شباب کیرانوی پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام!

شباب کیرانوی  پاکستانی فلمی صنعت کا ایک بڑا نام!

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


پاکستانی فلمی صنعت کی جن لوگوں نے آبیاری کی اور اس کی نشو و نما کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دیں ان میں بہت سے نام شامل ہیں۔ اگر فلمساز اور ہدایت کاروں کی بات کی جائے تو انور کمال پاشا‘ مسعود پرویز، ریا ض شاہد، منشی دل، ایم جے رانا اور حسن طارق کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ایک نام اور بھی ہے، جن کے بغیر پاکستانی فلمی صنعت کی تاریخ نامکمل رہے گی اور وہ نام ہے، شباب کیرانوی!1925ء میں اتر پردیش (بھارت) کے ضلع مظفر نگر کے علاقے کیرانہ میں پیدا ہونے والے شباب کیرانوی کا اصل نام حافظ نذیر احمد تھا۔ وہ بنیادی طور پر صحافی تھے جنہوں نے صحافت کا آغاز فلمی جریدے ’’ڈائریکٹر‘‘ سے کیا۔ فلمساز کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم ’’جلن‘‘ تھی جبکہ ’’ثریا‘‘ وہ فلم تھی جس کی سب سے پہلے انہوں نے ہدایات دیں۔ پھر ان کی فلم ’’مہتاب‘‘ ریلیز ہوئی جو سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم نے شباب صاحب پر دولت کی بارش کر دی اور انہوں نے اپنا فلم سٹوڈیو بنا لیا۔ انہوں نے اپنے دیرینہ دوست اے احمد (سنگیت کار اے حمید نہیں) کے ساتھ اپنے پروڈکشن ہائوس کی بنیاد رکھی۔ اپنے پروڈکشن ہائوس کے بینر تلے انہوں نے جو پہلی فلم بنائی اس کا نام تھا ’’انسانیت‘‘، یہ فلم بے حد کامیاب رہی ۔ اس میں طارق عزیز اور علی اعجاز نے اپنے فلم کیرئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ’’سنگدل‘‘ انسان اور آدمی، انصاف اور قانون، دامن اور چنگاری ،میرا نام ہے محبت، سہیلی ، نوکر ، شمع ،آئینہ اور صورت اور شمع محبت جیسی کامیاب فلمیں دیں۔ شباب صاحب کو سماجی موضوعات پر فلمیں بنانے میں ملکہ حاصل تھا ۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ ان کی فلموں کی موسیقی بہت معیاری ہوتی تھی۔ انہوں نے ایک مصلح (Reformer) کا کردار ادا کیا کیونکہ ان کی فلموں میں سماجی برائیوں کے خاتمے کی بات کی جاتی تھی۔ اسی طرح اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے ۔شباب صاحب طبقاتی تفاوت کے سخت خلاف تھے ۔وہ اعلیٰ انسانی اقدار پر یقین رکھتے تھے ان کی اکثر فلموں میں امیر اور غریب کا ٹکرائو دکھائی دیتا تھا اور وہ دولت مندوں کو یہ پیغام دیتے تھے کہ غریبوں اور ناداروں کو بھی انسان سمجھیں اور انہیں حقارت سے نہ دیکھیں۔ فلم کے اختتام پر وہ امیر اور غریب کو یکجا کر دیتے تھے اور یوں فلم بینوں سے داد و تحسین حاصل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی فلموں میں مشرقی عورت کی خوبیاں اجاگر کرتے تھے۔انہوں نے اپنی فلموں میں مغربی تہذیب کی دلدادہ عورتوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا اور پاکستانی خواتین کو پیغام دیا کہ وہ مشرقی روایات سے روگردانی نہ کریں۔ شباب صاحب کی فلموں میں مزاحیہ اداکاری بھی کمال کی ہوتی تھی۔ ننھا ،علی اعجاز، رنگیلا اور منور ظریف کی صلاحیتوں کو انہوں نے خوب نکھارا۔شباب صاحب کی فلموں کی زیادہ تر موسیقی ایم اشرف نے مرتب کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم اشرف نے شباب صاحب کی فلموں کے جن گیتوں کی موسیقی دی ان میں 80فیصد سے زیادہ گیت سپرہٹ ثابت ہوئے۔ شباب صاحب کے بارے میں یہ کہنا بھی درست ہے کہ انہوں نے اداکار محمد علی کے فن کو انتہائی خوبصورتی سے استعمال کیا۔ یہ شباب صاحب کا ہی کمال تھا کہ اداکار محمد علی نے ان کی فلموں ’’انسان اورآدمی‘‘ اور’’ انصاف اور قانون‘‘ میں اپنی زندگی کے یادگار کردار ادا کیے۔ انہوں نے میڈم نورجہاں ،احمد رشدی، آئرن پروین اورمسعود رانا سے بڑے شاندار گیت گوائے۔ 70ء کی دہائی میں شباب صاحب نے ناہید اختر کی دلکش آوازکو اپنی فلموں کے نغمات کے لیے استعمال کیا۔ فلم ’’نوکر اور شمع‘‘ میں ناہید اختر نے ایم اشرف کی موسیقی میں بڑے دلکش گیت گائے جنہیں آج بھی پسند کیا جاتا ہے۔شباب صاحب پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ ان کی اکثر فلمیں بھارتی فلموں کا چربہ ہوتی ہیں ۔ کچھ فلموں کی حد تک تو یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے لیکن ان کی ساری فلمیں چربہ نہیں تھیں۔ البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی بہت سی فلمیں باکس آفس پر بے حد کامیاب ثابت ہوئیں۔ سب سے پہلے ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ ان کی فلم’’ انسانیت‘‘ بھارتی فلم ’’دل ایک مندر‘‘ کا چربہ ہے ۔اسی طرح چند اور فلموں کے بارے میں بھی یہی کچھ کہا گیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ شباب صاحب نے اسلم پرویزکو بھی ولن کی حیثیت جو کردار دیئے۔ انہوں نے اسلم پرویز کے فن کو ایک نئی سمت سے روشناس کرایا۔ خاص طورپر انسان اورآدمی ، انصاف اورقانون اور دامن اور چنگاڑی میں اسلم پرویز فن کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں۔شباب کیرانوی کے کریڈٹ میں یہ بات بھی جاتی ہے کہ انہوں نے پاکستانی فلموں کو کئی ایک نئے چہرے دیے ۔ انہوں نے جن فنکاروں کو متعارف کرایا ان میں عنایت حسین بھٹی ،کمال، احمد رشدی، نغمہ، شیریں، ننھا، علی اعجاز ، ندیم(مغربی پاکستان میں پہلی فلم سنگدل) ظفر شباب، صاعقہ، زرقا، مسعود اختر، نذر شباب، آسیہ ، غلام محی الدین اور انجمن شامل ہیں۔شباب صاحب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ رحم دل اور غریب پرور تھے انہوں نے کبھی فلم کے تکنیک کاروں اور دیگر کارکنوں سے ناانصافی نہیں کی اور ہمیشہ وقت پر انہیں معاوضے کی ادائیگی کرتے رہے۔ اس لحاظ سے ان کی شہرت بہت اچھی تھی۔شباب صاحب سکرین رائٹر اور فلمی گیت نگار بھی تھے۔ ان کے دو شعری مجموعے’’موج شباب‘‘ اور’’ بازارصدا‘‘ ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئے تھے۔شاعری میں وہ احسان دانش کے شاگرد تھے۔ شباب کیرانوی ناول نگار بھی تھے ۔انہوں نے ایک درجن کے قریب ناول لکھے جن میں’’ پھول کے سائے ،ایک عورت ہزار مرحلے ، درد دل اور خلش‘‘ خاص طورپرقابل ذکر ہیں۔ ان کے چند مشہور گیتوں کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے:1۔ توجہاں کہیں بھی جائے میرا پیار یاد رکھنا(انسان اور آدمی)2۔ کیا ملا ظالم تجھے کیوں دل کے ٹکڑے کر دئیے (میں بھی انسان ہوں)3۔ یہ وعدہ کیا تھا محبت کریں گے(دامن اور چنگاری)4۔ آنکھیں غزل ہیں آپ کی(سہیلی)5۔ اللہ تیری شان یہ اپنوں کی ادا ہے(سہیلی)شباب صاحب ؟کے بیٹوں نذر شباب اورظفر شباب نے بھی ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھا اورکئی ایک کامیاب فلمیں تخلیق کیں شباب صاحب نے کئی دوسرے گیت نگاروں کو بھی اپنی فلموں میں گیت لکھنے کا موقع دیا جیسے بطور فلم ساز ان کی پنجابی فلم ’’تیس مار خان‘‘ کے گیت بابا عالم سیاہ پوش نے لکھے۔ اسی طرح مشیر کاظمی ‘ سعید گیلانی ، تسلیم فاضلی اور خواجہ پرویز نے بھی ان کی فلموں کے گیت لکھے ۔شباب کیرانوی نے 75سے زائد فلمیں بنائیں اور 50فلموں کی ہدایت کاری کی انہوں نے کئی بار نگار ایوارڈ ،گریجویٹ ایوارڈ اور مصور ایوارڈ سے نوازا گیا۔ صاحب ثروت ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی تکبر کا مظاہرہ نہیں کیا۔5نومبر1982کو شباب کیرانوی عالم جاوداں کو سدھار گئے ۔پاکستانی فلمی صنعت کے لیے انہوں نے جو خدمات سرانجام دیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ریشم کا کیڑا

