حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی دینی خدمات

حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی دینی خدمات

اسپیشل فیچر

تحریر : مولانا محمد الیاس عطار قادری


خانقاہی نظام ہی اسلام کی وہ قوت ہے جس نے زوال کے بدترین عہدوں میں بھی ایسی شاندار کامیابیاں حاـصل کیں کہ تاریخ میں وہ سنہری حروف میں لکھی جاتی ہیں ۔مشہور مستشرق پروفیسرہٹی لکھتا ہے کہ’’ اسلام پر جب بھی مشکلات کا دور آیا تو اسلام کا روحانی نظام فوراًاسکی مدد کو آیا اور اسے اتنی قوت عطاء کردی کہ وہ ثابت قدمی سے مصائب کا مقابلہ کرسکے‘‘۔ ڈچ محقق لوکے گارڈاس بات پر تعجب کا اظہار کرتا ہے کہ ’’مسلمانوں کو زوال کا بارہا سامنا کرناپڑا مگر روحانی نظام میں ترقی کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ‘‘۔یہ خانقاہی نظام ہی تھا کہ جس نے روئے ارض کے کونے کونے میں کلمہء توحید پہنچایا ۔جنوبی ہند ،مالدیپ،انڈونیشیا ،ملائیشیااور برونائی کے علاوہ بہت سے ایسے علاقے ہیں۔ جہاں تک کسی مسلمان فاتح کی رسائی نہ ہوئی مگر فقیران خرقہ پوش اللہ اور رسولؐ کا پیغام لے کے وہاں گئے اور اپنے کردارو گفتار کی طاقت سے لوگوں کو مسلمان بنایا ۔ان کے کردار کی روشنی اور نعرہ حق کی ضرب اور ذکرالٰہی کی بدولت کفروشرک کی ظلمتیں سیماب پا ہوتی رہیں ۔یہ ہی خانقاہیں وہ مراکز بنیں جہاں سے لوگوں کو رشدوہدایت اوراسلام کی دولت نصیب ہوئی ۔جب بھی کوئی شخص اسلام کے خانقاہی نظام کا مطالعہ کرتا ہے تو اس میں ایک روشن مثال ہندوستان کا علاقہ اجمیرشریف سرفہرست آتا ہے ۔ یہ وہ خانقاہ ہے کہ جس نے لاکھوں کفارومشرکین کی تقدیریں بدلیں اور انہیں ایمان کی دولت عظیم نصیب ہوئی ،یہ خانقاہ آج بھی مرجع خلائق ہے ۔سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے عظیم پیشوا خواجۂ خواجگان، سلطان الہند حضرت سیدنا خواجہ غریب نواز ؒکو مدینہ منورہ حاضری کے موقع پریہ بشارت ملی ’’اے معین الدین توہمارے دین کامعین (یعنی دین کا مددگار) ہے ، تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی، اجمیر جا،تیرے وجود سے بے دینی دور ہوگی اور اسلام رونق پذیرہو گا‘‘۔ سلطان الہند خوا جہ غریب نوازؒ اجمیر شریف تشریف لائے۔ آپؒ کی مساعیٔ جمیلہ سے لوگ جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔ وہاں کے کافر راجہ پرتھوی راج کو اس سے بڑی تشویش ہونے لگی۔ چنانچہ اس نے اپنے یہاں کے سب سے خطرناک اور خوفناک جادوگر اجے پال جوگی کو خواجہ غریب نوازؒ کے مقابلے کے لئے تیار کیا۔ ’’اجے پال جوگی‘‘ اپنے چیلوں کی جماعت لے کر خواجہ صاحب ؒ کے پاس پہنچ گیا۔ مسلمانوں کا اضطراب دیکھ کر خواجہ غریب نوازؒ نے ان کے گرد ایک حصار کھینچ د یا اور حکم فرمایا کہ کوئی مسلما ن اس دائرے سے باہر نہ نکلے۔ ادھر جادوگروں نے جادو کے زور سے پانی، آگ اور پتھر برسانے شروع کر دیئے مگر یہ سارے وا رحصار کے قریب آکر بے کار ہو جاتے ۔ اب انہوں نے ایسا جادو کیا کہ ہزاروں سانپ پہاڑوں سے اتر کر خواجہ صاحبؒ اور مسلمانوں کی طرف لپکنے لگے، جونہی وہ حصار کے قریب آتے مرجاتے۔ جب چیلے ناکام ہوگئے تو خود ان کا گُرو اجے پال جوگی جادو کے ذریعے طرح طرح کے شعبدے دکھانے لگا مگر حصار کے قریب جاتے ہی سب کچھ غائب ہوجاتا۔ جب اس کا کوئی بس نہ چلا تو بپھر گیا اورغصے سے پیچو تاب کھاتے ہوئے اس نے اپنا مرگ چھالا (یعنی ہرنی کا چمڑابالوں والا ) ہوا میں اچھالا اورکود کراس پرجابیٹھا اور اڑتا ہواایکدم بلند ہوگیا۔ مسلمان گھبرا گئے کہ نا جانے اب ا وپر سے کیا آفت برپا کرے گا! خواجہ غریب نوازؒ اس کی حرکت پر مسکرا رہے تھے۔ آپ ؒ نے اپنی نعلین مبارک کو اشارہ کیا،حکم پاتے ہی وہ بھی تیزی کے ساتھ اڑتی ہوئیں جادوگر کے تعاقب میں روانہ ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر پہنچ گئیں اور اس کے سر پر تڑاتڑ پڑنے لگیں! ہرضرب میں وہ نیچے اتر رہا تھا، یہاں تک کہ عاجز ہوکر اترا اورخواجہ غریب نوازؒ کے قدموں پر گر پڑا اور سچے دل سے توبہ کی ا ور مسلمان ہوگیا۔ آپؒ نے اس کاا سلامی نام عبدا ﷲ رکھا ۔ اور وہ خواجہ صاحب ؒ کی نظر فیض اثر سے ولایت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوکر عبد اﷲ بیابانی نام سے مشہور ہوگئے۔ خواجہ غریب نواز ؒ جب مدینۃُ الہند اجمیر شریف تشریف لائے تو اولاً ایک پیپل کے درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے۔ یہ جگہ وہاں کے کافر راجہ پرتھوی راج چوہان کے اونٹوں کیلئے مخصوص تھی۔ راجہ کے کارندوں نے آکر آپ ؒ پر رُعب جھاڑا ا ور بے ادبی کے ساتھ کہا کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ یہ جگہ راجہ کے اونٹوں کے بیٹھنے کی ہے ۔ خواجہ صاحبؒ نے فرمایا ’’اچھا ہم لوگ جاتے ہیں تمہارے اونٹ ہی یہاں بیٹھیں۔