پیر صاحب ہتھوڑا شریف کا وصیت نامہ
اسپیشل فیچر
نورِ نظر‘ لخت ِ جگر!میرے قویٰ مضمحل ہوگئے ہیں، زندگی کا کوئی پتا نہیں، اللہ جانتا ہے اور کتنے دن اس دنیا میں ہوں، لہٰذا چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے تمہیں گدی نشینی کے آداب سے کما حقہ آگاہ کرتا جائوں۔ اگر چہ مجھے یقین ہے کہ تم اب تک میری صحبت میں ولایت کے اس درجے تک پہنچ چکے ہو ،جہاں میں تمہیں دیکھنا چاہتا تھا۔اس کے باوجود کچھ کمی کوتاہی ہر انسان میں رہ جاتی ہے چنانچہ اسے دور کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ بیٹے! تم تو جانتے ہو میری بینائی بہت کمزور ہو گئی ہے چنانچہ بیعت کے لیے آنے والوں کو ٹٹول کر دیکھنا پڑتا ہے کہ ان میں سے عورت کون ہے اور مرد کون؟ لہٰذاپیشتر اس کے کہ کسی دن نظر کی یہ کمزوری کسی بڑے سانحہ کا سبب بنے میں تمہیں کچھ نصیحتیں کرنا چاہتا ہوں تم انہیں میری وصیت سمجھ کر ان پر عمل کرنا: پیار ے بیٹے! ایک بات ہمیشہ یاد رکھو اور وہ یہ کہ ہم صرف پیر نہیں بلکہ روحانی اور دنیاوی طاقت کے سارے سر چشمے ہمارے قبضے میں ہیں یعنی ہم پیر بھی ہیں‘ سیاستدان بھی ہیں‘ حکمران بھی ہیں‘ اس کے علاوہ جاگیریں انگریز کے وقت سے ہمیں ملی ہوئی ہیں۔ یوں اللہ کا دیا سب کچھ ہمارے پاس ہے بنک بیلنس ہے‘ ڈھو ر ڈنگر ہیں‘ مرید ہیں۔ ان سب نعمتوں کی قدر کرو خصوصاً مریدوں کا خاص خیال رکھو کہ ہماری ساری شان و شوکت ان کے دم سے ہے‘ اگر وہ تمہارے ہاتھ چومنا چاہیں تو کسی بخل سے کام نہ لو۔ اگر تم اس وقت دوستوں سے مصروف گفتگو ہو تو بھی انہیں مایوس نہ کرو بلکہ اپنا بایاں ہاتھ ان کی طرف بڑھا دو‘ وہ ہاتھ چومتے رہیں! تم باتیں کرتے رہو۔ ایسے مواقع پر تم انہیں لائن بنانے کے لیے کہو‘ وہ لائن میں آئیں اور ایک ایک کرکے ہاتھ چومتے جائیں‘ ان کے جانے کے بعد جیب سے ٹشو پیپر نکال کر ہاتھ کو اچھی طرح صاف کرلیا کرو اور گھر پہنچتے ہی ڈیٹول سے ہاتھ دھونا بھی نہ بھولو۔ مریدوں کا اظہار ِ عقیدت اپنی جگہ اور حفظانِ صحت کے اصول اپنی جگہ، دونوں کو کبھی گڈ مڈ نہ کرو!پیارے بیٹے! مجھے پتا چلا ہے کہ تم گائوں میں سکول کھولنے کی مخالفت کررہے ہو اگر لوگ پڑھ لکھ گئے تو ہمیں کون پوچھے گا۔ بیٹے یہ کام نہ کرو اور یہ خیال بھی دل سے نکال دو کہ تعلیم عام ہونے سے لوگ آستانہ عالیہ ہتھوڑا شریف کا رخ نہیں کریں گے۔بیٹے! جب تک ملک میں غربت ہے‘ بے روزگاری ہے‘ علاج معالجے کی سہولتیں نہیں ہیں‘ لوگوں کی انصاف تک رسائی نہیں ہے وہ لاکھ پڑھ لکھ جائیں‘ اپنی پریشانیوں کے ازالے کے لیے وہ بہر صورت ہمارے پاس ہی آئیں گے‘ ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے حصے کے بے وقوف پیدا کیے ہیں لہٰذا تمہیں اس ضمن میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں البتہ ایک ضروری کام کی طرف فی الفور توجہ دو اور وہ یہ کہ علامہ اقبال کے کلا م سے لوگوں کو دور رکھنے کی کوشش کرو! یہ شاعر اگر چہ صوفیائے کرام اور اولیائے عظام کا عقیدت مند ہے ،مگر ان کی گدیوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے بارے میں:کر گس کے تصرف میں ہے شاہیں کا نشیمن ایسی الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے‘ اس نے اس طرح کی اور بھی بہت سی باتیں کی ہیں مثلاً: ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشنیا اے کشتہ سلطانی و ملائی و پیریوغیرہ۔ لہٰذا اپنے خادم خاص خدا بخش کمہار کو بلا کر بریف کرو کہ وہ اقبال کے خلاف مراقبوں اور مکاشفوں کو بنیاد بنا کر اپنی مہم تیز کرے‘ویسے یہ تمہارا خادمِ خاص خاصا بے وقوف آدمی ہے‘ مجھے ڈر ہے کہ کسی بزرگ کے فرضی مراقبے میں اقبال کو ڈانٹ پلانے کی بجائے یہ کوئی ایسی بات اس بزرگ سے منسوب نہ کردے جس سے لوگوں کو یہ تاثر ملے کہ بزرگان دین بھی اقبال سے محبت کرتے ہیں۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ بے وقوف شخص تمہاری اولیائی پکی کرنے کے لیے تمہاری جو کرامتیں لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے ان میں سے بعض کرامتوں سے الٹا تمہارا امیج خراب ہوتا ہے۔ لہٰذا اقبال والا کام اس کے سپرد نہ کرنا۔ یہ کام میں خود کر لوں گا۔ بیٹے! تمہیں پتا ہے میرے جوڑوں میں درد رہتا ہے جس کے لیے حکیم نور دین نے موتی اور جواہرات کوٹ کر میرے لیے دوا تیار کی ہے مجھے حکیم صاحب نے بتایا کہ یہ نسخہ مہا راجہ پٹیالہ بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ تمہارے خادم خاص اللہ بخش کمہار نے مجھے بتایا ہے کہ مجھ سے چوری چھپے تم بھی یہ دوا استعمال کر رہے ہو‘ بیٹے اس کے استعمال میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس کی مقدار دال کے دانے سے بھی کم ہونی چاہئے اور ایک پائو مکھن میں لپیٹ کر کھانی چاہئے ورنہ تمہیں دسمبر کا مہینہ جولائی کے برابر محسوس ہوگا، مگر بیٹے تمہیں ابھی سے اس کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے؟ تمہارا (بھی )باپ پیر صاحب ہتھوڑا شریف(عطا الحق قاسمی کی کتاب ’’ وصیت نامے‘‘ سے اقتباس)٭…٭…٭