احسان دانش : نابغہ روزگار استاد شاعر
اسپیشل فیچر
اُردو شعری ونثری ادب میںاحسان دانشؔ کا نام ایک جاندار حوالہ ہے ، اُنھوں نے نظم و نثر دونوں میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف ِ ادب کا پورا پورا حق ادا کیا*********احسان دانش ؔ کا اصل نام احسان الحق اوراُن کی تنگنائے حیات کا اہم ادبی کارنامہ ’’جہان ِدانشؔ‘‘ ہے،22مارچ کو اُن کی32ویں برسی منائی جا رہی ہے*********نابغہ روزگاراُستاد شاعراحسان دانش کا نام اُردو شعری ونثری ادب میں ایک جاندار حوالہ ہے اور کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔اُن کا اصل نام احسان الحق تھا۔وہ ضلع مظفر گڑھ (کا ندھلہ) کے محلہ ’’مولانان‘‘ میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ دانشؔ صاحب کا بچپن انتہائی عسرت اور تنگ دستی میں گزرا۔ نامساعد گھریلو حالات کی بدولت وہ صرف جماعت چہارم تک تعلیم حاصل کرسکے اور محنت، مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے رہے۔احسان دانشؔ نے لفظ ’’مزدوری‘‘ کی ہر جہت میں مزدوری کی۔ اُنھوں نے کبھی اینٹیں ڈھوئیں ،تو کبھی گھاس کاٹی اور کبھی پتھر کوٹے۔ اُنھوں نے پنجاب یونی ورسٹی میں بھی مزدوری کی اور گورنر ہائوس،پنجاب میں باغبان کی حیثیت سے بھی کام کیا، تاہم کچھ عرصے بعد اُنھوں نے مکتوب نگار کے طور پر کام شروع کردیا اور بعدازاں ’’مکتبہ ٔدانش‘‘ کے نام سے کتابوں کی دکان کھولی۔اُن کی شاعری قدرت کی اور اُس ماحول کی عکاسی کرتی ہے ،جس میں اُنھوں نے بچپن میں مزدوری کی۔احسان دانشؔ نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔اُنھوں نے اپنی پہلی غزل ایس پی ایس ہال کے مشاعرے میں اپنے ایک دوست محمد توقیر طاہر گنگوی کے ایماء پر پڑھی جب کہ اُن کی پہلی نظم ’’کوشش ِرنگین‘‘ رسالہ ’’ادبی دنیا‘‘ میں چھپی۔ اُنھوں نے نظم و نثر دونوں میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف ِ ادب کا پورا پورا حق ادا کیا۔ دانش ؔصاحب نے دبستان ِلاہور کے جن اُساتذہ ادب وفن سے اکتساب فیض کیا، اُن میں منشی عبدالرحیم جلال آبادی، تلوک چند، تاجور نجیب آبادی، جوش ملیسانی، قاضی محمد ذکی، منشی محمد عمر، نوح ناروی، پنڈت برج موہن اور دتا تر یہ کیفی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔احسان دانشؔ کے شعری مجموعے، جو زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آچکے ، اُن کے نام یہ ہیں: حدیث ِ ادب، دردِزندگی، نفیرِ فطرت، نوائے کارگر، چراغاں، آتش ِخاموش، مقامات، شیرازہ، جادہ نَو، زخم و مرہم، گورستان، میراثِ مومن۔کچھ عرصہ قبل دانشؔ صاحب کا مکمل کلام ’’کلیاتِ احسان دانشؔ‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوچکا ہے جب کہ اُن کی نثری تصنیفات میں : لغاتِ الاصلاح، دستورِ اُردو، طبقات،روشنیاں، خضرِ عروض،اساس الامثال،اُردو مترادفات، آئینہ تذکیروتانیث، اُردو تذکیروتانیث، توضیع غالبؔ/رموزِ غالبؔ اور فرہنگِ دانشؔ قابل ِذکر ہیں۔