‘‘ چنانچہ اونٹوں کو وہا ں بٹھادیا گیا۔ صبح ساربان آئے اور اونٹوں کواٹھانا چاہا، لیکن باوجود ہر طرح کی کوشش کے اونٹ نہ اٹھے۔ ساربان نے ڈرتے جھجکتے حضرت خواجہ صاحبؒ کی خدمت سرا پا کرامت میں حاضر ہوکر اپنی گستاخی کی معافی مانگی۔ ہند کے بے تاج بادشاہ حضرت غریب نواز ؒ نے فرمایا ’’جائو خدا کے حکم سے تمہارے اونٹ کھڑے ہوگئے۔‘‘ جب ساربان واپس ہوئے تو واقعی سب اونٹ کھڑے ہوچکے تھے۔خواجہ غریب نوازؒ کے چندمریدین ایک بار اجمیر شریف کے مشہور تالاب انا ساگر پر غسل کرنے گئے۔کافروں نے دیکھ کر شور مچا دیا کہ یہ مسلمان ہمارے تالاب کو’’ ناپاک‘‘ کررہے ہیں۔ چنانچِہ وہ حضرات لوٹ گئے اور جاکر سارا ماجرا خواجہ صاحبؒ کی خدمت میں عرض کیا۔ آپؒ نے ایک چھاگل ( پانی رکھنے کا مٹی کا برتن) دے کر خادم کو حکم دیا کہ اس کو تالاب سے بھر کر لے آؤ۔ خادم نے جاکر جونہی چھاگل کوپانی میں ڈالا، سارے کا سارا تالاب اس چھاگل میں آگیا!لوگ پانی نہ ملنے پر بے قرار ہوگئے اور آپؒ کی خدمت سراپا کرامت میں حاضر ہو کر فریاد کرنے لگے۔چنانچہ آپ ؒ نے خادم کو حکم دیا کہ جاؤ اور چھاگل کا پانی واپس تالاب میں انڈیل دو۔ خادم نے حکم کی تعمیل کی اور انا ساگر پھر پانی سے لبریز ہوگیا۔ایک بار اورنگ زیب عالمگیر سلطانُ الہند خواجہ غریب نوازؒ کے مزارِ پُر انوار پر حاضر ہوئے۔ احاطہ میں ایک اندھا فقیر بیٹھا صدا لگارہا تھا: یا خواجہ غریب نواز ؒ ! آنکھیں دے۔آپ نے اس فقیر سے دریافت کیا: بابا! کتنا عرصہ ہوا آنکھیں مانگتے ہوئے؟ بولا، برسوں گزر گئے مگر مراد پوری ہی نہیں ہوتی۔ فرمایا: میں مزار پر حاضری دے کر تھوڑی دیر میں واپس آتا ہوں اگر آنکھیں روشن ہوگئیں(یعنی بہت خوب) ورنہ قتل کروا دوں گا۔ یہ کہہ کر فقیر پر پہرالگا کر بادشاہ حاضری کیلئے اندر چلا گیا۔ ادھر فقیر پر گریہ طاری تھا اور رو رو کر فریاد کررہا تھا: یا خواجہؒ! پہلے صرف آنکھوں کا مسئلہ تھا اب تو جان پر بن گئی ہے، اگر آپ ؒ نے کرم نہ فرمایا تو مارا جاؤں گا۔ جب بادشاہ حاضری دے کر لوٹا تو اس کی آنکھیں روشن ہوچکی تھیں۔ بادشاہ نے مسکرا کر فرمایا: کہ تم اب تک بے دلی اور بے توجہی سے مانگ رہے تھے اور اب جان کے خوف سے تم نے دل کی تڑپ کے ساتھ سوال کیا تو تمہاری مراد پوری ہوگئی۔ شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ مانگنا تو اللہ سے چاہئے اور وہی دیتا ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خواجہ غریب نوازؒسے کوئی آنکھیں مانگے اور وہ عطا بھی فرما دیں! جواباً عرض ہے کہ حقیقتاً اللہ ہی دینے والا ہے، مخلوق میں سے جو بھی جو کچھ دیتا ہے وہ اللہ ہی سے لے کر دیتا ہے۔اللہ کی عطا کے بغیر کوئی ایک ذرّہ بھی نہیں دے سکتا۔ اللہ کی عطا سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔ اگر کسی نے خواجہ صاحبؒ سے آنکھیں مانگ لیں اور انہوں نے عطائے خداوندی سے عنایت فرما دیں تو آخر یہ ایسی کون سی بات ہے جو سمجھ میں نہیں آتی؟ یہ مسئلہ تو فی زمانہ فن طب نے بھی حل کر ڈالا ہے! ہر کوئی جانتا ہے کہ آج کل ڈاکٹر آپریشن کے ذریعے مردے کی آنکھیں لگا کر اندھوں کوبینا(یعنی دیکھتا) کر دیتے ہیں۔ بس اسی طرح خواجہ غریب نواز ؒ نے بھی ایک اندھے کواللہ کی عطا کردہ روحانی قوت سے نابینائی کے مرض سے شفا دے کر بینا(یعنی دیکھتا) کر دیا۔ بہرحال اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ نے کسی نبی یا ولی کو مرض سے شفا دینے یا کچھ عطا کرنے کا اختیار دیا ہی نہیں ہے تو ایسا شخص حکم قرآن کو جھٹلا رہا ہے۔چنانچہ پارہ 3سورۂ آل عمران آیت نمبر 49 میں حضرت عیسیٰؑ روحُ اﷲ کا قول نقل کیا گیا ہے۔حضرت عیسیٰ ؑ صاف صاف اعلان فرما رہے ہیںکہ میںاللہ کی بخشی ہوئی قدرت سے اندھوں کو بینائی اور کوڑھیوں کو شفا دیتا ہوں حتیٰ کہ مردوں کو بھی زندہ کر دیا کرتا ہوں۔ اللہ عزو جل کی طرف سے انبیاء کرام علیہم السلام کو طرح طرح کے اختیارات عطا کئے جاتے ہیں اور فیضانِ انبیائے کرام ؑسے اولیائے عظام ؒ کو بھی اختیارات دیئے جاتے ہیں، لہٰذا وہ بھی شفا دے سکتے ہیں اوربہت کچھ عطا فرما سکتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک کافر خنجر بغل میں چھپا کر خوا جہ غریب نواز ؒ کو قتل کرنے کے ارادے سے آیا آپ ؒنے اس کے تیور بھانپ لئے اور مومنانہ فراست سے اس کا ارادہ معلوم کرلیا ۔ جب وہ قریب آیاتو اس سے فرمایا’’تم جس ارادے سے آئے ہو اس کو پورا کرو میں تمہارے سامنے موجود ہوں۔‘‘ یہ سن کر اس شخص کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا ۔ خنجر نکال کر ایک طرف پھینک دیا اور آپ ؒکے قدموں پر گر پڑا اور سچے دل سے توبہ کی اور مسلمان ہو گیا۔6 رجب المرجب 633سن ہجری کو آپؒ اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
نمونیابچوں کو نگلنے والا مرض