ریشم کا کیڑا

لباس سازی کے خام مال کیلئے عام طور پر تین ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا ذریعہ کپاس اور اون ہے جو انسانی سرگرمیوں کی مدد سے حاصل ہوتا ہے، دوسرا ذریعہ مختلف کیمیائی مادوں سے مشینوں پر تیار کردہ مصنوعی ریشہ ہے جسے عام طور پر فائبر کہا جاتا ہے جبکہ تیسرا ذریعہ نہ تو انسانی ہاتھوں کا مرہون منت ہے اور نہ ہی مشینوں کا محتاج ہے ، بلکہ یہ ایک کیڑے کی محنت کا نچوڑ ہے، جسے ریشم کا کیڑا کہتے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ لباس سازی کا یہ ذریعہ دنیا کے مہنگے ترین کپڑے کا ذریعہ ہے۔ ریشم کا کیڑا بنیادی طور پر ایک پالتو کیڑا ہوتا ہے، ویسے تو جنگلی ریشم کے کیڑے بھی پائے جاتے ہیں لیکن مناسب اور مطلوبہ دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب یہ معیاری ریشم بنانے کے قابل نہیں ہوتے۔زیادہ ترعالمی ریشم کی فراہمی گھریلو ریشم کے کیڑوں سے آتی ہے۔ ریشم کے کیڑے عام طور پر سفید شہتوت کے پتے بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔بعض اوقات یہ مالٹے کی ایک مخصوص قسم کے درخت کے پتے بھی شوق سے کھاتے ہیں لیکن سب سے اعلیٰ قسم کا ریشم شہتوت کے پتوں پر رہنے والے لاروا کا ہوتا ہے۔ جنہیں تجارتی مقاصد کیلئے پالا جاتا ہے۔یہ کیڑا 300 سے 900 میٹر لمبے ریشے کے ساتھ اپنا کوکون بناتا ہے۔ ریشم کی پیداوار کے مقصد کیلئے ریشم کے کیڑوں کی افزائش اور پرورش کے عمل کو'' سیریکلچر‘‘ کہتے ہیں۔ریشم بنیادی طور پر دو عناصر فائبر اور سیریسن سے مل کر بنتا ہے۔ ریشم کا 75 سے 90 فیصد حصہ فائبر پرمشتمل ہوتا ہے،جس کا قطر 0.0004 انچ ہوتا ہے جبکہ باقی 10 سے 25 فیصد حصہ سیریسن سے بنا ہوتا ہیجسے ریشم کا کیڑا کہتے ہیں جو ریشوں کو ایک کون میں چپکاتا ہے۔پالتو ریشمی کیڑے اپنی افزائش کا انحصار زیادہ تر انسانوں پر کرتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انسان صدیوں سے ریشم کے کیڑے خود پالتے آرہے ہیںجبکہ اس کے مقابلے میں جنگلی ریشم کیڑے نسلی اعتبار سے الگ ہوتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے ان کا بنایا ہوا ریشم غیر معیاری ہوتا ہے۔ریشم کے کیڑے بنیادی طور پر انتہائی حساس اور نازک ہوتے ہیں اور انہیں پالنے والے افراد کو اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ ہر تیسرے دن سوکھے ہوئے پتے اور دیگر فضلہ صاف کریں۔ ایسا نہ کرنے سے ان پر فنگس سمیت متعدد بیماریاں حملہ آور ہو کر پیداوار پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ یہ کام اتنا سہل نہیں کیونکہ ان کی حفاظت کیلئے ہر لمحہ چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ بیماریوں کے ساتھ ساتھ ان کیڑوں کو چھپکلی، چمگادڑ ،چیونٹی اور دیگر زمینی جانداروں سے بھی بچانا ہوتا ہے۔ ریشم بنتا کیسے ہے ریشم کی پیداوار کیڑوں کے انڈوں سے شروع ہوتی ہے ، جو عام طور پر خصوصی طور پر ایلومینیم یا کسی اور مٹیریل سے بنائے گئے باکسز میں ہوتی ہے۔ریشم کی مادہ عام طور پر 300سے 500 انڈے دیتی ہے۔چند دن بعد ان انڈوں سے لاروا یا ''کیڑپلر‘‘ نکلتا ہے جسے عرف عام میں ریشم کا کیڑا کہا جاتا ہے۔ لاروا عام طور پر شہتوت کے پتے کھاتا ہے۔ کھانے کے دوران لاروا چار مرتبہ اپنی جلد بدلتا ہے۔یہ اپنے ابتدائی وزن سے 50 ہزار گنا زیادہ شہتوت کے پتے کھاتا ہے۔بالغ ریشم کے کیڑے تقریباً تین انچ تک لمبے ہوتے ہیں اور انڈوں سے نکلنے کے بعد ان کا وزن 10 ہزار گنا زیادہ ہو چکا ہوتا ہے۔ 6 ہفتے کے بعد ایک ریشم کا کیڑا ریشم بنانا شروع کر دیتا ہے۔جب یہ کیڑا ایک مرتبہ ریشم بنانا شروع کر دیتا ہے تو یہ رکتا نہیں ہے۔ماہرین کے مطابق یہ ایک منٹ کے اندر دس سے پندرہ انچ دھاگہ بناتا ہے۔ یہ کیڑا دو دن اور دو راتوں کے درمیان 5 ہزار فٹ لمبا دھاگہ تیار کر چکا ہوتا ہے۔ دو یا تین دن کے بعد یہ اپنے آپ کو مکمل طور پر کوکون ( کوکون ریشم کے کیڑوں کے خول یا اس کے ''گھروندے‘‘ کو کہتے ہیں جس کے اندر یہ ریشم سازی کرتا ہے ) میں بند کر لیتا ہے۔اپنے آپ کو کوکون میں بند کرنے کے پس پردہ یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ ، ہوا میں ابتدائی ریشم فوراًسخت ہو جاتا ہے۔یہاں یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ ہر کوکون میں قابل استعمال معیاری ریشم کی مقدار انتہائی قلیل ہوتی ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک پاونڈ خام ریشم کم ازکم دو سے تین ہزار کیڑے مل کر بناتے ہیں۔ایک مقررہ مدت کے بعد ریشم کے کیڑے اپنے اینزائمز کے ذریعے سوراخ کر کے کوکون سے باہر نکل آتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ کیڑے اپنے اینزائم سے ریشم کو خراب کرنا شروع کر دیں، ان کوکون کو گرم پانی میں رکھ دیتے ہیں جس سے یہ کیڑے مر جاتے ہیں ، اور کوکون کو برش وغیرہ سے صاف کر کے ریشم کو الگ کر لیا جاتا ہے۔ ایک کوکون میں لگ بھگ ایک ہزار گز ریشم ہوتا ہے۔ ریشم کی اس حالت کو ''خام ریشم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ریشم کی تاریخ ریشم کی تاریخ بارے ماہرین اگرچہ ابھی تک یک سو نہیں ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ ریشم کو سب سے پہلے متعارف کرانے میں چین کا کردار سب سے نمایاں ہے۔بیشتر شواہد کے مطابق چین میں ریشم 6ہزار قبل مسیح اور 5ہزارقبل مسیح کے دوران دریافت ہوا تھا، جس کا سہرا چینی شہنشاہ ژی لنگ شی کے سر جاتا ہے۔2007ء میں محکمہ آثار کے ماہرین کو چینی صوبہ ژیانگ ژی کے ایک مقبرے سے انتہائی پیچیدگی سے بنا ریشم کا ایک کپڑا دریافت ہوا تھا،جس کے بارے یہ قیاس کیا گیا کہ یہ 2500سال قبل ژہو ڈائنا سٹی کے وقت بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ماہرین کو 1070ء قبل مسیح مصر میں ایک ایسی ممی دریافت ہوئی تھی جس کی تیاری میں ریشم کے دھاگے کو استعمال کیا گیا تھا۔ ریشم کے کیڑے کی دریافت شدہ قدیم ترین مثال 3639 قبل مسیح میں حنان شہر سے بھی ملتی ہے جبکہ شانگ خاندان کے دور میں1046 قبل مسیح سے 1600 قبل مسیح کے دوران ریشم کے کیڑے پالنا باقاعدہ طور پر رواج پا چکا تھا۔ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ 400قبل مسیح سے چین سے بذریعہ شاہراہ ریشم ، ریشم کی برآمد شروع ہو چکی تھی۔جاپان میں ریشم کی کاشت 300 عیسوی تک پھیل چکی تھی۔520 عیسوی تک یورپ اور عرب کے بیشتر علاقوں میں بھی ریشم کی پیداوار رواج پا چکی تھی۔چین اس وقت تک ریشم پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی سالانہ پیداوار ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن سے تجاوز کرچکی ہے۔اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکیلا چین اس وقت دنیا کا 78 فیصد ریشم پیدا کر رہا ہے۔ بھارت 30 ہزار میٹرک ٹن ریشم پیدا کر کے اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جو کل عالمی پیداوار کا 12 فیصد ریشم پیدا کرتا ہے۔ باقی 10 فیصد ریشم ازبکستان، برازیل شمالی کوریا، تھائی لینڈ اور پاکستان پیدا کر رہے ہیں۔ریشم کی پیداوار کے لحاظ سے چین کے صوبہ جیانگ سونگ، جے ژیانگ اور سی چھوان سر فہرست ہیں۔کہا جاتا ہے کہ چین کے یہی علاقے بنیادی طور پر ریشم کو متعارف کرانے والے علاقے ہیں۔ تاریخی حوالوں سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انہی علاقوں کے لوگ ریشم کے کپڑے کو بھی بطور لباس متعارف کروانے والے لوگ ہیں اور یہیں سے ریشم دنیا کے دوسرے علاقوں میں پھیلا۔ چین کے شہر سوجو ، ہانگ جو ، ناں جنگ اور شاوشنگ ریشم کے سب سے بڑے صنعتی شہر ہیں۔  

