قائد اعظم ہاؤس میوزیم

 قائد اعظم ہاؤس میوزیم

اسپیشل فیچر

تحریر : شیخ نوید اسلم


بانی ٔ پاکستان کی زندگی کی یادوں سے جڑاکراچی کے ضلع جنوبی میں شاہراہ فیصل پر ہوٹل مہران اور فاطمہ جناح روڈ کے درمیان ایک پرشکوہ عمارت ایستادہ ہے، جسے قائد اعظم میوزیم ہاؤس کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے قبل اس کا نام فلیگ سٹاف ہاؤس تھا ۔یہ قائد اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے ایک تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ گھر قائداعظم نے 115,000کا خریدا تھا ۔اس کا سیل ایگریمنٹ 14اگست 1943ء کو سہراب کائوس جی کڑاک سے طے پایا تھاجو کراچی کے مئیر بھی رہے ۔ یہ تو پتہ نہیں چل سکا کہ یہ عمارت کب قائم ہوئی، تاہم دستیاب شدہ ریکارڈ کے مطابق 1922ء میں اس کے مالک رام چند ہنسوج لومانا تھے۔ بعد ازاں یہ گھر برٹش انڈین آرمی کے لیے کرائے پر حاصل کر لیا گیا۔ اس عمارت میں برٹش انڈین آرمی اور رائل پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف یا دیگر افسران کرائے پر رہتے رہے۔ ستمبر 1947ء میں قائد اعظم محمد علی اپنی دہلی کی رہائش گاہ 10اورنگ زیب روڈ سے فلیگ سٹاف ہاؤس منتقل ہوگئے ،مگر زندگی نے قائد اعظم کو اس گھر میں زیادہ عرصہ رہنے کی مہلت نہ دی ۔اس بات کا مصدقہ ریکارڈ تو نہیں ملتا کہ قائد نے کبھی یہاں مستقل یا باضابطہ رہائش اختیار کی ہو، تاہم بعض دستیاب شدہ روائتی گھریلو اشیاء یہ ظاہر کرتی ہیںکہ قائد اعظم نے کئی بار اس گھر کا دورہ کیا اور آرام کیا۔ قائد اعظم کے انتقال کے بعد ان کی بہن اور سیاسی مشیر محترمہ فاطمہ جناح جو قائد کے ساتھ ہی گورنر جنرل ہاؤس میں مقیم تھیں، 13ستمبر 1948ء کو فلیگ سٹاف ہاؤس میں منتقل ہوگئیں۔ یہاں ان کا قیام 1964ء تک رہا، جس کے بعد وہ اپنے ذاتی گھر موہاٹا پیلس ( قصر فاطمہ) میں منتقل ہوگئی تھیں۔9جولائی 1967ء کو متحرمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد ایک صدراتی حکم نامے کے تحت ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ،جس کی یہ ذمہ داری ٹھہرائی گئی کہ وہ قائد سے متعلق اہم تاریخی اشیاء کو اکٹھا کرکے جدید سائنسی طریقے سے اسے محفوظ کر کے عوامی نمائش کے لیے رکھے جائیں۔ قائد اعظم کے انتقال کے بعد ان کی بہن شیریں بائی ہاشم رضا ( سابق میئر کراچی) محمد لیاقت مرچنٹ (قائد کے بھانجے) کے اشتراک سے قائد اعظم ٹرسٹ قائم ہوا۔ ان ٹرسٹی سے فروری 1985ء کو 5,10,7000روپے کے عوض یہ گھر حکومت پاکستان نے خرید لیا۔ باضابطہ طور پر حکومت کو 1985ء میں منتقلی سے قبل ہی 14جون 1984ء کو فلیگ سٹاف ہاؤس کو محکمہ ٔ آثار قدیمہ نے اپنی تحویل میں لے کر تزئین و آرائش و مرمت کا کام شروع کر دیا تھا اور 2کروڑ روپے اس مد میں خرچ کئے گئے۔ از سرنو اس بلڈنگ کی تزئین کی گئی ۔80فی صد میٹریل اصلی استعمال کیا گیا۔ باغات کو بسایا گیا۔ قائدا عظم و محترمہ فاطمہ جناح سے متعلق اشیاء کو محفوظ کیا گیا ۔مثلاً قائد اعظم کے کمرے کی سیٹنگ ان کے دہلی والے گھر کی طرح سے رکھی گئی ہے، وہی فرنیچر کا رپٹ، قائد کی قانونی کتابیں بمعہ ان کے دستخط ، چھڑیاں، ماربل کا عمدہ سیٹ، ماربل ہی کا ٹیلی فون سیٹ جواب بھی درست حالت میں ہے ۔قائد کے استعمال میں آنے والے جوتے، قائد اعظم کے بیڈ روم میں کافور کی لکڑی سے بنا خوبصورت بکس جو اس وقت بھی کافور کی مکمل مہک دے رہا ہے۔ سگار بکس ، ایزی چیئر و آرام دہ کرسی میسور بھارت کا بنا ہوا اگر بتی کیس ، جس کی نمایاں خوبی اس پر یا محمدؐ اور درود شریف لکھا ہوا ہے۔ قائد کے زیر استعمال قرآن مجید، ان کی ایک آنکھ کا چشمہ اور فاطمہ جناح کے ڈریسنگ روم میں ان کے پلنگ کی وہی سیٹنگ جو ان کی زندگی میں تھی، ان کے پاؤں کی کھڑاواں نما چپل، لکھنے کی میز ، الماری، شو پیس لکڑی سے بنی ہوئی خوبصورت الماری وغیرہ اور پرانا فرنیچر یہ سب اتنی عمدہ کو الٹی کی ہے کہ دیکھنے کے قابل ہے ۔متحرمہ شریں جناح کے استعمال میں آنے والی اخروٹ کی لکڑی کا فرنیچر جس پر ان کا نشان SJبنا ہوا ہے ۔1993ء میں فلیگ سٹاف ہاؤس کا نام تبدیل کرکے قائد اعظم ہاؤس میوزیم رکھا گیا اور 25نومبر 1993ء کو سندھ کے سابق گورنر مرحوم حکیم محمد سعید نے اس میوزیم کا افتتاح کیا۔ فلیگ سٹاف ہاؤس کا طرز تعمیر کا نونیل آرکیٹکچر سے ملتا جلتا ہے۔ اس کا ڈیزائن انجینئر مونکروف نے بنایا تھا ۔10,241 مربع گز پر پھیلی ہوئی، اس عمارت میں وسیع باغ کے ساتھ تین کمرے گراؤنڈ فلور پر جبکہ تین کمرے پہلی منزل پرواقع ہیں ۔دو بیرونی کمرے 16فٹ 10انچ کشادہ ہیں۔ پہلی منزل پر واقع کمرے بھی اتنے ہی کشادہ ہیں۔ ہر ایک کمرہ برآمدے میں کھلتا ہے ۔انہی کمروں سے منسلک گراؤنڈ فلور پر ایک انیکسی بھی واقع ہے، جسے اب آڈٹیوریم میں تبدیل کر دیا ہے۔ جہاں تقریری مقابلے ، تعلیمی مقالے ، آڈیو ویژیل شوز ، نمائش وغیرہ ( قائد اعظم سے متعلق) ہوتی ہے۔ اس عمارت میں 18سرونٹ کوارٹرز، 4گیراج 3گارڈ روم اور ایک کچن بھی موجود ہے ۔