شباب کیرانوی پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام!

شباب کیرانوی  پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام!

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

پاکستانی فلمی صنعت کی جن لوگوں نے آبیاری کی اور اس کی نشو و نما کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دیں ان میں بہت سے نام شامل ہیں۔ اگر فلمساز اور ہدایت کاروں کی بات کی جائے تو انور کمال پاشا‘ مسعود پرویز، ریا ض شاہد، منشی دل، ایم جے رانا اور حسن طارق کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ایک نام اور بھی ہے، جن کے بغیر پاکستانی فلمی صنعت کی تاریخ نامکمل رہے گی اور وہ نام ہے، شباب کیرانوی!1925ء میں اتر پردیش (بھارت) کے ضلع مظفر نگر کے علاقے کیرانہ میں پیدا ہونے والے شباب کیرانوی کا اصل نام حافظ نذیر احمد تھا۔ وہ بنیادی طور پر صحافی تھے جنہوں نے صحافت کا آغاز فلمی جریدے ’’ڈائریکٹر‘‘ سے کیا۔ فلمساز کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم ’’جلن‘‘ تھی جبکہ ’’ثریا‘‘ وہ فلم تھی جس کی سب سے پہلے انہوں نے ہدایات دیں۔ پھر ان کی فلم ’’مہتاب‘‘ ریلیز ہوئی جو سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم نے شباب صاحب پر دولت کی بارش کر دی اور انہوں نے اپنا فلم سٹوڈیو بنا لیا۔ انہوں نے اپنے دیرینہ دوست اے احمد (سنگیت کار اے حمید نہیں) کے ساتھ اپنے پروڈکشن ہائوس کی بنیاد رکھی۔ اپنے پروڈکشن ہائوس کے بینر تلے انہوں نے جو پہلی فلم بنائی اس کا نام تھا ’’انسانیت‘‘، یہ فلم بے حد کامیاب رہی ۔ اس میں طارق عزیز اور علی اعجاز نے اپنے فلم کیرئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ’’سنگدل‘‘ انسان اور آدمی، انصاف اور قانون، دامن اور چنگاری ،میرا نام ہے محبت، سہیلی ، نوکر ، شمع ،آئینہ اور صورت اور شمع محبت جیسی کامیاب فلمیں دیں۔ شباب صاحب کو سماجی موضوعات پر فلمیں بنانے میں ملکہ حاصل تھا ۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ ان کی فلموں کی موسیقی بہت معیاری ہوتی تھی۔ انہوں نے ایک مصلح (Reformer) کا کردار ادا کیا کیونکہ ان کی فلموں میں سماجی برائیوں کے خاتمے کی بات کی جاتی تھی۔ اسی طرح اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے ۔شباب صاحب طبقاتی تفاوت کے سخت خلاف تھے ۔وہ اعلیٰ انسانی اقدار پر یقین رکھتے تھے ان کی اکثر فلموں میں امیر اور غریب کا ٹکرائو دکھائی دیتا تھا اور وہ دولت مندوں کو یہ پیغام دیتے تھے کہ غریبوں اور ناداروں کو بھی انسان سمجھیں اور انہیں حقارت سے نہ دیکھیں۔ فلم کے اختتام پر وہ امیر اور غریب کو یکجا کر دیتے تھے اور یوں فلم بینوں سے داد و تحسین حاصل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی فلموں میں مشرقی عورت کی خوبیاں اجاگر کرتے تھے۔انہوں نے اپنی فلموں میں مغربی تہذیب کی دلدادہ عورتوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا اور پاکستانی خواتین کو پیغام دیا کہ وہ مشرقی روایات سے روگردانی نہ کریں۔ شباب صاحب کی فلموں میں مزاحیہ اداکاری بھی کمال کی ہوتی تھی۔ ننھا ،علی اعجاز، رنگیلا اور منور ظریف کی صلاحیتوں کو انہوں نے خوب نکھارا۔شباب صاحب کی فلموں کی زیادہ تر موسیقی ایم اشرف نے مرتب کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم اشرف نے شباب صاحب کی فلموں کے جن گیتوں کی موسیقی دی ان میں 80فیصد سے زیادہ گیت سپرہٹ ثابت ہوئے۔ شباب صاحب کے بارے میں یہ کہنا بھی درست ہے کہ انہوں نے اداکار محمد علی کے فن کو انتہائی خوبصورتی سے استعمال کیا۔ یہ شباب صاحب کا ہی کمال تھا کہ اداکار محمد علی نے ان کی فلموں ’’انسان اورآدمی‘‘ اور’’ انصاف اور قانون‘‘ میں اپنی زندگی کے یادگار کردار ادا کیے۔ انہوں نے میڈم نورجہاں ،احمد رشدی، آئرن پروین اورمسعود رانا سے بڑے شاندار گیت گوائے۔ 70ء کی دہائی میں شباب صاحب نے ناہید اختر کی دلکش آوازکو اپنی فلموں کے نغمات کے لیے استعمال کیا۔ فلم ’’نوکر اور شمع‘‘ میں ناہید اختر نے ایم اشرف کی موسیقی میں بڑے دلکش گیت گائے جنہیں آج بھی پسند کیا جاتا ہے۔شباب صاحب پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ ان کی اکثر فلمیں بھارتی فلموں کا چربہ ہوتی ہیں ۔ کچھ فلموں کی حد تک تو یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے لیکن ان کی ساری فلمیں چربہ نہیں تھیں۔ البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی بہت سی فلمیں باکس آفس پر بے حد کامیاب ثابت ہوئیں۔ سب سے پہلے ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ ان کی فلم’’ انسانیت‘‘ بھارتی فلم ’’دل ایک مندر‘‘ کا چربہ ہے ۔اسی طرح چند اور فلموں کے بارے میں بھی یہی کچھ کہا گیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ شباب صاحب نے اسلم پرویزکو بھی ولن کی حیثیت جو کردار دیئے۔ انہوں نے اسلم پرویز کے فن کو ایک نئی سمت سے روشناس کرایا۔ خاص طورپر انسان اورآدمی ، انصاف اورقانون اور دامن اور چنگاڑی میں اسلم پرویز فن کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں۔شباب کیرانوی کے کریڈٹ میں یہ بات بھی جاتی ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلموں کو کئی ایک نئے چہرے دیے ۔ انہوں نے جن فنکاروں کو متعارف کرایا ان میں عنایت حسین بھٹی ،کمال، احمد رشدی، نغمہ، شیریں، ننھا، علی اعجاز ، ندیم(مغربی پاکستان میں پہلی فلم سنگدل) ظفر شباب، صاعقہ، زرقا، مسعود اختر، نذر شباب، آسیہ ، غلام محی الدین اور انجمن شامل ہیں۔شباب صاحب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ رحم دل اور غریب پرور تھے انہوں نے کبھی فلم کے تکنیک کاروں اور دیگر کارکنوں سے ناانصافی نہیں کی اور ہمیشہ وقت پر انہیں معاوضے کی ادائیگی کرتے رہے۔ اس لحاظ سے ان کی شہرت بہت اچھی تھی۔شباب صاحب سکرین رائٹر اور فلمی گیت نگار بھی تھے۔ ان کے دو شعری مجموعے’’موج شباب‘‘ اور’’ بازارصدا‘‘ ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئے تھے۔شاعری میں وہ احسان دانش کے شاگرد تھے۔ شباب کیرانوی ناول نگار بھی تھے ۔انہوں نے ایک درجن کے قریب ناول لکھے جن میں’’ پھول کے سائے ،ایک عورت ہزار مرحلے ، درد دل اور خلش‘‘ خاص طورپرقابل ذکر ہیں۔ ان کے چند مشہور گیتوں کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے:1۔ توجہاں کہیں بھی جائے میرا پیار یاد رکھنا(انسان اور آدمی)2۔ کیا ملا ظالم تجھے کیوں دل کے ٹکڑے کر دئیے (میں بھی انسان ہوں)3۔ یہ وعدہ کیا تھا محبت کریں گے(دامن اور چنگاری)4۔ آنکھیں غزل ہیں آپ کی(سہیلی)5۔ اللہ تیری شان یہ اپنوں کی ادا ہے(سہیلی)شباب صاحب ؟کے بیٹوں نذر شباب اورظفر شباب نے بھی ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھا اورکئی ایک کامیاب فلمیں تخلیق کیں شباب صاحب نے کئی دوسرے گیت نگاروں کو بھی اپنی فلموں میں گیت لکھنے کا موقع دیا جیسے بطور فلم ساز ان کی پنجابی فلم ’’تیس مار خان‘‘ کے گیت بابا عالم سیاہ پوش نے لکھے۔ اسی طرح مشیر کاظمی ‘ سعید گیلانی ، تسلیم فاضلی اور خواجہ پرویز نے بھی ان کی فلموں کے گیت لکھے ۔شباب کیرانوی نے 75سے زائد فلمیں بنائیں اور 50فلموں کی ہدایت کاری کی انہوں نے کئی بار نگار ایوارڈ ،گریجویٹ ایوارڈ اور مصور ایوارڈ سے نوازا گیا۔ صاحب ثروت ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی تکبر کا مظاہرہ نہیں کیا۔5نومبر1982کو شباب کیرانوی عالم جاوداں کو سدھار گئے ۔پاکستانی فلمی صنعت کے لیے انہوں نے جو خدمات سرانجام دیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ابابیل عجیب و غریب اور منفرد پرندہ