صحت اور حسن کیلئے لیموں کے حیرت انگیز فوائد

صحت اور حسن کیلئے لیموں کے حیرت انگیز فوائد

لیموں اصل میں ایک پھل ہے مگر اسے عموماً سبزیوں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔ پکے ہو ئے کا رنگ زرد جبکہ کچے لیموں کا رنگ سبز ہوتاہے۔ اس کا ذائقہ ترش ہوتا ہے۔ اس میں سڑک ایسڈپایا جاتا ہے۔ اس کی کئی اقسام ہیں۔ سب سے اعلیٰ قسم کاغذی لیموں کی ہے جس کا چھلکا کاغذ کی طرح پتلاہوتا ہے۔ اس کی مقدار خوراک چھ ماشہ لیموں کا رس ہے جبکہ روغن لیموں کی مقدار ایک سے تین قطرے تک ہے۔ وٹامن بی اور سی اور نمکیات کا بہترین ماخذ ہے اس میں وٹامن اے معمولی مقدار میں پایاجاتا ہے۔لیموں کے بے شمار فوائد ہیں۔لیموں کا فوائد(1) یہ مفرح اور سردی پہنچاتا ہے۔(2) دافع صفرا ہوتا ہے۔(3) بھوک لگاتا ہے اور پیاس کو تسکین دیتا ہے۔(4)اس کے استعمال سے پیٹ ہلکا اور نرم ہو جاتا ہے۔ لیموں قبض کشا بھی ہے۔(5)گردے اور مثانے کی پتھری کو لیموں کی سکنجبین نکال سکتی ہے۔(6) متلی اور قے میں بے حد مفید ہے۔ (7) تازہ لیموں کی سکنجبین بنا کر بخار میں پلانے سے افاقہ ہوتا ہے۔(8) ملیریا بخار کی صورت میں لیموں کو نمک اور مرچ سیاہ لگا کر چوسنا بخار کی شدت کو کم کرتا ہے۔(9) ہیضہ میں لیموں کا رس ایک تولہ، کافور ایک رتی، پیاز کا رس ایک تولہ ملا کر دن میں تین یا چار دفعہ استعمال کرنے سے صحت ہوتی ہے۔ (یہ ایک خوراک ہے)۔ (10) خون کے جوش کو ٹھیک کرتا ہے۔(11) معدہ اور جگر کو قوت دیتاہے اور خاص طورپر جگر کے گرم موادکا جاذب ہے۔(12) لیموں کو کاٹ کر اگر چہرے پر ملا جائے تو چھائیاں اور کیل مہاسے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔(13)اگر دانتوں سے خون آتا ہو تو ایک عدد لیموں کا رس، ایک گلاس نیم گرم پانی اور شہد دو بڑے چمچے ملا کر روزانہ غرارے کرنے سے یہ بیماری دور ہو جاتی ہے۔(14)لیموں کا تازہ رس سر سے لے کر پائوں تک پوری جسمانی مشینری کو اوورہال کرتا ہے اور اس کا اعتدال کے ساتھ استعمال صحت کا ضامن ہے۔(15) لیموں کو سونگھنا نزلہ کو بند کرتا ہے۔(16) یرقان میں لیموںکے رس کا استعمال بے حد مفید ہے سکنجبین بنا کر دن میں تین بار استعمال کریں۔(17) بعض دفعہ لیموں کے رس کو شہد میں ملا کر چٹانے سے کھانسی ٹھیک ہو جاتی ہے۔(18) لیموں کا رس بیسن میںملا کر چہرے پر لگانے سے داغ‘ دھبے دور ہو جاتے ہیں۔(19)تازہ لیموں کے چھلکے سے روغن لیموں تیار کیا جاتا ہے جو پیٹ کی گیس میں بے حد مفید ہے۔(20) بیرونی ممالک میں لیموںکے چھلکوں سے مربہ بنایا جاتا ہے جس کو ماملیڈ کہتے ہیں۔(21) لیموں کا اچار بڑھی ہوئی تلی کیلئے مفید ہوتا ہے۔ (22)چاولوں کو ابالتے وقت اگر ایک چمچ لیموں کا رس اس میں ڈال دیا جائے تو چاول خوش رنگ اور خوشبودار بنتے ہیں۔(23) روسٹ اشیاء پر لیموں نچوڑ کرکھایا جائے تو کھانے کا ذائقہ اچھا ہو جاتا ہے اور کھانا ہضم بھی جلدی ہو جاتا ہے۔ (24) مچھلی کی بو دور کرنے کیلئے اس پر لیموں مل کر رکھنا چاہئے اس سے مچھلی خوش ذائقہ بھی پکتی ہے۔ (25) لیموں کے چھلکوں سے دانت صاف کرنے سے دانت درد کی شکایت نہیں ہوتی۔ (26)لیموں کا رس بیرونی طور پر جلد کو نرم اور حسین بناتا ہے۔(27) وزن کم کرنے کیلئے لیموں کا رس دو چمچے، شہد دو چمچے ایک گلاس پانی میں ملا کر صبح نہار منہ پینا بہت مفید ہے۔ دو ہفتے کے مسلسل استعمال سے وزن میں کمی آتی ہے۔(28) سر دھونے کے بعد اگر لیموں کا رس ملا پانی بالوں میں لگایا جائے اور تولیے سے خشک کر لیا جائے تو بالوں میں چمک آ جاتی ہے۔(29) سلاد والی سبزیاں مثلاً پودینہ وغیرہ اگر مرجھا جائیں تو لیموں کا رس ملا پانی ان پر چھڑکنے سے دوبارہ تازہ ہو جاتی ہیں۔(30)لیموں مصفیٰ خون ہے۔(31) سوزش اور پیشاب کی تکلیف کو فائدہ دیتا ہے۔(32)داد کی جلدی بیماری پر لیموں کا رس اور تلسی کے پتوں کا رس ملا کر لگانے سے داد جڑ سے غائب ہو جاتی ہے۔ (33) لیموں جراثیم کا خاتمہ کرتا ہے اور پھوڑے پھنسیوں پر لگانے سے زخم جلدی مندمل ہو جاتے ہیں۔نوٹ:ان تمام تر خوبیوں کے باوجود زیادہ مقدار میں لیموں کا استعمال نقصان دہ ہے۔ لیموں کا تیز محلول دانتوں کیلئے مضر ہے اور لیموں کی زیادہ ترشی پٹھوں میں درد کا باعث ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس کا مناسب حد تک یعنی اس کو مقررہ مقدار تک کھانا ہی مفید ہے۔٭...٭...٭ 