کچن کو اب ایڈمنسٹریٹو آفس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔کراچی کے معروف معمار یاسمین لاری کو اس منصوبے پر مقرر کیا گیا اور ان کے ہی مشوروں سے قائد اعظم میوزیم کا پورا کام کیا گیا۔ میوزیم کے مرکزی گھر کو مکمل طور سے درست کر کے اس کی اصل حالت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس کی بگڑی ہوئی اور خستہ حالت کو تزئین و آرائش کرکے دوبارہ نکھارا گیا۔ صرف گراؤنڈ فلور کی چھت کو کنکریٹ سیمنٹ تبدیل کرنے کے بعد اس پر لکڑی کے ٹکڑوں سے چھت بنانے سے اس کی اصلی حالت نظر آتی ہے ۔قائد اعظم میوزیم میں واقع باغ کو بھی از سر نو ڈیزائن کیا گیا ہے اس میں پانی کی سپلائی کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ روشنی کا موثر انتظام ( برائے سیکورٹی اور خصوصی تقاریب منعقد کرانے کے حوالے سے) کیا گیا ہے اس کا ڈیزائن مونکروف نے بنایا ہے مگر معروف آرکیٹیکٹ یاسمین لاری نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ اس عمارت کو سومک نے تعمیر کیا ہے سومک کی یہ عادت تھی کہ وہ اپنی تیار کردہ عمارتوں پر کسی کونے میں اپنا نام نقش کر دیتا تھا اور اس عمارت کی ڈیوڑھی میں نقش و نگار میں اس کا نام دیکھا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ تھوڑی سی ہمت کی جائے ۔فلیگ سٹاف ہاؤس ، سومک کی پہچان بن جانے والی پہلی عمارت تھی جس میں اس کی تخلیقی و ذہنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار ملتا ہے یہ بات تعجب انگیز ہو سکتی ہے کہ جب اس معمار سومک کو یہ عمارت بنانے کا کہا گیا تھا تو اسے بہت کم لوگ جانتے تھے ،مگر ان دونوں معروف معمار اسٹربچن اس قدر دوسرے کاموں میں مصروف تھا کہ اس کے پاس اس عمارت کی تعمیر کے لیے وقت نکالنا مشکل تھا چنانچہ یہ کام سومک کے سپرد ہوا۔ یہ عمارت غالباً 1890ء کے لگ بھگ تعمیر ہوئی اور کے ڈی اے کے ریکارڈ میں جو 1865ء درج ہے، غلط ہے ۔یہ واضح ہوتا ہے کہ ان نقشوں سے جو کہ 1874ء اور 1869-70ء میں شائع ہوئے ان نقشوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت ان نقشوں کی اشاعت کے بعد مکمل ہوئی سومک کا فلیگ سٹاف پر کیا گیا کام ڈبل سٹوری عمارت تک محدود ہے جبکہ انیکسی والا حصہ اس کے بعد تیار کیا گیا ممکنہ طور پر محدود بجٹ میں رہتے ہوئے مرکزی حصے کو با سلیقہ طریقے سے تعمیر کیا گیا ہے ۔محترمہ فاطمہ جناح جن دونوں اس عمارت میں رہیں ان کی سیاسی جدوجہد کے دونوں میں یہ عمارت کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز (C.O.P) کا ہیڈ کوارٹر بھی رہی مادر ملت سے نامور شخصیات مثلاً خواجہ ناظم الدین ، مولانا مودودی ، جسٹس زید ایچ لاری، چین کی عظیم خاتون مادام سن یات سن ، چو این لائی ، سوئیکارنو، شہنشاہ ایران، الجزائر کے فرحت عباس، مسز اندرا گاندھی ، پنڈت جواہر لال نہرو، مسز روز ویلٹ ، مادام ڈیگال، مسز سروجنی نائیڈو ، مسز نکلسن نے اسی فلیگ سٹاف ہاؤس میں ملاقاتیں کیں۔ اس عمارت کی شاندار اہمیت اور محل وقوع کی وجہ سے بہت سی پارٹیاں اسے خریدنا چاہتی تھیں ،اس لیے نہیں کہ اس عمارت کو بچایا جائے بلکہ اس لیے کہ اسے توڑ پھوڑ کر از سر نو کوئی نئی عمارت ایستادہ کی جائے ۔ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے ایڈمرل یو اے سعید کے علاوہ 1973ء میں نیشنل بنک کے جمیل نشتر نے 300روپے فی مربع گز کے حساب سے پیش کش کی ان کا ارادہ بنک کے لیے ملٹی سٹوری بلڈنگ بنام جناح مرکز بنانا مقصود تھا۔ قائد اعظم سے متعلق جائیدا کے ٹرسٹی معروف سیاسی لیڈر ایم اے اصفہانی نے اس شرط پر بولی کی منظوری دینے کا کہا کہ نئی عمارت کی ایک منزل قائد اعظم لائبریری اور ان کی یادگار اشیاء کے لیے مختص کر دی جائے، مگر یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔ اگلی بولی 1975ء میں 675 روپے مربع گز کے حساب سے وصول ہوئی خوش قسمتی سے نیشنل بنک یا دیگر ادارے اونچی بولی دینے سے قاصر رہے اور یوں یہ عمارت ملٹی سٹوری پلازہ کی شکل اختیار نہ کر سکی ۔ اس بنگلے کو 1985ء تک نظر انداز کر دیا گیا اس کے بعد محکمہ آثار قدیمہ کے کہنے پر حکومت نے اس بنگلے کو خرید کر اسے قومی یادگار قرار دے دیا واضح رہے کہ اس عمارت کی نیلامی کا اشتہار اکتوبر 1980ء میں شائع ہوا تھا، جس کے بعد قائد اعظم کے سیکرٹری رضوان احمد نے اخبارات کے ذریعے اس طرف توجہ دلائی کہ اسے نیلا م نہ کیا جائے اور قومی یادگار قرار دیا جائے ۔ممتاز قانون دان شریف الدین پیرزادہ نے اس بلڈنگ کی فروخت کے بعد سٹے(Stay) آرڈر بھی لیا تھا۔قائد اعظم میوزیم میں داخلہ مفت ہے ۔صبح نو بجے سے شام چار بجے تک ماسوائے بدھ کے یہ میوزیم کھلا رہتا ہے۔ میوزیم کے باغ کے صحن میں فوارہ بھی اس کے حسن کو بڑھاتا دکھائی دیتا ہے۔یہ میوزیم واحد میوزیم ہے، جہاں آنے والے مہمانوں کو سٹاف خود بہ نفس نفیس میوزیم دکھاتا اور تاریخ سے آگاہ کرتا ہے۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
مسجد مریم زمانی بیگم:خوبصورت طرز تعمیر کا شاہکار