ابابیل عجیب و غریب اور منفرد پرندہ

کائنات جس قدر خوبصورت ہے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور حیران کن بھی ہے۔ اگر بات اس کائنات کی مخلوق کی، کی جائے تو اس کا صحیح شمار انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اس روئے زمین پر رینگنے والے کیڑوں سے لے کر ، چرند پرند ، آسمانوں پر اڑتے پرندوں سے لے کر سمندر کی تہوں میں حرکت کرتی مخلوق کا صحیح شمار انسان کے بس سے باہر ہے۔ عقل، انسان کیلئے اگرچہ رب کی عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جو اسے دیگر تمام مخلوقات سے افضل کرتی ہے لیکن دور جدید میں انسان ''ستاروں پہ کمند‘‘ ڈالنے کے باوجود بھی ابھی رب کی بنائی کائنات کے لاتعداد رازوں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ ابابیل کے بارے تو سوچتے ہوئے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ دس ماہ تک باآسانی لگاتار پرواز کر سکتا ہے۔یہ اور ایسے ہی لاکھوں اور محیر العقول جانداروں بارے سائنس دان کھوج لگانے میں لگے ہوئے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سائنس دان اس عجیب و غریب پرندے ''ابابیل‘‘ پراب تک کیا تحقیق کر سکے ہیں جس کا تذکرہ قرآن شریف میں بھی ملتا ہے۔ ابابیل ، چڑیا کی طرح کا ایک چھوٹی جسامت کا نازک سا پرندہ ہے لیکن چڑیا اور اس قبیل کے دیگر جانوروں کے برعکس اس کے پر زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ شاید ان پروں کے پیچھے قدرت کا یہ راز پوشیدہ ہے کہ یہ دیگر پرندوں کی نسبت طویل اور انتہائی بلندی پر سفر کرنے والا پرندہ ہے۔ قدرت نے اس پرندے کے پروں کی ساخت کچھ اس طرز پر بنائی ہے کہ ہلکی سی ہوابھی اسے خودبخود آگے دھکیلتی رہتی ہے۔اس پرندے کی عمومی لمبائی 18 سے 20 سنٹی میٹر کے قریب ہوتی ہے۔ اس کے پر سیاہ اور سینے کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے پنجے نہایت نازک اور کمزور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ زمین پر زیادہ آسانی سے نہیں بھاگ سکتا لیکن اس کے پس پردہ بھی شاید قدرت کی یہ مصلحت کارفرما ہے کہ یہ درختوں کی ٹہنیوں اور بجلی کی تاروں پر زیادہ آسانی سے بیٹھ سکتا ہے۔ابابیل فطرتاً پرانے گنبدوں ، کھنڈرات، پہاڑوں کی چٹانوں ، درختوں کے تنوں کے اندر اور اکثر ویران جگہوں پر اپنا مٹی کا گھونسلا بنا کر رہنے کی عادی ہے۔ یہ زیادہ تر اپنے گھونسلے گیلی مٹی اور گھاس کو باقاعدہ لیپ دے کر بناتے ہیں۔ ان کے بارے مشہور ہے کہ یہ ستر اسی سال تک اپنا گھونسلا نہیں چھوڑتے اور یہ جہاں بھی ہوں ہر دفعہ اپنے ہی گھونسلے میں آکر انڈے دیتے ہیں۔ابابیل کو باقی پرندوں کے مقابلے میں جو انفرادیت حاصل ہے وہ یہ کہ ابابیل شاید واحد پرندہ ہے جو متواتر اپنی اڑان جاری رکھنے کے سبب دوران پرواز نہ صرف اپنی نیند پوری کر لیتا ہے بلکہ دوران پرواز ہی اپنی خوراک بھی کھاتا رہتا ہے۔ چونکہ دوران پروازیہ اپنی چونچ کو کھلا رکھتا ہے جس کی وجہ سے فضا میں اڑتے کیڑے مکوڑے خود بخود اس کے منہ کے اندر اس کی خوراک کا سبب بنتے رہتے ہیں۔ اس کی عمومی غذا کیڑے مکوڑے ہی ہوتے ہیں۔یہ پرندہ بھی نر اور مادہ دونوں شکلوں میں پایا جاتا ہے۔عمومی طور پر یہ دونوں (نراور مادہ )ایک ساتھ اپنی پرواز جاری رکھتے ہیں۔ شاذ ہی یہ اکیلے پرواز کرتے ہیں ۔ لیکن یہ پرندہ زیادہ تر جھنڈ کی شکل میں پرواز کرتا ہے۔ عربی میں ابابیل کو '' خطاف‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ عربی زبان میں ابابیل کے معنی جھنڈ یا گروہ کے ہی ہیں۔ یہ پرندہ سب سے زیادہ ہجرت کرنے والا پرندہ ہے۔ یہ لیبیا، شام اور ایران کے علاقوں سے پورپی ممالک، سوڈان سے جنوبی افریقہ اور عراق کے شہر موصل میں ہجرت کرتے ہیں۔ گئے زمانوں میں تو جس علاقے کے اوپر سے آواز نکالتا یہ پرندہ گزر جاتا اسے بارش کی پیش گوئی سے تعبیر کیا جاتا۔ اکثر واقفان حال اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں کہ ایسا اکثر و بیشتر صحیح ہی ہوا کرتا تھا۔ ابابیل اور جدید تحقیق ابابیل کو سوئفٹ بھی کہتے ہیں ، جبکہ اس کی ایک نسل کو ''الپائن سوئفٹ‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ عام ابابیل کو '' ایپس ایپس‘‘ کہا جاتا ہے۔ سوئفٹ اور الپائن نسل کے ابابیلوں کی اوسط عمر بیس سال بتائی جاتی ہے۔آج سے چند سال پہلے سویڈن یونیورسٹی نے اپنی ایک طویل تحقیق کے بعد بتایا تھا کہ ابابیل مسلسل حالت سفر میں رہتا ہے ماسوائے اپنے انڈے دینے کے عرصے کے۔ ابابیل گلائیڈنگ کرتے وقت اکثر اپنی نیند پوری کر لیتے ہیں یہ زمین سے اتنی بلندی پر چلے جاتے ہیں کہ سوتے وقت اچانک زمین سے ٹکرانے کا خطرہ انہیں نہیں رہتا۔ ابابیل پرواز کرتے وقت اپنی توانائی بچانے کے لئے گلائیڈنگ کرتا ہے یعنی کچھ دیر پر ہلانے کے بعد انہیں کھلا چھوڑ دیتا ہے اور یوں ہوا میں اڑتا چلا جاتا ہے۔یونیورسٹی آف لندن کی ایک تحقیق کے مطابق ابابیل دس ماہ سے بھی زیادہ عرصہ بغیر زمین پر اترے ہوا میں مسلسل پرواز کر سکتا ہے۔ ایک اور جدید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ابابیل بغیر رکے 14 ہزار کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔عمومی طور پر اس پرندہ کی عمر بیس برس تک ہوتی ہے۔ابابیل سے جڑی قدیم اور دلچسپ روایات یوں تو زمانۂ قدیم میں لاتعداد روایات سننے کو ملتی تھیں لیکن سب سے زیادہ روایات کا تعلق خطۂ عرب سے ملتا ہے۔روایات میں آیا ہے کہ ابابیل اپنے گھونسلوں میں سرخ اور سفید دو طرح کے پتھر رکھتے ہیں۔جنہیں ''حجرالصنوبر‘‘ کہتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ اکثر سنیاسی ان ہر دو پتھروں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ جبکہ بیشتر طبیب ان پتھروں کے لاتعداد طبی فوائد بھی بتاتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ قدیم دور میں اکثر بوڑھے سنیاسی کہا کرتے تھے کہ ابابیل کے گھونسلے کا سفید پتھر مرگی کے مریض کے گلے میں لٹکانے سے شفا ملتی ہے ، چشم بد کو دور کرتا ہے، اکثر بچے جو سوتے میں ڈر جاتے ہیں ان کے سرہانے سرخ پتھر رکھنے سے بچے سکوں کی نیند سوئے ہیں (واللہ اعلم )۔ایک اور روایت ہے کہ ہر ابابیل کے گھونسلے میں پتھر نہیں ہوتا بلکہ یہ پتھر حاصل کرنے کیلئے ابابیل کے بچے کو زرد رنگ میں رنگ کر کے گھونسلے میں چپکے سے رکھ دیا جاتا ہے۔مادہ ابابیل بچے کو بیمار سمجھ کر خدا جانے کہاں سے پتھر ڈھونڈ لاتی ہے تاکہ اس کے بچوں کا پیلیا (یرقان) جاتا رہے۔( واللہ اعلم)۔کچھ پرانے سنیاسیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ پتھر دراصل ابابیلوں کے پوٹے میں پایا جاتا ہے ، ابابیل کو مار کر اس کے پوٹے کو کاٹا جائے تو یہ پتھر وہاں سے نکلتا ہے۔ ( واللہ اعلم)۔اب دور جدید میں لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ گئے زمانوں میں یرقان ، مرگی اور ایسی ہی دیگر متعدد بیماریوں کا علاج ابھی دریافت نہیں ہوا تھا اس لئے اکثر ضعیف العقیدہ لوگ ان ٹوٹکوں پر یقین کر لیا کرتے تھے جبکہ دور جدید میں ہر مرض کا علاج دریافت ہو چکا ہے اس لئے اب ایسی تمام روایات مضحکہ خیز لگتی ہیں۔  