احسان دانش ؔنے اپنی تنگنائے حیات میں ’’دانش گاہ‘‘ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کرکے عظیم اصلاحی کارنامہ بھی انجام دیا جب کہ اُن کا سب سے اہم ادبی کارنامہ ’’جہان دانش‘‘ ہے۔ یہ ایک خود نوشت ہے، جس کے دو حصے ہیں ، پہلا حصہ ’’جہان ِدانش‘‘ کے نام سے ہے، جس میں دانشؔ صاحب نے اپنی ذاتی زندگی کے تجربات و مشاہدات قلم بند کیے ہیں جب کہ دوسرا حصہ ’’جہان ِدگر‘‘ لکھ کر اُنھوں نے دوسرے ادیبوں کو بھی آپ بیتی لکھنے کا فن سکھایا ہے۔’’جہان ِدانش‘‘ پر بات کرتے ہوئے اُس کے اُسلوب کو اگر نظر انداز کردیا جائے، تو یہ ناانصافی ہوگی کیوں کہ اس کی دلکشی میں احسان دانشؔ کے شاعرانہ اُسلوب نے بہت اضافہ کیا ہے،۔ظاہر ہے کہ یہ ایک شاعر کی آپ بیتی ہے، اس لیے شاعر کا ذوق ِجمال قدم قدم پر اپنے جلوے دیکھتا ہے۔یہاں’’جہان ِ دانش‘‘ کے اُسلوب کے حوالے سے کچھ اہم اہل ِ قلم کی آراء پیش کی جا رہی ہیں:٭غلام جیلانی برق لکھتے ہیں: ’’کتاب کی زُبان سلیس رواں اور فصیح ہے، آپ نے پاکستانی اُردو میں سیکڑوں الفاظ کا اضافہ کیا ہے ،جو کاندھلہ و نواح کاندھلہ سے مخصوص تھے اور جن سے ہمارے کان نا آشنا تھے‘‘۔ ٭اعجاز الحق قدسی کے بقول: ’’کتاب کا ہر ورق بصارت اور بصیرت کے دریچوں کو وَا کرتا ہے اور چشم ِ بصیرت کے لیے بہت سا سامان فراہم کرتا ہے‘‘ ۔٭سید ضمیر جعفری رقمطراز ہیں: ’’ سوانحی ادب میں لطافت و حکمت کا ایسا امتزاج کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ کتاب لکھ کر آپ نے اُردو زبان کے اُفق کو بھی وسیع کیا‘‘۔٭حمید احمد خان کا کہنا ہے: ’’ آپ نے اُردو سوانح میں سچائی اور صاف گوئی کی مثال قائم کردی نہ ریا کاری کا مبالغہ نہ وضع داری کی احتیاط بس ایک کھرے انسان کی زندگی کی کہانی، جس کی گونج دل میں دیر تک رہے گی‘‘۔٭ مرحبا رئیس امروہوی لکھتے ہیں :’’میَں نے کبھی کسی کی سوانح کو اتنی دلچسپی سے نہیں پڑھا ،جتنی موانت اور دلچسپی اور انشراح صدر کا احساس ’جہان ِدانش‘ میں ہوا ،یہ کتاب روشنائی سے نہیں ،روشنی سے لکھی گئی ہے‘‘۔٭ رئیس امروہوی نے احسان دانشؔ کے لیے منظوم خراج تحسین بھی پیش کیا:کتنا شائستہ ہے اندازِ بیانکتنی شستہ ہے زبانِ دانشؔایسا مانع کے تضنع سے بریبے تکلف ہے بیانِ دانشؔالغرض’’جہانِ دانش‘‘ ایک ایسی آپ بیتی ہے، جو ایک مزدور اور صرف چار جماعت کی رسمی تعلیم حاصل کرنے والے ایک عظیم انسان کے سفر زیست کی کہانی ہے، جس میں دانشؔ صاحب نے اوائل عمر سے 1948ء تک حالات و واقعات قلم بند کیے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ 1975ء میں منصہ شہود پر آئی۔احسان دانش ؔنے پہلی ادبی تنظیم ’’انجمن تعمیر ادب‘‘ کی بنیاد رکھی اور 1953ء میں ’’مجلس ِتہذیب و ادب‘‘ کی بنیاد رکھی۔ وہ ادارہ معارفِ ملّی کے بانی رکن اور مدیر بھی رہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے تحریک ِجامعہ محمدی اور ایوان ِافکارِ تحریک کے نائب صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں جب کہ اُردو مرکز، کاروانِ ادب اور پاکستان رائٹرز گلڈ کے رکن بھی رہے۔ احسان دانشؔ کی رہائش گاہ واقع انار کلی لاہور، ادیبوں اور شاعروں کی آما ج گاہ ہوتی تھی۔ اُن کے ہاں اکثر آنے والوں میں فیض احمد فیضؔ، سجاد باقر ؔرضوی، انجم ؔرومانی، شہزادؔ احمد، احمد ندیمؔ قاسمی، ناصرؔ کاظمی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ احسان دانشؔ 22مارچ 1982ء کو ہمیشہ کے لیے جہانِ ادب سے رخصت ہوگئے ،مگر جاتے جاتے شعرو ادب کا ایسا گراں قدرذخیرہ چھوڑ گئے کہ جو اہل ِادب کی تشنگی کے لیے ہمیشہ سامان مہیا کرتا رہے گا۔آخر میں اُستاد احسان دانشؔ کا منتخب کلام قارئین ِ ادب نامہ کے لیے پیش ِ خدمت ہے:رحمتوں کا سائبانحُسنِ فطرت کو ہجوم عاشقاں درکار تھاعاشقوں کو بہر سجدہ آستاں درکار تھادُھوپ میں ڈھوئے تھے پتھر اِس لیے سرکارؐ نےحشر کے دن رحمتوں کا سائباں درکار تھاہاں مرے سجدوں میں ہے دانشؔ اُسی دَر کی تڑپمیری پیشانی کو اُنؐ کا آستاں درکار تھاتعمیر ِوطنجس طرح ممکن ہو تعمیر وطن کرتے رہوکام اپنا اے محبانِ وطن کرتے رہوزندگی یکسر محرب ہے سکوں یکسر ہے موتکچھ نہ کچھ اے نوجوانان وطن کرتے رہوآندھیوں کا کیا بھروسہ کیا بگولوں کا یقیںروز اُونچی اپنی دیوار چمن کرتے رہولطف ہی کیا ہے اگر بولے نہ ہر رُخ سے جنوںہوش سے بچتے چلو، دیوانہ پن کرتے رہویوں ہی قطرہ قطرہ ہو جاتا ہے بحر بیکراںغم نصیبوں کو شریک انجمن کرتے رہوکاش تہذیب نوی کے کھیل کو سمجھو سرابکاش تقلید روایات کہن کرتے رہوانتشار اک پیش نامہ ہے زوال ملک کااتحاد قوم و ملت کا جتن کرتے رہودوستی احسان دانشؔ کچھ نہیں اِس کے سوازندگی بھر اعترافِ حسن ظن کرتے رہو’’ دیکھ کر چلو‘‘ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلوکس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلوزندہ ہے دِل تو اس میں محبت بھی چاہیےآنکھیں جو ہیں تو راہِ وفا دیکھ کر چلوآذر کدے کی آنچ سے شہ پا کے یک بیکصر صر بنی ہوئی ہے صبا دیکھ کر چلوامسال دیدنی ہے چمن میں جنوں کا رنگگُل چاک کر رہے ہیں قبا دیکھ کر چلوگُلچیں کے سدّباب سے انکار ہے کسےلیکن اصولِ نشو و نما دیکھ کر چلوکچھ سرپھروں کو ذکرِ وفا بھی ہے ناگواریہ انحطاطِ مہر و وفا دیکھ کر چلوہاں انفرادیت بھی بُری چیز تو نہیںچلنا اگر ہے سب سے جدا دیکھ کر چلوآنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو ہر شے ہے بے نقاباے بندگانِ حرص و ہوا دیکھ کر چلوذوقِ عبودیت ہو کہ گستاخیِ نگاہتخمینۂ جزا و سزا دیکھ کر چلوناموسِ زندگی بھی بڑی شے ہے دوستودیکھو بلند و پست فضا دیکھ کر چلویہ تو بجا کہ ذوقِ سفر ہے ثبوتِ زیستاس دشت میں سموم و صبا دیکھ کر چلوعرفان و آگہی بھی عبادت سہی مگرطرز و طریقِ اہلِ وفا دیکھ کر چلواسبابِ ظاہری پہ بھی درکار ہے نظرباوصف اعتمادِ خدا دیکھ کر چلوممکن ہے روحِ سرو و سمن سے ہو ساز بازکیا دے گئی گلوں کو صبا دیکھ کر چلوہر کشمکش نہیں ہے امینِ سکونِ دِلہر موت میں نہیں ہے بقا دیکھ کر چلوہر لحظہ ہے پیمبرِ اندیشہ و عملکیا چاہتا ہے رنگِ فضا دیکھ کر چلویہ بھی روش نہ ہو رہِ مقصود کے خلافآئی ہے یہ کدھر سے صدا ’’دیکھ کر چلو‘‘ہمدرد بن کے دشمنِ دانشؔ ہوئے ہیں لوگیہ بھی ہے دوستی کی ادا دیکھ کر چلو٭…٭…٭