پنسلین ایک اتفاقیہ دریافت

پنسلین ایک اتفاقیہ دریافت

الیگزینڈر فلیمنگ کا نام ان کی نادر دریافت پنسلین کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اب یہ دوا دنیا میں عام ہو چکی ہے اور بعض امراض میں اس کا استعمال بے بدل ہے۔ پنسلین اتفاقیہ طور پر دریافت ہوئی، اس کی کہانی نہایت دلچسپ ہے۔ یہ 1928ء کی بات ہے۔ اس زمانے میں الیگزینڈر فلیمنگ لندن کے سینٹ میری ہسپتال میں جراثیم کے ماہر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ وہ مختلف جراثیم پیدا کرکے ان پر تحقیقات کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ ایک پلیٹ پر پھپھوندی جم گئی ہے۔ فلیمنگ نے لاپروائی سے اس پلیٹ کو نل کے نیچے رکھ کر پانی کھول دیا۔تھوڑی دیر بعد فلیمنگ نے پلیٹ پر نظرڈالی تو کچھ اور ہی نظر آیا۔ پھپھوندی نے وہ جراثیم صاف کر دیئے تھے جو پلیٹ میں پہلے سے موجود تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خود پھپھوندی میں نہایت اچھا جراثیم کش مادہ موجود تھا۔ بعد میں ڈاکٹر فلیمنگ نے کہا '' جب میں نے جراثیم صاف ہوتے ہوئے دیکھے تو مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے آج ایک ایسی چیز دریافت کر لی ہے جو انسان کو نقصان پہنچانے والے جراثیم کی دشمن ہے‘‘۔فلیمنگ نے وہی پھپھوندی پھر تیار کی اور چونکہ اس کا تعلق ''پینی سلم‘‘ قسم سے تھا اس لئے اس سے نکلنے والے جراثیم کش مادے کا نام پنسلین رکھا گیا۔ڈاکٹر فلیمنگ نے پلیٹ میں بچی کھچی مقدار سے مزید پھپھوندی تیار کی اور آٹھ ماہ تک بڑی اس پر تحقیق کرتے رہے۔فلیمنگ کو بڑی حیرت ہوئی جب تجربات سے یہ ظاہر ہوا کہ پھپھوندی کی یہ قسم بڑی عمدہ جراثیم کش دوا ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ نمونیہ کا بہترین علاج ثابت ہوئی۔ حد یہ ہوئی کہ خناق تک کے جراثیم اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے۔ ہاں اگر کسی جرثومے پر اس کا اثر نہیں ہوتا تھا تو وہ انفلوئنزا کا جرثومہ تھا۔سب سے زیادہ ضروری سوال یہ تھا کہ نپسلین خطرناک تو نہیں ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ جراثیم کو مارنے کے ساتھ ساتھ مریض کو بھی مار ڈالے۔ فلیمنگ کو اس ہم سوال کا جواب تلاش کرنا تھا لیکن کیسے؟ ظاہر ہے کسی انسان پر تو یہ تجربہ کیا نہیں جا سکتا تھا۔ فلیمنگ نے پنسلین محلول کی بیس سی سی مقدار ایک خرگوش کے جسم میں چڑھائی۔ خرگوش زندہ رہا۔ فلیمنگ کو خوشی ہوئی کہ یہ دوا کم از کم خرگوشوں کیلئے تو زہریلی نہیں ہے۔انہوں نے اپنی تجربہ گاہ کے ایک کونے میں اس پھپھوندی کی کچھ مقدار محفوظ رہنے دی۔ دس سال اسی طرح گزر گئے، لیکن فلیمنگ کی طبیعت میں بلا کا تحمل تھا۔ وہ بہتر دنوں کا انتظار کرتے رہے۔آکسفورڈ میں پروفیسر فلورے اس موضوع پر کام کر رہے تھے انہیں یادآیا کہ دس سال پہلے ایک معمولی پھپھوندی کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ اس میں جراثیم کشی کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔ وہ الیگزینڈر فلیمنگ کے پاس آئے اوراس کی تھوڑی سی مقدار اپنے ساتھ آکسفورڈ لے گئے اور انہوں نے وہاں اس پر تحقیقات شروع کیں۔ فلیمنگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔انسانوں پر اس کا پہلا تجربہ 1938ء میں کیا گیا۔ لند ن کے ایک پولیس کانسٹیبل نے حجامت کرتے ہوئے اپنی جلد کاٹ لی۔ جراثیم اپنا کام کر گئے اوراس کے خون میں زہر پھیل گیا اور وہ دو ہفتوں میں مرنے کے قریب ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے بہت دوائیں کھلائیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔فلورے اور فلیمنگ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور جو کچھ بھی پنسلین ان کی تجربہ گاہ میں موجود تھی وہ لے کر مرتے ہوئے اس مریض کے پاس پہنچ گئے۔ ہر تین گھنٹے بعد انجکشن کے ذریعے پنسلیناس کے خون میں پہنچائی جانے لگی۔پہلے دو دن میں بخار میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ تیسرے دن چہرے کا غیر معمولی ورم کم ہونے لگا۔ اگلے دن بخار تقریباً ٹوٹ گیا۔پنسلین کا دوسرا تجربہ ایک پندرہ سالہ لڑکے پر کیا گیا۔ وہ 48گھنٹے کے اندر مر جاتا لیکن پنسلین نے اس کی جان بچا لی۔ اب فلورے کو اس دوا کی خوبی کا یقین ہو گیا۔فلورے نے اپنی بیوی کو اس نیک کام میں شریک کیا جو خود بھی ڈاکٹر تھی۔ فلورے اور ان کے ساتھیوں کا کام یہ تھا کہ وہ پنسلین کی زیادہ سے زیادہ مقدار تیار کرکے مسز فلورے کو دیتے تھے اور وہ اسے مناسب موقعوں پر استعمال کرتیں۔ ایک سال میں 187مریض شفایاب ہوئے جو مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے۔ اگر انہیں پنسلین نہ دی جاتی تو وہ یقیناً مر جاتے۔طبی تحقیقات کرنے والوں نے سوچا کہ اگر قدرت نے ایک معمولی پھپھوندی میں جادو کا اثر رکھا ہے تو کیوں نہ دوسری چیزوں کو دیکھا بھالا جائے۔ شاید ان میں بھی کچھ طبی خصوصیات موجود ہوں ۔ چنانچہ اور زیادہ تیزی سے تحقیقات ہونے لگیں جن کے نتیجے میں ہمیں ایرومائی سین، کلورومائی سین، پولی مکسین اور بہت سی دوسری دوائیں حاصل ہوئیں ۔ان دوائوں نے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی جانیں بچائی ہیں اور بچا رہی ہیں۔ الیگزینڈر فلیمنگ کو ان خدمات کے صلے میں سر کا خطاب ملا۔ 1943ء میں انہیں رائل سوسائٹی کا فیلو چنا گیا۔1944ء میں انہیں نائٹ کا خطاب ملا اور 1945ء میں انہیں جون سکاٹ میڈل عطا کیا گیا۔ اُسی سال انہیں سر فلورے کی شرکت میں نوبل پرائز بھی ملا۔    

