شباب اہل جنت حضرت امام حسینؓ
اسپیشل فیچر
حضورؐنے فرمایا ’’ حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں جوحسین کومحبوب رکھتاہے وہ اللہ کو محبوب رکھتاہے حسین فرزندوں میں سے ایک فرزندہے۔‘‘(ترمذی،مشکوٰۃ)نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ کی ولادت باسعادت4 شعبان المعظم سن 4 ہجری کومدینہ منورہ میں ہوئی ۔ جب سرکار مدینہ ؐکوآپؓ کی پیدائش کی اطلاع دی گئی تو آپؐ تشریف لائے ۔ اورآپؓ کوگودمیں اٹھا کر پیار کیا پھرآپؐ نے دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں تکبیر کہی پھر اپنا لعاب دہن منہ میں ڈالا اور دعائے خیرفرمائی اور آپؓ کا نام مبارک ’’حسین ‘‘ رکھا ۔ پھر ساتویں روز آپؓ کا عقیقہ کیااوربال اتروا کر ان کے وزن کے برابرچاندی خیرات کی آپؓ کے نام رکھنے کی روایت یوںہے حضرت سیدناعلی المرتضیٰ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے بلاکرفرمایا کہ دونوں بچوں کے نام تبدیل کرنے کاحکم دیاگیاہے میں نے عرض کیا ـاللہ اوراس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں پس آپؐ نے ان کے نام حسنؓ و حسینؓ رکھے۔ ( مسند احمد بن حنبل) حضرت عمران بن سلیمانؓ سے روایت ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے دونام ہیںجو کہ زمانہ جاہلیت میں کسی کے نام نہیں رکھے گئے تھے۔نبی کریمؐ کی محبت کی خاطر اللہ پاک کویہ گوارا نہیں ہوا جو مصطفیٰؐ کے محبوب ہونے والے ہیں ان کانام بھی کسی اور کا رکھا گیا ہو۔ آپؓ سب سے زیادہ نبی کریمؐ کے مشابہ تھے ۔ (جامع ترمذی)آپؓ کا نام مبارک’ ’حسینؓ ‘‘ کنیت ابوعبداللہ اور القابات سبط الرسول ، ریحانۃ الرسول ہیں ۔آپؓ کاسلسلہ نسب والدکی جانب سے حسب ذیل ہے ۔حضرت سیدنا امام حسین ؓ ، بن امیرالمومنین حضرت سیدناعلی المرتضیٰ ؓ بن حضرت ابوطالب بن حضرت عبدالمطلب ۔ حضرت عبدالمطلب پر آپؓ کاسلسلہ نسب حضورنبی کریمؐ سے جاملتاہے جو کہ حضورنبی کریمؐ کے داداتھے ۔حضرت سیدناامام حسین ؓ ،شہزادی رسول ؐخاتونِ جنت،طیبہ ، طاہرہ، عابدہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراسلام اللہ علیھاکے صاحبزادے تھے اورعادات واطوارمیں حضورنبی کریمؐ کی سیرت کابہترین نمونہ تھے ۔ سیدناحضرت امام حسین ؓ کواللہ رب العزت نے بہت زیادہ حسن دیاتھاجس کی دنیامیںمثال نہیں ملتی۔آپؓ کابچپن رسالت مآبؐ،سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراسلام اللہ علیھاوحضرت علی المرتضیٰ شیرخداؓ کی عظیم اورپاکیزہ گودمیں گزرا اس تربیت نے آپؓ کو علم وفضل شجاعت وسخاوت تقویٰ وطہارت کی مکمل تصویربنادیا۔آپؓ نے آنکھیں کھولیں تورسولؐ خداکی نمازیں، علی المرتضیٰ شیرخداؓ کے سجدے اورسیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھاکی قرآن پاک کی تلاوتیں سامنے تھیں۔آپؓ نے ساری زندگی اسی ذوق میں گزاری اسی وجہ سے آپؓ نے ظالم کے سامنے سرنہ جھکایابلکہ خالق کائنات کی بارگاہ میں اپنے سرکانذرانہ پیش کیا۔حضرت زیدبن ابی زیادؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐسیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے گھرکے دروازے کے پاس سے گزرے اورحضرت امام حسینؓ کے رونے کی آواز سنی توآپؐ نے فرمایا! ’’بیٹی اس کورونے نہ دیاکروکیا تمہیں معلوم نہیں کہ اس کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے‘‘۔