... نہ کہیں مزار ہوتا : خدائے سخن میر تقی میر
اسپیشل فیچر
میر تقی میرؔ کا انتقال21ستمبر 1810ء کو ہوا اور یوں میرؔ کو اس دُنیا سے رخصت ہوئے دو سے زیادہ صدیاں گزر چکیں،تاہم اُن کانام اور کام قیامت تک زندہ رہے گا********ہر عہد پر غالب شاعر،مرزااسداللہ خاں غالبؔ نے اپنے ایک شعر میں خدائے سخن میر تقی میرؔ کی شاعرانہ عظمت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے:ریختہ کے تم ہی اُستاد نہیں ہو غالبؔکہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا انیسؔ، دبیرؔ، ذوقؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے ہوتے ہوئے میرؔ اُردو شاعری کے واحد مسند نشین نہیں ،لیکن منکرِ انیسؔ، منکرِ دبیرؔ، منکرِ ذوقؔ، منکرِ غالبؔ اور منکرِ اقبالؔ کی بھی کمی نہیں ،تاہم میرؔ کی بارگاہ میں سب نے سر جھکا یا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے ،اُردو شعراء میں میرؔ کا نام ہمیشہ سرِ فہرست رہے گا۔ آج کی اُردو میرؔ کی مرہونِ منت ہے۔ اگر کسی کو اُردو کا سب سے بڑا سخن وَر کہنا پڑے، تو بھی میرؔ ہی کا نام لے گا۔ حیرت کی بات ہے کہ آج200 برس سے زیادہ کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی مضامین آفرینی میں میرؔ اوّل و آخر نظر آتے ہیں اور ہر شاعر مضامین ِ میرؔ کا طواف کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ میرؔ کا انتقال21ستمبر 1810ء کو ہوا اور یوں اُن کو اس دُنیا سے رخصت ہوئے دو سے زیادہ صدیاں گزر چکیں،تاہم اُن کانام قیامت تک زندہ رہے گا اور اس بات کا میرؔ کو اچھی طرح اندازہ تھا،اسی لیے تو اُنھوں نے کہا:ٰٰٰٰٰٰسارے عالم پر جو ہے چھایا ہوامستند ہے میرا فرمایا ہوا بعض روایات کے مطابق میرؔ کے جسد خاکی کو اکھاڑہ بھیم لکھنؤ کے ایک گوشے میں دفن کیا گیا ،تاہم ستم ِ دُنیا کہ اُن کی قبر کا نشاں بھی قضا نے مٹا دیا۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے رالف رسل اور ڈاکٹر این میر ی شمل کے حوالے سے 1980ء میں ایک بار اپنے شاگردوں کو بتایا: ’’اُردو زبان کے نابغہ روزگار شاعر میر تقی میرؔ نے 1782ء میںذاتی مسائل اور معاشی مجبوریوں کے باعث جب لکھنؤ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا،تو یہاں اُن کا قیام لکھنؤ کی ایک کم معروف آبادی ست ہٹی میں ہوا۔ماہرین ِآثار ِقدیمہ کا خیال ہے کہ یہ آبادی ریذیڈنسی اور رومی دروازے کے درمیانی علاقے میں ہوا کرتی تھی ۔اس کا محل وقوع اور رہن سہن لکھنو ٔکے اس زمانے کے ترقی یافتہ علاقے سے قدرے کم معیار کا تھا ۔۔۔ میرؔ کی وفات کے بعد اُن کی تدفین ست ہٹی سے کچھ فاصلے پر واقع ایک قبرستان میں ہوئی، جسے بھیم کا اکھاڑہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔اب یہ تمام آثار تاریخ کے طوماروں میں دب کر عنقا ہو چکے ہیں اور اُن کا کہیں سراغ نہیں ملتا‘‘۔بقول غالبؔ:ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتامیر تقی میرؔآگر ہ میں 1723ء میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام محمد علی تھا، لیکن علی متقی کے نام سے مشہور ہوئے اور وہ زیادہ تر گریہ و استغراق اور کیف مجذوبی میں گم رہتے تھے ۔ میرؔ نے ابتدائی تعلیم والد کے دوست سید امان ا للہ سے حاصل کی۔میرؔ کے سید ہونے کے سلسلہ میں کچھ لوگوں نے تامل کیا ہے، لیکن مولانامحمد حسین آزادؔ نے میرؔ ہی کے کلام سے استناد کرتے ہوئے اُنھیںسید تسلیم کیا ہے اور اس باب کو یہیں پر ختم کر دیا ہے۔مولانا آزادؔ لکھتے ہیں : ’’پھر بھی اتنا کہنا واجب سمجھتا ہوں کہ اُن کی مسکینی ، غربت،صبر و قناعت، تقوی ، طہارت ،محضر بن کے ادائے شہادت کرتے ہیں کہ سیادت میں شبہ نہ کرنا چاہیے ،ورنہ زمانے کا کیا ہے ،کس کس کو کیا نہیں کہا ہے، اگر وہ سید نہیں ہوتے تو خود کیوں کہتے‘‘: پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیںاس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی میرؔ نے اپنی عمر کے گیارہ سال مکمل کیے تھے کہ اُن کے والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور اُنھیںایک منہ بولے چچا سے شفقت کی اُمید تھی، مگر بدقسمتی کہیے یا کچھ اور کہ وہ بھی نہ رہے۔ بے سہارا اور بے یار و مددگار پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے میرؔ نے آگرہ سے دہلی کا سفر کیا اور کچھ دن انتہائی کسمپرسی میں گزارے۔ بالآخر صمصام الدولہ نے ایک روپیہ روز وظیفہ مقرر کر دیا، لیکن کچھ ہی دنوں بعد صمصام الدولہ کا انتقال ہو گیا اور وظیفہ ختم ہو گیا۔ میرؔ نے دوبارہ دہلی کا رخ کیا اور خان آرزو کی خدمت میں حاضر ہوئے ،جو اُن کے سوتیلے بھائی محمد حسن کے ماموں تھے۔ اُن کی توجہ سے میرؔ نے بہت کچھ سیکھا۔ میرؔ نے ’’نکات الشعراء‘‘ کے نام سے ایک تذکرہ لکھا، جو اُردو کا سب سے پہلا تذکرہ شمار کیا جاتاہ،جس میں میرؔ نے اُنھیں ’’اُستاد پیر و مرشد بندہ‘‘ کہا ہے۔ سعادت ؔاور امروہویؔ کے مشورے پر شعر تو پہلے ہی کہنے لگے تھے، مگر خان آرزو کی توجہ نے اُن کے فن شعر گوئی میں نکھار پیدا کیا اور وہ محمد تقی سے میرؔ بن گئے۔ میر تقی میرؔ کی عظمت کا راز شاید یہی ہے کہ اُنھوں نے سیدھے سادے انداز میں اور بول چال کی زبان میں اپنے درد کا اظہار کر دیا اور جس کسی نے اُنھیں پڑھا، اپنے کرب کو اُن کے کرب کے مماثل پایا۔ اس لیے جس کسی کے بھی دل میں درد تھا ،میر ؔاُس کا محبوب شاعر بن گیا۔میرؔ کی غزلوں میں قصہ گوئی کا سا عنصر ہے اور اُن کا تصورِ غم اُن کی شاعری کی اہم خصوصیت ہے۔میرؔ کی شاعری میں جو تشبیہیں اور استعارے استعمال کیے گئے ہیں، وہ اتنے پرُکشش ہیں کہ دلوں کو مسخر کرتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں موسیقیت ہے اور اُن کا نرم لہجہ درد سے نڈھال انسان کو تھپکیاں دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اُن کی شاعری میں خود کلامی بھی پائی جاتی ہے، گویا شاعر خود سے باتیں کر رہا ہو۔ میرؔ کے یہاں استفہام یعنی سوال کا انداز بہت لطف دیتا ہے :دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہےیہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے………………ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیادلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا………………کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گاایک دن یونہی جی سے جائیے گامیرؔ کا کلام روایت نہیںبل کہ حکایت ہے۔روایت تو تقلید ہے،وہی محبوب کے لب و رخسار کے دل نشیں قصے،وہی محبوب کی زلفِ گرہ گیر کے لیے آفریں آفریں کی صدائے رندانہ،وہی اندازِ ناز و ادا پر قربان ہونے کا جنونِ دیوانگی جب کہ حکایت تو سبق آموز کہانی کا نام ہے۔بابائے اُردو مولوی عبدالحق نے میرؔ کو شعرائے اُردو کا سرتاج کہتے ہوئے عندیہ بھی دیا تھا کہ میرؔ کا کلام اس ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا،جیسے سعدیؔ کا کلامِ فارسی۔ یہی وہ خوبیاں ہیں ،جن کی وجہ سے میر ؔکے کلام میں جادو کا اثر ہے اور ہمیشہ یہ تاثیر باقی رہے گی۔میرؔ کی زندگی، اُن کی شاعری اُردو ادب کا ایسا بے بہا سرمایہ ہیں، جس سے رہتی دنیا تک لوگ فائدہ اُٹھاتے رہیں گے۔میر ؔکے چھ دیوان ہیں جب کہ دو تصانیف ’’ذکر ِ میرؔ‘‘ اور’’فیض ِمیر‘ؔ ‘فارسی میں ہیں۔میرؔ نے غزلوں کے علاوہ قصیدے، سلام اور مرثیے بھی لکھے۔ میرؔ کی تمام زندگی مفلسی ،کسمپرسی اور درماندگی میں بسر ہوئی، ۔ایک بیٹے ،بیٹی اور اہلیہ کی وفات سے میرؔ کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا ۔اس ہجوم یاس میں اس کے دل پر جو کوہ ستم ٹوٹا اس کے باعث اس کی زندگی کی تما م رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں ۔ میرؔ کے مرقد کا نشاں نا پید ہو جانادر اصل موت کے جان لیوا صدمات اور تقدیر کے نا گہانی آلام کے مسائل و مضمرات کی جانب توجہ دلاتا ہے ۔اس عالم آب و گل کی ہر ایک چیز کو فنا ہے اور بقا صرف رب ذوالجلال کی ذات کو حاصل ہے ۔ میرؔ کے بارے میں ابنِ انشاء نے کہا تھا:اﷲ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہومرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی٭…٭…٭