دعا کی قبولیت
اسپیشل فیچر
حضرت ابوہریر ہ ؓ سے مروی ہے کہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے ’’ تین شخصوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ۔ (1) ایک روزہ دار کی بوقت افطار ۔ (2) دوسرے عادل بادشاہ کی (3) تیسرے مظلوم کی ۔‘‘ ان تینوں کی دعا اللہ عزوجل بادلوں سے بھی اوپر اٹھالیتا ہے اور آسمان کے دروازے اس کیلئے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ مجھے میری عزت کی قسم ! میں تیر ی ضرور مدد کرونگا۔‘‘ (ابن ماجہ)بعض اوقات دعا کے اظہار میںتاخیر ہوجاتی ہے تو اس پر ہمارے اسلامی بھائیوں کے ذہین میں یہ بات آتی ہے کہ دعا آخر کیوں قبول نہیں ہوئی! جبکہ حدیث پاک میں دعا کی قبولیت کی بشارت آئی ہے۔ رب عزوجل کی مصلحتیںہم نہیں سمجھ سکتے۔دیکھئے! دعائے حضرت موسیٰ ؑ کے 40 برس کے بعد فرعون غرق ہوا اور حضرت یعقوبؑ اپنے فرزند حضرت یوسف ؑکی جدائی میں بے قراری کے ساتھ دعائیں مانگتے رہے یہاں تک کہ رو رو کر بینائی چلی گئی اور 80 برس کے بعد حضرت یوسفؑ سے ملاقات ہوئی۔سرور معصوم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں، دعا بندے کی ، تین باتوں سے خالی نہیں ہوتی (1) یا اس کا گناہ بخشا جاتا ہے۔ یا (2) اسے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ یا (3) اس کیلئے آخرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے کہ جب بندہ آخرت میں اپنی دعائوں کا ثواب دیکھے گا جو دنیامیں مستجاب (یعنی مقبول ) نہ ہوئی تھیں۔ تمناکرے گا، کاش! دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی اور سب یہیں (یعنی آخرت) کے واسطے جمع ہوجاتیں۔ دیکھا آپ نے ؟ دعا رائیگاں توجاتی ہی نہیں۔ اس کا دنیا میں اگر اثر ظاہر نہ بھی ہو تو آخرت میں اجر و ثواب مل ہی جائے گا۔ لہٰذا دعا میں سستی کرنا مناسب نہیں۔ گناہ معاف کرنے والے پروردگار کے پاک نام ’’ یا عفو‘‘ کے پانچ حروف کی نسبت سے دعا کے ذریعے حاصل ہونے والی پانچ سعادتیں ملاحظہ فرمائیے:۔1۔پہلا فائدہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے حکم کی پیروی ہوتی ہے کہ اس کا حکم ہے مجھ سے دعا مانگا کرو۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشا د ہوتا ہے ’’اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔‘‘(ترجمہ کنزالایمان)2۔ دعا مانگنا سنت ہے کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات دعا مانگتے ۔ لہٰذا دعا مانگنے میں اتباع سنت کا بھی شرف حاصل ہوگا۔3۔دعا مانگنے میں اطاعت رسول ؐبھی ہے کہ آپ ؐ دعاکی اپنے غلاموں کو تاکید فرماتے رہتے ۔4۔دعامانگنے والا عابدوں کے زمرے (یعنی گروہ) میں داخل ہوتا ہے کہ دعا بذات خود ایک عبادت بلکہ عبادت کا بھی مغز ہے۔ جیسا کہ ہمارے پیارے آقا ؐ کا فرمان عالیشان ہے’’ دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘ (ترمذی)5۔ دعا مانگنے سے یا تو اس کا گناہ معاف کیا جاتا ہے یا دنیا میں اس کے مسائل حل ہوتے ہیںیا پھر وہ دعا اس کیلئے آخرت کا ذخیرہ بن جاتی ہے۔دیکھا آپ نے ؟ دعا مانگنے میں اللہ رب العزت اور اس کے پیارے حبیب ؐ کی اطاعت ہے ۔ دعا مانگنا سنت ہے، دعا مانگنے سے عبادت کا ثواب ملتا ہے نیز متعدد دنیا و آخرت کے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں ۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ دعاکی قبولیت کیلئے بہت جلدی مچاتے بلکہ باتیں بناتے ہیں کہ ہم تو اتنے عرصے سے دعائیں مانگ رہے ہیں، بزرگوں سے بھی دعا ئیں کرواتے ر ہتے ہیں، کوئی پیر فقیر نہیں چھوڑا یہ وظائف پڑھتے ہیں، مگر اللہ ہماری حاجت پوری کرتا ہی نہیں۔ بلکہ یہ بھی کہتے سنے جاتے ہیں، ’’ نہ جانے کون سا گناہ ہوگیا ہے جس کی ہمیں سزا مل رہی ہے ۔‘‘اس طرح کی بھڑاس نکالنے والوں سے جب دریافت کیا جاتا ہے کہ بھائی ! آپ نماز تو پڑھتے ہوں گے ؟ تو جواب ملتا ہے کہ ’’جی نہیں‘‘۔ دیکھا آپ نے ؟ زبان پر تو بے ساختہ جاری ہورہا ہے ،’’ نہ جانے کیا خطا ہم سے ایسی ہوئی ہے؟ جس کی ہم کو سزا مل رہی ہے !‘‘ اور نماز میں غفلت تو انہیں نظر ہی نہیں آرہی ! غور کرنے پر معلوم ہوگاکہ ہم اس کے کئی احکامات کی بجاآوری میں نہایت ہی کوتاہ واقع ہوئے ہیں ۔ امید ہے بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ خود تو اپنے پروردگار کے احکامات پر عمل نہ کریں اور وہ اگر کسی بات (یعنی دعا) کا اثر ظاہر نہ فرمائے تو شکوہ شکایت لے کر بیٹھ جائیں ۔ دیکھئے نا! آپ اگرا پنے کسی جگری دوست کی کوئی بات بار با ر ٹالتے رہیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ آپ سے دوستی ہی ختم کردے ۔ لیکن اللہ بندوں پر کس قدر مہربان ہے کہ لاکھ اس کے فرمان کی خلاف ورزی کریں۔ پھر بھی وہ اپنے بندوں کی فہرست سے خارج نہیں کرتا۔ وہ لطف وکرم فرماتا ہی رہتا ہے ۔ ذرا غور تو فرمائیں !جو بندے احسان فراموشی کا مظاہرہ کررہے ہیں، اگر وہ بھی بطور سزا اپنے احسانات ان سے رو ک لے تو کیا بنے ؟ اگر وہ اپنی عظیم الشان نعمت ’’ہوا‘‘ جو بالکل مفت عطافرما رکھی ہے اگر چند لمحوں کیلئے روک لے تو ابھی لاشو ں کے انبار لگ جائیں!! بسا اوقات قبولیت دعا میں تاخیر میںکافی مصلحتیں بھی ہوتی ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ حضور سراپا نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان پر سرور ہے’’ جب اللہ کا کوئی پیارا دعا کرتا ہے جبرئیل ؑعرض کرتے ہیں، الٰہی ! تیرا بندہ تجھ سے کچھ مانگتا ہے ۔ حکم ہوتا ہے ٹھہرو! ابھی نہ دو تاکہ پھر مانگے کہ مجھ کو اس کی آواز پسند ہے ۔‘‘ اور جب کوئی کافر یا فاسق دعا کرتا ہے ، تو اللہ فرماتا ہے،’’ اس کا کام جلدی کردو، تاکہ پھر نہ مانگے کہ مجھے اس کی آواز مکروہ (یعنی ناپسند) ہے۔ ‘‘(کنزالعمال)دعا کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ دعا کی قبولیت میں جلدی نہ مانگے، حدیث شریف میں ہے کہ خدائے تعالیٰ تین آدمیوں کی دعا قبول نہیں کرتا۔ ایک وہ کہ گناہ کی دعا مانگے، دوسرا وہ کہ ایسی بات چاہے کہ قطع رحم ہو۔ تیسرا وہ کہ قبولیت میں جلدی کرے کہ میں نے دعا مانگی اب تک قبول نہیں ہوئی۔ ایک حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے کہ ناجائز کام کی دعا نہ مانگی جائے کہ وہ قبول نہیں ہوتی۔ کسی رشتہ دار کا حق ضائع ہوتا ہو ، ایسی دعا بھی نہ مانگیں اور دعا کی قبولیت کی جلدی نہ کریںورنہ دعاقبول نہیں کی جائے گی۔حضرت مولانا نقی علی خان فرماتے ہیں کہ اے عزیز! تیر ا پرودگار فرماتا ہے، (ترجمہ کنزالایمان’’ دعا قبول کرتا ہوں ، پکارنے والے کی جب مجھے پکارے۔‘‘ (پ۲ سورۃ البقرہ آیت ۶۸۱)(ترجمہ :کنزالایمان)’’ہم کیا اچھے قبول کرنے والے ہیں۔‘‘(پ ۲۳ سورۃ الصافات آیت ۷۵)(ترجمہ :کنزالایمان)’’مجھ سے دعامانگو میں قبول کروں گا۔‘‘(سورہ غافر آیت 60)’’پس یقین سمجھ کہ وہ تجھے اپنے در سے محروم نہیں کرے گا اور اپنے وعدے کو وفا فرمائے گا، وہ اپنے حبیبؐ سے فرماتا ہے۔(ترجمہ: کنزالایمان)’’اور منگتا کو نہ جھڑکو ۔‘‘( پ ۳۰ سورۃ الضحیٰ آیت ۱۰)اللہ ہم سب کی دعائیں قبول فرمائے ۔ آمین