مسجد مریم زمانی بیگم:خوبصورت طرز تعمیر کا شاہکار

''آئین اکبری‘‘ کے مطابق مریم مانی، اکبر کی بیوی اور جہانگیر کی والدہ تھی۔ وہ راجہ بہاری مل کی بیٹی اور راجہ بھگوان داس کی ہمشیرہ تھی اس نے قلعہ لاہور کی مشرقی دیوار اور اکبری گیٹ کے بالمقابل مستی دروازہ میں اپنے نام سے 1023 ہجری بمطابق 1614ء میں مسجد مریم زمانی (بیگم شاہی مسجد) تعمیر کرائی۔ جس کے کہنہ درو دیوار میں پٹھانوں کا عہد آج بھی مضبوطی کے گہرے تاثر کی گواہی دے رہا ہے۔مسجد مریم زمانی وسطی بلند محرابی دروازہ کے ساتھ پانچ محرابوں پر مشتمل ہے یہ مسجد اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے پٹھانوں اور مغلوں کے عبوری دور کی نمائندگی کرتا ہے اسے اعلیٰ قسم کے چونے اور سیمنٹ کے ساتھ نہایت عمدگی اور خوبصورتی سے تعمیر کیا گیا ہے۔ مسجد کا اندرونی کام بہت منفرد ہے اور اس کے بعد تعمیر ہونے والی بادشاہی مسجد کے اندرونی کام میں بھی اس کے گل بوٹوں اور آرائش کی جھلک ایک حد تک نظر آتی ہے۔ اس پانچ محرابی مسجد کی اندرونی وسطی محرابوں پر چاروں جانب بلندی پر تین محرابیں بنی ہیں۔ جن پر وسطی محراب اپنی سادگی اور سائیڈ کی تکون نما محرابیں چاروں کونوں میں اپنی موجودگی کا گہرا تاثر چھوڑتی ہیں۔ تکون نما محرابیں اس مسجد کا سب سے خوبصورت حصہ ہیں کہ دیکھنے والا نظر نہ ہٹانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ انہیں بلاشبہ انفرادیت، جاذبیت اور حسین تخلیق کا شہ پارہ کہا جا سکتا ہے۔ اندرونی وسطی محراب پر کلمہ طیبہ اور تین جانب حاشیہ میں آیت الکرسی تحریر ہے۔ چھت کا وسطی حصہ آرائشی کام سے مزین ہے اور اس کے اندرونی جانب گولائی میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ دائرے میں لکھے ہوئے اور پہلی نظر میں وہ نقش و نگار لگتے ہیں ۔ دائیں اور بائیں دونوں وسطی محراب کا کام مٹ چکا ہے لیکن ان کی چھتوں کے اندرونی جانب گولائی میں آٹھ پتیوں کے بڑے پھول اپنی دیدہ زیبی سے توجہ دلاتے ہیں۔دونوں سائیڈ کی نچلی محرابیں چھوٹی ہیں جن کے اوپر آیات قرآنی، پھول بوٹے اورکھجور کے درخت بنے ہیں تمام محرابوں کے کونوں کو کمال ہنر مندیش گولائی سے اس عمدگی سے لایا گیا ہے کہ تکونیں اپنی جگہ پر متوجہ کرکے اپنی پہچان کراتے ہوئے غیر محسوس طریقہ سے اس گولائی کا حصہ بنتی نظر آتی ہیں۔ بظاہر تکونیں نظر آنے والی قوسیں چاروں کونوں کے ٹکڑوں میں اوپر نیچے بنتے ہوئے ختم ہو جاتی ہیں۔ تمام پھولوں کے گرد حاشیے ضرور ہیں۔ اس بیگم شاہی مسجد میں طاق کی بجائے جفت اعداد کی اشکال دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ مغل دور کی عمارات میں طاق اعداد حتمی حیثیت کے حامل ہیں۔ یہاں آپ کو پانچ کی بجائے چھ کونوں کے ستارے بھی نظر آئیں گے جن کے درمیان میں پھول بوٹے بنے ہوئے ہیں۔ اس طرح صحن کی بڑی اور بلند وسطی محراب کے دونوں جانب چار چار مستطیل محرابیں اور سائیڈ کے چاروں دروازوں پر دونوں جانب دو مستطیل اشکال میں صراحیاں پھولوں سے مزین ہیں۔ جن کے دونوں جانب نیلے پھولوں کا حاشیہ ہے۔ پہلی نظر میں مسجد کی مضبوطی دیکھنے والے کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے اور یہ اس کی مضبوطی اور پائیداری ہی تھی کہ یہ سکھوں کے عہد کی تمام تر لوٹ کھسوٹ ، بارود خانہ اور اسلحہ خانہ بننے کے باوجود آج بھی اپنا لٹا پٹا جلال ہمارے سامنے خم ٹھونکے کھڑی ہے۔بیگم شاہی مسجد کے وسیع حجم کے محرابی ستون اور بھاری بھر کم گنبد اس کا سب سے بڑا نمایاں اور اوجھل وصف ہیں اور اوجھل اس لئے کہ یہ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ بیگم شاہی مسجد کے ستونوں کی لمبائی اور چوڑائی دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ اس کے ستونوں کی لمبائی دو سو انچ اور چوڑائی ڈیڑھ سو انچ ہے۔ ان ستونوں پر ہونے والا کام بھی اپنی مثال آپ ہے جن میں مخمس (پانچ کونے) مسدس( چھ کونے اور مثمن( آٹھ کونے) کی بنی ہوئی جیو میٹریکل اشکال حسن توازن کا بینظیر نمونہ ہیں۔ چھت پر جانے کیلئے دائیں اور بائیں جانب دوزینے بنے ہیں۔ دایاں زینہ تباہ ہونے کے باعث بند پڑا ہے جبکہ بائیں جانب کی سیڑھیاں آمدورفت کیلئے کھلی ہیں۔وسطی گنبد چھت سے بہت بلند اور اپنی نوعیت کا منفرد اور دوسرا گنبد ہے۔ یہ خاص بلندی تک سیدھی شکل میں جا کر اوپر سے گولائی میں آ جاتا ہے بڑے گنبد اور چھت فصیل سے متصل دونوں جانب سیڑھیاں بھی ہیں۔ دونوں سائیڈ کے دو دو گنبدوں کی گولائی چھت کی سطح سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ چھت کے چاروں کونوں پر بلند میناروں کی بجائے چار برجیاں اپنے پلیٹ فارم اور سیڑھیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ جہاں کھڑے ہو کر آپ چاروں جانب کے مناظر سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ چھت کی قلعہ نما فصیل کا مضبوطی میں جواب نہیں۔ یہ فصیل دوھری بنی ہوئی ہے اور اس پر بیٹھنے کیلئے جگہ بھی بنی ہوئی ہے۔''بیگم شاہی مسجد‘‘ کیلئے جگہ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔ یہ قلعہ کے باہر اور اس کے نزدیک تعمیر ہونے والی سب سے پہلی مسجد تھی اس دور میں قلعہ لاہور کا صرف اکبری گیٹ ہی تھا اور اس کے سامنے اس کی تعمیر اس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ بادشاہی مسجد اس کی بہت عرصہ بعد تعمیر ہوئی۔اکبری گیٹ کے بلند چبوترے کے جنوبی کونہ پر ایک سرنگ سی تھی۔ گمان غالب ہے کہ یہ سرنگ مسجد کے اندر تک جاتی تھی۔ یعنی شاہی خاندان کے افراد مسجد میں ادائے نماز کیلئے قلعہ کے اندر سے ہاں سیدھے جا سکتے تھے۔ بیگم شاہی مسجد کی شمالی دیوار کے ساتھ ساتھ اندر ایک راستہ نیچے سے قلعہ لاہور کے اندر تک جاتا تھا جو کہ اب بند کردیا گیا ہے۔ اکبری گیٹ سے مسجد مریم زمانی کا فاصلہ صرف پچاس قدم کا ہے۔تاریخ لاہور کے مصنف سید محمد لطیف ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لکھتے ہیں: '' اس تاریخی مسجد کو رنجیت سنگھ نے بندوقوں اور بارود کی تیاری کیلئے استعمال کیا اسی بناء پر اسے ''بارود خانہ والی مسجد‘‘ کہا جانے لگا، یہ کام جو ہرمل مستری کی نگرانی میں ہوتا تھا لاہور کے ڈپٹی کمشنر نے یہ مسجد اور اس کے ساتھ ملحقہ دکانیں مسلمانوں کے حوالے کردیں۔ مسلمانوں نے چندہ اکٹھا کرکے اس کی تعمیر و مرمت کروائی‘‘۔مزید یہ کہ '' انگریز عہد میں اس میں سے بارود نکلوا کر دریائے راوی میں پھینک دیا گیا اور مسجد خالی ہو گئی۔ میجر میگر ہگر صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر لاہور نے یہ کمال دریا ولی1850ء میں یہ مسجد مسلمانوں کے حوالے کردی اور ایک بیٹھک اور دکانیں جو متعلقہ مسجد تھیں وہ بھی واگزار کر دیں‘‘۔ 

حکایت سعدی:شہنشاہ اکبر اور بیربل میں بحث

حکایت سعدی:شہنشاہ اکبر اور بیربل میں بحث

اچانک ایک دن شہنشاہ اکبر نے درباریوں سے تین سوالات دریافت کیے: کس کا بیٹا بہترین ہے؟کس کے دانت بہترین ہیں؟کونسی چیز اعلیٰ ترین ہے؟تمام درباریوں نے آپس میں سوالات پر بحث کرنی شروع کی۔ ان میںسے ایک معمر درباری نے جواب دیا: شہنشاہ بادشاہ کا بیٹا بہترین ہے۔ہاتھی کے دانت بہترین ہیں۔علم سب سے اعلیٰ چیز ہے۔ شہنشاہ نے جوابات سنے اور خیال کیا: کاش کہ بیربل یہاں ہوتا تو وہ مزید مناسب جوابات دیتا۔اس لیے اس نے جلدی سے بیربل کو بلا بھیجا۔ بیربل فوری طورپر دربار میں آگیا۔ اس سے تینوں سوالات کے جوابات دریافت کیے گئے۔ بیربل نے جواب دیا : ''عالی جاہ! گائے کا بیٹا (بچہ) سب سے بہترین ہے۔ کیوں کہ اس سے زمین میں ہل چلایا جاتا ہے۔ جبکہ اس کا گوبر بھی کھاد کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔ فصلات اس سے بڑھتی ہیں اور سب کے لیے خوراک پیدا کی جاتی ہے۔‘‘دوسرے سوال کا جواب یہ ہے : ''ہل کا دانت سب سے بہترین ہے وہ زمین کو پھاڑتا ہے اور اس کو زرخیز کرتا ہے۔زمین کو فصلات لگانے کے قابل بناتا ہے‘‘۔''تیسرے سوال کے جواب میں عالی جاہ! کہا جاتا ہے کہ حوصلہ سب سے بہترین کوالٹی ہے۔ بہرحال ذہین انسان بھی حوصلے کے بغیر کچھ نہیںکرسکتا۔ اگرچہ علم سب سے اعلیٰ دولت ہے مگر حوصلہ ان سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔‘‘ شہنشاہ اور درباری بیربل کے عقلمندی کے جوابات سے بہت خوش ہوئے۔

