اکادمی ادبیات , پاکستان کمال فن اور قومی ادبی ایوارڈز کا اعلان
اسپیشل فیچر
پاکستانی زبانوں کے فروع کے لیے سرگرمِ عمل اکادمی ادبیات ،پاکستان کا قیام 1976ء میںہوا اور اس قومی ادبی ادارے کا صدر دفتر اسلام آباد میں واقع ہے۔ اس ادارے کے اولیں منصوبہ ساز معروف شاعر احمد فراز تھے جب کہ اس کے موجودہ چیئرمین عبدالحمید ہیں۔ اس ادارہ نے اب تک پاکستانی ادب کے فروغ کے سلسلہ میں مختلف موضوعات پر بہت سی ادبی وتحقیقی اور ترجمہ شدہ کتب شائع کی ہیں۔ان کتب میں پاکستان اور پاکستان سے باہر رہنے والے بہت سے ادیبوں کاتحقیقی اورتخلیقی کام شامل ہے۔’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘کے عنوان سے اکادمی ادبیات،پاکستان نے بہت سے ادیبوں کی شخصیت اور فن کے بارے میں کتب شائع کی ہیں۔اس کے علاوہ اس ادارہ کے زیر اہتمام ’’انتخابِ پاکستانی ادب،سال بہ سال‘‘کے حوالہ سے نثر اور شاعری پر بہت سی کتب بھی شائع ہو چکی ہیں ۔یہ ادارہ پاکستانی ادب کی سال بہ سال کتابیات بھی شائع کرتا ہے۔علاوہ ازیں ملک بھر کی مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی کتب کے حوالے سے ہر سال کمال ِ فن ایوارڈ ، قومی ادبی ایوارڈ اور نقد رقم کے انعامات بھی دیتا ہے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام گذشتہ دو برس میں شائع ہونے والی کتابوں کے حوالے سے ایوارڈ ز کا اعلان کچھ دن قبل ہوا ،جن کی تفصیل اس طرح ہے:اکادمی ادبیات، پاکستان کی طرف سے ’’ کمالِ فن ایوارڈ 2011 ء ‘‘ کے لیے سندھ کے ممتاز ادیب، دانشور اور افسانہ نگار محمد ابراہیم جویو کو منتخب کیا گیا ہے۔اس کا اعلان ایوارڈ کمیٹی کے صدر مسعود اشعر نے اکادمی میں ایوارڈ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کیا۔مسعود اشعر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی، سیاست سے بالا تر ہو کر کام کر رہی ہے اور کمالِ فن ایوارڈ کے حوالے سے ہم پر کسی قسم کادبائو نہیں تھا۔واضح رہے ’’ کمال ِفن ایوارڈ ‘‘ملک کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔ سندھ کے ممتاز ادیب ابراہیم جویو کومذکور ایوارڈ دینے کا فیصلہ کمیٹی نے متفقہ طور پر کیا ہے۔اس بات کا فیصلہ معتبر اور مستند اہل ِدانش پر مشتمل ایک پینل نے کیا ،جس میں ڈاکٹرسعادت سعید ،زاہدہ حنا، فہمیدہ حسین، مسعود اشعر ، ڈاکٹرراج ولی شاہ خٹک، ڈاکٹر توصیف تبسم، ڈاکٹر انور زاہدی،م-ر شفق اور واحد بخش بزدار شامل تھے۔اس اجلاس کی صدارت مسعود اشعرنے کی۔ ’’کمال ِفن ایوارڈ ‘‘ ہر سال کسی بھی ایک پاکستانی اہل ِقلم کو زندگی بھر کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیاجاتاہے اور اس ایوارڈکا اجرا اکادمی ادبیات، پاکستان نے 1997ء میں کیاتھا۔ اس ایوارڈکے ساتھ پانچ لاکھ روپے کی رقم پیش کی جاتی ہے۔واضح رہے کہ اب تک اکادمی ادبیات ، پاکستان کی طرف سے احمد ندیم قاسمی،انتظار حسین ، مشتاق یوسفی، احمدفراز، شوکت صدیقی، منیر نیازی، ادا جعفری، سوبھوگیان چندانی،ڈاکٹر نبی بخش، جمیل الدین عالی ، محمد اجمل خٹک ، عبداللہ جان جمالدینی ، لطف اللہ خان اور بانوقدسیہ کو ’’ کمال ِفن ایوارڈ‘‘ دیئے جا چکے ہیں ۔ ’’قومی ادبی ایوارڈ‘‘ برائے سال 2011 ء اُردو نظم کے لیے ’’ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال ایوارڈ‘‘ منظر حسین اختر کی کتاب ’’سطرِ نَو ‘‘ کو دیاگیا ہے، جس کے منصف حضرات: ڈاکٹر عامر سہیل، سرور جاویداور منظرایوبی تھے۔ اُردو نثر کے لیے ’ ’بابا ئے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ایوارڈ‘ ‘ منشایاد کی کتاب ’’دُور کی آواز‘‘ کو دیا گیا ہے، جس کے منصف : ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر طیب منیراور زاہدہ حنا تھیں ۔ پنجابی زبان کے لیے ’’سید وارث شاہ ایوارڈ‘‘ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی کتاب ’’موج میلا‘‘ کو دیاگیاہے، جس کے منصف پینل میں ڈاکٹر شہباز ملک، پروین ملک اور خالد فرہاد دھاریوال شامل تھے۔ سندھی زبان کے لیے ’’شاہ عبدالطیف ایوارڈ‘‘ فضل اللہ قریشی کی کتاب ’’کجھ یادوں کجھ گالھیوں‘‘ کو دیاگیا ہے ،جس کے منصف دُرمحمد پٹھان، قلندر شاہ لکیاری اور الطاف شیخ تھے۔ پشتو زبان کے لیے ’’خوشحال خان خٹک ایوارڈ‘‘ ڈاکٹر جاوید خلیل کی کتاب’ ’پشتو اومستشرقین ‘‘ کو دیاگیاہے، جس کے منصف: ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک ، فاروق سرور اور ایم -آر شفق تھے۔ سرائیکی زبان کے لیے ’’خواجہ غلام فرید ایوارڈ‘‘ محمد اسماعیل احمدانی کی کتاب ’’یاداں دا خواب محل‘‘ کو دیا گیا ہے، جس کے منصف: ڈاکٹر احسن رندھاوا، ڈاکٹر سجاد حیدر اور مسرت کلانچوی تھے۔ براہوی زبان کے لیے ’’تاج محمد تاجل ایوارڈ‘‘ ڈاکٹر عبدالرحمان براہوی کی کتاب ’’بے بہا‘‘ کو دیاگیا ہے ،جس کے منصف: ڈاکٹر و حید ظہیر، پروفیسر خدا داد گل اور عبدالحمید شاہوانی تھے۔ ترجمے کے لیے ’’ محمد حسن عسکری ایوارڈ‘‘ محمود احمد قاضی کی کتاب ’’ کتھانگر‘‘ کو دیاگیاہے، جس کے منصف :ڈاکٹر سرور کامران ، ڈاکٹر جعفر احمد اور محمد اسلم انصاری تھے۔اس موقع پر چیئرمین اکادمی عبد الحمید نے ’’قومی ادبی ایوارڈ‘‘ برائے سال 2012 ء کا اعلان بھی کیا ۔ اُردو نظم کے لیے ُ’’ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال ایوارڈ‘‘ خالد احمد کی کتاب ’’نم گرفتہ ‘‘ کو دیا گیا ہے، جس کے منصف :ریاض مجید ، پروفیسر نذیر انجم اور جلیل عالی تھے۔ اُردو نثر کے لیے ’’بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ایوارڈ‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ’’تنقیدی تھیوری کے سو سال ‘‘ کو دیا گیا ہے، جس کے منصف :مسعود اشعر ، ضیاء الحسن اور عطیہ سید تھیں ۔ پنجابی زبان کے لیے ’’سید وارث شاہ ایوارڈ‘‘ زاہد حسن کی کتاب ’’غلیچا انُن والی ‘‘ کو دیاگیا ہے ،جس کے منصف: اسلم کولسری، الیاس گھمن اور سلیم شہزاد تھے۔ سندھی زبان کے لیے ’’شاہ عبدالطیف ایوارڈ‘‘ ایاز گل کی کتاب ’’میلی جی تنہائی ‘‘ کو دیاگیا ہے، جس کے منصف پروفیسرمحمد یوسف شیخ ، بدر ابڑو اور شوکت حسین تھے۔ پشتو زبان کے لیے ’’خوشحال خان خٹک ایوارڈ‘‘ پرو فیسر محمد نواز طاہر کی کتاب ’’ تمپہ اوژوند‘ ‘ کو دیاگیا ہے ،جس کے منصف: عابد شاہ عابد ،سیدہ حسینہ گل اورپروفیسر اسلم تاثیرآفریدی تھے۔ سرائیکی زبان کے لیے ’’خواجہ غلام فرید ایوارڈ‘‘ سلیم شہزاد کی کتاب ’’گھان ‘‘ کو دیا گیا ہے،جس کے منصف: محمداسلم رسول جامپوری ، شاکر علی شاکر اورپروفیسر رفعت عباس تھے۔ براہوی زبان کے لیے ’’تاج محمد تاجل ایوارڈ‘‘ منیر احمد بادینی کی کتاب ’’ تیناہیت تین تُن‘‘ کو دیاگیا ہے، جس کے منصف: طاہرہ احساس جتک، ڈاکٹر عبدالرزق صابر اور افضل مینگل تھے۔ انگریزی زبان کے لیے ’’پطرس بخاری ایوارڈ‘‘ اطہر طاہر کی کتاب \"The Gift of Possession\" کو دیاگیا ہے ،جس کے منصف: افسر ساجد، ڈاکٹر آمنہ ناصر اور یاسمین حمید تھیں۔ ٭…٭…٭