’’پرانے چراغ ‘‘ بہت معیاری کتاب ہے
تاثر بن گیا کہ کمیونزم بالکل فضول ہے اور مذہب بیزارزندگی غیر اخلاقی زندگی‘ان کے سارے دعوے باطل اور غلط ہیں نہ اس میں مزدورکی فلاح و بہبود ہے اور نہ ہو سکتی ہے اس نظام نے مزدوروں کو مزید غلام بنایا کمیونسٹ حکومتوں نے ان پر مزید مظالم کیے۔اس بارے میں کتاب جس نے مجھے متاثر کیا وہ مظہرالدین صدیقی کی کتاب تھی ۔ اشتراکیت اور نظام اسلام اور یہ اس زمانے میں لکھی گئی تھی جب کمیونزم پر زیادہ لٹریچر اسلامی نقطہ نظر کے حوالے سے نہیں ملتا تھاغالباً 1940ء کے زمانے کی بات ہے ۔ بلکہ ا س سے بھی پہلے ایک اور کتاب تھی۔’’اسلام اورمارکسزم‘‘ ۔اصل میں ، میں مولانا پر وہ اعتراضات نہیں کرتا جس طرح اعتراضات یہ لوگ کرتے ہیں۔ اور میں اس طرح کے خیالات کے اظہار میں مولانا کو معذور اور کسی حد تک حق بجانب سمجھتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بڑا فاضل مفکر اپنے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا،ظاہر ہے کہ اگر ماحول کا نوٹس(Notice) نہ لے تو وہ بڑا مفکر نہیں بن سکتا وہ کیا مفکر ہے کہ جو ماحول کا جواب نہ دے۔ اور نہ ہی بالکل ماحول کا اسیر ہو جائے تو ہر مفکر کے لیے یہ بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ اس میں اتنی عالمگیریت ہو کہ ماحول سے بہت آگے جا کر بات کرے لیکن اس کے ساتھ ماحول کا نوٹس لے کر اس کا جواب بھی دے ۔ تو مولانا جس ماحول میں لکھ رہے تھے وہ مسلمانوں کی انتہائی پستی کا دور تھا ۔ کوئی ایسی قابل ذکر قوت نہ تھی جو مسلمانوں کے مقاصد کو لے کر چل سکے جو مسلمانوں کی مصلحت اور Causeکا تحفظ کر سکے۔ اس کے مقابلے میں کمیونزم کی ایک بڑی قوت قائم ہو گئی تھی۔ جو کمیونزم کو پوری دنیا میں فروغ دے رہی تھی وسائل استعمال کر رہی تھی۔ برطانیہ کی بڑی قوت جوپوری دنیا میں اپنے وسائل سے انگریزی زبان انگریزی کلچر اورانگریزی اقدار کو فروغ د ے رہی تھی۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے انگریزی اقدار کوفروغ دینے کے لیے قائم کئے جا رہے تھے تو اگر مولانا مودودی کے ذہن میں یہ آیا کہ مسلمانوں کی بھی ایک ریاست اسی طرح کی ہونی چاہیے تو یہ ان کی ذات میں موجود اخلاص کی بات ہے اس درد مندی اور اخلاص سے انہوں نے مسلمانوں کی زندگی کا جائزہ لیا ہو گا تو ان کو لگا ہو گا کہ بڑی بڑی حکومتیں اپنے تصورات کو پھیلا رہی ہیں جو اسلام کے نقطہ نظر سے غلط ہے ، تو اگر اسلام کی بھی اس طرح کی ایک سلطنت ہو جو اس Cause اور مقصد کو لے کر چلے تو اسلام کے حق میں بہتر ہو گا تو اس لیے مولانا نے اس کے لیے قوم کو آمادہ کرنا شروع کیا۔ اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہ نکل سکتا تھا کہ مولانا کے انداز تخاطب اورطرز تحریر میں سیاسیات کا پہلو بہت نمایاں ہو گیا۔