نمونیابچوں کو نگلنے والا مرض

12 نومبر کو دنیا بھر میں نمونیا سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ یہ دن منانے کا مقصد اس بیماری سے بچائو اور احتیاطی تدابیر سے متعلق لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔نمونیا پھیپھڑوں میں ہونے والے انفیکشن کو کہتے ہیں۔یہ مرض لاحق ہونے کی صورت میں جسم میں آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور بالآخر انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں شیر خوار بچوں کی اموات کی بڑی وجہ نمونیا ہے۔ اس کی ابتدائی علامات نزلہ اور زکام ہوتی ہیں تاہم اس کی درست تشخیص کیلئے ایکسرے کیا جانا ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فائونڈیشن کے اشتراک سے عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیا ہے۔ ان ممالک میں انگولا، ایتھوپیا، نائجیریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔ اسی طرح ایشیا میں بھی یہ شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا سبب بننے والی بیماری ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر سال کم و بیش 70 ہزار سے زائد بچے نمونیا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں دنیا بھر میں 4 لاکھ37 ہزار بچوں کی موت نمونیا کی وجہ سے ہوئی۔ سب سے زیادہ نمونیا پائے جانے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں 2018ء کے اعدادو شمار کے حوالے سے نمونیا سے متاثرہ ممالک کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے، جس میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے جبکہ بھارت دوسرے اور نائیجیریا پہلے نمبر پر ہے۔ عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی رپورٹ کے مطابق ہر 39 سیکنڈ میں ایک بچہ نمونیا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے جبکہ روزانہ کم از کم 2200 بچے نمونیا کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق زیادہ تر اموات 2 سال سے کم عمر بچوں میں دیکھنے میں آئیں جبکہ سالانہ ایک لاکھ 53 ہزار بچے زندگی کے پہلے مہینے میں ہی نمونیا کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق بچوں کی طرح بزرگ افراد بھی نمونیا کے باعث موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ ایسے افراد جو پہلے ہی کسی مرض میں مبتلا ہوں جیسے دمہ، ذیابیطس اور امراض قلب،انہیں اگر نمونیا ہوجائے تو یہ ان کیلئے شدید خطرے کی بات ہے۔جن افراد کی قوت مدافعت کمزور ہو وہ بھی نمونیا کے باعث موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔علامات : بلغم والی کھانسی ،تیز بخار، سانس لینے میں دشواری ،سینے میں درد ،بہت زیادہ پسینے آنا، معدہ یا پیٹ کا درد ،پھیپھڑوں میں سے چٹخنے کی سی آوازیں آنا ،بھوک ختم ہونا کھانسی یا بلغم کو نگلنے کی وجہ سے قے ہونا ،حد درجہ تھکاوٹ، ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر پریشانی محسوس ہونا۔علاج: نمونیا میں ماہرین صحت اینٹی بائیوٹکس کا کورس تجویز کرتے ہیں جسے پورا کرنا ازحد ضروری ہے۔ اگر کورس کے دوران مریض کی حالت بہتر ہوجائے تب بھی کورس کو ادھورا نہ چھوڑا جائے۔نمونیا ایک ایسا انفیکشن ہے جو ایک یا دونوں پھیپھڑوں میں ہوا کی نالیوں میں سوجن پیدا کرتا ہے۔ڈاکٹر کیا کر سکتا ہے؟: اگر ڈاکٹر کو نمونیا کا شبہ ہوتو ممکن ہے کہ آپ کے بچے کے سینے کا ایکسرکرے۔ ڈاکٹر آپ کے بچے کے خون کے کچھ ٹیسٹ بھی کروانے کی ہدایت دے سکتا ہے۔ وائرس کے باعث ہونے والے نمونیا کا علاج اینٹی بائیوٹک سے کرنے کی ضرورت نہیں لیکن وائرل اور بیکٹیریل کی الگ الگ وجوہات بتانا مشکل ہو سکتی ہیں۔ اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کرنے سے پہلے آپ کے بچے کا ڈاکٹر بہت سے عوامل کو مدنظر رکھے گا۔ اس مرض سے متاثرہ شدہ پھیپھڑے ایکسرے میں سفید آتے ہیں یہ سفید سایہ پھیپھڑوں کی ہوا کی نالیوں میں مادہ بننے کی وجہ سے نظر آتا ہے۔کھانسی :اس بات کا بھی امکان ہے کہ آپ کے بچے کی کھانسی صحیح ہونے سے پہلے شدید ترین ہو جائے، جیسے ہی نمونیا تحلیل ہوتا ہے آپ کا بچہ بلغم سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے کھانسے گا۔ ممکن ہے کہ اس کی کھانسی کچھ ہفتوں تک جاری رہے۔ احتیاط :اکثر لوگ کھانسی کی عام شکایت دور کرنے کیلئے چند سادہ اور گھریلو نسخوں کا سہارا لیتے ہیں جو کارآمد بھی ثابت ہوتے ہیں، لیکن بعض صورتوں میں یہ نظامِ تنفس میں خرابیوں کا سبب بن سکتے ہے۔ اس کی وجہ سے حلق کی سوزش، سانس کی نالی میں انفیکشن یا پھیپھڑوں کے مسائل جنم لیتے ہیں اور موثر علاج نہ کیا جائے تو یہ مسئلہ خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ماہرینِ صحت کے مطابق شدید کھانسی کی شکایت تین ہفتے سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے۔ عام طور پر بازار میں دستیاب ادویات کے استعمال سے افاقہ ہو جاتا ہے، لیکن بعض صورتوں میں کھانسی سے نجات حاصل کرنے میں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ کھانسی کا تعلق نظام تنفس کی پیچیدگیوں سے ہوتا ہے۔ یہ خشک اور شدید قسم کی ہو یا اس کی وجہ سے حلق کی سوزش کا مسئلہ پیدا ہو گیا ۰ہو۔متاثرہ فرد کو فوراً طبی علاج کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ 

