ذکر ڈاکٹر وزیرآغا کا ...
اسپیشل فیچر
اُردوکے ممتاز شاعر، ادیب ،نقاد اور دانشور ڈاکٹروزیر آغانے چار برس قبل8ستمبر2010ء کو ہم سے دائمی ترک ِرفاقت کی اور زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت ِسفر باندھ لیا، تاہم اپنی تحریروں اور تخلیقات کی شکل میں وہ آج بھی ہمارے دلوں میں موجود ہیں۔ وزیرآغا نے شاعری کی ابتدا نصرت آرا نصرتؔ کے نام سے کی۔ اُنھوں نے جدید انشائیہ، امتزاجی تنقید کی شعریات کو متعارف کرایا۔ اُنھیں سویڈن کی نوبیل ایوارڈ کمیٹی میں لیکچر دینے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ ڈاکٹر وزیر آغا18 مئی 1922ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئے ۔اُنھوں نے1943ء میں گورنمنٹ کالج سے معاشیات میں ایم اے کیا۔1956ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے اُردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔1960ء میں مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی جریدہ ’’ادبی دُنیا‘‘ کے جائنٹ ایڈیٹربنے اور مولانا کی وفات تک اس جریدے کے ساتھ منسلک رہے۔ آغا صاحب کی ابتدائی نظمیں1948ء میں جب مولانا صلاح الدین کے ادبی مجلے ’’ ادبی دُنیا ‘‘ میں شائع ہوئیں،تو ممتاز ادیبوں نے اُنھیں بہت سراہا اور اُن کے کلام کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ اُن کی نظم نگاری سے اُردو نظم کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔اُن کی بات دل سے نکلتی اور سیدھی دل میں اُتر جاتی ہے۔وزیر آغا کا اُسلوب اُن کی ذات ہے۔جدید نظم کے سلسلہ میں تو اُن کا کام اتنا اہم ہے کہ اُن کے مقام کا تعین کرنے کے لیے جدید نظم کے پورے سلسلے کا از سرِنَو مطالعہ کرنا پڑے گا۔اُن کی دو طویل نظمیں ’’آدھی صدی کے بعد‘‘ اور’’اک کتھا انوکھی‘‘اُردو کی شاہکارجدید نظمیں ہیں۔وزیر آغا کی ایک نظم ملاحظہ کریں:ٹین کی چھت پر اپنے اُجلے پر پھیلا تھاآنے والی سرخ رتوں کے بھاگوں میں جب کھو جائے گاسب آوازیں تھم جائیں گیپلکیں تھک کر سو جائیں گیگئے دنوں کا نام منوں مٹی کے نیچے دب جائے گاسب آوازیں تھم جائیں گیپلکیں تھک کر سو جائیں گیگئے دنوں کا نام منوں مٹی کے نیچے دب جائے گااگلا ساون کب آئے گا؟ڈاکٹر وزیر آغا نے تما م عمر علم و ادب کو اپنا ا و ڑ ھنا بچھونا بنائے رکھا۔اپنے آبائی پیشہ زراعت کے علاوہ باقی وقت کتابیں اُن کا چمن ہوتی تھیں۔ڈاکٹر وزیرآغا کی تصانیف کو علمی ادبی حلقوںمیں، جو شرف قبولیت نصیب ہوا ،وہ تاریخ ِ ادب کا ایک درخشاں باب ہے۔ اُن کی چند معروف تصانیف درج ذیل ہیں:٭ اُردو ادب میں طنز و مزاح 1958ء٭ نظم جدید کی کروٹیں 1963ء٭ اُردو شاعری کا مزاج 1965ء ٭تنقید اور احتساب 1968٭ دائرے اور لکیریں 1986ء٭تخلیقی عمل 1970ء٭نئے مقالات 1972ء٭ تنقید اور مجلسی تنقید 1975ء٭ تصورات ِعشق و خرد، اقبالؔ کی نظر میں 1977ء٭ نئے تناظر 1979ء٭ تنقید اور جدید اُردو تنقید 1989ء٭ انشائیے کے خدوخال 1990ء٭ ساختیات اور سائنس 1991ء٭مجید امجدـؔ کی داستان ِمحبت 1991ء٭ دستک اس دروازے پر 1994ء٭غالبؔ کا ذوقِ تماشا 1997ء٭ معنی اور تناظر 1998ء٭ امتزاجی تنقید اور سائنس فکری تناظر 2006ء٭ شام کی منڈیر سے (خود نوشت)٭شام اور سائے (شاعری)٭دن کا زرد پہاڑ (شاعری)٭نروان (غزلیں)٭آدھی صدی کے بعد (شاعری)٭خیال پارے (انشائیے)٭چوری سے یاری تک (انشائیے)٭دوسرا کنارہ (انشائیے)٭شامِ دوستاں آباد (خاکے) وزیر آغا نے مغربی علوم کا بھر پور مطالعہ کیا، لیکن مشرقی علوم کے روبرو لا کر پھر اُس مطالعہ سے اپنے نتائج خود اخذ کیے۔