سیاسیات کے پہلو کا نمایاں ہونا یہ نہیں کہ مولانا نے اسلام میں بھی سیاست کو وہ مقام دیتے ہیں ، جو ان کی تحریروں سے نظر آتا ہے ان کی تحریروں میں سیاسیات کی نمایاں حیثیت اس لیے نظر آئی کہ مولانا جس دور میں لکھ رہے تھے یا جس طبقے سے مخاطب تھے اس طبقے کا بڑا مسئلہ یہ تھا ۔ اب اگر یہ سمجھنا کہ مولانا اسلام کے عمومی نظام میں سیاست کو بھی وہ درجہ دیتے ہیں تو یہ مناسب نہیں ہے۔ یہ مولانا کے ساتھ انصاف نہیں ہے لیکن ان کی تحریروں سے یہ رنگ پیدا ہوتا ہے خواہی نہ خواہی ۔ دانستہ یا نادانستہ اس سے قارئین کا ذہن یہ بنا تو پھر اس پر مولانا ابوالحسن علی ندوی کو قلم اٹھانا پڑا۔مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ’’پرانے چراغ ‘‘ بہت معیاری کتاب ہے‘میری شخصیت پر اس کے بہت اثرا ت مرتب ہوئے ہیں البتہ ان کی شہرت کی جو کتاب ہے وہ مجھے پسند نہیں آئی، انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر میں نے پہلے عربی میں پڑھی تھی اس کی زبان بہت اچھی ہے عربی میں وہ کتاب میں نے Enjoyکی، لیکن اس کے مندرجات نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ مولانا کی جس کتاب سے بہت متاثر ہوا بار بار پڑھی وہ پرانے چراغ اور سیرت سید احمد شہیدؒ ہیں۔ میں دوران سفر بھی مطالعہ کرتا ہوں کتابیں ساتھ رکھتا ہوں خاص طور پر ادب اورشاعری ، شاعری میں عموماً زیادہ فارسی اور عربی شاعری پڑھتا ہوں۔ فارسی شاعری میں قدیم شاعری سے متاثر ہوا ہوں جبکہ جدید شاعری نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ مجھے حافظ شیرازی غالب سعدی اور سنائی بہت پسند ہیں انگریزی شاعری پڑھنے کی کوشش کی لیکن مجھے پسند نہیں آئی۔ میں نے بہت چاہا کہ انگریزی شاعری بھی پڑھوں لیکن پڑھ نہیں سکا۔اخبار صبح پڑھتا ہوں صرف ناشتے کے دوران انہیں اخبارات کے کالم نگاروں کو بھی بعض اوقات پڑھتا ہوں موضوع اور وقت کی مناسبت سے رسائل وغیرہ دیکھتا ضرور ہوں لیکن بس اپنے کام اور موضوع کی حد تک بس نظر ڈال لیتا ہوں۔کتابیں لینے اور دینے کے بارے میں تھوڑی سخاوت بڑا نقصان پہنچاتی ہے۔ میری بہت سی کتابیں واپس نہیں آئیں سینکڑوں کتابیں جو بہت سے احباب پڑھنے کے لیے لے گئے اور میرے پاس کوئی ریکارڈ نہیں تھا اور نہ ہی رجسٹر تھا کہ میں درج کرتاجاتا حتیٰ کہ پاکستان کی ایک بڑی نامور شخصیت نے مجھ سے کتاب لی اور پھر صاف مکر گئے۔ اور میں بھی احتراماً خاموش رہا۔عموماً رات کو سونے سے پہلے پڑھتا ہوں ۔کرتا یہ ہوں کہ سال کا ایک پلان کرتا ہوں کہ سال میں یہ پڑھنا ہے کتاب پہلے ہی طے کرتا ہوں کتابیں تو دنیا میں لاکھوں ہیں زیادہ سے زیادہ آپ زندگی بھر میں 20یا 25ہزار کتابیں پڑھ سکتے ہیں یا 10,12ہزارپڑھ سکتے ہیں۔ ان لاکھوں کتابوں میں آپ 10ہزارکتابیں منتخب کرتے ہیں تو اس کے لیے میں ایسا کرتا ہوں۔ کچھ ایسی کتابیں ہوتی ہیں جن پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہوتا ہے۔ دس پندرہ منٹ کے لیے نظر ڈال لیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیسی کتاب ہے اسلام آباد کے کئی بک سیلر دوست ہیں۔ (جاری ہے)