جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ
اسپیشل فیچر
موسمِ بہار کی ایک دلآویز اور نورانی صبح تھی۔ ماہِ ربیع الاوّل کی بارہویں تاریخ دو شنبہ (پیر)کی مبارک صبح تھی،جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کاچاند! یعنی حضرت عبداللہ کے مبارک گھر میں حضرت بی بی آمنہؓکے بطن اطہر سے تاجدارِ عرب وعجم، محسن کائنات، روحِ کائنات، سیدالانبیاء والمرسلین، تاجدارِ ختم ِ نبوت پیغمبر انقلاب حضرت محمد مصطفیؐ اس بزم ِ عالم میں جلوہ گر ہوئے۔ آمد مصطفی ؐسے ہر طرف نور پھیل گیا ،ہر جانب روشنی چھا گئی،ہر سمت اُجالا ہو گیا، چہار سو توحیدو رسالت کا چاند جگمگانے لگا،آپؐ آئے تو سارے جہاں کونورِ نبوت اور شمع رسالت سے روشن ومنور کردیا… جس سے کائنات ِ ارض وسماء کا کوناکونا بقعۂ نور بن گیا۔میلادُ النبی ؐ…’’حضور نبی کریمؐ کی ولادت باسعادت کا دن‘‘۔ عید اور خوشی کا یہ دن مسلمانوں کا عظیم مذہبی تہوار ہے،جو سال کے بارہ مہینوں میں بالعموم اورماہ ِ ربیع الاوّل میں بالخصوص اوربارہ ربیع الاوّل کو خصوصاً بالخصوص انتہائی عقیدت ومحبت، جوش وخروش اور ذوق وشوق کے ساتھ منایاجاتا ہے او ر اس دن خصوصی اجتماعات اور دینی محافل کااہتمام کیاجاتا ہے، جن میں حضور سید دوعالمؐ کی ولادت ِمبارکہ، آپ ؐ کی سیرت طیبہ،آپؐکے خصائص وشمائل ، آپ ؐکے معجزات اور آپؐ کی عظمت وفضائل کو بیان کیا جا تاہے اور آپؐ کی بارگاہ میں بہ کثرت درودشریف، نعتیں اورصلوٰۃ وسلام کا نذرانہ پیش کیا جاتاہے اور فقیروں اور مسکینوں میں کھانا وغیرہ تقسیم کیا جاتاہے، ان محافل کو عرفِ عام میں ’’میلاد‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ہر خوشی اور مسرت حاصل ہونے کے دن کیلئے لفظ ’’عید‘‘استعمال ہو تا ہے اور جس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ورحمت نازل ہو تو وہ بدرجہ اولیٰ عید کا دن ہوتاہے اور بارہ ربیع الاوّل کو تمام اہل ایمان عید کہتے ہیںاور اس دن کو عید اس لئے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم ترین نعمت (حضور رحمت دوعالمؐ)کا نزول ہوا، جس دن اللہ تعالیٰ کے محبوب، روح کائنات اور تمام نعمتوں کی جان یعنی حضور سید عالمؐ اس گلشن ہستی میں رونق افروز ہوئے، وہ دن اگر عید کانہیں تو پھر کون سا دن عید کا ہو گا…بلا شبہ! یومِ میلادُ النبیؐ! اہل ایمان کیلئے یقیناتما م عیدوں سے بڑھ کر عید کادن ہے، کیونکہ باقی تمام عیدیں اور اللہ کی تمام ترنعمتیںسب اسی نعمت کے صدقے سے ہمیں نصیب ہوئی ہیں۔ مومنوںپراللہ کا احسانِ عظیماللہ نے اپنے پیارے محبوب امام الا نبیا ء، تاجدار ختم نبوت حضرت محمد مصطفی ؐ کو مبعوث فر ما کر تمام صاحبانِ ایمان پر احسان جتایا۔ چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے ’’ بلاشبہ اللہ نے مومنوں پربڑا احسان فرمایا جب اس نے ان میںایک عظمت والا رسول بھیجا انہیں میں سے جو اُن پر اس کی آیات پڑھتا ہے اور ان (کے باطن) کو پاک کر تا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اوراس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔( آل عمران: آیت 164)اس آیت کریمہ میں اللہ نے رسولؐ کی تشریف آوری کو احسان کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔بلاشبہ حضور رحمت دوعالمؐ ؐکی ولادت باسعادت عالم انسانیت پراحسان عظیم ہے۔