جہاد کی فضیلت و اہمیت
اسپیشل فیچر
’’ مومن وہی ہیں جو اللہ اور رسول پاکؐ پر ایمان لائے پھر اس میں شک نہیں کیا اور اپنے مال اور جان سے خدا کے راستے میں جہاد کیا یہ سچے اترنے والے ہیں۔‘‘( القرآن)***************اسلامی ریاست کی سرحدوں کو کفار کی یلغار سے محفوظ رکھنے اور باطل قوتوں کا قلع قمع کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا اور دشمن کی جارجیت کو روکنے کیلئے اپنا تن ،من دھن سب کچھ قربان کر دینا جہاد کہلاتا ہے۔ جب اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کو ستانے اور کلمتہ الحق کو دبانے اور اسلامی ریاست کی حدود کو مٹانے کیلئے اپنے مادی وسائل کو میدان کارزار میں جھونک دیں تو پھر تمام مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ اس فتنے کے انسداد کیلئے اپنے اپنے ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے دشمن کے مقابلے کیلئے تیار ہو جائیں اور اپنی اس مذہبی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کیلئے اپنی جان و مال اولاد اور عزیز و اقارب کی زندگیوں کی بھی پرواہ نہ کریں اور دشمن سے ٹکرا جائیں۔ ان حالات میں جہاد ایمان کی علامت قرار پاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے’’ مومن وہی ہیں جو اللہ اور رسول پاکؐ پر ایمان لائے پھر اس میں شک نہیں کیا اور اپنے مال اور جان سے خدا کے راستے میں جہاد کیا یہ سچے اترنے والے ہیں۔‘‘( القرآن) مسلمانوں کی کوئی جنگ بھی بے مقصد نہیں ہوتی وہ بلاوجہ کسی کا خون نہیں بہاتے۔ کسی شہر،بستی،قصبے اور آبادی کو ویران نہیں کرتے بلکہ ان کا مقصد محض اعلائے کلمتہ الحق اور اسلامی قدروں کا تحفظ ہوتا ہے ۔وہ قومیں جنہیں جنگی جنون ہوتا ہے انہیں راہ راست پر لانے کیلئے مسلمان ضرورت کے وقت جہاد کی راہ اپناتے ہیں۔ اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمان سپہ سالار اسلامی عساکر کو جب بھی دشمن کے مقابلے کیلئے بھیجتے تو ہر فوجی کو بھرپور تاکید کی جاتی تھی کہ وہ اس وقت تک دشمن سے بر سرپیکار رہیں جب تک دشمن خونریزی ،فساد اور غارت گری کے درپے ہو اور ہر مسلمان مجاہد پر لازم ہے وہ دشمن سے لڑتے وقت حدود خداوندی پر قائم رہے عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو تہہ تیغ نہ کرے، پھلدار اور سایہ دار درختوں کو نہ کاٹے، جو ہتھیار پھینک دے اس پر تلوار نہ چلائے، آبادیوں کو برباد نہ کرے بلکہ راہ جہاد میں اٹھنے والا مسلمان کا ہر قدم صرف اور صرف رضا الہٰی کے حصول کیلئے ہو،اس میں کسی قسم کی ذاتی غرض کا شائبہ تک نہ ہو۔ ایک مرتبہ کسی شخض نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں عرض کیا اے کریم آقاؐ!جہاد سے مراد کیا ہے؟ بعض اوقات کوئی شخص مال کیلئے لڑتا ہے، کوئی بہادری کی داد لینے کیلئے میدان جنگ میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتا ہے کوئی کسی عداوت یا قومی حمیت کی خاطر لڑتا ہے۔ اللہ کے محبوب نبی کریم ؐنے فرمایا ’’ان میں سے کسی کی جنگ بھی جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ جنگ جہاد قرار پاتی ہے جو قوانین الٰہیہ کی حاکمیت قائم کرنے کیلئے کی جائے۔