پھل کھائیں،یاداشت بہتر بنائیں

پھل کھائیں،یاداشت بہتر بنائیں

ماہرین کے مطابق بعض پھل اور غذائیں نہ صرف دماغ کو طاقتور بناتی ہیں بلکہ کئی ذہنی اور دماغی امراض کو بھی دور رکھتی ہیں۔جن میں الزائمر اور ڈیمنشیا جیسے امراض بھی شامل ہیں۔ڈاکٹرزاور غذائی ماہرین کے نزدیک دماغ کو تیز اور بہتر بنانے والی 6 غذائو ں کو ٹانک بھی کہاجا سکتا ہے۔زیتون کا تیل زیتون کے تیل میں 10 سے 15فیصد سیچوریٹڈ چکنائی ہوتی ہے، لیکن اس میں 2 تہائی مقدار مینو سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں جو دل اور دماغ دونوں کے لیے مفید ہیں۔زیتون کے تیل میں ایک مرکب پولی فینول بھی پایا جا تا ہے جو بعض تحقیقات کے مطابق ڈیمنشیا اور دیگر دماغی امراض کو روکتا ہے۔ماہرین کے مطابق 125درجے سینٹی گریڈ سے نیچے زیتون کا تیل پکانے سے اس کے اہم غذائی اجزاء ضائع نہیں ہوتے۔تُرش پھل:کینو،نارنجی اور گریپ فروٹ میں فلیو نون نامی اجزاء پائے جاتے ہیں۔جو دماغ کی حفاظت کرتے ہیں ۔یہ کیمیکل دماغ کے اس حصے کو بہتر بناتے ہیں جو سوچنے اور یادداشت کا کام کرتے ہیں،اور اسی طرح ڈیمنشیا نامی مرض سے بھی بچا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ پھلوں میں اینٹی آکسیڈینٹس پائے جاتے ہیں جو دماغ کو تیز کرنے کے علاوہ کئی ذہنی امراض سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔خشک میوے:خشک میوہ جات میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ،وٹامن ای اور مفید چکنائیاں ہوتی ہیں جو دماغ کی مجموعی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہیں۔اگر روزانہ 30گرام خشک میوے کھائے جائیں تو اس کے زبردست اثرات سامنے آتے ہیں۔مچھلی:مچھلیوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ، آیوڈین،وٹامن ڈی اور دیگر اہم اجزاء پائے جاتے ہیں۔اب یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ مچھلی کھانے والے افراد کے دماغ بڑے ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مچھلی کھانے سے یادداشت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔حاملہ خواتین مچھلی کھا کر کئی اہم فوائد حاصل کر سکتی ہیں جبکہ مچھلیوں میں سالمن مچھلی نہایت اہمیت رکھتی ہے۔چاکلیٹ:دماغ کو تیز کرنے کے لیے چا کلیٹ نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔کوکو چاکلیٹ کا بنیادی جزو ہے اور اس میں ذہن کے لیے مئوثر اجزاء پائے جاتے ہیں ، لیکن ماہرین کے مطا بق گہری رنگت کی کڑوی چاکلیٹ کھانا زیادہ فائدہ دیتا ہے۔ایک حالیہ مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ تیزی سے گرتی ہوئی دماغی صلاحیتوں کو روکنے کے لیے چاکلیٹ فوری مدد کرتی ہے۔ یہ سوچنے کی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے اور دماغ میں خون کا دورانیہ تیز کرتی ہے۔دوسری جانب یہ چاق و چوبند رکھتی ہے اور موڈ بھی بہتر بناتی ہے،لیکن تمام ماہرین کے مطابق چاکلیٹ سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے گہرے رنگ کی یعنی ڈارک چاکلیٹ کا استعمال ہی کریں۔بیریز:سٹرابیری،رسبیری،چیری،سرخ اور کالے انگور یادداشت اور نظر کو تیز کرتے ہیں۔بلیو بیری دماغ میں خون کا دورانیہ بڑھا کر یاداشت اور سمجھنے کی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے،اور پڑھنے والے بچوں کیلئے دماغ پر بھی مثبت اثرات مرتب کر کے ان کی دماغی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق بلیو بیری کا رس پینے کے بعد کا م کرنے والے بچوں کی دماغی کار کردگی 11 فیصد تک بہتر ہو گئی۔اس لیے ضروری ہے کہ کوئی دماغی کام کرنے سے تین،چار گھنٹے قبل سٹرابیریز، بیریز اور بلیو بیریز کھا لی جائیں۔

