شاہی قلعہ
اسپیشل فیچر
تاریخ لاہور ماضی میں گم ہے اس کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں صرف روایات اور قیاس آرائیاں ملتی ہیں۔پرانے لاہور کے شمال میں واقع قلعہ اپنے اندر بے شمار تاریخی واقعات کے راز چھپائے برصغیر کے مسلمان حکمرانوں کی عظمت کا خاموش شاہد بنا کھڑا ہے۔ موجودہ قلعہ عظیم مغل بادشاہ اکبر کے دور میں تعمیر ہوا اور بعد میں آنے والے مغل حکمرانوں نے اسی کے اندر اپنی خواہشات کے مطابق اضافے کیے، اکبر نے جب یہ قلعہ تعمیر کروایا تو اس وقت دریائے راوی اس کی دیواروں کے بالکل نیچے سے بہتا تھا موجودہ جگہ پر قلعہ کی موجودگی کا سب سے پہلا ثبوت بارہویں صدی عیسوسی میں ملتا ہے جب محمد شام(المعروف شہاب الدین) نے 1180ء میں لاہور پر حملہ کیا جسے بعدازاں منگولوں نے 1241ء میں تباہ کیا اور سلطان بلبن نے1267ء میں اس کو دوبارہ تعمیر کروایا لیکن 1398ء میں امیر تیمور کی زبردست یلغار کے بعد اس کو زمین بوس کر دیا گیا اور چند دنوں بعد سلطان مبارک شاہ نے مٹی اور گارے سے اس کو دوبارہ تعمیر کیا لیکن ابھی اس کی مٹی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ کھوکھروں کے سردار شیخا کھوکھر نے قلعہ پر حملہ کرکے اس کو کافی نقصان پہنچایا بعدازاں شیخ علی نے اس پر قبضہ کرکے اس کی مرمت کروائی اور یہ قلعہ اپنی اس حالت میں مغل دور تک رہا۔ ہمایوں کے دور حکومت میں شہزادہ کامران کی کابل سے لاہور آمد کے وقت مذکورہ قلعہ کے دروازوں کا ذکر ملتا ہے جسے اکبر بادشاہ نے گرا کر پتھر اور اینٹوں کی مدد سے ایک مضبوط قلعہ تعمیر کروایا جس کا ذکر اکبر کے دور کی مشہور کتاب ’’آئین اکبری‘‘ میں بھی ملتا ہے۔آئیے! اب آپ کو شاہی قلعہ کے چند مشہور حصوں کی سیر کراتے ہیں: دیوان عام دیوان عام کا شمار شاہی قلعہ کی قدیم ترین عمارات میں ہوتا ہے جسے اکبر نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں اکبر نے 29 دسمبر1587ء کو جشن نو روز منعقد کروایا تھا مشہور مورخ بدایونی رقم طراز ہے کہ یہ شاندار عمارات114 کمروں اور ایوانوں پر مشتمل تھی اس کو ایک مربع پلیٹ فارم 242 فٹ اور 4 انچ پر تعمیر کروایا گیا تھا۔ اس کے اندر سنگ مرمر سے جھروکہ درشن تعمیر کروایا گیا تھا جہاں سے بادشاہ عوام کو اپنا دیدار کرواتا تھا جس کے عقب میں بارہ کمروں پر مشتمل ایک بالکونی تھی۔ جھروکہ کے سامنے ایک مستطیل میدان ہے جس کا رقبہ 370x460 فٹ ہے وسیع میدان کے تین اطراف چھوٹے چھوٹے کمرے تھے جن کے اندر آمدورفت کے لیے راستے تھے۔ انگریز مورخ ہڈسن کا خیال ہے کہ یہ وسیع میدان بادشاہ فوجی پریڈ اور ہاتھیوں کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اکبر کے عہد میں درباریوں اور عوام کو دھوپ بارش سے بچانے کے لیے چھجہ بھی تعمیر کروایا گیا تھا۔ بعدازاں اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے 1628ء میں شاہی احکامات کے تحت چالیس ستونوں والا 70 گز طول اور 22 گز عرض وسیع سایہ دار ہال دولت خانہ خاص و عام کے جھروکہ کے سامنے تعمیر کر دیا گیا۔ جھروکہ میں شاہی نشست کی طرفین بالکونی میں تنگ راستے تھے جو ہال کے ستونوں کے درمیان جا کر کھلتے تھے اور جھروکے کے سامنے والے ہال کے تمام ستون مختلف رنگوں سے منقش تھے جھروکے کے سامنے ستونوں والے ہال کی چھت تلے شاہی امراء عہدہ کے لحاظ سے مودبانہ کھڑے ہوتے تھے۔ مرمریں جنگلہ دار نشانوں کے آثار امراء کے کھڑے ہونے کے مقاموں کا پتہ دیتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کے امراء کے کھڑے ہونے کے لیے چاندی کے جنگلے ہوتے تھے۔ سنگ سرخ کے اٹھے ہوئے جنگلوں کے نشانات اب بھی جزوی طور پردیکھے جا سکتے ہیں یہ خصوصیات دیوان عام لاہور، دیوان عام دہلی اور دیوان عام آگرہ میں مشترکہ ہیں۔یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ مغل بادشاہوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس شاہی رسم کو جاری رکھا یا نہیں لیکن سکھ عہد حکومت میں جھروکوں کو تخت کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس کا تعلق کئی اہم تاریخی واقعات سے منسلک ہے مثلاً یہی دیوان عام ہے جہاں شہنشاہ شاہ جہاں نے مشہور امیر علی مردان خان کو خلعت ہاتھی اور اعتماد الدولہ کے خطاب سے نواز تھا۔احاطہ جہانگیری شاہی قلعہ کے شمال مغربی کونے میں مغل فن تعمیر کا نادر نمونہ، جہانگیر کے تعمیراتی ذوق کا ثبوت احاطہ جہانگیری واقع ہے۔ اس کو جہانگیری دور کے مشہور انجینئر کریم مامور خان نے جہانگیر کے ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تخت نشینی کے فوراً بعد اپنی نگرانی میں تعمیر کروایا تھا چنانچہ 1620ء میں شہنشاہ جہانگیر نے اپنی لاہور آمد کے بعد اس نو تعمیر شدہ عمارت کا معائنہ کیا اور اس کو بے حد پسند کیا اب بھی مکتب خانہ کے داخلی دروازے پر نصب شدہ تختی پر شہنشاہ جہانگیر کے نام کے علاوہ دیگر متعلقہ تفصیل اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس محل کی تعمیر پر اس دور میں، سات لاکھ روپے لاگت آئی تھی، بعدازاں شاہ جہاں اور اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اس کے اندر مزید اضافے کے لیے جس میں شاہجہان کا احاطہ اہم ہے۔احاطہ جہانگیری کے وسط میں خوشنما باغ ہے اس باغ کی موجودگی کا پتہ سکھ عہد کے نقشہ جات سے ملتا ہے جس کا ذکر مشہور جرمن سیاح کیپٹن لیوپولڈ بھی کرتا ہے جو اپنے رفقاء سمیت 9 جنوری 1843ء کو راجہ شیر سنگھ کی دعوت میں مدعو تھا وہ اپنے سفر نامہ میں اس خوبصورت باغ کا حوالہ دیتا ہے وہ لکھتا ہے کہ اسے اور اس کے رفقاء کو حضوری باغ کی جانب سے اس مستطیل باغ کی طرف لے جایا گیا۔ بقول لیوپولڈ اس کھلے باغ کا منظر انتہائی دلکش اور قابل دید تھا۔ دیوان خاص احاطہ جہانگیری کے شمال میں 53x53 طول و عرض اور ساڑھے 20 فٹ بلند سنگ مرمر سے تعمیر شدہ محرابوں سے مزین چوڑی چھت والی دیوان عام کی پرشکوہ عمارت کھڑی ہے عمارت کے شمالی حصہ میں خوبصورت جالی لگی ہوئی ہے اور جالی کو وسط میں سے بڑی نفاست سے کاٹ کر ایک کھڑکی بنائی گئی ہے۔ دیوان خاص کا فرش مختلف رنگ کے مرمریں پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کے وسط میں جاذب نظر پیالہ نما فوارہ نصب کیا گیا ہے جس کے چھجا نما مرمریں کناروں کے اندر خوبصورت رنگین نقش کاری کی گئی ہے۔ یہ فوارہ انتہائی قیمتی پتھروں سے مزین تھا مگر انگریز فوج نے قلعہ پر قبضہ کرنے کے بعد اس خوبصورت فوارے کو ان قیمتی پتھروں سے محروم کر دیا۔ جس طرح بادشاہ دیوان خاص میں عام عوام کو اپنا دیدار کرواتا اور ان سے عرضیاں وصول کرتا تھا، اسی طرح دیوان خاص، شہنشاہ کی آمد کے وقت امراء اور سرکاری اہلکاروں سے ملاقات اور حاضری کے لیے استعمال ہوتا تھا اور بعض اوقات بادشاہ فریادی رعایا کی داد رسی کے لیے سنگ مرمر کی جالیوں کے اندر سے ان کی فریاد سنتا اور عرضیاں وصول کرتا۔ رات کے وقت شاندار شاہی ضیافتوں، غیر ملکی سفیروں کے اعزاز میں دعوتوں اور مملکت کے انتہائی اہم اور خفیہ امور پر خاص امراء سے صلاح و مشورہ کے لیے بھی یہ عمارت استعمال ہوتی تھی۔ دیوان خاص کے اندر صرف مخصوص امراء اور حکومتی اہلکار ہی بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو سکتے تھے جبکہ عام امراء اوراہلکاروں سے ملاقات کے لیے دیوان عام مخصوص تھا۔ یہ شاندار عمارت 1645ء کو پایہ تکمیل تک پہنچی۔پائیں باغشاہی غسل خانے سے ذرا آگے مغرب کی جانب ایک شکستہ محراب نما کمرہ دکھائی دیتا ہے جہاں سے کبھی شاہی خاندان کے افراد اور خواتین پائیں باغ کی طرف سے داخل ہوتے تھے۔ یہ کمرہ چاروں طرف سے برآمدوں میں گھرا ہوا ہے جس کے ساتھ گیلری ہے پائیں باغ کا دروازہ سنگ سرخ سے تعمیر کیا گیا تھا جس کے ستون مضبوط بنیادوں پر کھڑے تھے لیکن اب یہ ستون حوادث زمانہ کا شکار ہو چکے ہیں اب صرف ان کے نشانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ شیش محل شاہی قلعہ کی سب سے خوبصورت، پرشکوہ اور عظیم الشان عمارت کو شیش محل کہا جاتا ہے جوکہ لاہور قلعہ میں امتیازی خصوصیت کی حامل ہے اسے شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی محبوب ملکہ ممتاز محل کے لیے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ تعمیر کروایا تھا اسے حسن اتفاق کہیے یا ستم ظریفی کہ ملکہ ممتاز محل کو اس خوبصورت محل کی چھت تلے کبھی ایک رات بھی بسر کرنے کا موقعہ نہ ملا اور وہ 1631ء میں جنوبی ہند کے شہر اورنگ آباد میں خالق حقیقی سے جا ملی اور بعد میں دنیا کے آٹھویں عجوبہ یعنی تاج محل میں دفن ہوئی۔ شاہ جہاں کی اس خوبصورت عمارت کی تعمیر میں فن و مہارت اور روپیہ پیسہ بے دریغ استعمال ہوا اور اس طرح مغلیہ فن تعمیر کا یہ ہیرا شیش محل ایک بے مثل، پرشکوہ عمارت بن گیا۔ ٭…٭…٭