حضرت شاہ عبداللطیف مشہدی کا ظمی المعروف امام بری سرکار
اسپیشل فیچر
اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ بر صغیر میں اسلام کی تبلیغ اور پھیلانے میں اولیاء کرام اور صوفیائے عظام کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے۔ ہندوستان کے اونچ نیچ اور چھوت چھات کے معاشرے میں ان صوفیاء نے ہر مذہب ٗ ملت اور قوم کے افراد کو نہ صرف اپنے قریب کیا بلکہ انسانیت کا درس دے کر ہر قسم کے تعصب کا خاتمہ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ اسلام کی طرف راغب ہوئے ان ہی بزرگان پاک طینت نے مخلوط معاشرے اور کثیر المذاہب خطے میں امن ٗ بھائی چارے اور رواداری قائم کی ٗ آج ہم ان بزرگوں کے سبق اور درس سے دور ہو چکے ہیں اسی لیے مذہبی ٗ قومی اور نسلی تعصب نے معاشرے کو بے سکون اور بے امان کر دیاہے اس کے تدارک کیلئے پاکستان میں سینکڑوں صوفیائے عظام اور بزرگان دین کی خانقاہیںموجود ہیں جہاں دلوں کو گداز اور محبت سے لبریز کیا جاتا ہے ۔حضرت سید شاہ عبداللطیف المشہدی کاظمی المعروف بری امام ؒ سرکار برصغیر پاک و ہند کے ان اولیاء کرام اور صوفیاء کرام میں شامل ہیں جنہوں نے مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں اس ملک کے مختلف اطراف میں نور اسلام پھیلانے کیلئے انتھک جد و جہد کی۔ اسلام کی تبلیغ میں جہاں اس کے اعلیٰ اصولوں اور لاثانی ضابطہ حیات کا حصہ ہے وہاں بزرگان دین کی جد و جہد اور روحانی کمالات کا بھی بڑا کردار ہے ۔ سید عبدالطیف بری امام کاظمی رحمتہ اللہ علیہ1617(عیسوی اور (1026) ہجری میں ضلع چکوال کے علاقے چولی کرسال میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد گرامی کا اسم مبارک سید سخی محمودؒ بادشاہ کاظمی اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ غلام فاطمہ کاظمی تھا۔ آپ کے والد گرامی بھی ولی تھے بری امام سرکار ؒنے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی ۔ آپ نے فقہ و حدیث اور دیگر علوم اسلامی کی تعلیم نجف اشرف عراق میں حاصل کی سید محمود بادشاہ جو کہ نجف اشرف سے فارغ التحصیل تھے نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی تھی ۔ حضرت سید شاہ عبداللطیف المشہدی کاظمیؒ نے مقدس اسلامی شہروں نجف اشرف ٗ کربلا ٗ سامرہ ٗ مشہد مقدس میں مختلف علماء سے دینی علوم کے علاوہ روحانی فیض بھی حاصل کیا ۔جب ایران و عراق کے بارہ سال کے طویل سفر کے بعد آپ سید کسران میں واپس آئے تو آپ کی کشف و کرامات کا تذکرہ ہر طرف ہونے لگا جس کی وجہ سے آپ کی شہرت ہر سو پھیل گئی لوگ دور دراز علاقوں سے آپؒ کے پاس آتے اور تعلیم و تبلیغ ، و عظ و نصیحت اور پند و نصائح سے فیض یاب ہوتے ۔ کچھ عرصہ یہاں گزارنے کے بعد آپؒ نے راولپنڈی کے شمالی علاقے کا رخ کیا اور باغ کلاں ( موجودہ آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد ) میں اقامت پذیر ہوئے ۔آپ ؒ نے کچھ عرصہ یہاں قیام کیا اور تبلیغ دین میں مصروف رہے یہاں بسنے والے سب لوگ آپ ؒکے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے یہاں پر آپؒ سے کئی کرامات ظاہر ہوئیں ۔ ان ہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک روز آپؒ عبادت الہٰی میں مشغول تھے ٗ توجہ کے ارتکاز کی وجہ سے آپ ؒکو پتہ ہی نہ چل سکا کہ کس وقت آپؒ کے مویشی زمیندار کے کھیت میں گھس گئے اور انہوں نے ساری فصل تباہ کر دی ۔ فصل کا مالک شکایت لے کر آپ ؒکے والد بزرگوار کے پاس آیا آپ ؒکے والد زمیندار کے ہمراہ آپؒ کے پاس آئے اور سرزنش کی کہ آپؒ کی بے توجہی کی وجہ سے زمیندار کی ساری فصل برباد ہوگئی ہے اس پر تھوڑی دیر آپؒ خاموش رہے ۔ والد نے مزید ڈانٹا جب خاموشی اختیارکی تو آپ ؒنے بڑے سکون کے ساتھ آہستہ سے سر اوپر اٹھایا اور نہایت ٹھہرے ہوئے انداز میں گویا ہوئے ۔ابا جی ذرا فصل کی طرف تو دیکھئے ، جونہی آپ ؒکے والد نے فصل کی طرف دیکھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چند لمحے پہلے جو فصل تہس نہس تھی اب ایک سر سبز و شاداب کھیت کی صورت میں لہلہاتی ہوئی نظر آ رہی تھی ۔ یہ دیکھنا تھا کہ زمیندار کی حالت عجب ہوگئی وہ آپؒ سے معافی مانگنے لگا ۔ آپؒ سادات کے ایک مایہ ناز گھرانے کے چشم و چراغ تھے ۔ آپؒ کا شجرہ نسب امیر بغداد حضرت امام موسی کاظم سے جا ملتا ہے ۔ بری امام سرکارؒ نے آج سے ساڑھے تین سو سال پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ نور پور پوٹھوہار ( اسلام آباد ) کا یہ خطہ ایک دن نہ صرف فرزندان توحید کا مرکز بلکہ عالی شان چمکتا دمکتا شہر بن جائے گا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں ہوگا ۔ آپؒ کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور یہاں اسلام آباد کے نام سے ایک شہر بن گیا جو آج مملکت خداداد پاکستان کا دار الحکومت ہی نہیںبنا بلکہ اقوام متحدہ کی سطح پر ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ترجمان کے عظیم شرف سے ہمکنار ہے ۔ حضرت علامہ اقبال ؒ کا شمار بھی عظیم شعراء میں ہوتا ہے ان کی شاعری میں بھی آپ کو تصوف کا رنگ بھرا نظر آئے گا ۔ اولیاء اللہ کے مقام کے بارے میں آپ کا ارشاد ہے ۔ نہ تخت و تاج نہ لشکر و سپاہ میں ہے جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے عام دنوں میں بھی آپؒ کے مزار پر رونق ہوتی ہے، لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور فیوض و برکات سے جھولیا ں بھر کر لوٹتے ہیں۔ لوگ نہ صرف دربار پر حاضری دیتے ہیں بلکہ دشوار گزار پہاڑی رستے سے اس غار کی بھی زیارت کرتے ہیں جہاں آپ ؒ نے عبادت و چلہ کشی کی جسے لوئے دندی کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ آپؒنے چلہ کشی کرکے پہاڑوں غاروں اور ویرانوں میں مصائب جھیل کر جنگل میں منگل کا سماں پیدا کیا اور وہ علاقہ جو کبھی چور پور کے نام سے موسوم تھا نور پور کے نام سے مشہور ہوا ۔آپ کا ایک اور واقعہ بھی کافی مشہور ہے اور وہ یہ ہے کہ امام سرکار ندی نیلاں میں جن دنوں آپؒ چلہ کشی کر رہے تھے اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ کچھ کھا پی نہیں سکتے تھے صرف دودھ پیا کرتے تھے ٗ گوجر قوم کا ایک عقیدت مند روزانہ آپؒ کو دودھ دینے آتا تھا جس بھینس کا دودھ وہ لاتا تھاوہ مر جاتی ، گوجر نے یہ بات ا ٓپؒ کو نہیں بتائی آخر کار ایک ایک کرکے تمام بھینسیںمر گئیں، اگلے روز دودھ کی خاطر وہ تمام گائوں میں پھرا مگر ہر طرف سے مایوس ہوا چنانچہ آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اپنی داستان سنائی آپ ؒمسکرائے اور فرمایا جائو ندی کے کنارے چلتے جائو اور اپنی بھینسوں کے نام پکارتے جائو سب تمہارے پیچھے چلی آئیں گی مگر خیال رکھنا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا چنانچہ اس گوجر نے ایسا ہی کیا جب آخری بھینس کا نام لیا جو کہ ندی سے نکل رہی تھی تو گوجر نے پیچھے موڑ کر دیکھ لیا بھینس اسی جگہ پتھر کی رہ گئی ۔ گوجر پہلے تو پریشان ہوا مگر باقی بھینسوں کو لے کر خوشی خوشی گھر چلا آیا ۔ آپؒ کا مزار مبارک نور پور شاہاں شریف اسلام آباد میں عقیدت مندوں کیلئے مرجع خلائق ہے ۔٭…٭…٭