(نورالابصار)سخاوت جوصفات انبیاء علیہم السلام میں سے ہے۔ آپؓ کوبارگاہ نبوتؐ سے خصوصی طورپر عطا ہوئی تھی۔ حضرت زینب بن ابی رافع سے روایت ہے کہ سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہراؓ اپنے دونوں بیٹوںکولے کربارگاہ نبویؐ میں حاضرہوئیں اورعرض کی یہ آپؐ کے دونوں بیٹے ہیں، انہیں کوئی چیز عنایت فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’حسنؓ کے حصہ میں میری ہیبت اور سرداری ہے ۔ حسین ؓ کیلئے میری جرا ت اور سخاوت ہے‘‘۔ یہی وجہ تھی کہ آپؓ نے کائنات میں سخاوت کی وہ عظیم الشان مثال پیش کی جس نے سب کوحیرت میں ڈال دیا۔جب حضرت اسامہؓ کی رحلت کاوقت آیاتووہ بڑے پریشان تھے۔ امام حسین ؓ ان کے پاس تشریف لے گئے اور پریشانی کاسبب پوچھاانہوں نے عرض کی میں مقروض ہوں اورموت کاوقت قریب ہے ۔آپؓ نے فرمایاآپ ؓ کا قرض میں اداکروں گاانہوں نے عرض کی میں چاہتاہوں کہ موت سے پہلے میرا قرض اداہوجائے آپؓ نے اسی وقت حضرت اسامہؓ کا قرض ادا کردیا۔حضرت امام زین العابدینؓ سے منقول ہے کہ میرے والدحضرت امام حسینؓ بزرگوں، بیوائوں ،یتیموں اور مساکین مدینہ کے گھروں میں کھانے پینے کا سامان خودلے جایاکرتے اوران کے کام کاج کی مشقت برداشت کرتے تھے یہاں تک کہ آپؓ کی پیٹھ پرنشانات پڑجاتے تھے ۔آپ ؓ بہت متقی پرہیزگاراورذوق عبادت کے مالک تھے کیوں نہ ہوجس کی والدہ سیدۃ النساء، سیدہ کائنات اورخاتون جنت ہوں اوروالد گرامی علی المرتضیٰ شیرخداؓ ہوں، ناناخاتم النبین رحمت العالمین حضرت محمدمصطفیؐ ہوں ۔ مستند روایات اورکتب میں درج ہے علامہ جزری لکھتے ہیں ـکہ امام حسین ؓ بکثرت نمازیں پڑھنے والے روزے رکھنے والے حج کرنے والے، صدقہ دینے والے اورنیکی کے کاموں میں بہت زیادہ سبقت لے جانے والے تھے ۔ آپؓ نے تقریباً25 حج پیدل کئے۔ اس کے علاوہ ساری رات قیام اورسال کے اکثرایام میں روزہ رکھناآپؓ کی مبارک زندگی کامعمول رہا۔نبی کریم ؐآپ ؓ سے بہت پیارکرتے تھے۔ آپؓ ہر روز ایک ہزاررکعت نمازنفل اداکرتے، آپؓ کی زندگی قرآن پاک کی عملی تفسیرتھی ۔ ایک دفعہ امام حسنؓ اور امام حسین ؓ پیدل حج کیلئے جارہے تھے آپؓ کے ساتھ حاجیوں کی ایک اورجماعت شامل ہوگئی۔ لوگوں نے آپؓ کوپیدل چلتے ہوئے دیکھاتواحتراماََ اپنی سواریوں سے اترکرآپؓ کے ساتھ پیدل چلنے لگے ۔ تھوڑی دیر بعدتھکن سے نڈھال ہوگئے۔ ان میں سے چندلوگ اس قافلے میں شامل بزرگ صحابی حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کے پاس گئے اورعرض کرنے لگے اب ہمارے لئے پیدل چلنا دشوار ہو رہا ہے لہٰذا! آپ حسنین کریمینؓ سے درخواست کریں کہ وہ سواری پر سوار ہو جائیں ۔ یہ سن کر امام حسینؓ نے ارشاد فرمایا۔ یہ توممکن نہیں کہ ہم سوارہوجائیں کیونکہ ہم نے اپنے اوپریہی فرض قراردیاہے لیکن لوگوںکوتکلیف دینابھی گوارہ نہیں لہٰذاہم یہ راستہ چھوڑدیتے ہیں اوردوسراراستہ اختیار کر لیتے ہیں ۔ روایات میں آتاہے کہ جب آپؓ نماز ادا کرتے توآپؓ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہو جاتے۔ آپ ؓکی عبادت میںبڑا خشوع و خضوع تھا۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمؐ نے فرمایا ’’حسن اورحسین عرش کے دوستون ہیں لیکن وہ لٹکے ہوئے نہیںہیں ‘‘ اورآپ ؐ نے ارشاد فرمایا ’’جب اہل جنت جنت میں مقیم ہوجائیں گے توجنت عرض کرے گی اے پروردگار تونے مجھے اپنے ستونوں میں سے دو ستونوں سے مزین کرنے کا وعدہ فرمایا تھا اللہ تعالیٰ فرمائے گاکیامیں نے تجھے حسن اورحسین کی موجودگی کے ذریعے مزین نہیں کردیا(یہی تو میرے دوستون ہیں۔‘‘ (طبرانی ، المعجم الاوسط)حضرت جابربن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ جو جنتیوں کے سردار کو دیکھنا چاہے وہ حسین کو دیکھ لے‘‘۔حضرت سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم کا فرمان تھا کہ ’’حسن و حسین یہ دونوں میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں کو محبوب رکھااس نے مجھ کومحبوب رکھا اور جس نے مجھ کومحبوب رکھااس نے اللہ پاک کو محبوب رکھا اورجس نے اللہ پاک کومحبوب رکھااللہ پاک نے اس کوجنت میں داخل کیا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھااس نے مجھ سے بغض رکھااور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ پاک سے بغض رکھااورجس نے اللہ پاک سے بغض رکھااللہ پاک نے اس کو دوزخ میں داخل کیا‘‘۔حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ میں آقاؐکی خدمت اقدس میں حاضرہواآپؐ نے حسنؓ وحسینؓ کوپشت پربٹھایاہوا تھااورآپؐ دونوں ہاتھوں دونوں گھٹنوں پرچل رہے تھے۔میں نے کہا (شہزادو) تمہاری سواری کتنی اچھی ہے ؟ توآپؐ نے فرمایا ’’سوار بھی بہت اچھے ہیں‘‘۔ (کنزالعمال، البدایہ والنہایہ)حضرت حذیفہ الیمان ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک دن حضورؐ کو بہت مسرور دیکھاتوعرض کیا۔ یا رسولؐ اللہ!آج ہم آپ کوبہت مسرور و خوش دیکھتے ہیں رحمت دو عالم ؐنے فرمایا ’’میں کیوں نہ خوش ہوں جبکہ جبریل امین ؑ میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے مجھے بشارت دی ہے کہ بلاشبہ حسن اورحسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اوران کا باپ ان سے بھی افضل ہے‘‘۔ (کنزالعمال)حضرت زربن حیشؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے ایک روز دیکھا سجدے میں شہزادے آپؐ کے کندھوں پر چڑھ جاتے ہیں۔۔پھر آپؐ کی پشت مبارک سے اترآتے ہیں ۔۔ساری نماز میں یہی کیفیت رہی ۔۔ کچھ لوگ جنہیں معلوم نہ تھاکہ شہزادے حضورؐکے کندھوں پر روزانہ چڑھتے ہیں انہوں نے اشاروں سے شہزادوں کو روکنا چاہا۔ حضورؐنے فرمایا ’’میری نمازکے دوران میرے سجدوں میں حسن ؓوحسینؓ کندھوں پرچڑھیں یامیری گودمیں بیٹھیں انہیں کوئی منع نہ کرے دعوھمابابی وامیانہیں چھوڑدو (یعنی سوارہونے دو)۔ (بیہقی ،السنن الکبریٰ )حضرت عمربن خطاب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسنؓ وحضرت امام حسینؓ کوحضورؐکے کندھوں پر سوار دیکھا تو حسرت بھرے لہجے میں کہاکہ آپؓ کی سواری کتنی اچھی ہے۔تو نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا ’’ ذرا یہ بھی تو دیکھو کہ سوارکتنے اچھے ہیں‘‘ ۔اللہ پاک اپنی رحمت کے صدقے ،نبی رحمتؐ ورنواسۂ رسولؐ کے صدقے ہمارے گناہ معاف فرمائے ۔آمین٭٭٭