ڈیتھ اسٹار لیزرہتھیار

ڈیتھ اسٹار لیزرہتھیار

لیزر ٹیکنالوجی کے بغیر ہم آج کے جدید طرزِ زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیزر وہ روشنی ہے، جو قدرتی طور پر ہماری کائنات میں وجود نہیں رکھتی۔ یکساں رفتار کے ساتھ حرکت کرنے والی اور یوں ایک دوسرے کو اور زیادہ طاقتور بنانے والی اِن لہروں کے بارے میں پیش گوئی تو آئن سٹائن نے بھی کی تھی لیکن ان کی باقاعدہ دریافت 64سال پہلے ہوئی۔پہلی مرتبہ لیزر شعاعوں کو سولہ مئی 1960ء کو امریکی انجینئر تھیوڈور میمن نے دنیا سے متعارف کروایا تھا۔64 سال پہلے جب اِس ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا گیا تو بہت سے لوگوں نے اِسے کسی مسئلے کے حل کی بجائے الٹا اِسے ایک مسئلہ قرار دیا تھا۔ لیزر شعاعیں دھات کی موٹی تہوں کو کاٹنے اور کسی خلیے کے اندر تک جھانک کر ساری تفصیلات دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اِنہیں کاروں کے مختلف حصوں کو ویلڈنگ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ ملانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فائبر گلاس کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک ڈیٹا پہنچا سکتی ہیں۔اِن شعاؤں کے بغیر نہ تو موبائل فونز کی بیٹریاں تیار کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں کیلئے ہارٹ پیس میکر بنایا جا سکتا ہے۔ اور تو اور، لیزر شعاعوں کے بغیر نہ تو سی ڈی کا وجود ہوتا اور نہ ہی ڈی وی ڈی کا۔ اِس قدر کامیابیوں کے باوجود انسان ابھی لیزر کے تمام تر امکانات سے واقف نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ا ِن شعاعوں پر تحقیق کا سلسلہ پوری دْنیا میں جاری ہے۔حال ہی میں چین کے سائنسدانوں نے ایک حقیقی ''ڈیتھ اسٹار‘‘لیزر ہتھیار میں اہم پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ نیا ہائی پاور مائیکروویو ہتھیار کئی چھوٹی برقی مقناطیسی لہروں کو یکجا کر کے ایک بڑا لیزر بیم بناتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ''اسٹار وارز‘‘کی ڈیتھ اسٹار نے کئی چھوٹی شعاعوں کو یکجا کر کے ایک طاقتور شعاع سے سیاروں کو تباہ کیا تھا۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت ''ultra-high time precision synchronization‘‘ کے عمل میں ہے، جو شعاعوں کو آپس میں جوڑنے اور ایک ہی مقام پر مرکوز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔سائنسدانوں کے مطابق، چھوٹی لیزر شعاعوں کے درمیان وقت کی تفریق 170 پیکو سیکنڈز سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، یعنی سیکنڈ کے کھربوں حصوں کے برابر۔ محققین نے یہ کامیابی آپٹیکل فائبرز کی مدد سے حاصل کی۔ یہ عظیم ٹیکنالوجی کی ترقی جو آپٹیکل فائبرز کے استعمال سے ممکن ہوئی نے ہتھیار کے نظام کو فوجی تجربات میں کامیاب ہونے کی اجازت دی۔چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار امریکی جی پی ایس اور دیگر سیٹلائٹس کے سگنلز کو دبا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ شعاعوں کی مشترکہ طاقت انفرادی شعاعوں کی طاقت سے زیادہ ہو سکتی ہے۔یہ ہتھیار خلا میں استعمال کیلئے بنائے گئے ہیں نہ کہ زمینی، بحری یا فضائی افعال کیلئے۔ چین لیزر ہتھیاروں پر طویل عرصے سے کام کر رہا ہے۔ پچھلے سال یہ انکشاف ہوا تھا کہ چینی حکومت ایک ''دماغی خلل ڈالنے والا‘‘ ہتھیار تیار کر رہی ہے۔ یہ پروگرام غیر ملکی ممالک کے فوجی اور حکومتی عہدیداروں کو ہدف بنانے کیلئے بنایا گیا تھا۔ سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ایسٹ ایشین انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو نے کہا کہ یہ ہتھیار ممالیہ کے دماغوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور حتیٰ کہ ان پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔ چین نے چند سال قبل ایک پروٹو ٹائپ لیزر رائفل بھی تیار کی تھی جو نصف میل کی دوری سے ہدف کو جلا سکتی تھی۔ 