ڈائلیسز کے مریض  کیا کھائیں؟

ڈائلیسز کے مریض کیا کھائیں؟

گردے ہمارے جسم میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں جو فاضل مواد کو جسم سے خارج کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کا توازن برقرار رکھنے، نمک، پوٹاشیم اور ایسڈ لیول کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔ جس سے نہ صرف خون کا پریشر بلکہ وٹامن ڈی کی مقدار اور خون کے سرخ خلیات کو بھی متوازن سطح پر رہتے ہیں ۔گردوں کے امراض میں سب سے خطرناک مرض اس عضو کا کام کرنا چھوڑ دینا ہے۔ تحقیق کے مطابق پچھلے 40 سال میں اس کی تعداد 108 ملین سے بڑھ کر 700 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔گردے ناکام ہونے کی وجہ سے جسم میں پانی اور غیر ضروری فاضل مواد کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے جو جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ان غیر ضروری فاضل مواد کو جسم سے نکالنے کا کام ڈائلیسز ہے۔ ڈائلیسز متاثرہ گردوں کے ہو بہو انجام دینے کا ایک مصنوعی عمل ہے جو مشین کے ذریعے خون کی صفائی کرنا، پانی کو جسم میں جمع ہونے، تیزابیت اور معدنیات کے جسم سے خارج ہونے میں رکاوٹ کی توصیح کرنا ہے۔ ڈائلیسز کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو خوراک اور غذائیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ متوازن اور موضوع غذا کے استعمال کو روز مرہ زندگی کی عادت بنا کر نہ صرف مریضوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ ہر مہینے ڈائلیسز کی تعداد میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ڈائلیسز کے مریضوں میں سب سے اہم پانی کی مقدار کی نگرانی ہے جو زیادہ سے زیادہ جسم میں جمع ہونے کی وجہ سے آئیسوجن اور پیشاب کو دھیا ن میں رکھتے ہوئے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ 24 گھنٹے میں آنے والے پیشاب کو مد نظر رکھ کر پانی مریضوں کو دیا جاتا ہے۔ جس میں چائے، دودھ، سوپ اور رسدار پھل شامل ہیں۔ سوڈیم ایک اہم معدنی جزو ہے جو جسم میں پانی اور خون کے پریشر کو اعتدال میں رکھتا ہے۔ سوڈیم خون میں زیادہ ہونے کی وجہ سے جسم میں سوجن کا بڑھ جانا سانس پھولنا اور خون کا پریشر زیادہ ہونے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس لیے بازاری اشیاء، تندوری روٹی، اچار، نمکین بسکٹ، ڈبے والی اشیاء اور نمک ملے کھانوں سے پرہیز کریں۔ گلابی نمک اور روایتی نمک میں تقریباً ایک ہی مقدار میں سوڈیم پایا جاتا ہے، اس لیے مریض اعتدال کے ساتھ استعمال کریں۔ کم سوڈیم والی نمک میں پوٹاشیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو مریضوں کیلئے مہلک ہو سکتی ہے۔ پوٹاشیم دل اور پٹھوں کے مناسب کام کرنے کیلئے ضروری ہے، جو پھلوں اور سبزیوں میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔ آڑو، ناشپاتی، چکوترا، جامن، بھنڈی، مولی، بینگن، لیمن، پودینے کے پتے، بیر اور لیچی میں معتدل اور کم مقدار میں پوٹاشیم پایا جاتا ہے جو کہ ڈائلیسز مریضوں کیلئے فائدہ مند ہے۔ سبزیوں کے جوس، کیلا، انجیر، خوبانی، چیکو، پکا ہوا آم، کشمش، آلو، شکر قندی، ساگ اور خشک میوہ جات میں زیادہ پوٹاشیم پایا جاتا ہے جو زیادہ لینے سے دل اور پٹھوں کی قوت عمل پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس لیے ان کو خوراک میں لینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کچی اور سبز پتوں والی سبزیوں میں پوٹاشیم کی زیادہ مقدار کو چھیل کر اور دو گھنٹے پانی میں بھگو کر پھر تازہ پانی میں پکا کر کم کیا جا سکتا ہے مگر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پروٹین (لحمیات) دودھ، دہی، بغیر چربی کے گوشت، مرغی، مچھلی اور انڈے میں زیادہ مقدار میں پائی جاتی ہے جو پٹھوں کے بننے اور مناسب کام کرنے کیلئے بہت ضروری ہے۔ ڈائلیسز کے دوران فاضل مواد کے اخراج کے ساتھ ضروری پروٹین کا اخراج بھی زیادہ ہو جاتا ہے جو کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے ڈائلیسز کے مریضوں کو پروٹین کی ضرورت، گردوں کے مریض جو ڈائلیسز پر نہیں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ غذائی منصوبہ بندی گردے کی بیماری کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ المکی المدنی ڈائلیسز سینٹر اینڈ سرجیکل ہسپتال میں گردوں کے سپیشلسٹ، شوگر سپیشلسٹ، ماہر غذائیت اور سائیکاٹرسٹ ڈائلیسز کے مریضوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کا فلاحی کام سر انجام دے رہے ہیں۔  

