مکڑی : قدرت کی اُعجوبہ تخلیق!!!
اسپیشل فیچر
نبی کریمﷺ نے ہجرت مدینہ سے قبل تین دن غارِ حرا میں قیام فرمایا تھا۔ جب کفارِ مکہ آپﷺ کو تلاش کرتے غار تک پہنچے،تو اللہ کے حکم سے مکڑیاں اس کے دہانے پر جالا بُن چکی تھیں۔ کفارِ مکہ یہ سوچ کر چلے گئے کہ اس غار میں کون آیا ہو گا؟ یوں اللہ تعالیٰ نے مکڑیوں کے ذریعے نبی کریمﷺ کو دشمنوں سے محفوظ رکھا۔٭٭مکڑیوں کا ذکر آتے ہی کچھ لوگوں کے دلوں پر خوف اور ناپسندیدگی کے تاثرات چھا جاتے ہیں اور بعض تو اس قدر خوفزدہ ہوتے ہیںکہ وہ ایک خاص نام کے ڈر’’آرانو فوبیا‘‘ (Arachnophobia) میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اس ڈر میں مبتلا افراد کو مکڑیوں سے بے انتہا خوف محسوس ہوتا ہے۔کچھ لوگ تو مکڑی کے جالے یا مکڑی دیکھتے ہی چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ان کے دلوں کی دھڑکنیں تیز اور جسم پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے۔محقق اس ڈر کی وجہ تلاش کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔ صنفِ نازک (خواتین) میں اس کی شرح مردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 50فیصد خواتین اور 10فیصد مرد اس خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔٭٭حقیقت یہ ہے کہ مکڑیوں کی زیادہ تر اقسام انسانوں کے لیے غیر مضر اورغیر زہریلی ہوتی ہیں بلکہ انسان کو مکڑیوں کی وجہ سے اکثر و بیشتر فائدہ ہی ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی کثیر آبادی کا انحصار زرعی اجناس پر ہے۔ بہت سے کیڑے مکوڑے ان قیمتی فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر یہ نقصان حد سے بڑھ جائے تو ساری دنیا قحط سالی کا شکار ہو سکتی ہے، مگر فصلوں اور ان کے قرب و جوار میں پائی جانے والی انواع و اقسام کی مکڑیاں ان فصل دشمن اور انسان دشمن کیڑوں کو اپنی خوراک بناتی ہیں۔سب سے بڑھ کر اہم بات یہ کہ مکڑیاں فصلوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتیںکیونکہ وہ پودوں کے پتے یا زرعی اجناس بالکل نہیں کھاتیں۔مکڑی کی غذا میں صرف مختلف انواع کے کیڑے مکوڑے شامل ہیں۔ اس لحاظ سے مکڑی انسان کی دوست ہے۔ویسے بھی کیڑے مار ادویہ کے استعمال کا رجحان اب پرانا ہو گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کیڑے مار ادویہ کا استعمال کم کرنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ ان ادویہ کی جگہ دوسرے ماحول دوست طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں، جن میں سے ’’حیاتیاتی کنٹرول‘‘) Control (Biological مؤثر اور ماحول دوست ذریعہ ہے۔ اس طریقہ کار میں ایسے جانداروں کو استعمال کیا جاتا ہے جو نقصان دہ کیڑے مکوڑوں کا خاتمہ کر سکیں۔چین میں کسان عرصہ دراز سے مکڑیوں کو ’’حیاتیاتی کنٹرول‘‘ کے مؤثر ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کرتے آئے ہیں۔ مکڑیوں کی آبادی بڑھانے اور انہیں پناہ گاہ اور مسکن فراہم کرنے کے لیے کھیتوں کے کناروں پر گھاس پھونس کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں لگا دی جاتی ہیں۔ اِن میں مکڑیاں افزائش پاتی ہیں۔ جب چاول کی فصل میں پانی زیادہ ہو،تو ان پناہ گاہوں میں مکڑیاں آرام کرتی ہیں۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف کیڑے مار ادویہ پر خرچ ہونے والا کثیر زرِ مبادلہ بچتا ہے بلکہ اِن کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کیڑے مار ادویہ کے انسانی صحت، جنگلی حیات اور ماحول پر انتہائی تباہ کن اثرات پڑتے ہیں۔ارض ِپاکستان کوجہاں اللہ تعالیٰ نے زرخیز زمینوں اور زرعی اجناس سے مالا مال کیاہے، وہیں انواع و اقسام کی مکڑیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ وہ انسان اور فصل دشمن کیڑوں کی آبادی قابو میں رکھنے میںاہم کردار ادا کرتی ہیں۔گھروں میں پائی جانے والی مکڑیاں مکھیوں اور مچھروں کواپنا شکار بناتی ہیں۔ مکھی ایک ایسا جاندار ہے جس کے خلاف ساری کیڑے مار ادویہ تقریباً ناکام ہو چکی ہیں۔ یہ کیڑے بہت جلد ان ادویہ کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کر لیتے ہیں، سو وہ اِن پر اثر نہیں کرتیں۔ مکڑی کے جالوں میں مچھر بھی پھنس جاتے ہیں۔ یوں مکھی اور مچھر جیسے موذی کیڑوں سے نجات دلا کر مکڑیاںانسانی آبادی کو بیماریوں سے بچانے میںاہم کردار ادا کرتی ہیں۔کچھ ممالک میں تو مکڑیاں باقاعدہ خوراک کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ تارنتولا (Tarantola) نامی مکڑی سائز میں ایک فٹ تک بڑی ہوتی ہے۔ اس کی کچھ اقسام ایک فٹ سے بھی بڑی ہو سکتی ہیں۔ یہ مکڑی لاطینی امریکا کے ممالک میں کھائی جاتی ہے۔برازیل میں تلی ہوئی تارنتْولا مکڑیاں تھال میں لیے فروخت کرنے والے عام گھوم رہے ہوتے ہیں۔ انھیں وہاں کے لوگ مزے لے لے کر چٹ کر جاتے ہیں۔مغرب اور ایشیا کے کچھ لوگوں کو تو مکڑیوں سے اس قدرپیار ہے کہ وہ انھیں پالتو جانوروں کی طرح پالتے ہیں۔ جاپان میں یہ شوق عام ہے۔ جاپانی چھوٹے چھوٹے اپارٹمنٹس میں رہتے ہیں جن میں کتے، بلی جیسے جانور پالنا بہت مشکل ہے۔ اسی لیے اکثر جاپانیوں نے تارنتولا مکڑیاں پال رکھی ہیں۔ ان مکڑیوں کی عمر 25 سال اور کچھ کی اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ اچھا پالتو جانور ثابت ہوتی ہیں۔جاپان ہی میں دنیا کا سب سے بڑا مکڑیوں کا تہوار منایا جاتا ہے۔ ایک جاپانی قصبے میں جس کا نام ’’کاجیکی‘‘ ہے، ہر سال مکڑیوں کی لڑائی کرانے کا مقابلہ منعقد ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں دیہات اور قصبوں میں مرغوں اور بٹیروں کی لڑائی کرائی جاتی ہے۔ لیکن جاپان کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہاں لڑنے والی مکڑیوں کا سائز بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ یہ مقابلے صدیوں پرانے ہیں اور تقریباً چھے صدیوں سے ہر سال جاپان کے اس قصبے میں ہو رہے ہیں۔ ان مکڑیوں کو ’’سامورائی‘‘ کہا جاتا ہے۔جاپانی سارا سال ان سامورائی مکڑیوں کی بہت دیکھ بھال کرتے ہیں تاکہ وہ مقابلے کے لیے تیار ہو سکیں۔ یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہوتا ہے جسے دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ مقابلے میں باقاعدہ ایک ریفری ہوتا ہے جو مکڑیوں کی لڑائی کا معائنہ کرتا اورانھیں نمبر دیتا ہے۔ اس بات کاخاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی مکڑی کو تکلیف نہ پہنچے۔ اگر کوئی مکڑی اپنے مخالف کی جان کے درپے ہو جائے تو مقابلہ ختم کر دیا جاتا ہے۔مقابلے کے لیے بہترین سائز کی مکڑیوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ اِن کی اگلی ٹانگوں کی لمبائی کو خاص دھیان میں رکھا جاتا ہے۔ جس مکڑی کا سائز بڑا ہو اور اگلی ٹانگیں بڑی ہو ں‘ اس کی جیت کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ مقابلے کے بعد جیتنے والی مکڑی کے تربیت کار کو انعام ملتا ہے۔ جاپانی اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ مقابلے کے دوران کسی مکڑی کو تکلیف نہ پہنچے۔ مقابلے کے بعد وہ مکڑی کو آزاد کر دیتے ہیں۔عموماً یہ جگہ چاولوںکے کھیت ہوتے ہیں۔جاپان میں لوگ مکڑیوں کی بہت قدر کرتے ہیں۔ آپ کو ہر جگہ مکڑیوں کو چاہنے والے مل جائیں گے۔ ’’پیٹریا واٹا‘‘ کی مثال ہی لے لیجیے۔ پیٹریا واٹا ٹوکیو میں ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں پچاس مکڑیوں اور اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔پاکستان میں بھی یہ خاص قسم کی مکڑیاں جنھیں جاپانی ’’سامورائی سپائڈر ‘‘ کہتے ہیں‘ پائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی مکڑیوں کو پسند کرنے والوں کی کمی نہیں۔یہاں یونیورسٹیوں میں مکڑیوں پر تدریس و تحقیق جاری ہے۔اب کچھ بات زہریلی مکڑیوں کی ہو جائے۔ ’’سڈنی‘ آسٹریلیا کی فنل ویب مکڑی‘‘ Sydney funnel web spider کا شمار زہر یلی ترین مکڑیوں میں ہوتا ہے۔ اگر اس کے ڈسے کا علاج نہ کیا جائے تو پندرہ منٹ میں انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔برازیل کی ’’آوارہ گرد مکڑی‘‘ spider) (Wanderingبھی زہریلے پن میں کسی سے کم نہیں۔ اسے وانڈرنگ سپائیڈر اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ جالا نہیں بنتی اور ایک سے دوسری جگہ گھومتی رہتی ہے۔ 2010ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈزمیں اس مکڑی کو دنیا کی سب سے زہریلی مکڑی قرار دیا گیا۔’’سیاہ بیوہ‘‘ (Black widow) بھی قدرے زہریلی مکڑی ہے۔ یہ اپنے ہی نر (خاوند) کو کھا جاتی ہے۔ اسی لیے اس مکڑی کو بیوہ (widow)کہا جاتا ہے۔ویسے تو مکڑیاںصرف کیڑے مکوڑے کھاتی ہیں،لیکن بڑے سائز کی مکڑیاں نہ صرف چوہے اور سانپ تک کھاتی بلکہ موقع ملنے پر پرندوں تک کو ہڑپ کر جاتی ہیں۔پاکستانی قارئین کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ خوفناک مکڑیاںکم ہی پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ تارتولا اور سڈنی فنل ویب پاکستان میں نہیں پائی جاتیں، جہاں تک سیاہ بیوہ کی بات ہے۔کچھ ماہرین حشرات نے اس مکڑی کی پاکستان میں موجودگی کا امکان ظاہر کیا ہے، لیکن حکومت پاکستان کو ان مکڑیوں کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔پاکستانی مکڑیوں کی کثیرتعداد انسان اور فصل دوست ہے۔ یہ موذی کیڑے کھا کر ہمیں بیماریوں سے محفوظ اور ہماری قیمتی فصلوں کو تباہی سے بچاتی ہیں۔ مکڑیاں ایک ایسا اُعجوبہ جاندار ہیں جو قدرت خداوندی کا حسین تحفہ ہیں۔ انھیں اللہ نے انسان کی مدد اور آزمائش کے لیے تخلیق کیا۔کچھ مکڑیاں تو اتنی رنگین اور خوبصورت ہوتی ہیں کہ پتھر سے پتھر دل انسان بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہیںرہ سکتا۔ ایسی ہی ایک مکڑی مور مکڑی Spider) (Peacock ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ جیسے مور اپنے پنکھ پھیلا کر دلفریب اور حسین رنگ بکھیرتا ہے، ویسے ہی یہ مکڑی اپنی پیٹھ کے ایک خاص حصے کو پھیلا کر مور کی طرح اپنے حسین و جمیل رنگ پھیلا دیتی ہے۔ اس مکڑ ی کا ناچ بھی دیکھنے والا ہوتا ہے۔مکڑی کو اللہ تعالیٰ نے ایک حیرت انگیز خوبی سے نوازا ہے، وہ ہے اس کی ریشم (Silk) پیدا کرنے کی صلاحیت۔ مکڑی کی ریشم مختلف اقسام کی ہوتی ہے۔ ’’کیلامکڑی‘‘( spider (Banana کی ریشم تو اس قدر مضبوط ہے کہ سٹیل کی مضبوطی اس کے مقابلے میں کم سمجھی جاتی ہے۔ اسی خاصیت کی بنیاد پر سائنسدان اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ مکڑی کے ریشم سے انسانی بلٹ پروف لباس تیار کیا جائے۔ یہ ریشم اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ گولی کو بھی روک سکتا ہے۔ اگر اسے مصنوعی پیمانے پر تیار کر کے حفاظتی لباس بنا لیا جائے تو پولیس کو اسلحہ بردار مجرموں سے نمٹنے میں آسانی رہے گی۔مکڑیوںمیں مادہ کا سائز عموماً نر کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتاہے۔ اسی لیے وہ اکثر مادہ کی خوراک بن جاتا ہے۔ مکڑیوں کی دنیا میںنر کی حیثیت بہت ہی مسکین اور یتیم جیسی ہے۔ پہلے وہ مادہ کے ناز و نخرے اٹھاتا اور جان ہتھیلی پر رکھ کر اس کے پاس جاتا ہے۔ بعد میںاسے اپنی ہی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر وہ مادہ کے پاس سے بھاگتا ہے۔ریشم کے کیڑے کی طرح مکڑی سے بھی ریشم حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ وجہ یہ ہے کہ مکڑیاں بڑی تعداد میں اکٹھی نہیںرہ سکتیں۔ ایسی صورت میں یہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا اور اپنی ہی نسل کو کھانا شروع کردیتی ہیں جبکہ ریشم کے کیڑے ہزاروں کی تعداد میں بڑے مزے سے اکٹھے رہتے ہیں۔مکڑی کی بیشتر اقسام ماحول دوست جاندار ہیں۔ پاکستانی مکڑیوں پر جاری تدریس و تحقیق کو بین الاقوامی معیار کا بنا کر ہم کیڑے مار ادویہ پر خرچ اور ضائع ہونے والے قیمتی سرمائے کو بچا سکتے ہیں۔ یہ بات قابل قدر اور لائقِ تحسین ہے کہ پاکستانی درس گاہوں میں قدرت کے اس عظیم شاہکار پر تحقیق ہو رہی ہے۔ ایسا ہی ایک نام پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ حیوانیات کی پروفیسر میڈم عابدہ بٹ کا ہے جو عرصہ دراز سے اپنے طالب علموں کو اس اہم جاندار پر تحقیق کرا رہی ہیں۔ مگر اس وسیع ، اہم اور انتہائی ضروری میدان میں ابھی بھی تحقیق و تدریس کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔٭…٭…٭