واضح رہے کہ احسان نعمت کے نزول وحصول پرہو تا ہے، لہٰذا حضور سید عالمؐ کی ذات گرامی نعمت قرار پائی۔ اللہ کی جتنی نعمتیں ہیں، ان کا ذکر کر نا با عث فلاح و نجات اور ان نعمتوں کا شکر بجا لانا اور تحدیث نعمت کر نا ضروری ہے اور حضور اکرم ؐ چونکہ اللہ کی نعمتوں میں عظیم ترین نعمت ہیں،اس لئے آپ ؐکا ذکر خیر کرنا دنیا و آخرت میںکامیابی کا ذریعہ ہے اور محافل میلاد کا انعقاد ، حضور اکرمؐ کے ذکرِ پاک کی ایک عظیم اوربہترین صورت ہے۔نعمت واحسان کا چرچااحسان اس لئے جتایا جاتا ہے تاکہ اس احسان ونعمت کو یادر کھا جائے ، اس کا تذکرہ کیا جائے، اس کو کبھی فراموش نہ کیا جائے بلکہ اس نعمت و رحمت اور اس فضل واحسان کا خوب چر چا کیا جائے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’ اور تم اپنے رب کی نعمت کا خوب چر چا کرو‘‘۔ (سورۃ الضحیٰ:آیت11)اللہ تعالیٰ کی نعمت وفضل پرخوشیاں مناناپھر اللہ نے اس فضل اور نعمت و احسان کے چر چے کے ساتھ اس پر خوشیاں منانے کا بھی حکم فر مایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’(اے رسول ؐ) آپ فرما دیجئے کہ (یہ سب کچھ ) محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے۔ پس تم (سب مومنوں ) کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال ودولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کر تے ہیں‘‘۔ (سورئہ یونس: آیت58)محافل ِمیلا د کا انعقاداس آیت مبارکہ سے یہ واضح ہو گیا کہ اللہ کے ہر فضل و کر م اور اس کی نعمت و رحمت کے حصول پر فرحت وخوشی کا اظہار کر نا چاہئے اور خوشی و مسرت پر اظہار کر نے کے کئی طریقے ہیں ،مثلاً اس نعمت اور رحمت کا خوب ذکرکر نا، اللہ کی راہ میں صد قہ و خیرات کر نا، محفلیں منعقد کر نا (مثلاً بچے کی ولادت پر عقیقہ ، نکاح کی خوشی میں دعوتِ ولیمہ وتقریب طعام کااہتمام کرنا )و غیرہ ۔ چونکہ حضورؐ کی ذات گرامی، تمام مخلوق پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت ورحمت ہے، اس لئے آپ ؐ کی آمد کا دن مسلمانوں کے لئے تمام عیدوں سے بڑھ کر عید کا دن ہے ۔ لہٰذا آپ ؐ کی آمد مبارکہ پر مومنوںکو بے پناہ خوشی و مسرت منانی چاہئے اور محفل میلاد منعقد کر نا اجتماعی طور پر خوشی کے اظہار کی ایک بہترین اور عظیم صورت ہے۔پیر کے دن روزئہ نبویؐحضور ؐاس بزم ِجہاں میں ’’پیر‘‘ کے دن تشریف لائے اس لئے آپؐ اظہارِ تشکر کیلئے ہر ’’پیر‘‘ کے دن روزہ رکھتے تھے۔ حضرت ابو قتا دہؓ سے روایت ہے کہ جب آپؐ سے پوچھا گیا کہ یارسولؐ اللہ!آپ ہر پیر کے دن روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ تو آپؐ نے ارشاد فر مایا کہ’’ یہ وہ دن ہے جس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی الٰہی نازل(ہونے کی ابتداء) ہوئی۔(صحیح مسلم، مشکوٰۃ المصابیح)اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رسولؐ اللہ ہر پیر کے دن روزہ رکھتے تھے۔ نیز یہ کہ آپؐ نے خود اپنے یوم میلاد کی عظمت و اہمیت کو اجاگر بھی کیا اور اللہ کی اس نعمت کو ظاہر کر تے ہوئے تحدیث نعمت کے طور پر اللہ کا (روزے کی صورت میں) شکر بھی اداکیا۔٭ حضرت علامہ عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں:… ’’جس وقت بھی محفل میلاد کی جائے ، باعث ثواب ہے اور حرمین شریفین ، بصرہ ، شام ، یمن اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی ربیع الاوّل کا چاند دیکھ کر میلاد کا اہتمام کرتے ہیں ، چراغاں کرتے ہیں ، خوشی کا اظہار کرتے ہیں ، کارِ خیر کرتے ہیں ، قرآن پڑھتے ہیں نعت اور سماعت میلاد کا اہتمام کرتے ہیں اور روح پر ور محافل کا انعقاد کرتے ہیں ، یہ ان کے معمولات میں شامل ہیں‘‘۔(مجموعۃالفتاویٰ: جلد2صفحہ212)حاصل کلام یہ ہے کہ تمام عالم اسلام میں ماہ ربیع الاوّل میں محافل میلادکا انعقاد اور خوشی ومسرت کا اظہار کرنا،انواع واقسام کے صدقہ وخیرات کرنااور دعوت و طعام کا اہتمام کرناوغیرہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا محبوب طرزِعمل رہاہے۔اور میلاد شریف کے خواص میں سے یہ ہے کہ میلاد کی برکت سے اس سال اللہ کاخاص فضل وکرم ہوتا ہے۔وہ لوگ خدا شاہد قسمت کے سکندر ہیںجو سرورِ عالمؐ کا میلاد مناتے ہیںعالم اسلام کے تمام مسلمان بارہ ربیع الاوّل کو یہ عظیم الشان اور ایمان افروز تہوار جشن عید میلادُ النبی ؐہمیشہ سے مناتے چلے آرہے ہیں اور جب تک یہ دنیا قائم ودائم ہے اور ایک بھی مسلمان روئے زمین پرباقی ہے، یہ جشن عید میلادُ النبیؐ اسی طرح عقیدت ومحبت، خوشی ومسرت اورپوری آب وتاب کے ساتھ منایاجاتا رہے گا اور اہلِ ایمان میلاد کی برکتوں، رحمتوں اور دنیوی واُخروی سعادتوں سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔صدائیں درودوں کی آتی رہیں گی جنہیں سن کے دل شاد ہوتا رہے گا۔حضور رحمت دوعالمؐ کی حیات مبارکہ کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ یقین و یمین کے ساتھ کہاجا سکتا ہے کہ اتنا کسی اور شخصیت کے بارے میں نہیں لکھا گیا۔آپ ؐکی انقلاب وحیات آفرین سیرت کا ایک ایک گوشہ،ایک ایک انگ،ایک ایک جہت، ایک ایک پہلو، ایک ایک پیشین گوئی اورایک ایک معجزہ کو مؤرخین ، اہل سیر علماء اورمحدثین کرام نے اقوامِ عالم کے سامنے اجاگر کیا اور دنیوی واُخروی سعادتیں پائیں اور حقیقت یہ ہے کہ حضورؐ کی سیرت نگاری ختم ہونے والی نہیں ہے لیکن اس عظیم صف میں جگہ پانا باعث ِ سعادت اورذریعۂ نجات ہے۔چمک تجھ سے پاتے ہیں، سب پانے والےمیرا دل بھی چمکا دے ، چمکانے و الےآخر میں تمام اہل ایمان واہل محبت سے مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ محافل میلادضرور منعقد کریں، اس میں شرکت بھی کریںلیکن محافل ِ میلادکے آداب و احترام کو ملحوظ رکھیںاور محافل میلاد کی تمام تقریبات میںباوضو شرکت کریںاور سراپا ادب بن کر اللہ اور اس کے رسولؐ کاذکر کریں ۔دعاہے کہ اللہ ہمیں سرکار دوعالمؐ کی ایسی سچی محبت نصیب فرمائے کہ ہم خودبہ خودسنت ِمصطفویؐ کے سانچے میں ڈھلتے چلے جائیں اور ہمارا وجود دوسروں کیلئے مینارئہ نور اور مشعل راہ بن جائے۔ (آمین )٭…٭…٭ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بے شک