کوویلنٹ بانڈ کے ساتھ ساتھ لونِزڈ بانڈ کے بارے میں بھی کافی کچھ تحریر فرمایا ہے۔طاعون ، جذام کے علاوہ میڈیکل ایمبریالوجی گیسٹروائن ٹیسٹی نَل فزیولوجی سے متعلق اپنی کتاب مقامع الحدید علیٰ خد لمنطق الجدید میں خوب صورتی اور دلکش اسلوب میں بحث کی ہے۔ اسی طرح امام احمد رضا ؒپہلے مسلم مفکر ہیں جنہوں نے اپنی کتاب الصمصام علیٰ مشکک فی آیۃ علوم الارحام 1896ء میں الٹرا ساؤنڈ مشین کا فارمولا بیان کیا۔ ماڈرن کمیونیکیشن سسٹم ، آڈیٹری تھیوری ، wave sound وغیرہ سے متعلق آپ کی کتاب الکشف الشافیہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔یہ تجدیدی کارنامہ ہے کہ آپؒ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بشری و انسانی اوصاف و کمالات کیساتھ ساتھ معجزاتی و نورانی پہلوئوں کے بلند و بالاکمالات نبوت اور فضائل و شمائل کو احاطہ تحریر میں لاکر ملت اسلامیہ کی روحانی اقدار کو تنزلی کا شکار ہونے سے بچا لیا۔ آپ ؒنے اپنی ساری زندگی اسلام کے خدمت اور سنیت کی اشاعت میں صرف فرمائی اور تقریباً ایک ہزار کتابیں لکھیں جن میں فتوی رضویہ بہت ہی ضخیم کتاب ہے۔آپؒ نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا جو کہ اردو کے موجودہ تراجم میں سب پر فائق ہے۔ آپ ؒکے ترجمہ کا نام ’’کنز الایمان ‘‘ہے۔ جس پر آپ کے خلیفہ صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی نے حاشیہ لکھا ہے۔آپؒ کی نعتیہ کلام کی کتاب’’ حدائق بخشش ‘‘نے اردو کو مسلمانوں، مومنوں اور صوفیوں کی زبان بنادیا۔مصطفیٰ جانِ رحمت پے لاکھوں سلامشمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلامبہت مشہور ہے۔آپؒکے علوم کی فہرست سماعت کرنے سے قبل سامعین کے علم میں یہ بات ضرور ہونی چاہئے کہ محدث بریلوی ؒنے حافظ کتب الحرم شیخ اسماعیل خلیل مکی کو جو عربی میں سند اجازت دی ہے اس میںخوداپنے قلم سے اُن 55 علوم و فنون کا ذکر فرمایا جن میں آپؒ کو مکمل عبور حاصل تھا۔ محدث بریلویؒ کے اپنے قلم فیض رقم سے مندرجہ 55 علوم و فنون کی فہرست نہایت جامع ہے جس میں بعض علوم فی زمانہ متعدد شاخوں و شعبوں میں تقسیم ہو گئے ہیں اور ان کی شناخت کیلئے علیحدہ عنوانات ماہرینِ تعلیم مختص کر چکے ہیں۔آج پوری دنیا میں جدید دانشگاہوں کے پروفیسر ز اور اساتذہ امام احمد رضا کی طرف متوجہ ہوچکے ہیں اور آپؒ کی تصنیفات و تالیفات پر سرعت رفتاری کے ساتھ تحقیق جاری ہے ۔ حتیٰ کے بیشتر کتابیں ایسی ہیں جن کے کئی زبانوں میں تراجم بھی ہوچکے ہیں ۔ جدید تحقیق کے مطابق دنیا بھر کی یونیورسٹیز میں اما م احمد رضاؒ کی جامع الصفات اور گوناگوں شخصیت کے مختلف النوع پہلوئوں کااحاطہ کرتے ہوئے اب ڈی لٹ ، پی ایچ ڈی ، ایم ایس اور ایم فل لیول کے مقالات کی تعداد 66 سے متجاوز کرچکی ہے۔ واضح ہوکہ یہ مقالہ جات عربی ، اردو ، فارسی ، انگریزی، سندھی ، بنگلہ وغیرہ زبانوں میں پیش کیے گئے ہیں۔ اس امر سے امام احمد رضا ؒکی شہرہ آفاق علمی مقبولیت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتاہے ۔بارش برسنے لگیآپؒ کی خدمت میں ایک نجومی حاضر ہوا، آپؒ نے اس سے فرمایا: کہئے، آپ کے حساب سے بارش کب آنی چاہئے؟ اس نے زائچہ بنا کر کہا: ’’اس ماہ میں پانی نہیں آئندہ ماہ میں ہو گی‘‘۔ آپ ؒنے فرمایا: اللہ عزوجل ہر بات پر قادر ہے، وہ چاہے تو آج ہی بارش برسا دے۔ آپ ستاروں کو دیکھ رہے ہیں اور میں ستاروں کے ساتھ ساتھ ستارے بنانے والے کی قدرت کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ آپ آئندہ ماہ بارش ہونے کا کہہ رہے ہیں اور میرا رب چاہے تو آج اور ابھی بارش ہونے لگے۔ آپؒ کی زبان سے اتنا نکلنا تھا کہ چاروں طرف سے گھنگھور گھٹا چھا گئی اور جھوم جھوم کر بارش برسنے لگی۔ وصال25 صفر المظفر 1340ھ مطابق 1921ء کو جمعۃالمبارک کے دن امام احمد رضاؒ نے داعئی اجل کو لبیک کہا۔ آپؒ کا مزار پر انوار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنا ہوا ہے۔ (حوالہ :سوانح امام احمد رضا، ص 391)٭…٭…٭