چرچل واررووم

چرچل واررووم

نپولین نے کہا تھا کہ ''اگر فوج گیدڑوں کی ہو لیکن لیڈر شیر ہو تو ہار نہیں سکتی اور اگر فوج شیروں کی ہو لیکن لیڈر گیدڑ ہو تو جیت نہیں سکتی‘‘۔جب مئی 1945ء میں جنگ عظیم دوم ختم ہوئی تو اتحادی ہونے کے ناطے برطانیہ کے اس وقت کے وزیراعظم ونسٹن چرچل نے عوام کو مبارکباد دی کہ آج آپ جنگ جیت چکے ہیں۔ عوام نے چرچل کو بآواز بلند جواب دیا کہ نہیں آپ مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ ہم نے آپ کی حکمت عملی اور بہتر سوچ کی وجہ سے یہ جنگ جیتی۔ونسٹن چرچل دو دفعہ برطانیہ کے وزیراعظم رہے(1841-45ء اور 1951-55ء)۔ جب جنگ عظیم دوم کا آغاز ہوا تو وہ وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے قریب ایک تہہ خانہ جو سٹریٹ لیول سے دس فٹ نیچے تھا میں شفٹ ہو گئے اور کہا : ''This is the Room, for which l will direct the war.‘‘ (مئی1940ء)۔ اور1945ء میں جنگ عظیم دوم کے خاتمہ تک انہوں نے وہیں بیٹھ کر اپنی افواج کو کنٹرول کیا۔ گویا یہ ایک کنٹرول روم تھا، جس میں نیوی، ایئرفورس اور ملٹری کے جرنیل بھی موجود ہوتے۔ آخر بہترین حکمت عملی سے انہوں نے یہ جنگ جیتی۔ جنگ کی ہولناکیوں کا اس بات سے اندازہ لگائیں کہ اس میں جرمن کے بمبار طیاروں نے لندن شہر کی صحیح معنوں میں اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ لندن کا کوئی محلہ، گلیاں، شاہراہیں، محلات، پارلیمنٹ ہائوس، میوزیم، چڑیا گھر، نشریاتی ادارے غرضیکہ کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں پر جرمن ہوائی فوج نے حملے نہ کئے ہوں لیکن فتح نے برطانیہ کے قدم چومے۔ونسٹن چرچل ایک کامیاب سیاست دان کے علاوہ ایک فوجی بھی تھے۔ وہ لندن کے قریب واقع رائل ملٹری کالج سٹینڈھرسٹ کے تعلیم یافتہ تھے۔(یاد رہے کہ پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل اور صدر محمد ایوب خان بھی اسی کالج سے فارغ التحصیل تھے)۔ فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے بعد خار زارِ سیاست میں قدم رکھا۔ وہ وزیر دفاع بھی رہے۔1897ء میں مالا کنڈ فیلڈ فورس کی 31ویں پنجاب انفنٹری میں بھی اپنے ملک کی طرف سے خدمات انجام دیں۔1900ء میں ریگولر آرمی سے ریٹائرمنٹ لی۔ ونسٹن چرچل دو دفعہ برطانیہ کے وزیر اعظم کے علاوہ مصنف، تاریخ دان اور پینٹر بھی تھے۔1953ء میں انہیں لٹریچر میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔''چرچل وار روم‘‘ ایک طرح چرچل کا کمانڈ سنٹر تھا۔ یہاں پر چرچل بطور وز یراعظم اپنی کابینہ کا اجلاس بلاتے اور جنگی صورتحال کو پیش نظر رکھ کر اسی کمرہ سے فوجی محاذوں پر ہدایات بھجوائی جاتیں۔ اس تہہ خانے میں بنے ہوئے کنٹرول سنٹر کو 1984ء میں میوزیم کی شکل دے دی گئی اور یہ میوزیم ''امپیریل وار میوزیم‘‘ کی ہی ایک شاخ ہے۔27اگست 1939ء کو جنگ کا اعلان ہونے کے ایک ہفتہ قبل ہی یہ تہہ خانہ بطور وار روم کنٹرول سنٹر روبہ عمل ہو چکا تھا۔ یہ حکومت برطانیہ کا ایک خفیہ تہہ خانہ تھا اور اسی میں بیٹھ کرونسٹن چرچل جنگی حکمت عملی کو پیش نظر رکھ کر احکامات صادر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ16اگست 1945ء میں جب جاپان نے اپنے ہتھیار نہیں ڈال دیئے۔ یہ وہ کمرہ ہے جہاں تاریخ رقم ہوئی۔ اسی کمرہ میں 115بار کابینہ کے اجلاس منعقد ہوئے۔ اس وار روم میں ایک نقشہ(میپ روم) بھی تھا، جہاں پر 24گھنٹے ملٹری، نیوی اور رائل ایئرفورس کے آفیسر جنگ کی تازہ صورتحال کی خبریں اکٹھی کرتے اور بادشاہ، وزیراعظم اور ملٹری چیف آف سٹاف کو باخبر رکھتے۔ اگر کسی اہم شخصیت یا ملاقاتی کو دعوت دی جاتی تو نقشہ روم کی دیواروں کو پردوں سے ڈھانپ دیا جاتا۔آپ ان افراد کی زندگی کے وہ لمحات، وہ راتیں، وہ ایام تصور میں لائیں جو یہاں پر ہی کھاتے پیتے اور سوتے تھے اور گھڑی کی سوئیوں کی طرح کام پر جتے رہتے تھے۔ کام کرنے والا سارا عملہ شفٹوں میں ہوتا تھا۔ ان میں ایک عمر رسیدہ سفید بالوں والی خاتون ٹائپسٹ جس کا نام Joy Hunter، آنکھوں پر چشمہ لگائے اپنے ٹائپ رائٹر پر جھکی رہتی تھیں۔اس وار روم کے ٹائلٹ میں داخل ہو کر چرچل امریکہ کے صدر روز ویلٹ سے بات کرتے اور جنگ کی صورتحال پر گفتگو کرتے۔ بی بی سی نے وہیںاپنے آلات نصب کر رکھے تھے، جہاں سے ریڈیو پر براہ راست ونسٹن چرچل کی تقاریر نشر کی جاتی تھیں۔ میپ روم کے ساتھ چرچل کا بیڈ روم تھا۔ اسی بیڈ روم میں بیٹھ کر وہ اپنی کابینہ کا اجلاس منعقد کرتے۔ وہیں پر مائیکروفون رکھے ہوئے تھے، اس تہہ خانے سے چار دفعہ چرچل نے بی بی سی ریڈیو پر تقاریرکیں۔فتح کی ایک تقریبجنگ عظیم دوم کے خاتمہ کے بعد 1945ء میں جب فتح کی تقریبات شروع ہوئیں تو 8مئی کو ایک ہجوم منسٹری آف ہیلتھ کے وائٹ ہال کی بالکونی کے سامنے اکٹھا ہو گیا۔ وزیراعظم چرچل اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ بالکونی پر نمودار ہوئے اور ہاتھ ہلا کر عوام کے نعروں کا جواب دیا۔ اس موقع پر فرط جذبات میں انہوں نے خطاب کیا۔ تقریر کے آخر میں جب انہوںنے کہا ''This is your Victoy‘‘ (''یہ فتح آپ کی ہے‘‘)تو عوام کے اندرسے ایک شور اٹھا اور جواب میں کہا ''No, It is your‘‘ (یہ آپ ہی کی فتح ہے)۔ یہ لمحہ جو عوام کے جوش و لولہ اور محبت سے معمور تھا جو بھلایا نہیں جا سکتا۔چرچل نے دونوں ہاتھ ہلا کر کہا: God bess you all, This is your victory    