امتزاجی تنقیدکے اصول کو علمی سطح پر بھی اور عملی سطح پر رائج کیا۔مجموعی طور پر وزیر آغا 60 سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں،جن میں بعض ضخیم کتابیں بھی شامل ہیں۔اُن کی مرتب کردہ یا تالیف و تدوین کردہ کتب کی الگ سے فہرست ہے۔اُن کی تخلیقی کتابیں تو تمام کی تمام اپنی جگہ مطالعہ کا تقاضا کرتی ہیں جب کہ علمی و تنقیدی کتابوں میں سے ’’اُردو شاعری کا مزاج‘‘،’’تخلیقی عمل‘‘،’’دستک اُس دروازے پر‘‘ منفرد اور امتیازی حیثیت کی حامل ہیں۔ وزیرآغا کی بعض کتب اور تخلیقات کے انگریزی، ڈینش، یونانی، سویڈش، جرمن،ہسپانوی،مالٹیز، جاپانی،ہندی، بنگالی، مراٹھی، پنجابی، سرائیکی اور دوسری زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ اُردو ادب میں میڈیاکے دانشوروں کی تو ہمیشہ بہتات رہی ہے ،لیکن علم و معرفت کے لحاظ سے ڈاکٹر وزیر آغا کے پائے کا مفکر اوردانشور اب دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتا۔اُردو انشائیہ کے بانی کی حیثیت سے اُنھوں نے ایک بڑا ادبی کام کیااور انشائیے کے خدو خال کو نمایاں کرنے میں بہت زیادہ محنت سے کام لیااور اس نئی ادبی صنف کی شدید ترین بل کہ اخلاقی لحاظ سے بد ترین مخالفت کے باوجوداسے اُردو میں رائج کر دکھایا۔ ڈاکٹر انور سدید انشائیہ کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’ انشائیہ زندگی کے موجودہ مظاہر، تجربات اور معمولات کو آزاد روی ، خوش خیالی اور زندہ دلی سے دیکھنے اور اس کے انوکھے گوشوں کو نثر کے تخلیقی اُسلوب ، کفایت ِ لفظی ، غیر رسمی انداز اور دوستانہ ماحول میں پیش کرنے سے عبارت ہے‘‘۔انشائیے کے ابتدائی نقوش قدما کے ہاں نظرآتے ہیں۔ مثلاً ملاوجہی کی ’’سب رس‘‘ غالبؔ کے خطوط کے چند ٹکڑے، مضامین ِسرسید ، ابولکلام آزاد کی کتاب ’’غبارِ خاطر‘ ‘ کے کچھ حصے اور کرشن چندر کے چند مضامین میں انشائیے کی خوبیاں دیکھی جا سکتی ہیں،لیکن انشائیے کو الگ اور انفرادی حیثیت سے منوانے کا سہرا وزیر آغا کے سر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا کا نام انشائیے سے کچھ اس طرح جڑ گیا ہے کہ جیسے ہی انشائیے کا نا م سامنے آتا ہے،ذہن فوراً وزیر آغا کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اُنھوں نے جس محنت ، لگن اور انہماک کے ساتھ اس صنف ِادب کی انفرادیت کو اُبھارنے کی کوشش کی وہ قابل ِستائش ہے اوروزیر آغا کے انشائیوں کے چار مجموعے :’’خیال پارے‘‘ ،’’ دوسرا کنارا‘‘ ، ’’سمندر میرے اندر گرے‘‘ اور’’ چوری سے یاری تک‘‘ اس حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔وزیر آغا کا ایک اور اہم موضوع ’’کلچر‘‘ بھی رہا۔