آج کا دن

آج کا دن

سعودی عرب کا قومی دن23ستمبر 1932ء کو شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن المعروف ابن سعود نے ایک فرمان جاری کیا جس کے تحت نجد اور حجاز کے علاقوں کو ایک نئے نام 'مملکت سعودی عرب‘ کے تحت متحد کیا گیا۔سعودی عرب کے قومی دن کو عربی زبان میں 'الیوم الوطنی‘ کہا جاتا ہے۔2023ء کے قومی دن کا عنوان ''ہم خواب دیکھتے ہیں اور انھیں حاصل کرتے ہیں‘‘ہے۔گذشتہ کئی دہائیوں میں سعودی قومی دن ایک رنگا رنگ سالانہ تہوار اور روایت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔اس دن حب الوطنی اور اپنائیت کے جذبے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لوک رقص، گیت اور روایتی تہوار قومی دن کی تقریبات کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔ شہری فخر سے اپنے وطن سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔موریا بغاوت 23 ستمبر 1821ء کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف ''موریا بغاوت‘‘ کا آغاز ہوا۔ اس دوران طرابلس شہر پر قبضہ کرنے والے مسلح یونانیوں نے ترکوں کا قتل عام کیا۔ مورخین کے مطابق ''موریا بغاوت‘‘ کے دوران 10 ہزار سے زائد سویلین ترکوں کو قتل کیا گیا۔ ہیٹی میں تباہ کن طوفان آیا2004ء میں آج کے دن ہیٹی شدید نوعیت کا سمندری طوفان آیا، جس نے ہر سو تباہی مچا کر رکھ دی۔ اس سمندری طوفان کو ''جین ‘‘کا نام دیا گیا۔اس طوفان کے دوران بڑے پیمانے پر سیلاب آیا اور مٹی کے تودے گرنے کے بعد ہیٹی میں 3,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔یہ 1998ء میں مچ کے بعد بحر اوقیانوس کے طاس میں آنے والا سب سے مہلک سمندری طوفان تھا۔ فضائی حادثہگلف ایئر لائن کی پرواز 771 کراچی (پاکستان) سے ابوظہبی (متحدہ عرب امارات) کی پرواز تھی۔ 23 ستمبر 1983ء کو جب طیارہ ابوظہبی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب پہنچا تو جہاز میں رکھا گیا بم پھٹ گیا اور طیارہ متحدہ عرب امارات میں ابوظہبی اور دبئی کے درمیان جبل علی کے قریب صحرا میں گر کر تباہ ہوا۔ عملے کے پانچوں ارکان اور 107 مسافروں کی موت ہوگئی۔

یادرفتگاں: یوسف خان باصلاحیت ورسٹائل اداکار

یادرفتگاں: یوسف خان باصلاحیت ورسٹائل اداکار

پاکستان کی فلمی تاریخ میں متعدد فنکار ایسے بھی رہے ہیں کہ جنھیں اپنا مقام حاصل کرنے کیلئے خاصی جدوجہد کرنا پڑی اوربعدازاں ان میں سیکچھ لیجنڈ کہلائے۔ ایسے ہی فنکاروں کی فہرست میں ایک نام اداکار یوسف خان کا تھا جو 20ستمبر2009 ء کو اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے تھے اور آج ان کی 14ویں برسی ہے ۔ یوسف خان پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے فنکار تھے جنہوں نے فلموں میں مسلسل کام کرنے کی گولڈن جوبلی منائی تھی۔ وہ یکم اگست 1931ء کو فیروز پور (بھارت) میں پیدا ہوئے اور ان کا اصل نام خان محمد تھا۔ 1954ء میں فلم ''پرواز‘‘ سے فنی کریئر کا آغاز کیا لیکن بدقسمتی سے ان کے فنی کریئر کو وہ پرواز نہ مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ ایک سپرسٹار کا مقام حاصل کرنے کیلئے انھیں پورے دو عشرے(20سال) انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران انھیں ہیرو، معاون اداکار اور کریکٹرایکٹر کے علاوہ ولن کے کردار بھی قبول کرنا پڑے۔ وہ ایک انتہائی با صلاحیت اداکار تھے، ہر کردار میں ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ 70ء اور 80ء کی دہائی میں پنجابی فلموں میں ایکشن ہیرو کے طور پر اپنے فن کے جلوے دکھا تے نظر آئے۔ انہوں نے کچھ پشتو فلموں میں بھی کام کیا۔1970ء کی دہائی ان کیلئے مبارک ثابت ہوئی۔ ان کے مرکزی کردار سے سجی متعدد فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ ہدایتکار اقبال کاشمیری کی سپر ہٹ پنجابی فلم ''ٹیکسی ڈرائیور‘‘ میں انہوں نے مرکزی کردار بڑے شاندار طریقے سے نبھایا۔ اس کے بعد ان کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا۔ ہدایتکار اقبال کاشمیری نے انہیں ''ضدی‘‘ میں کاسٹ کیا۔ یہ فلم بھی سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس میں ان کے ساتھ فردوس، اعجاز،نبیلہ اور الیاس کاشمیری نے اہم کردار ادا کیے۔ اس فلم کے نغمات بھی بہت پسند کیے گئے۔ اس فلم میں یوسف خان فن کی بلندیوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ نبیلہ کی اداکاری کو بھی بہت سراہا گیا۔ ''ضدی‘‘ اداکارہ ممتاز کی پہلی فلم تھی جس میں ان پر عکسبند کیا گیا گیت ''وے چھڈ میری وینی نہ مروڑ‘‘ بڑا مشہور ہوا تھا۔یوسف خان نے سلطان راہی کی طرح بہت زیادہ فلموں میں کام نہیں کیا۔ان کی اداکاری کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اوور ایکٹنگ نہیں کرتے تھے۔وہ دھیمے لہجے میں بولتے تھے لیکن جب ضرورت پڑتی تھی تو اپنی گرجدار آواز سے بھی فلمی شائقین کو متاثر کرتے تھے۔ وہ بڑی دلکش شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے صبیحہ خانم، نیلو، آسیہ، انجمن، فردوس اور نغمہ کے ساتھ خاصاکام کیا۔ وہ مزاحیہ اداکاری بھی کرسکتے تھے۔ جس کی سب سے بڑی مثال ان کی فلم ''اتھرا‘‘ ہے جو 1975ء میں ریلیز ہوئی۔ ان کی اردو فلموں میں ''حسرت، لگن، دو راستے، سسرال اور خاموش رہو‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ بالا فلموں میں ان کی اہم ترین فلمیں ''سسرال‘‘ اور ''خاموش رہو‘‘ تھیں جن میں انہوں نے اچھا کام کیا۔ دونوں سپرہٹ فلمیں تھیں لیکن ہوا یوں کہ ''سسرال‘‘ میں علائوالدین کی لافانی اداکاری نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا اور ''خاموش رہو‘‘ میں محمد علی سب پر بازی لے گئے۔ اگرچہ ان دونوں اردو فلموں میں یوسف خان ہیرو تھے۔ اس کے بعد بھی یوسف خان نے '' ماں باپ، تاج محل، دل بے تاب اور غرناطہ‘‘ جیسی فلموں میں کام کیا لیکن ان کی اتنی پذیرائی نہیں ہوئی۔ ان کے بارے میں فلمسازوں اور ہدایتکاروں کی یہ رائے تھی کہ وہ اردو فلموں کیلئے موزوں نہیںکیونکہ ان کا لہجہ اردو فلموں والا نہیں تھا۔انہوں نے سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔ ایک زمانے میں مصطفیٰ قریشی کے ساتھ ان کی بہت فلمیں ریلیز ہوئیں۔ جن میں وارنٹ، حشر نشر، چالان، چور سپاہی، غلامی، رستم تے خان اورسوہنی مہیوال بڑی کامیاب ثابت ہوئیں۔ ''جبرو‘‘ اور ''نظام ڈاکو‘‘ نے بھی بہت بزنس کیا۔ ''سوہنی مہیوال‘‘میں اداکاری کر کے انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ رومانوی کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ نغمہ کے ساتھ ان کی فلم ''سدھا رستہ‘‘بہت ہٹ ہوئی۔ ان کی پنجابی فلمیں ''چن پتر، بائوجی اور جاپانی گڈی‘‘ بھی بہت کامیاب رہیں۔ وہ بڑی ٹھیٹھ پنجابی بولتے تھے۔ ان کی دیگر یادگار پنجابی فلموں میں ٹیکسی ڈرائیور، ضدی، رستم تے خان، غلامی، دھی رانی اور بڈھا گجر‘‘ شامل ہیں۔ یوسف خان کی دیگر فلموں میں بابل، جواب دو، چترا تے شیرا، پھول اور شعلے، یارانہ، وڈاخان، اللہ رکھا اور قصہ خوانی‘‘ شامل ہیں۔وہ فنکاروں کی تنظیم ''ماپ‘‘ کے چیئرمین بھی رہے۔ ان کے کئی اداکاروں کے ساتھ جھگڑے بھی مشہور ہوئے اور انہیں فلمی صنعت کا دادا بھی کہا جانے لگا۔ اسی طرح شجاعت ہاشمی نے جب بھارت جا کر سعادت حسن منٹو کے افسانے ''ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ پر بننے والی ٹیلی فلم میں کام کیا تو یوسف خان نے اس کا بھی برا مانا۔ وہ بھارت اور بھارتی فلموں سے نفرت کرتے تھے۔ اسی طرح وہ بھارتی اداکاروں کے پاکستان آنے کے بھی بڑے مخالف تھے۔ اس بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ وہ ایک سچے قوم پرست تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی انکھوں سے 1947 میں مسلمانوں کی کٹی پھٹی نعشیں دیکھی ہیں اور وہ یہ دلخراش مناظر کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ان کی خوش بختی تھی کہ انہیں شروع میں ہی ریاض شاہد جیسا نابغہ روزگار مل گیا۔ جنہوں نے یوسف خان کی صلاحیتوں کو نکھارا۔ 20 ستمبر 2009ء کو ان کا 78 برس کی عمرمیں لاہور میں انتقال ہوا۔  