‘‘سرکار دوعالم ؐکے ارشاد گرامی سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ہر طرح کی ذاتی اغراض سے بالاتر ہو کر صرف نیکی اور بھلائی کی قوتوں کو پروان چڑھانے کیلئے کفار کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ بلاشبہ مسلمان مجاہد کا ہر قدم خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے ،اس پر اللہ کی رحمتوں کا سایہ ہوتا ہے جبکہ لادینی قوتیں شیطان کے زیر اثر میدان جنگ میں اترتی ہیں اور ان کا مقصد محض فتنہ و فساد برپا کر کے دنیا کا امن و سلامتی تباہ و برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’وہ لوگ جو ایمان لائے خدا کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں (النساء 77)مسلمان مجاہد کو دشمن سے بر سر پیکار ہوتے وقت ثابت قدم رہنے کی بھرپور تاکید کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’اے ایمان والو!جب تم کسی گروہ سے ٹکراجائو تو ثابت قدم رہو (انفال45) کیونکہ دشمن کے مقابلے میں کسی قسم کی کمزوری کا اظہار اس کے فاسد ارادوں کی تقویت کا باعث بنے گا اسی لئے ایک اور مقام پر قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ’’ اے ایمان والو!ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں اور وہ تمہارے اندر سختی پائیں اور جان لو کہ بے شک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے (توبہ 123)اس آیت مقدسہ میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ کفار کا مقابلہ کرتے وقت انہیں یہ محسوس نہ ہونے دیں کہ تمہارے اندر کوئی کمزوری پائی جاری ہے بلکہ تمہارے انداز جنگ سے کفار کو یہ احساس ہو کہ مسلمان مجاہدین بہت سختی پر اترے ہوئے ہیں اور ان کا یہ جذبہ جہاد نیست و نابود کر دے گا ۔ میدان جنگ میں شدت کے اظہار کو بھی معیار تقویٰ قرار دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو جلا بخشنے اور ان کو طاقتور دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ عطا کرنے کیلئے انہیں خوشخبری سناتے ہوئے اللہ ارشادفرماتا ہے’’ اے نبی! ترغیب دیجئے مومنین کو جنگ کی اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گے تو وہ ایک ہزار پر غالب آجائیں گے اس لئے کہ وہ (کفار)بے عقل لوگ ہیں۔‘‘ (انفال 75) حقیقت تو یہ ہے کہ جب کسی شخص کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ میری جنگ کسی دنیوی غرض و غایت کیلئے نہیں بلکہ پیش نظر اللہ ورسولؐ کی رضا کا حصول ہے، میں راہ خدا میں اپنی گردن کٹا کر ابدی زندگی سے ہمکنار ہو جائوں گا، آج دشمن کے مقابلے میں جن تکلیف دہ لمحات کا شکار ہوں وہ سب عارضی ہیں جبکہ اللہ مجھے اس کے بدلے میں دائمی مسرتوں سے مالا مال فرمائیگا ،جام شہادت نوش کرنے کے بعد جنت کی بے شمار نعمتوں سے مجھے نوازا جائے گا ۔جب اس سوچ سے مجاہدین اسلام کے اذہان چمک اٹھتے ہیں تو میدان کارزار میں ان کے اندر ایک ولولہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ طاقتور سے طاقتور دشمن کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور بھرپور حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور دشمن کی صفوں میں گھس کر انہیں تہس نہس کر دیتے ہیں۔ اس لئے اسلامی ریاست کے حکمرانوں سے لے کر وہاں کے عوام تک کی یہ مذہبی ذمہ داری ہو جاتی ہے کہ وہ جذبہ جہاد کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ رکھیں اور دشمن کی یلغار کو روکنے کیلئے ہر لمحہ جنگی سازوسامان بھی تیار کرتے رہیں۔ اللہ ہمیں اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق اپنے حبیب پاک ؐکے وسیلہ سے عطا فرمائے اور ملک پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت فرماکر اسے گہوارہ امن وآشتی بنائے۔ آمین ٭…٭…٭