سوء ادب

سوء ادب

اپنی اپنی سوچ ایک شخص کی بیوی کافی عرصے سے بیمار تھی۔ ایک دن وہ اپنے شوہر سے بولی ،'' میں سوچ رہی ہوں کہ اگر میں مر گئی تو تمہارا کیا بنے گا ‘‘۔جس پر شوہر بولا ،''اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تم اگر نہ مریں تو پھر میرا کیا بنے گا ؟‘‘ کام گلی میں بچے کھیل رہے تھے تو ایک نے دوسرے سے پوچھا '' تم کتنے بہن بھائی ہو؟‘‘ جس پر بچے نے جواب دیا'' ہم نو بہن بھائی ہیں ‘‘پھر پوچھا '' تمہارا باپ کیا کام کرتا ہے ؟ ‘‘ تو جواب ملا '' بتایا تو ہے !‘‘ماخذیہ اوسلو ، ناروے میں مقیم ہمارے بہت پیارے شاعر فیصل ہاشمی کی نظموں کا مجموعہ ہے جسے وسیم جگنو نے لاہور سے شائع کیا ہے۔ سرورق ریاظ نے بنایا ہے، انتساب امی جان ، شاہ جی اور ڈاکٹر وزیر آغاکی یاد میں، آغاز میں یہ مصرع درج ہے ''سمندر کشتیوں میں چھید کرتی مچھلیوں سے بھر گئے ہیں‘‘۔ ابتدائیہ شاہد شہدائی نے لکھا ہے جبکہ درونِ سرورق کتاب اور شاعر کے بارے میں جوگندر پال ، محمود ہاشمی اور بلراج کومل کی تہسینی آرا درج ہیں۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر ایک نظم اور بزبانِ انگیریزی وزیر آغا کی رائے درج ہے۔ ٹائٹل دیدہ زیب نظموں کی تعداد 41 اور قیمت 200 روپے ہے۔ پسِ سرورق چھپی نظم کچھ اس طرح سے ہے۔ ایک انوکھی یکتائی آج جو میں پاتال سے باہر اْس رسّی کو تھام کے نکلا جس کے پھندے دار سِرے پر یہ دنیا اک گیند کی صورت لٹک رہی تھی کوئی نہیں تھا مرنے والا جینے والا ہر جانب بس میں ہی میں تھا !کرنوں کے پردے کو ہٹا کر میں نے دیکھا وقت کا چہرہ اس کی آنکھیں ایک سمندر اور آنے والے کل کے بھنور سے چکراتے اوسان لیے اک جست بھری تھی اور پھر میں بھی اْس سیّا ل کے خالی پن کا حصہ بنا تھا خود سے نکل کر بھی پیچھے ہٹتے لمحہ لمحہ اپنے آپ کو دیکھ رہا تھا ایک انکوکھی یکتائی میں لامحدود ہوا تھا !!آج کا مطلعاک دن ادھر سوارِ سمندِ سفر تو آئے خود بڑھ کے روک لیں گے کہیں وہ نظر تو آئے  