اے ٹی ایم اور دنیا کا پہلا آن لائن بنک

اے ٹی ایم اور دنیا کا پہلا آن لائن بنک

یہ جولائی 1969ء کی کوئی تاریخ تھی جب نیویارک کی سڑکوں پر کثرت سے لگے اشتہارات نے چلتے لوگوں کے قدم روک لئے۔ یہ اشتہار معروف امریکی بنک ''کیمیکل بنک‘‘ کی طرف سے آویزاں کئے گئے تھے جو دو ماہ تک لوگوں کے تجسس کا سبب بنے رہے۔ ان اشتہارات کی عبارت کچھ یوں تھی ''2 ستمبر 1969ء سے ہمارا بنک صبح نو بجے کھلے گا اور پھر کبھی بند نہیں ہو گا‘‘۔ اس اشتہار نے دوماہ تک لوگوں کو حیرت میں مبتلا کئے رکھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کیمیکل بنک چوبیس گھنٹے کھلا رہے گا۔یہ اس بنک کی طرف سے ''الیکٹرانک بنکنگ‘‘ کی شروعات تھی۔ اگرچہ اس سے پہلے 1967ء میں برطانیہ کے برکلے بنک کو تاریخ کی پہلی اے ٹی ایم نصب کرنے کا اعزاز ہو چکا تھا جو صرف کیش مہیا کرنے کا ذریعہ تھا۔ 2 ستمبر 1969ء کو کیمیکل بنک کی راک ویل سنٹر، نیویارک برانچ میں نصب کی جانے والی ''ڈاکو ٹیلر‘‘ نامی اے ٹی ایم کے ذریعے کیش کے ساتھ رقم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی اور کچھ دوسری بنکنگ سہولیات بھی متعارف کرائی گئی تھیں۔ یوں امریکہ کے کیمیکل بنک نے الیکٹرانک بنکنگ کو رواج دے کر تاریخ کے پہلے الیکٹرانک اور آن لائن بنک کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ کیمیکل بنک کی اس سہولت نے بنکاری کی تاریخ میں خود کار بنکنگ اور ''برانچ لیس بنکنگ‘‘ کی ایسی بنیاد رکھی جو آگے چل کر نت نئی سہولتوں کے ساتھ اپنے کھاتہ داروں کیلئے آسانیاں پیدا کرتی چلی گئی۔ آج کل کی ''ون کلک بنکنگ‘‘ یعنی کمپیوٹر یا موبائل ایپ بنکنگ دراصل اسی الیکٹرانک بنکنگ کا تسلسل ہے۔ جدید سہولیات سے لیس کیمیکل بنک کیلئے بنایا جانے والا اے ٹی ایم سسٹم ڈاکیو ٹیل کمپنی کے روح رواں ایم ڈان ویٹزل نے تیار کیا تھا جنہوں نے اگلے پانچ سال کے دوران اے ٹی ایم کی 70فیصد مارکیٹ کو اپنے نام کر لیا تھا۔ اس منفرد اے ٹی ایم کی شروعات کے ساتھ ہی اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی جب انتظامیہ نے محسوس کیا کہ اس جدید بنکاری کے ذریعے اٹھنے والے اخراجات ان کی توقع سے کہیں زیادہ ہیں۔ آج کل کی طرح اس دور میں بھی بنکوں کی ترجیحات کم اخراجات اور زیادہ منافع ہوا کرتا تھا۔ ابھی بنک نے الیکٹرانک بنکنگ کو شروع ہی کیا تھا جب اسے محسوس ہوا کہ لوگ اس نئی طرز بنکاری کے ذریعے مشین سے لین دین کرنے سے کترانے لگے ہیں کیونکہ بیشتر لوگوں کا موقف تھا کہ ہم ایک مشین کے حوالے اپنا کیش کیوں کریں۔1982ء میں کیمیکل بنک نے پہلی مرتبہ ''پرسنل کمپیوٹر بنکنگ‘‘ سسٹم شروع کیا۔ اس سسٹم کو ''پرونٹو‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس سسٹم کے سافٹ ویئر پر بنک کو 20ملین ڈالر کے اخراجات ادا کرنے پڑے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ''پرونٹو‘‘ ہی کمپیوٹر کا وہ پہلا سسٹم تھا جس نے کیمیکل بنک کے ذریعے آن لائن بنکنگ سسٹم کو آگے بڑھانے اور اس میں بنکاری کی نئی جہتیں متعارف کرانے میں موثر کردار ادا کیا تھا تو بے جا نہ ہو گا۔ یوں پرونٹو ہی کی بدولت کیمیکل بنک آن لائن بنکنگ کو متعارف کرانے والا دنیا کا پہلا بنک بن گیا جس کے ذریعے گھر بیٹھے لوگوں نے اپنے کمپیوٹرز کی مدد سے بنکاری کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کا آغاز کیا تھا۔ یوں کیمیکل بنک کی بدولت اس کا اے ٹی ایم نیٹ ورک دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک بن کر ابھرا۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سال کے اندر اندراس کے آن لائن کسٹمر کی تعداد ساڑھے گیارہ لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ دنیا کی پہلی اے ٹی ایمدنیا کی پہلی اے ٹی ایم کو برطانوی شہری جان شیفرڈ بیرا نے 27 جولائی 1967ء کو لندن کے علاقے این فیلڈ میں بارکلے بنک کی ایک برانچ میں نصب کیا تھا جسے برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں ''کیش پوائنٹ‘‘ یا ''کیش مشین‘‘ جبکہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں ''منی مشین‘‘ کہا جاتا تھا۔آغاز میں اے ٹی ایم محض کیش کے حصول کی ایک مشین ہوا کرتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس مشین کا استعمال کاروباری لین دین کے دیگر طریقوں میں بھی بدلتا چلا گیا۔ آج کے دور میں بنک اے ٹی ایم کو ایک ایسی مشین بنانے کی طرف گامزن ہیں جو بنک کے تقریباً سارے کام سرانجام دے سکے۔اے ٹی ایم کے ڈویلپر ''این سی آر‘‘ کا کہنا ہے کہ ایک تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ بنک کے اندر کام کرنے والا عملہ جو فرائض سرانجام دیتا ہے اس میں کیش کے لین دین سمیت 80فیصد کام ایسے ہیں جو اے ٹی ایم سے باآسانی لئے جا سکتے ہیں۔اس مشین کی ایجاد کا تصور بھی خاصا دلچسپ ہے۔کہتے ہیں ایک دفعہ جان شیفرڈ اپنے بنک سے رقم نکلوانے جب وہاں پہنچا تو ایک منٹ پہلے بنک بند ہو چکا تھا۔ ایک دن جان شیفرڈ کو اچانک خیال آیا کہ سپر سٹورز پر اگر ایک مشین کے ذریعے چاکلیٹ اور مشروب کی بوتل نکل سکتی ہے تو چوبیس گھنٹے کیش کیوں نہیں نکالا جا سکتا۔ یہی خیال بعد میں اے ٹی ایم کی ایجاد کا باعث بنا۔بہت سارے لوگوں کیلئے یہ بات نئی ہو گی کہ دنیا میں سب سے پہلے اے ٹی ایم سے معروف برطانوی اداکار ریگ ور نے پیسے نکالے تھے۔ تاہم 80ء کی دہائی تک اے ٹی ایم بنکاری کا حصہ بن چکی تھی بلکہ دور حاضر میں تو اے ٹی ایم ہر طبقہ فکر کی ایک ضرورت بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اب گلی گلی، محلے محلے کھلے بنکوں میں اے ٹی ایم نے لوگوں کو گھر کی دہلیز تک بنکاری کی سہولیات مہیا کر دی ہیں۔برسبیل تذکرہ آپ کو بتاتے چلیں کہ دنیا کی سب سے بلندی پر واقع اے ٹی ایم پاکستان میں واقع ہے۔بادلوں میں ڈھکی اے ٹی ایم 16نومبر 2016ء کا سال بینکاری کی دنیا میں اس لئے اہم ہے کہ اس ماہ پاکستان نے دنیا کے بلند ترین اے ٹی ایم کا اعزاز بھارت سے چھینا۔ بھارتی ریاست سکم کی سرحد پر 14300 فٹ کی بلندی پر اے ٹی ایم نصب تھی، جس کے مقابلے میں نیشنل بنک آف پاکستان نے برف پوش خنجراب پاس میں سطح سمندر سے 15397 فٹ کی بلندی پر اے ٹی ایم لگا کر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ بنائی۔ دنیا کے بلند ترین برف پوش پہاڑی سلسلے میں جہاں اکثر اوقات پورا علاقہ سفید بادلوں سے ڈھکا ہوتا ہے کسی بھی بنک کیلئے مشین کی تنصیب اور اسے چالو رکھنا آسان کام نہیں تھا۔ عام بجلی کی بجائے اسے سولر اور ونڈ انرجی کے ذریعہ ہی موزوں قرار دیا گیا تاکہ یہ چوبیس گھنٹے بلا تعطل فعال رہ سکے۔ یہ مشین اگرچہ دن رات فعال رہتی ہے تاہم سردیوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گرنے کے باعث اسے چالو رکھنے کیلئے خصوصی انتظام کرنا ہوتا ہے۔