غزل کی تعریت
اسپیشل فیچر
غزل خالصتاً عربی لفظ ہے۔ فیروز اللغات کے مطابق غزل کے معنی ٰ ’’عورت سے بات کرنا ہے ‘‘ اور ’’لغات کشوری‘‘ میں غزل کے دو معنی دیئے گئے ہیں جس میں ایک ہے ’’ وہ شخص جو عورتوں کے عشق کی باتیں کرتا ہے ‘‘۔ اور دیگر معنوں میں ’’کاتنا‘‘۔ ’’رسی بٹنا‘‘ یا ’’سوت ریشی‘‘ کے ہیں۔ اور جو ہو بہو عربی کے معنی ہیں۔ اگر ہم غزل کے معنی عورت سے باتیں کرنا مراد لیں تو مناسب یا درست دکھائی نہیںدیتا۔ چونکہ ہر عورت سے باتیں کرنا یعنی ماں سے باتیں کرنا ‘ معلمہ سے باتیں کرنا ‘ استانی یاٹیچر سے باتیں کرنا بہن سے باتیں کرنا یا رشتہ دارخاتون و عزیز سے باتیں کرنا وغیرہ۔ غزل کیسے کہلائے گی ؟ البتہ لغت کشوری میں دونوں معنی غزل کے معنوں میں درست ہیں۔ اول الذکر کی مناسبت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان آپسی بات چیت ان کے درمیان راز ونیاز کی باتیں ‘ شکوے شکایتیں ‘ روٹھنے منانے کی باتیں ‘ ملنے بچھڑے کی باتیں ‘ حسن و عشق کی باتیں ،وعدے و فاؤں کی باتیں، اسطرح نوجوان لڑکے لڑکیوں کے درمیان ہونے والی عشقیہ بات چیت کو غزل کے معنی و مفہوم میں لیا جاتا ہے۔ اسطرح غزل سے مراد صنف نازک سے لطف اندوز ہونا ‘ اس کے حسن و جمال کی تعریف کرنا اس سے عشق و محبت کا اظہار کرنا اور اسی طرح کے حسین جذباتی واردات غزل کہلاتی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی لکھتے ہیں کہ ’’ جاہلی دور کے اصناف سخن میں سب سے اہم اور ممتاز صنف غزل ہے اور اس غزل کا موضوع اور محور عورت تھی۔ کیونکہ غزل کے معنی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی آپس کی بات چیت اور عورتوں سے لطف اندوزی اور ان سے حسن و محبت کی باتیں کرنا ہے ‘‘۔اصناف شاعری کی بات کی جائے تو غزل و اصناف شاعری میں ایک حسین و جمیل نازک سی صنف سخن ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ عروس شاعری ہے جو بام عروج پر ہے اوراہمیت کی حامل ہے۔ یہ صنف ہر دور ‘ ہر طبقہ ہر تہذیب اور ہر زمانہ میں ہر عام و خاص کی مقبول ترین صنف رہی۔ ماضی میں بھی ہر ایک کے دل کو لبھا رہی تھی اور عصر حاضر میں بھی ہر کوئی اس کا دیوانہ ہے اور یقیناً اس کا سحر کل بھی کم نہ ہوگا۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غزل اس صنف کو کہیں گے جس میں حسن وعشق یا محب و محبوب سے متعلق مضامین شامل ہوں۔ یعنی ہجر و وصال کا تذکرہ ‘ سوز و غم کا ذکر ‘ وصل معشوق کی لذت اور اسطرح کی دیگر کیفیات عشق واردات محبت شامل ہوں یعنی آنکھوں سے آنکھیں چار ہونا اور ہوش و حواس گم ہونا اور ہمیشہ حسن یار میں کھوئے رہنا وغیرہ۔ اس روایت کے مدنظر اردو کی زیادہ تر کلاسیکی شاعری حسن و عشق کے مختلف واردات و کیفیات سے ہی متعلق ہے۔بلکہ ان ہی کیفیات میں رچی بسی ہوئی ہے اس طرح شروعات میں یہ حسین صنف سخن صرف اور صرف حسن و جمال عشق و محبت کے وارداتوں کے ارد گرد گھومتی رہی جس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اردو شاعری ہمیشہ فارسی شاعری کی مقلد رہی اس تعلق سے ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی رقمطراز ہیں کہ ’’ شعر و شاعری کا عموماً اور ایشیائی شاعری کا خصوصاً عشق و محبت کے جذبات و احساسات سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ہماری اردو شاعری سراسر فارسی شاعری کی متبع ہے اپنے ابتدائی حالات میں عشق و محبت و معشوق و دیگر لوازمات عاشقی کے وہی سانچے وہی تصورات اور وہی معیار رکھتی ہے جو ایران میں اس وقت رائج تھے ‘‘۔ ایران کی فضاء عرب سے مختلف تھی جہاں پھل ‘ پھول‘ درخت ‘ پہاڑ یعنی قدرتی حسین مناظر کی فراوانی تھی جس کا عرب میں فقدان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی شاعری اور خصوصاً فارسی غزل میں علامتیں شامل ہوگئیں۔ اس طرح گلاب کا پودا ‘ بلبل ‘ سیپ اور موتی ایرانی شاعری میں استعارے کے طور پر شامل ہوگئے۔ اردو شاعری خصوصاً غزل میں بھی لوازمات کے طور پر شامل ہوگئے جو غزل کو مزید نکھارنے ‘ منوانے اور اس کے حسن کو چار چاند لگانے میں معاون و مددگار ثابت ہوئے اسطرح عربی غزل کے برعکس فارسی و اردو غزل میں راست اظہارکی بہ نسبت بالواسطہ اظہار کے سلسلے میں فارسی کا یہ شعر سنداً پڑھا جاتا ہے۔اب اگر غزل کی فکر میں مزید نظر ڈالیں توپتہ چلتا ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ غزل میں بھی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اس کے مضامین میں تبدیلیاں و اضافے ہوتے رہے ہیں۔غزل کی سوچ بدل گئی ہے اب وہ وسیع القلب ہوتی جا رہی ہے کئی موضوعات سمائے جا رہے ہیں ایک طرح سے کہا جائے ’’ تو گاگر میں ساگر‘‘ کو سمویا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