رمضان کے پکوان: چکن چیز پارسل

رمضان کے پکوان: چکن چیز پارسل

اجزاء: چکن کا قیمہ 200گرام، چیڈر چیز ایک پیالی، سموسے کی پٹیاں حسب ضرورت، نمک حسب ذائقہ، ٹماٹر دو عدد، لہسن پسا ہوا ایک کھانے کا چمچ، پیاز ایک عدد، کالی مرچ گدری پسی ہوئی ایک چائے کا چمچ، ڈبل روٹی کا چورا دو کھانے کے چمچ، کوکنگ آئل حسب ِضرورت۔ترکیب: قیمے کو صاف دھو کر پین میں ڈالیں اور اس میں لہسن، نمک، کالی مرچ، چوپ کی روٹی پیاز اور ٹماٹر ڈال کر ہلکی آنچ پر پکنے رکھ دیں۔ جب قیمے کا اپنا پانی خشک ہو جائے تو اچھی طرح بھون کر چولہے سے اتاریں اور تھوڑا سا ٹھنڈا ہونے پر اس میں ڈبل روٹی کا چورا شامل کر دیں۔ سموسے کی پٹیوں کو ایک دوسرے کے اوپر اس طرح سے رکھیں اور درمیان میں ایک کھانے کا چمچ ٹھنڈا کیا ہوا قیمہ ڈالیں۔ نیچے والی پٹی کو اٹھا کر درمیان میں لا کر لئی(میدہ اور پانی لا کر) سے بند کر دیں پھر اس کے اوپر کش کیا ہوا چیز رکھ کر دوسری پٹی کے دونوں سروں کو درمیان میں لا کر بند کرکے پارسل کی شکل میں بنا لیں۔کڑاہی میں کوکنگ آئل کو درمیانی آنچ پر گرم کریں اور ان پارسلز کو تیز آنچ پر سنہری فرائی کرکے نکال لیں۔ 

حکایت سعدیؒ :خوف و پریشانی سے نجات

حکایت سعدیؒ :خوف و پریشانی سے نجات

ایک شخص نے حاکم شیراز تابک سعد بن زنگی کی شان میں قصیدہ پڑھا۔ بادشاہ یہ قصیدہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس کوبیش قیمت خلعت بخشا۔ اس خلعت کے دامن پر اللہ کا طغریٰ کڑھا ہوا تھا۔ قصیدہ پڑھنے والے کی نظر اس طغرے پر پڑی تو اس کی عجیب حالت ہو گئی۔ اس نے اپنے جسم سے خلعت اتار کر پھینک دیا اور دیوانہ وار جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ جنگل میں اس کی ملاقات درویشوں سے ہوئی۔ درویش اس کی زبانی سارا احوال سن کر بہت حیران ہوئے۔ ایک نے کہا: تم بھی عجب شخص ہو بادشاہ کی طرف سے بخشے گئے انعام کو یوں ٹھکرا دیا۔ وہ بولا: میں نے ایسا اس لئے کیا کہ مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ کار ساز حقیقی تو اللہ پاک کی ذات ہے۔ جب تک میں اس راز سے آگاہ نہ تھا خوف اور امید کی ذلت میں مبتلا رہتا تھا۔ اللہ پر کامل یقین ہوا تو میرے دل میں نہ بادشاہ کا خوف ہے نہ اس کی ذات سے کوئی امید ہے۔  

