لڑکیوں کو بااعتماد اور باشعور کرنے میں گرل گائیڈ کا اہم کردار ہے
اسپیشل فیچر
گرل گائیڈ کے بارے میں کون نہیں جانتا،ہمارے اسکولز اور کالجز میں لڑکیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر تربیت کے لئے ایسے معتبر ادارے کی خدمات سے انکار ممکن نہیں ہے۔گرچہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہمیں اس ادارے کی سرگرمیوں میں کمی نظر آتی ہے لیکن پھر بھی یہ ادارہ اپنے وجود کو مضبوط بنانے کے لئے سرگرمِ عمل ہے۔حال ہی میں ہم نے دنیا کے قارئین کے لئے گرل گائیڈ کی پروگرام کوارڈینیٹر ثناء خواجہ سے ایک ملاقات کی۔جس میں گرل گائیڈ کے موجودہ رول اور مستقبل کے بارے میں بات چیت کی گئی۔دنیا:گرل گائیڈ کے جس پروگرام کو آپ کوارڈینیٹ کر رہی ہیں،اس کے بارے میں بتائیں؟ثناء خواجہ:پنجاب چیپٹر کے زیر تحت خانیوال اور وہاڑی میں ہم نے لڑکیوں کی تولیدی صحت (Reproductive health)کے حوالے سے ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے جس کا اصل مقصد لڑکیوں میں ان کی صحت کے حوالے سے شعور پیدا کرنا ہے۔یہ اسکول اور کالج جانے والی بچیوں کے لئے ایک تربیتی پروگرام ہے،اس میں ہم 9سے19سال کی بچیوں کے لئے ایسے پروگرام اور سیمینار ترتیب دے رہے ہیں جو اپنے اور اپنی صحت کے بارے میں بہت سی کنفیوژنز کا شکار ہیں،جس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ بچیوں تک پوری معلومات مثبت ذرائع سے پہنچیں۔ اس پراجیکٹ کی انچارج میں ہوں۔اس پرو گرام کے ذریعے لڑکیوں میں ان کی ذات کے حوالے سے شعور پیدا کیا جا رہا ہے۔ہمارا بہت اہم مسئلہ یہ ہے کہ والدین اور خصوصاً مائیں بچیوں سے ان کے بیالوجیکل معاملات پر بات نہیں کرتیں،بچیاں بھی اپنے مسائل ڈسکس کرتے ہوئے ہچکچاتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جاتا ہے جس سے بچیوں کی نفسیا ت متاثر ہوتی ہے اور وہ عملی زندگی میں اس اعتماد کے ساتھ شامل نہیں ہو پاتیںجیسا کہ ہونا چاہئے اور ہم یہ کہہ کر اپنی جان چھڑوالیتے ہیں کہ لڑکیاں کم عقل ہوتی ہیں اور عملی زندگی کے لئے بنی ہی نہیں ہیں۔کہ اگر لڑکیوں کو بھی لڑکوں کے برابر مواقع دئیے جائیں تو وہ بھی اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو منوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔دنیا:کچھ سال پہلے تک ہم گرل گائیڈ کی سرگرمیوں اور پروگراموں کے بارے میں بہت سنا کرتے تھے کیا آپ نہیں سمجھتیں کہ اب یہ سلسلہ کم ہوگیا ہے؟ ثنا ء خواجہ :گرل گائیڈ پروگرام پنجاب کے ہی 36 اضلاع میں سے34اضلاع میں کام کررہا ہے۔دوسرے صوبوں مثلاًبلوچستان ،سرحد اورسندھ میں بھی ہمارے دفاتر بہت متحرک ہیں۔پاکستان سے باہر بھی اس کے مختلف جگہوں پر دفاتر ہیں جہاں ہماری لڑکیاں باوقار اور ر اعتماد انداز میں ادارے اور ملک کے لئے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔کچھ مینج منٹ کے مسائل کی وجہ سے شاید ایسا تاثر گیا ہے،لیکن ہم لوگ ماشاء اللہ بہت سے پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔دنیا:آپ کے نزدیک ز ندگی گزارنے کی مہارتیں کیا ہوتی ہیں،جن کی تربیت گرل گائیڈ جیسے ادارے دے سکتے ہیں یا دے رہے ہیں؟ ثناء خواجہ :گرل گائیڈ اپنی طرز کا منفرد ادارہ ہے جو لڑکیوں کی ذہنی تربیت کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔زندگی گزارنے کی مہارتیں شخصی اور سماجی ہیں جو نو عمر لڑکیوںکو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ روزمرہ کی زندگی کے تقاضوں اور مسائل سے موثر طور پر نمٹ سکیں،اپنی صحت سے درپیش مسائل کا حل مثبت طریقے سے تلاش کرسکیں،شخصی اور سماجی ترقی کو فروغ دے سکیں،انسانی حقوق اور صنفی تعلقات میں توازن کو سمجھ سکیں۔نوعمر بچیوں کو صحت مند زندگی گزارنے کے لئے مہارتوں کی اشد ضرورت پیش آتی ہے۔فیصلہ کرنے کی قوت ہمیں زندگی کے بارے میں تعمیری کردار ادا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جب انسان اپنی خوشحالی اور صحت کے بارے میں مختلف مواقع کا تعین کرکے اس بارے میں فیصلے کرے تو اس کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں۔اسی طرح مسائل کا فوری اور موثر حل زندگی میں درپیش مسائل کو حل کرنے کی تعمیری قوت فراہم کرتا ہے ۔ خاص طور پرایسے مسائل جو حل کیے بغیر رہ جائیں تواس سے ذہنی دبائو میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ جسمانی مسائل کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔تخلیقی سوچ ایک ایسی صلاحیت ہے جس سے انسان معلومات کا تجزیہ کرتا ہے اور عمل کے خاص مقصد کیلئے تجربہ کرتا ہے،اسی طرح تنقیدی سو چ کی صلاحیت سے ہم ان امور کا بغورجائزہ لے سکتے ہیں جس کا تعلق براہ راست رویوں سے ہوتا ہے اور یہ صلاحیت ہمیں کسی بھی کام کے متعلق فائدے اور نقصان سے آگاہ کرتی ہے۔باہمی تعلقات کی مہارت ہمیں لوگوں کے ساتھ مثبت تعلق بنانے میں اور لوگوں کے ساتھ دوستانہ ماحول میں تعلقات استوارکرنے میں مدد دیتی ہے جس سے ہمیں ذہنی آسودگی اور لوگوں سے دوستانہ میل جول رکھنے میں مدد ملتی ہے۔اس سب سے اہم خودآگاہی کی صلاحیت ہے، اس کی مدد سے ہمیں اپنے آپ کوجاننے، اپنے کردار کو جاننے، اپنی طاقت کے بارے میں کمزور خواہشات اور پسند اور ناپسند کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اس خودشناسی کی صلاحیت کی وجہ سے ہی ہم مشکلات اور تکالیف کا پتہ لگا سکتے ہیں، ان کا مداوا بھی کرسکتے ہیں۔ اس صلاحیت کی وجہ سے ہم دوسری صلاحیتوں مثلاً موثر فیصلہ کرنے کی قوت، دوسروں سے تعلقات استوار اور دوسروں کیلئے احساس کرنے کی صلاحیت جیسی عادات اپنا سکتے ہیں۔شخصی ہمدردی جیسی صلاحیت، رکھنے کی وجہ سے ہم دوسروں کے لئے سوچتے ہیں کہ وہ کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ صلاحیت ہم میں اپنے سے مختلف لوگوں کو اپنانے اور مصیبت میں مبتلا لوگوں کی مددکرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔جذباتی رویوں کا مقابلہ پرکرنے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے ہم اپنے اور دوسروں کے جذبات کو جانچتے ہیں جن کا براہ راست تعلق رویوں سے ہوتا ہے اس صلاحیت کی وجہ سے ہم ان جذبات سے مثبت اور درست طریقے سے مقابلے کرتے ہیں ، مثلاً غصہ اور اداسی جن کے ہماری صحت پرمنفی اثرات ہوتے ہیں۔ بہتر زندگی گزارنے کی یہ موثر مہارتیں ہیں اس پر قابو پا نے سے ہم دوسری تمام مہارتوں کو بھی اپنا سکتے ہیں۔گرل گائیڈ ایسا منفرد ادارہ ہے،جو اپنے بارے میں یہ سب بتائے یا نہ، اس کے ہونے کی وجہ یہی عوامل ہیں کہ وہ لڑکیوں کی شخصیت میں ان خوبیوں کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔دنیا:کیا آپ لوگ صرف سرکاری سکول اور کالجز میں اپنی گائیڈزتعینات کرتے ہیں یا پرائیویٹ اداروں میں بھی گرل گائیڈ کام کر رہی ہے؟ثناء خواجہ:ہم چوں کہ نیم سرکاری ادارہ ہیں اس لئے سرکاری اداروں میں تو کام کر ہی رہے ہیں لیکن اگر پرائیویٹ ادارے ریکوئسٹ کریں تو ہم ان کے لئے بھی اپنی گائیڈز کی خدمات پہنچاتے ہیں۔جیسے ایس او ایس ویلجز میں بھی ہماری گائیڈز لڑکیوں کی تربیت کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔دنیا:لڑکیوں کی تو لیدی صحت کے حوالے آپ ضلعی لیول پر تربیتی پروگرام کر رہے ہیں ،اس بارے میں بتائیںکہ آپ چھوٹی عمر کی لڑکیوں کی شادی رکوانے کے لئے بھی کوئی شعوری پروگرام کررہے ہیں؟دنیا: پاکستان میں بچوں کی شادی کی ممانعت کے قانون مجریہ 1929 کے مطابق 16 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی قانوناً جرم ہے اور ایسی کسی شادی کو منعقد کروانے والوں کو قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ یہاںتک کہ نابالغ لڑکی یا لڑکا بلوغت کی عمر تک پہنچ کر اس شادی کو ختم بھی کرسکتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج بھی بدقسمتی سے پاکستان میں بعض علاقوں میں سولہ سال سے پہلے کی گئی شادی کا رواج عام ہے۔ جس کی وجہ سے کم عمر لڑکیوں کو بہت سے نفسیاتی، معاشرتی، جسمانی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ہم اس بارے میں بچیوں کے والدین سے بھی رابطہ کرتے ہیں اور خصوصاًمائوں کو آگاہی دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔دنیا:آپ کیا سمجھتی ہیںوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گرل گائیڈ کے ادارے کی اہمیت کم ہوگی یا زیادہ؟ثناء خواجہ:گرل گائیڈ ایک ادارہ ہے۔ہمیں ایسے بہت سے اداروں کی ضرورت ہے،تاکہ ہماری نوجوان بچیاں اپنے شعوری مراحل اعتماد کے ساتھ حاصل کریں،آج کے دور میں بچوں سے کوئی انفارمیشن چھپائی نہیں جا سکتی،لیکن بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو خود اچھائی اوربرائی کا فرق بتائیںتاکہ وہ سیکھی یا سنی ہوئی باتوں سے منفی اثر نہ لیں۔ہم جن بچیوں کی ٹریننگ کرتے ہیں، ان کی شخصیت میں دوسری بچیوں کی نسبت واضح فرق نظر آتا ہے۔دنیا:گرل گائیڈ کی سرگرمیوں میں کمی کیوں نظر آتی ہے؟ثنا خواجہ:اس کی وجہ ملک میں سکیورٹی کے مسائل ہیں،پہلے جب کوئی دوسرے ملک سے حکمران آتے تھے یا گورنر ہائوس میں پروگرام ہوتے تھے ان میں ہماری بچیاں بہت متحر ک کردار ادا کرتی تھیں،لیکن اب جس قسم کے حالات کا ملک کو سامنا ہے،وہاں ہم خود ہی بچیوں کو زیادہ فعال ہونے کی اجازت نہیں دیتے ،خدا ہمارے ملک کے حالات بہتر کرے اور یہاں امن ہو تاکہ ہمارے بچے اور بچیاں مثبت سرگرمیوں کے ذریعے ملک کا نام روشن کر سکیں۔٭…٭…٭