حکایات سعدیؒ: بلند ہمت عورت کا واقعہ

حکایات سعدیؒ: بلند ہمت عورت کا واقعہ

ایک شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اجب بچے نے دانت نکال لیے تو باپ یہ خیال کر کے پریشان ہو گیا کہ اس کے کھانے کابندوبست کیسے ہوگا۔ اپنی بیوی کے سامنے جب اس خیال کا اظہار کیا تو عورت نے ایسا جواب دیا کہ ہوش ٹھکانے آگئے۔ عورت نے کہا! شیطانی وسوسوں میں نہ پڑ! جس خدا نے مرتے دم تک دانت دیے ہیں وہ اس کو روٹی بھی دے گا۔ اللہ قادر و قیوم ہے اور اپنی مخلوق کو روزی عطا فرماتا ہے۔ جس نے ماں کے پیٹ میں بچے کے نقش و نگار بنائے ہیں اس نے اسی وقت اس کی عمر او رروزی بھی لکھ دی ہے۔ تجھے تو خدا پر اتنا بھروسہ نہیں جتنا ایک غلام کو اپنے آقا پر ہے، جو درویش بادشاہ کو اپنا مقصود سمجھتا ہے اس کو بتا دے کہ بادشاہ فقیرسے زیادہ مسکین ہے کیونکہ فقیر کو تو ایک درہم چاندی سیر کر دیتی ہے جبکہ فریدون (شاہ ایران) ساری دنیا پر قبضہ کر کے بھی بھوکا رہے گا۔ ملکوں کی حکومت بڑی مصیبت ہے اصل بادشاہ تو فقیر ہے اگرچہ اسے بادشاہ نہیں کہا جاتا۔ بے فکر فقیر فکرمند بادشاہ سے کہیں بہتر ہے۔تو اپنی تنگ دستی پر بھی اللہ کا شکر ادا کر کہ تو وہ طاقت ہی نہیں رکھتا جس سے تو کسی کو دکھ پہنچائے۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے کہ اہل و عیال کے اخراجات سے تنگ آکر گھر چھوڑنا ، بھاگ جانا یا گھبرا جانا اللہ پر بھروسہ کر نے والوں کا کام نہیں ۔ پیدا کرنے والا روزی کا انتظام بھی کر دیتا ہے۔ ٭...٭...٭