آج کا دن

آج کا دن

شاہ فیصل کا قتل 25 مارچ 1975ء کو شاہ فیصل کو ان کے سوتیلے بھائی مسید بن عبدالعزیز کے بیٹے فیصل بن مسید نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ شاہ فیصل کا بھتیجا امریکہ سے واپس آیا ہی تھا کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ قتل ایک مجلس میں ہوا،جہاں بادشاہ عام شہریوں کے مسائل سننے کے لئے بیٹھا کرتے تھے۔ انتظار گاہ میں فیصل بن مسید نے کویتی نمائندوں سے بات کی جو شاہ فیصل سے ملاقات کے منتظر تھے۔ فیصل بن مسید سے شاہ فیصل کی ملاقات ہوئی تو وہ سعودی رسم و رواج کے مطابق اپنے بھتیجے کو گلے لگانے کیلئے جھکے اور اسی دوران فیصل بن مسید نے پستول نکال کر شاہ فیصل پر گولی چلا دی۔ پہلی گولی بادشاہ کی ٹھوڑی پر لگی اور دوسری گولی ان کے کان میں جا لگی۔ شاہ فیصل کو فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیالیکن وہاں کچھ ہی دیر بعد ان کی موت واقع ہو گئی۔ اس طرح مسلم دنیا ایک دور اندیش رہنما سے محروم ہو گئی۔پاکستان نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا25مارچ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا یادگار ترین دن ہے کیونکہ 1992ء میں اسی دن پاکستان نے برطانیہ کو ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں 22رنز سے شکست دینے کے بعد عالمی چیمپئن کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔یہ پانچواں عالمی کپ تھا اور اس میں کل نو انٹرنیشنل ٹیموں نے حصہ لیا۔ فائنل کو ملا کر کل39میچ کھیلے گئے۔یہ ورلڈ کپ دو ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا گیا۔پاکستان نے ایک بار ہی عالمی کپ میں فتح حاصل کی ہے۔سیارہ زحل کے چاند ''ٹائٹن ‘‘ کی دریافت25مارچ 1655ء کو ہالینڈ کے ریاضی دان کرسٹیان ہیگنز نے سیارہ زحل کا چاند ''ٹائٹن‘‘ دریافت کیا ۔ٹائٹن زحل کا سب سے بڑا چاند اور نظام شمسی کا دوسرا سب سے بڑا قدرتی سیٹلائٹ ہے۔ یہ واحد چاند ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کے اوپر ایک گھنا Atmosphere موجود ہے اور یہ زمین کے علاوہ خلا میں پایا جانے والا واحد علاقہ تھا ،جس میں سطحی مائع کی موجودگی کے مستحکم اور واضح ثبوت ملے۔ ٹائٹن زمین کے چاند سے 50 فیصد بڑا ہے۔ یہ مشتری کے چاند Ganymede کے بعد نظام شمسی کا دوسرا سب سے بڑا چاند ہے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ٹائٹن پر زندگی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔''امینز معاہدہ‘‘امینز کے معاہدے نے دوسری اتحاد کی جنگ کے اختتام پر فرانس اور برطانیہ کے درمیان عارضی طور پر دشمنی ختم کر دی۔ اس نے فرانسیسی انقلابی جنگوں کا بھی خاتمہ کیا۔اس معاہدے کے تحت برطانیہ نے اپنی حالیہ فتوحات کو ترک کر دیا جبکہ فرانس کی جانب سے نیپلز اور مصر کو خالی کردیا گیا۔ معاہدے پر 25 مارچ 1802ء کو ایمینس شہر میں جوزف بوناپارٹ اور مارکویس کارنوالس نے ''امن کے حتمی معاہدے‘‘ کے طور پر دستخط کیے۔ اس امن معاہدے کے باجود تقریباً ایک سال ہی امن قائم رہ سکا ۔    