ہمارے ہاں،ثقافت، تہذیب اور تمدّن کی اصطلاحات کو اُردو دانوں نے کچھ اس طرح گِڈ مڈ کردیا ہے کہ بعض نے کلچر کو تہذیب وثقافت کا اور بعض نے اس کو تہذیب وتمدن کا مجموعہ گردانا ہے جب کہ بعض دانشوروں نے تہذیب وتمدن میں پائے جانے والے رشتے کی نوعیت کو مادی اور روحانی پہلوئوں سے جوڑ کر دیکھا ہے اور بعضوں نے کلچر اور تہذیب کو ایک دوسرے کے مترادف قرار دینے کی کوشش کی ہے، لیکن ڈاکٹر وزیر آغانے ثقافتCulture ، تہذیب Civilization اور تمدن Culture Urban کے معنوں میں استعمال کر کے، ان کے لفظی اور لغوی معانی کو ایک وسعت عطا کی اوراُنھوں نے متذکرہ اُردو اور انگریزی اصطلاحوں کے مابین اُلجھائو کو ختم کرنے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں اُن کی کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی کتاب’’کلچر کے خدوخال‘‘ قابلِ مطالعہ ہے۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا: ’’ کلچر کے مسئلے پر ہمارے ہاں بہت سے اصحاب نے اظہار خیال کیا ہے اور کبھی کبھی تو نوبت تلخ وترش تبادلہ ٔخیالات تک بھی جاپہنچی ہے، لیکن تاحال کلچر اور اُس کے مقتضیات کے بارے میں غلط فہمیاں عام ہیں، جذباتیت اپنے عروج پر ہے اور کیا ہے؟ کے بجائے کیا ہونا چاہیے؟ نے مسئلے کو اُلجھا کر رکھ دیا ہے۔میَںنے متعدد بار لفظ کلچر استعمال کیا ہے، ظاہر ہے میرے ذہن میں کلچر کا ایک خاص مفہوم ہے اور ضروری نہیں کہ قاری کے ذہن میں بھی وہی مفہوم موجود ہو، جو میرے ذہن میں ہے۔اگر کلچر کے مفہوم کی وضاحت کے بغیر ہی بحث ہوتی رہی ،تو عین ممکن ہے کہ قاری اور مضمون نگار الگ الگ ذہنی سطحوں پر چلتے رہیں اور بحث کا کوئی نتیجہ ہی برآمد نہ ہو‘‘۔ڈاکٹر وزیر آغا کی مذکور تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو پاکستانی کلچر کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہاں کوئی کلچرولچر نہیں بل کہ یہاں تو صرف ایگری کلچر ہے۔ اُن کی توضیح کے لیے آغا صاحب نے کلچر کے موضوع پر ہمیشہ خامہ فرسائی کی۔کتاب ’’کلچر کے خدوخال‘‘ کے پیش لفظ میں رفیق سندیلوی رقمطراز ہیں ’’ کلچر وزیر آغا کا محبوب ترین موضوع ہے اور یہ موضوع تسلسل اور توانائی کے ساتھ اُن کی عملی اور ذہنی وفکری زندگی کا محور ومرکز رہا ہے۔ مفہوم کی سطح پر دیکھیں، تو کلچر میں ہل چلانے سے بیج بونے اور فصل اُگانے کا استعارہ مستعمل ہے۔ وزیر آغا کی زندگی، اس استعارے کی بین مثال ہے۔‘‘ڈاکٹروزیرآغا کو اُن کی ادبی خدمات پر حکومت ِپاکستان کی جانب سے ستارہ ٔامتیاز اور تمغہ ٔامتیاز سے بھی نوازا گیا۔اُن کی چوتھی برسی کے موقع پر اُن کی کمی کا احساس کیا جا رہا ہے کیوں کہ اُردو کی علمی و ادبی دُنیا کے وہ تمام لوگ، جو میڈیائی شہرت کے پیچھے بھاگنے سے زیادہ ادب کو معرفتِ ذات و کائنات کاایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں،اُن کی نظرمیںڈاکٹر وزیر آغا کا وجود اُردو ادب کے لیے غنیمت تھا،بقول وزیر آغا :کہنے کو چند گام تھا یہ عرصۂ حیاتلیکن تمام عمر ہی چلنا پڑا مجھےاب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میریرات کا آخری تارا بھی ہے جانے والا٭…٭…٭