آج کا دن

آج کا دن

مائی لائی قتل عام12 نومبر 1969ء کو امریکہ کے ''پولٹزر ایوارڈ‘‘ یافتہ صحافی سیمر ہیرش نے دنیا کو ویتنام میں ہونے والے ''مائی لائی قتل عام‘‘ سے آگاہ کیا۔ اس قتل عام میں امریکی فوجیوں نے بچوں اور عورتوں سمیت 500 سے زائد شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ویت نام جنگ کے دوران ریاستہائے متحدہ امریکہ کے فوجیوں نے مائی لائی اور میرا کیہ کے گاؤں میں ویتنامی شہریوں کا یہ قتل عام 6 مارچ 1968ء کو کیا تھا۔جرمنی میں ریفرنڈم12نومبر1933ء کو جرمنی میں لیگ آف نیشنز سے دستبرداری کیلئے ایک ریفرنڈم کروایا گیا۔اس ریفرنڈم کو95.1فیصد لوگوں نے منظور کیا۔ یہ ہٹلر کی قیادت میں ہونے والا پہلا ریفرنڈم تھا۔ بیلٹ پیپر پر یہ سوال تحریر کیا گیا تھا کہ '' کیا آپ جرمن حکومتی پالیسی کو منظور کرتے ہیں اور کیا آپ اپنی رائے اور مرضی کے اظہار کے طور پر اس بات کا اعلان کرنے کیلئے تیار ہیں‘‘؟پیرس نمائش 12 نومبر 1900ء میں بین الاقوامی پیرس نمائش دیکھنے والے زائرین کی تعداد 50 ملین (5کروڑ)کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔ اس نمائش میں سلطنت عثمانیہ کے آجروں سمیت 76 ہزار سے زائد آجروں نے شرکت کی۔ نمائش میں سینما ، فلمیں اورچلتی سیڑھیاں زائرین کی توجہ کا مرکز بنیں۔جہازوں کا ہوا میں تصادم12نومبر1996ء کو بھارت کی فضا میں ایک ہولناک حادثہ پیش آیا۔ سعودی عرب کی پرواز 763 اور قازقستان ایئر لائنز کی پرواز 1907دہلی کے مغرب میں 100کلومیٹر دور واقعہ چرخی دادری میں ایک دوسرے سے ہوا میں ٹکرا گئیں۔ اس حادثے میں دونوں طیاروں میں سوار349افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ فضاء میں ہونے والے حادثات میں سب سے مہلک حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ حادثے کی وجہ قازقستان ایئر لائنز کے عملے کا جہاز کی بلندی برقرار نہ رکھنا تھا۔ ایس ٹی ایس ٹو خلائی شٹل''ایس ٹی ایس ٹو‘‘ ناسا کی جانب سے بھیجا جانے والا دوسرا خلائی شٹل مشن تھا۔ جس کا آغاز 12نومبر1981ء کو کیا گیا اور دو دن بعد14نومبر کو یہ اپنے مدار میں داخل ہوا۔ اس شٹل کے ذریعے بہت سے تجربات کئے گئے جن میں شٹل امیجنگ ریڈار کا بھی استعمال کیا گیا۔ اس شٹل کی جانب سے سرانجام دیئے جانے والے اہم کاموں میں ''آربیٹل مینیوورنگ سسٹم‘‘ پر مختلف ٹیسٹ بھی شامل تھے۔ جن میں مدار میں رہتے ہوئے انجن کو شروع کرنا اور اس کے مدار میں مختلف ایڈجسٹمنٹ کرنا سب سے مشکل کام تھا۔ایردوت معاہدہایردوت معاہدہ 12نومبر1995ء کو جمہوریہ کروشیا اور مقامی حکام کے درمیان سرکاری طور پر طے کیا جانے والا ایک معاہدہ تھا۔ مشرقی کروشیا میں جنگ آزادی کے پرامن حل پر مشرقی سلاونیا، بارانجا اور مغربی سیرمیم کے علاقے کے سرب حکام نے مرکزی حکومت کے کنٹرول کا عمل شروع کیا اور اقلیتوں کے حقوق اور پناہ گزینوں کی واپسی پر ضمانتوں کا ایک سیٹ فراہم کیا۔ اس معاہدے کا نام ایردوت Erdut رکھا گیا تھا کیونکہ اس پر دستخط ایردوت گاؤں میں کئے گئے تھے۔

