بشیر نیاز : ایک شاندار مکالمہ نگار
کسی بھی فلم میں مکالمہ نگاری کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ہندوستان اور پاکستانی فلمی صنعت میں بڑے شاندار مکالمہ نگار پیدا ہوئے جن کی فنی عظمت کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں سلیم جاوید، کمال امروہی، وجاہت مرزا اور قادر خان نے مکالمہ نگاری کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ پاکستان میں ریاض شاہد کو اس حوالے سے اہم مقام حاصل ہے۔ ان کے مکالموں نے بڑی شہرت حاصل کی۔خاص طور پر ’’خاموش رہو، آگ کا دریا، زرقا اور یہ امن کے مکالمے آج بھی شائقین فلم کو یاد ہیں۔ ریاض شاہد کے بعد جس مکالمہ نگار نے اپنے کمال فن سے اس میدان میں جھنڈے گاڑے ان میں بلاشبہ بشیر نیاز کا نام لیا جاسکتا ہے۔9 جولائی1936ء کو جامکے چٹھہ (وزیرآباد) میں پیدا ہونے والے بشیر نیاز کا اصل نام بشیر احمد تھا۔ جبکہ ان کا فلمی نام نیاز احمد تھا۔ انہوں نے اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے بی اے کیا۔ پہلے وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوئے اور کئی جرائد میںکام کیا۔ فلمی صنعت سے وابستہ ہوئے تو انہوں نے اپنے فن کے ایسے چراغ جلائے جن سے ان کے بعد میں آنے والے لوگوں نے بھی فائدہ اٹھایا۔ بشیر نیاز نے تعلیم کے حصول کیلئے بڑی مشکلات کا سامنا کیا۔ لیکن وہ بڑے مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ انہوں نے کئی چھوٹے موٹے کام کیے اور حالات کے سامنے ڈٹ گئے۔ بشیر نیاز نے کئی کامیاب فلموں کے سکرپٹس بھی لکھے۔ ان میں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی فلمیں بہت پسند کی جاتی تھیں۔ انہوں نے ابتدا میں شباب کیرانوی ، کے خورشید، درپن، رنگیلا اور حیدرچودھری کے ساتھ کام کیا۔ وہ ڈبلیو زیڈ احمد، انور کمال پاشا، سیف الدین سیف، احمد راہی، ریاض شاہد اور نذرالاسلام سے بہت متاثر تھے۔ مکالمہ نگاری میں وہ رشید ساجد سے بھی بڑے متاثر تھے۔ بشیرنیاز کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ فقروں کا جادوگر اور محبت کا سوداگر ہے۔ وہ مکالمے بیچتااور محبتیں مفت تقسیم کرتا ہے۔ 1963ء میں سب سے پہلے انہوں نے فلم ’’چھوٹی بہن‘‘ کی کہانی لکھی۔ اس وقت وہ کراچی میں تھے۔ پھر انہوں نے شباب کیرانوی کی فلموں کے مکالمے لکھنے شروع کر دیئے۔ شباب کیرانوی کی فلم ’’پردے میں رہنے دو‘‘ نذرالاسلام کی ’’احساس‘‘ اور کے خورشید کی ’’گھرانہ‘‘ جب باکس آفس پر کامیاب ہوئیں تو پھربشیر نیاز پر فلمی صنعت کا اعتماد بحال ہوگیا۔ اگرچہ ان میں سے ایک فلم ’’گھرانہ‘‘ بھارتی فلم ’’دوراستے‘‘ کا چربہ تھی لیکن بشیر نیاز کے مکالمے خالصتاً ان کے اپنے تھے۔ جب حیدر چودھری کی فلم ’’نوکر ووہٹی دا‘‘ سپرہٹ ہوئی تو بشیر نیاز کو اردو اور پنجابی دونوں زبان کی فلموں کے مکالمے لکھنے کی پیشکش ہوئی۔ انہوں نے ہدایتکار نذرالاسلام کی 16فلموں، الطاف حسین کی 35 فلموں اور حسنین کی 25 فلموں کے مکالمے لکھے۔ الطاف حسین کی ایک فلم’’سالا صاحب‘‘ نے ریکارڈبزنس کیا جبکہ ’’دھی رانی‘‘ اور ’’مہندی‘‘ کا چربہ ہندوستان میں بنایا گیا۔ ہدایتکار نذرالاسلام کے ساتھ ان کی خاصی ذہنی ہم آہنگی تھی۔ ان کی جن فلموں کیلئے انہوں نے مکالمے لکھے ان میں ’’شرافت، آئینہ، زندگی، آنگن، نہیں ابھی نہیں، لو سٹوری اور بندش‘‘ شامل ہیں۔ ان سب فلموں نے بڑا اچھا بزنس کیا۔ ان سب فلموں کے مکالموں کو آج بھی پسند کیا جاتا ہے۔ ’’نوکر ووہٹی دا‘‘ کے بارے میں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس فلم کا چربہ ہندوستان میں تیار کیا گیا اور اس چربہ فلم کا نام ’’نوکر بیوی کا‘‘تھا ۔ اس فلم کے مکالمے بھی پنجابی سے ہندی میں ترجمہ کیے گئے تھے۔ اس کی کہانی شیخ اقبال نے تحریر کی تھی۔ جبکہ مکالمے بشیر نیاز کے تھے۔ ’’رنگیلا‘‘ کی کئی فلموں کے مکالمے بھی بشیر نیاز نے تحریر کیے تھے جن میں ’’دیا اور طوفان، رنگیلااور دو رنگیلے‘‘ شامل ہیں۔ بشیر نیاز کی دیگر فلموں میں ’’مکھڑا، نوری، صاحب جی، عادل، دنیا، تیس مار خان اور دلاری‘‘ شامل ہیں۔بشیر نیاز کے بارے میں شاید بہت کم لوگوں کو یہ علم ہوگا کہ انہوں نے کچھ بڑے شاندار انٹرویو بھی کیے جن میں ایک انٹرویو جاسوسی ادب کی معروف ترین شخصیت ابن صفی کا بھی تھا۔ بشیر نیاز کے بارے میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی سوشل فلموں سے معاشرے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ عریانی اور فحاشی کی آمیزش کے قائل نہیں تھے۔ انہیں انسانی رشتوں کے باہمی درد اور معاشرتی اتار چڑھائو کو انتہائی موثر طریقے سے فلمی سکرین پر پیش کرنے میںملکہ حاصل تھا۔ ذرا ’’آئینہ‘‘ کے مکالموں کو دیکھیں۔ انہوں نے اس فلم میں اپنے مکالموں کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ بڑھتی ہوئی خواہشات انسانی ذہن میں انتشار پیدا کرتی ہیں۔ اس فلم کا ایک مکالمہ ملاحظہ کریں جو اداکار ریحان نے ادا کیا۔ ریحان ایک دولت مند شخص ہے جس کی بیٹی شبنم ایک غریب آدمی ندیم کی محبت میں گرفتار ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ دولت کے نشے میں مست ریحان ندیم سے کہتے ہیں ’’جانتے ہو میری بیٹی کی ایک ساڑھی کی قیمت ساڑھے سات ہزار ہے جبکہ تمہاری تنخواہ صرف ساڑھے سات سو روپے ہے‘‘۔ ’’بندش‘‘ کی شوٹنگ انڈونیشیا میں ہوئی تھی۔ یہاں ساحل سمندر پر ٹہلتے ہوئے بشیرنیاز نے یہ مکالمہ تخلیق کیا ’’ہم سمندر میں پلا بڑھا ہے، بہت پانی دیکھا ہے، لیکن بیٹی کی آنکھوں میں دو بوند پانی نہیں دیکھ سکتا‘‘۔ بشیر نیاز بڑے حساس آدمی تھے اور رشتوں کے تقدس کا بڑا خیال رکھتے تھے۔بشیر نیاز کو سب سے پہلے 1972ء میں نذرالاسلام کی فلم ’’احساس‘‘ کے باکمال مکالمے لکھنے پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ایک بار نگار ایوارڈ ملا تو پھر یہ ایوارڈ ملتے ہی چلے گئے۔ ان کی کل تعداد پندرہ کے قریب بنتی ہے اور یہ ایک ریکارڈ ہے۔ 2001ء میں انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔بشیر نیاز کو 1998ء میں دل کا دورہ پڑا اور وہ بستر سے لگ گئے۔ پھروہ دوبارہ فلمی صنعت میں آئے اور کام شروع کر دیا۔ اس دوران وہ اکثر یہ کہا کرتے کہ رائٹرز سے حکومت ناجائز طور پر ٹیکس وصول کرتی ہے ، کیونکہ یہی رائٹرز جب بیمار ہوتے ہیں تو حکومت کی طرف سے ان کی کوئی مدد نہیں کی جاتی۔ ایک زمانے میں بشیر نیاز فلمی صنعت سے خاصے مایوس ہوگئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اب فلمی صنعت پر بدمعاشوں کا غلبہ ہوگیا ہے۔ ایک نمبر بندوں کی ضرورت شاید اب ختم ہو گئی ہے۔5 اگست 2002ء کو بشیرنیاز کا لندن میں انتقال ہوگیا۔ 11 اگست 2002ء کو سمن آبادکے قبرستان میں ان کی تدفین کر دی گئی۔بشیر نیاز نے پاکستانی فلمی صنعت کیلئے جو گرانقدر خدمات سرانجام دیں انہیں کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔٭…٭…٭