محمد کاظم : ادبی دنیا کو سوگوار کر گئے
شہر ادب و ثقافت ،لاہور کے ممتاز شاعر، محقق، مترجم اور تنقید نگار محمد کاظم گذشتہ روز8 اپریل کو88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ محمد کاظم جیسے نابغہ روز گار کی وفات سے اُردو ادب کا ایک باب ختم ہوگیا ہے ۔ اُنھوںنے عربی شاعری اور عربی ادب کو اُردو کے قالب میں ڈھالا اور متعارف کروایا۔ اس کے علاوہ وہ اُردو شاعری میں نئے طرزِ احساس کو متعارف کروانے کے لیے بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔وہ 14 اگست 1926ء کو احمدپور شرقیہ ،ضلع بہاول پور، جس کے ایک علاقہ اُوچ شریف کو پنجاب ہی نہیں بل کہ برعظیم پاک و ہند میں اک بلند مقام حاصل ہے، میں پیدا ہوئے۔ اُن کے کالموں کی کتاب ’’کل کی بات: جائزے اور تبصرے‘‘ میں اُن کا جو تعارف چھپا تھا اسے پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ملک پاکستان کس عبقری سے محروم ہو گیا ہے: محمد کاظم نے ذاتی شوق اور لگن سے، کسی مدرسی تعلیم کے بغیر، عربی زبان سیکھی۔ ساتھ ہی پنجاب یونی ورسٹی، لاہور سے 1966ء میں پرائیویٹ ایم اے عربی بھی کیا۔ محنت اور مطالعے سے عربی زبان میں اتنی دسترس حاصل کر لی کہ اس زبان میں بعض اُردو کتابوں اور رسالوں کے ترجمے بھی کیے اور طبع زاد مضامین بھی لکھے۔1946ء سے 1966ء تک مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے نظریات کے ساتھ ذہنی وابستگی رہی اور مولانا کے کہنے پر اُن کی کئی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ یہ تمام کتب بلادِ عرب میں شائع ہوئیں۔ ان کتابوں میں سے پردہ کے عربی ترجمے (الحجاب) کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ محمد کاظم کا شمار اُن چند پاکستانی دانشوروں میں ہوتا ہے، جن کے طبع زاد علمی اور ادبی مضامین مراکش کے رسالے ’’دعوۃ الحق‘‘ اور الجزائر کے ادبی ہفت روزہ ’’البصائر‘‘ میں شائع ہوتے رہے، علاوہ ازیں محمد کاظم کے خطوط مصر کے ادبی مجلّہ ’’الرسالۃ‘‘ اور بیروت کے ادبی ماہنامے ’’الآداب‘‘ میں شائع ہوئے۔محمد کاظم نے کسی مجلہ کے لیے باقاعدہ اُردو میں لکھنے کی ابتدا 1962ء میں حنیف رامے کے ماہنامہ ’’نصرت‘‘ سے کی۔ 1963ء میں جب احمد ندیم قاسمی نے اپنا ادبی مجلّہ ’’فنون‘‘ جاری کیا، تو اُس میں لکھنے لگے اور 2006ء تک اس رسالہ میں باقاعدگی سے لکھا۔ اس سلسلے میں اُنھوں نے اُردو قارئین کو عربی ادب، عربی اُدبا اور اہلِ فکر کی نگارشات سے متعارف کرایا۔ رسائل میں لکھنے کے ساتھ اسلامی موضوعات پر چار علمی کتابوں کے انگریزی سے اُردو زبان میں ترجمے بھی کیے۔اسی دوران وہ ایک سال کے لیے مغربی جرمنی بھی گئے۔ اُنھوں نے نہ صرف جرمن زبان کا علم حاصل کیا بل کہ یورپ کی سیر بھی کر ڈالی، بعدازاں اُنھوں نے اپنے سفر کے ایک حصے کی روئداد پندرہ اقساط میں ’’مغربی جرمنی میں ایک برس‘‘ کے عنوان سے ’’فنون‘‘ میں لکھی، جسے کتابی شکل میں بھی چھاپا گیا۔ اُن کی شائع شدہ کتابوں میں زیادہ اہم یہ ہیں:٭عربی ادب میں مطالعے (مضامین ، الف لیلہ، امرائو القیس، ابونواس، محمود درویش وغیرہ)٭مغربی جرمنی میں ایک برس (سفرنامہ) ٭مسلم فکر و فلسفہ عہد بہ عہد (مسلمانوں کی فکری تاریخ کا ایک جائزہ)٭اخوان الصفاء اور دوسرے مضامین (ابوالعلاء معرّی، قصیدہ بردہ، اخوان الصفاء، خلیل جبران، محمود درویش وغیرہ) ٭عربی ادب کی تاریخ (دَور جاہلیت سے موجودہ دَور تک) ٭کچھ یادیں کچھ باتیں (’’فنون‘‘ میں شائع ہونے والے پندرہ مضامین کا مجموعہ)٭جنیدِ بغداد: سوانح، نظریات ، رسائل تصنیف ڈاکٹر علی حسن عبدالقادر (الازہر یونیورسٹی، مصر) ٭اسلام اور جدیدیت تصنیف: ڈاکٹر فضل الرحمن، (شکاگو یونیورسٹی، امریکا)٭قرآن کے بنیادی موضوعات،تصنیف: ڈاکٹر فضل الرحمن (شکاگویونیورسٹی، امریکا)٭اسلام، تصنیف: ڈاکٹر فضل الرحمن (شکاگو یونیورسٹی ، امریکا)٭مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں اور رسائل کے عربی میں تراجم:1۔نظریۂ الاسلام الخلقیہ (اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر)2۔المصطلحات الاربعتہ فی القرآن (قران کی چار بنیادی اصطلاحیں)3۔موجز تاریخ تجدید الدین و احیاء (تجدید و احیائے دین)4۔الحجاب (پردہ)5۔حقوق اھل الذمۃ فی الاسلام (اسلام میں ذمیّوں کے حقوق)6۔نحن و الحضارۃ الغربیہ (تنقیحات)7۔تفہیم القرآن میں سے بعض سورتوں کا ابتدائی تعارفمذکور کتب کے علاوہ محمد کاظم کی انگریزی کتب الگ ہیں جب کہ اُن کی زیر طبع کتاب ’’ابنِ خلدون: حیات و آثار‘‘ (مقدمہ اور تاریخ ابنِ خلدون سے اقتباسات)کو القا پبلی کیشنز، لاہور شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔٭…٭…٭