مارٹن کوپر موبائل فون کا بانی

مارٹن کوپر موبائل فون کا بانی

یہ 3 اپریل 1973ء کا ایک دن تھا جب ناسا کے زیر انتظام ''اپولو پروگرام‘‘ کے ایک سابق امریکی انجینئر جوئل اینجل، بیل لیبز نامی کمپنی کی لیبارٹری میں معمول کا کام کر رہے تھے جب ان کے لینڈ لائن فون پر گھنٹی بجی۔انہوں نے فون اٹھایا، ہیلو کیا تو دوسری طرف سے آواز آئی، '' ہیلو جوئل‘‘۔ یہ آواز ''موٹورولا ‘‘ نامی ریڈیو اور الیکٹرانکس کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر کی تھی۔کوپر نے اپنے مخاطب اینجل کو فاتحانہ اور جذباتی انداز میں مخاطب کر کے کہا ،'' مسٹر اینجل ! کیا تم سوچ سکتے ہو کہ اس وقت میں تم سے ایک موبائل فون کے ذریعے بات کر رہا ہوں۔ایک حقیقی موبائل فون،ایک ایسا فون جسے ہاتھ میں تھامے کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے‘‘۔یہ آج سے لگ بھگ 51 سال پہلے دنیا کے سب سے پہلے موبائل فون کی وہ گفتگو تھی جو دو سائنسدانوں کے درمیان ہوئی تھی ، صرف یہی نہیں بلکہ فون پر بجنے والی یہ گھنٹی بھی کسی موبائل فون کے ذریعے پہلی گھنٹی تھی۔ موبائل فون کی ایجاد کا آئیڈیا دراصل دو کمپنیوں یعنی '' موٹورولا‘‘ اور '' بیل لیبز‘‘ کے ذہنوں میں ایک عرصہ سے چل رہا تھا اور دونوں کمپنیوں کے انجینئر ز سر توڑ کوششو ں میں مصروف تھے کہ انہیں ایک ایسے فون کی ایجاد تک رسائی میں کامیابی ہو جائے جو تاروں کے جھنجھٹ سے آزاد ہو تاکہ اسے کہیں بھی باآسانی لے جایا جا سکے۔ چنانچہ اس مسابقتی جنگ میں 1973ء میں موٹورولا کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر پہل کرکے تاریخ کے پہلے '' موبائل فون موجد‘‘ کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام رقم کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ کوپر کو '' موبائل فون کا باپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔2010ء میں مارٹن کوپر نے برطانوی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتا یا، میرے ذہن میں اکثر یہ خیال آتا تھا کہ چونکہ ہم سو سال سے زیادہ عرصہ سے ایک تار کے ذریعے گھر یا دفتر کے فون سے بندھے ہوئے ہیں جبکہ ہماری سوچ یہ تھی کہ انسان بنیادی طور پر ایک متحرک مخلوق ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوں ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔ ہمیں ایک ایسے آلے کی خواہش تھی جو ہماری ان خواہشات پر پورا اترتا ہو۔ ہم اپنی اس خواہش کے ہدف تک پہنچنے کی کوشش میں دن رات جتے رہتے تھے۔ہم نے سب سے پہلے جو آلہ ایجاد کیا، وہ ایک چھوٹی سی ہینڈ ہیلڈ ڈیوائس تھی،جسے ''کمیونیکیٹر‘‘کا نام دیا گیا۔یہ ڈیوائس تقریباً 4 انچ لمبی اور اس کا وزن آدھ کلوگرام تھا۔ اس کے ذریعے شروع میں صرف بیس منٹ تک بات ہو سکتی تھی کیونکہ اس کی بیٹری کا دورانیہ ہی اتنا ہوتا تھا۔یہ پہلا فون اینٹ کی شکل کا ہوتا تھا جس میں ایک بڑا انٹینا لگا ہوتا تھا مگر اس میں کوئی سکرین نہیں تھی۔اگرچہ یہ دیکھنے میں کوئی خوبصورت اور پرکشش نہیں تھا، تاہم یہ ایک تاریخ رقم کرنے میں ضرور کامیاب ہو گیا تھا۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 1973ء میں دنیا کے پہلے موبائل فون کی پہلی کال کی ایجاد اس قدر مقبول ہو جائے گی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس موبائل فون کی صنعتوں کا جال بچھ جائے گا۔ شروع شروع میں یہ ایک انتہائی مہنگا پراجیکٹ تھا۔اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1983ء تک ایک موبائل فون کی قیمت 4 ہزار ڈالر تھی جو آج کل قدر کے حساب سے 10 ہزار ڈالر بنتے ہیں ( یعنی پاکستانی 27 لاکھ 92ہزار روپے تقریباً )۔ شروع شروع میں ان کی ٹیم کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ ہزار کے لگ بھگ پرزوں پر مشتمل فون کے حجم کو کیسے کم کیا جائے کیونکہ اس نئے فون کا ایک بڑا حصہ بھاری بھر کم بیٹری پر مشتمل تھا۔ اس بیٹری کا دورانیہ صرف 20 منٹ پر مشتمل تھا۔اسی ا نٹر ویو میں مارٹن نے بتایا کہ پہلا موبائل فون بنانے پر موٹورولا کمپنی کا تقریباً دس لاکھ ڈالر خرچہ آیا تھا۔ اس وقت تک انہیں قطعاً یہ اندازہ نہیں تھا کہ صرف 35سال میں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس اپنا موبائل فون ہو گا اور یہ کہ ٹوئٹر اور فیس بک نامی سہولتیں بھی معرض وجود میں آئیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں مارٹن نے کہا موبائل فون بنانے کا ابتدائی مقصد تو ڈاکٹرز اور ہسپتال کے عملے کے درمیان موثر رابطوں کو بہتر کرنا تھا لیکن ایسا ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن سگریٹ کی ڈبیہ جتنا یہ آلہ ہر عام و خاص کی جیب میں ہو گا۔ ٹیکنالوجی کی اس دوڑ میں کمپیوٹر چپس اور ٹرانزسٹر چھوٹے سے چھوٹے اور تیز سے تیز ہوتے چلے گئے جن سے ان آلات کی فعالیت اور استعمال کو وسعت ملتی چلی گئی۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ تکنیکی صلاحیتیں دن بدن بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔یہاں تک کہ آج کے سمارٹ فونز میں بنکنگ سے لے کر ہر شعبہ زندگی کی سہولت موجود ہے۔گویا آپ کا پرسنل اسسٹنٹ آپ کی جیب میں ہے اور تو اور آپ کا کیمرہ ، آپ کی سینما سکرین، آپ کا میوزک سسٹم آپ کا بیرو میٹر، تھرما میٹر ، میگنیومیٹر ، انفراریڈ سینسرز ، فنگر پرنٹ سینسرز ، سکینر سمیت اور بہت کچھ صرف آپ کے ایک '' ٹچ‘‘ کے تابع ہیں۔ موبائل فونز کے انٹر نیٹ کی رفتار میں بہتری کے بعد اب ان کی کمپیوٹیشنل صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔مثال کے طور پر اگر میڈیسن کے شعبے کی بات کریں تو دماغ کی سرجری میں آئی فون نے پہلے ہی ان مہنگے آلات کی جگہ لینی شروع کردی ہے جو انڈوسکوپ کے ذریعے لی گئی ویڈیو ز دکھاتے ہیں۔ یہی حال ویڈیو کالنگ کا ہے جو دور دراز علاقوں میں مریضوں کے ساتھ بات چیت اور ان کی تشخیص کو ممکن بناتی ہے غرضیکہ موبائل فون کے استعمال اور سہولیات کا دائرہ کار اس قدر وسیع ہے کہ بادی النظر میں عقل اسے تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ سمارٹ فون نعمت تو ہے لیکن موبائل فون جس تیزی سے ہماری ذاتی اورمعاشرتی زندگیوں کا جزولاینفک بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کا اندازہ خود اس کے خالق، مارٹن کوپر کو بھی نہ تھا ، تبھی تو اس نے ایک موقع پر کہا تھا ''لوگ ایک جنون کی طرح اس کو استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔ جب میں کسی کو سڑک پار کرتے وقت موبائل فون استعمال کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ ایسے لوگوں کا دماغ خراب ہے، اگر ایسے میں ان پر کوئی گاڑی چڑھ دوڑے تو پھر افسوس کرنے کا کیا فائدہ۔ آگے چل کر اسی انٹرویو میں مارٹن کوپر کہتے ہیں ، میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا کہ موبائل فون ایسے استعمال ہو گا جیسے میرے پوتے اور نواسے کرتے ہیں‘‘۔  