فلپائن کی مشہور مساجد

فلپائن کی مشہور مساجد

مغربی بحرالکاہل میں واقع 7100جزائر کا مجموعہ فلپائن کہلاتا ہے۔ فلپائن ملائی قوم نے آباد کیا تھا۔ اسلام یہاں ساتویں صدی ہجری (تیرھویں صدی عیسوی) میں انڈونیشیا کے راستے وارد ہوا۔ ہسپانوی بادشاہ فلپ کے نام پر فلپائن کا نام دیا۔1571ء میں انہوں نے منیلا شہر کی بنیاد رکھی اور یہاں کیتھولک مسیحیت کو فروغ دیا۔جنوبی فلپائن کے مسلمان نصف صدی سے علیحدگی کی جدوجہد کر رہے تھے، ان کی مسلح تحریک مورو لبریشن فرنٹ کے نام سے شروع ہوئی جس کے قائد نور مسواری تھے۔ اس دوران نور مسواری کو مسلم صوبے کا گورنر بنا دیا گیا، تاہم کچھ عرصہ بعد معاہدہ امن کی سرکاری خلاف ورزی کی بنا پر نور مسواری نے حکومت سے علیحدہ ہو کر پھر گوریلا تحریک کی قیادت سنبھال لی جواب تک جاری ہے۔ اب کورازون کا بیٹا نوئی اکینو برسر اقتدار ہے۔ فلپائن میں اسلام وارد ہونے کے ساتھ ہی نور مسوری کی رعایا کے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مسلمان ہو گئے۔فلپائن میں کئی دینی مدارس ہیں۔ فلپائن میں کئی مساجد ہیں۔یہاں صرف 2 بڑی مساجد قابل ذکر ہیں۔ سنہری مسجد( منیلا)منیلا شہر کے قوایا پو (Quiapo) ڈسٹرکٹ میں مسلمانوں کی کثیر تعداد اور رہائش پذیر ہے، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ یہیں مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد واقع ہے، جس کا نام سنہری مسجد ہے۔ یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس کا گنبد سنہری رنگ کا ہے۔ اس وقت منیلا کی تمام مساجد میں یہ سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس میں 3ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے ۔یہ مسجد 1976ء میں صدر مارکوس کے دور میں خاتونِ اوّل امیلڈا مارکوس کی نگرانی میں تعمیر ہوئی۔نماز جمعہ اور عید کی نماز کے اوقات میں سنہری مسجد مسلمانوں سے بھر جاتی ہے اور یہ دنیا کی چند خوبصورت مساجد میں شمار ہوتی ہے۔گرینڈ مسجد( کوتاباتو)یہ مسجد فلپائن کی سب سے بڑی مسجد ہے جو برونائی کے سلطان حاجی حسن البولکیہ نے فلپائن کے جنوبی صوبے منڈا نائو کے شہر کو تاباتو (Cotabato) میں پانچ ایکڑ کے رقبے پر تعمیر کروائی۔ یہ پلاٹ وہاں کے ایک مسلمان قبیلے نے تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر 2009ء میں شروع ہوئی۔ اس برس برونائی کے سلطان تین روزہ سرکاری دورے پر فلپائن آئے تو انہوں نے اس مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ گرینڈ مسجد اتنی خوبصورت اور عالمی شان ہے کہ سارے فلپائن کے مسلمان فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ملک کی انتہائی خوبصورت اور سب سے بڑی مسجد ہے۔ دیکھنے میں یہ مسجد اسلامی طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔مسجد کو گولڈن مسجد اور حاجی سلطان حسن البولکیہ مسجد کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے چار مینار ہیں جن کی بلندی 141فٹ ہے۔ مسجد میں 40ہزارنمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یوں تو یہ مسجد 2011ء کے رمضان المبارک میں استعمال کیلئے کھول دی گئی تھی لیکن اس کا باقاعدہ افتتاح اگلے سال عیدالفطر کے دن 2012ء میں ہوا۔ اس کے مینار اوپر سے سنہری ہیں جن پر ہلال نصب کئے گئے ہیں۔ مسجد کی تعمیر پر بیس کروڑ روپے خرچ ہوئے جو سارے کے سارے سلطان حسن البولکیہ نے برداشت کئے۔ مسجد کے مرکزی ہال کے درمیان ایک دیدہ زیب فانونس لٹک رہا ہے۔ حفاظتی انتظامات کے پیش نظر کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے بھی نصب کئے گئے ہیں۔ اس مسجد کی پچھلی جانب جزیرہ بونگ ہے جو خلیج مورو میں گھرا ہوا ہے۔