موبائل فون زحمت بھی ہے

موبائل فون زحمت بھی ہے

جیسے کہا جاتا ہے کہ زندگی میں ہر چیز کی زیادتی باعث نقصان ہو سکتی ہے ۔ یہی حال موبائل فون کے بے جا استعمال کے نقصانات کا ہے ، جس کا زیادہ استعمال بچوں ، بوڑھوں بلکہ سبھی کی صحت کو درپیش ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں موبائل فون کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے آنکھوں میں تابکاری اثرات کی وجہ سے ''مائیوپیا‘‘ اور دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں۔آگے چل کر اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تابکاری کے یہ اثرات دماغ اور جلد پر بھی براہ راست اثر انداز ہو رہے ہیں ، یہی نہیں بلکہ دماغ میں ٹیومر جیسی بیماریوں کے خطرات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے کچھ سال پہلے موبائل فون استعمال کرنے والوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ موبائل ریڈی ایشن ، درد شقیقہ اور پٹھوں کے مستقل درد کا باعث بن سکتا ہے۔ماہرین ایک دن میں دو گھنٹے سے زیادہ موبائل فون کے استعمال سے منع کرتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ آنکھوں اور موبائل فون کے درمیان کم از کم 18 انچ فاصلے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ مسلسل سکرین پر نظر جمانے سے آنکھوں میں تنائو کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کب بنی،کیسے ختم ہوئی،چند حیران کن حقائق

ایسٹ انڈیا کمپنی کب بنی،کیسے ختم ہوئی،چند حیران کن حقائق

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی ایک نجی کارپوریشن تھی جسے دسمبر 1600ء میں تشکیل دیا گیا تاکہ مصالحہ جات کی منافع بخش تجارت میں برطانوی موجودگی یقینی بنائی جا سکے۔ اس وقت تک اس تجارت پر ہسپانویوں اور پرتگالیوں کی اجارہ داری تھی۔ وقت کے ساتھ یہ کمپنی جنوبی ایشیا میں برطانوی سامراج کے انتہائی طاقت ور کارندے کی حیثیت کر گئی اور ہندوستان کے بڑے علاقے کی حقیقی حکمران بن گئی تھی۔ وسیع بدعنوانی اور دیگر وجوہ کی بنا پر تجارت پر کمپنی کی اجارہ داری اور سیاسی کنٹرول کو ختم کر دیا گیا، اور 1858ء میں ہندوستان میں اس کی جائیدادوں کو تاج برطانیہ نے قومیا لیا۔ 1874ء میں ایک ایکٹ کے تحت رسمی طور پر اسے تحلیل کر دیا گیا۔ ۱۔ غلاموں کی تجارت سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے غلاموں کی تجارت پر انحصار کیا۔ حجم میں یہ بحراوقیانوس کے آر پار غلاموں کی تجارت کرنے والی رائل افریقن کمپنی جیسی انٹرپرائزز کی نسبت چھوٹی تھی، تاہم ایسٹ انڈیا کمپنی کو غلاموں کو دور دراز علاقوں تک پہنچانے میں مہارت حاصل تھی۔ ۲۔ اپنی فوج کمپنی کی اپنی فوج تھی۔ 1800ء میں اس کے پاس دو لاکھ سپاہ تھی۔ اس وقت کی برطانوی فوج کے مقابلے میں یہ تعداد دگنی تھی۔ ان ہندوستانی ریاستوں کو زیرنگیں کرنے کے لیے کمپنی نے اپنی فوج استعمال کی جن کے ساتھ پہلے اس نے تجارتی معاہدے کر رکھے تھے۔ اس کا مقصد من مرضی کے ظالمانہ ٹیکس اور پابندیاں لاگو کرنا اور معاشی فائدے کے لیے مقامی ہنر مند اور غیر ہنرمند محنت کشوں کا استحصال کرنا تھا۔ 1857-58ء کی ناکام جنگ آزادی میں کمپنی کی فوج نے گھناؤنا کردار ادا کیا۔ اس جنگ کے خاتمے پر کمپنی کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔ ۳۔ افیون کی فروختانیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان سے چائے اور دیگر سامان خریدنے کیلئے مالی وسائل پیدا کرنے کی خاطر کمپنی نے چین میں غیرقانونی طور پر افیون فروخت کرنا شروع کی۔ چین میں اس تجارت کی مزاحمت نے پہلی اور دوسری جنگ افیون (1839-42، 1856-60ء) کو جنم دیا۔ دونوں جنگوں میں برطانویوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ۴۔ کم خرچکمپنی کا انتظام و انصرام انتہائی مؤثر اور کم خرچ تھا۔ شروعاتی 20 برسوں میں یہ اپنے گورنر سر تھامس سمیتھ کے گھر سے چلائی جاتی رہی جس میں کام کرنے والا عملہ صرف چھ افراد پر مشتمل تھا۔ 1700ء میں اسے لندن کے ایک چھوٹے سے دفتر سے چلایا جاتا تھا جس میں 35 مستقل ملازمین کام کرتے تھے۔ 1785ء میں، جب یہ لاکھوں کی آبادی کے علاقوں کو کنٹرول کرتی تھی، لندن میں اس کا مستقل عملہ 159 افراد پر مشتمل تھا۔ ۵۔ اختیارات کا غلط استعمالاختیارات کے غلط استعمال اور 1770ء میں بنگال میں آنے والے بڑے قحط کے بعد کمپنی کے مالیہ اراضی میں بہت کمی آئی۔ اس کمی کے بعد اس نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے 1772ء میں10 لاکھ پاؤنڈ کے فوری قرضے کی درخواست دی۔ اگرچہ برطانوی حکومت نے کمپنی کی مدد کی لیکن اس پر سخت تنقید ہوئی اور پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے بعد حکومت نے اس کے انتظام و انصرام کی نگرانی شروع کر دی۔ بعد ازاں انڈین ایکٹ 1784ء کے ذریعے ہندوستان میں اس کی سیاسی پالیسی کو بھی حکومتی کنٹرول میں لایا گیا۔