بشیر نیاز : ایک شاندار مکالمہ نگار

بشیر نیاز :  ایک شاندار  مکالمہ نگار

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


کسی بھی فلم میں مکالمہ نگاری کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ہندوستان اور پاکستانی فلمی صنعت میں بڑے شاندار مکالمہ نگار پیدا ہوئے جن کی فنی عظمت کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں سلیم جاوید، کمال امروہی، وجاہت مرزا اور قادر خان نے مکالمہ نگاری کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ پاکستان میں ریاض شاہد کو اس حوالے سے اہم مقام حاصل ہے۔ ان کے مکالموں نے بڑی شہرت حاصل کی۔خاص طور پر ’’خاموش رہو، آگ کا دریا، زرقا اور یہ امن کے مکالمے آج بھی شائقین فلم کو یاد ہیں۔ ریاض شاہد کے بعد جس مکالمہ نگار نے اپنے کمال فن سے اس میدان میں جھنڈے گاڑے ان میں بلاشبہ بشیر نیاز کا نام لیا جاسکتا ہے۔9 جولائی1936ء کو جامکے چٹھہ (وزیرآباد) میں پیدا ہونے والے بشیر نیاز کا اصل نام بشیر احمد تھا۔ جبکہ ان کا فلمی نام نیاز احمد تھا۔ انہوں نے اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے بی اے کیا۔ پہلے وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوئے اور کئی جرائد میںکام کیا۔ فلمی صنعت سے وابستہ ہوئے تو انہوں نے اپنے فن کے ایسے چراغ جلائے جن سے ان کے بعد میں آنے والے لوگوں نے بھی فائدہ اٹھایا۔ بشیر نیاز نے تعلیم کے حصول کیلئے بڑی مشکلات کا سامنا کیا۔ لیکن وہ بڑے مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ انہوں نے کئی چھوٹے موٹے کام کیے اور حالات کے سامنے ڈٹ گئے۔ بشیر نیاز نے کئی کامیاب فلموں کے سکرپٹس بھی لکھے۔ ان میں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی فلمیں بہت پسند کی جاتی تھیں۔ انہوں نے ابتدا میں شباب کیرانوی ، کے خورشید، درپن، رنگیلا اور حیدرچودھری کے ساتھ کام کیا۔ وہ ڈبلیو زیڈ احمد، انور کمال پاشا، سیف الدین سیف، احمد راہی، ریاض شاہد اور نذرالاسلام سے بہت متاثر تھے۔ مکالمہ نگاری میں وہ رشید ساجد سے بھی بڑے متاثر تھے۔ بشیرنیاز کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ فقروں کا جادوگر اور محبت کا سوداگر ہے۔ وہ مکالمے بیچتااور محبتیں مفت تقسیم کرتا ہے۔ 1963ء میں سب سے پہلے انہوں نے فلم ’’چھوٹی بہن‘‘ کی کہانی لکھی۔ اس وقت وہ کراچی میں تھے۔ پھر انہوں نے شباب کیرانوی کی فلموں کے مکالمے لکھنے شروع کر دیئے۔ شباب کیرانوی کی فلم ’’پردے میں رہنے دو‘‘ نذرالاسلام کی ’’احساس‘‘ اور کے خورشید کی ’’گھرانہ‘‘ جب باکس آفس پر کامیاب ہوئیں تو پھربشیر نیاز پر فلمی صنعت کا اعتماد بحال ہوگیا۔ اگرچہ ان میں سے ایک فلم ’’گھرانہ‘‘ بھارتی فلم ’’دوراستے‘‘ کا چربہ تھی لیکن بشیر نیاز کے مکالمے خالصتاً ان کے اپنے تھے۔ جب حیدر چودھری کی فلم ’’نوکر ووہٹی دا‘‘ سپرہٹ ہوئی تو بشیر نیاز کو اردو اور پنجابی دونوں زبان کی فلموں کے مکالمے لکھنے کی پیشکش ہوئی۔ انہوں نے ہدایتکار نذرالاسلام کی 16فلموں، الطاف حسین کی 35 فلموں اور حسنین کی 25 فلموں کے مکالمے لکھے۔ الطاف حسین کی ایک فلم’’سالا صاحب‘‘ نے ریکارڈبزنس کیا جبکہ ’’دھی رانی‘‘ اور ’’مہندی‘‘ کا چربہ ہندوستان میں بنایا گیا۔ ہدایتکار نذرالاسلام کے ساتھ ان کی خاصی ذہنی ہم آہنگی تھی۔ ان کی جن فلموں کیلئے انہوں نے مکالمے لکھے ان میں ’’شرافت، آئینہ، زندگی، آنگن، نہیں ابھی نہیں، لو سٹوری اور بندش‘‘ شامل ہیں۔ ان سب فلموں نے بڑا اچھا بزنس کیا۔ ان سب فلموں کے مکالموں کو آج بھی پسند کیا جاتا ہے۔ ’’نوکر ووہٹی دا‘‘ کے بارے میں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس فلم کا چربہ ہندوستان میں تیار کیا گیا اور اس چربہ فلم کا نام ’’نوکر بیوی کا‘‘تھا ۔ اس فلم کے مکالمے بھی پنجابی سے ہندی میں ترجمہ کیے گئے تھے۔ اس کی کہانی شیخ اقبال نے تحریر کی تھی۔ جبکہ مکالمے بشیر نیاز کے تھے۔ ’’رنگیلا‘‘ کی کئی فلموں کے مکالمے بھی بشیر نیاز نے تحریر کیے تھے جن میں ’’دیا اور طوفان، رنگیلااور دو رنگیلے‘‘ شامل ہیں۔ بشیر نیاز کی دیگر فلموں میں ’’مکھڑا، نوری، صاحب جی، عادل، دنیا، تیس مار خان اور دلاری‘‘ شامل ہیں۔بشیر نیاز کے بارے میں شاید بہت کم لوگوں کو یہ علم ہوگا کہ انہوں نے کچھ بڑے شاندار انٹرویو بھی کیے جن میں ایک انٹرویو جاسوسی ادب کی معروف ترین شخصیت ابن صفی کا بھی تھا۔ بشیر نیاز کے بارے میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی سوشل فلموں سے معاشرے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ عریانی اور فحاشی کی آمیزش کے قائل نہیں تھے۔ انہیں انسانی رشتوں کے باہمی درد اور معاشرتی اتار چڑھائو کو انتہائی موثر طریقے سے فلمی سکرین پر پیش کرنے میںملکہ حاصل تھا۔ ذرا ’’آئینہ‘‘ کے مکالموں کو دیکھیں۔ انہوں نے اس فلم میں اپنے مکالموں کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ بڑھتی ہوئی خواہشات انسانی ذہن میں انتشار پیدا کرتی ہیں۔ اس فلم کا ایک مکالمہ ملاحظہ کریں جو اداکار ریحان نے ادا کیا۔ ریحان ایک دولت مند شخص ہے جس کی بیٹی شبنم ایک غریب آدمی ندیم کی محبت میں گرفتار ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ دولت کے نشے میں مست ریحان ندیم سے کہتے ہیں ’’جانتے ہو میری بیٹی کی ایک ساڑھی کی قیمت ساڑھے سات ہزار ہے جبکہ تمہاری تنخواہ صرف ساڑھے سات سو روپے ہے‘‘۔ ’’بندش‘‘ کی شوٹنگ انڈونیشیا میں ہوئی تھی۔ یہاں ساحل سمندر پر ٹہلتے ہوئے بشیرنیاز نے یہ مکالمہ تخلیق کیا ’’ہم سمندر میں پلا بڑھا ہے، بہت پانی دیکھا ہے، لیکن بیٹی کی آنکھوں میں دو بوند پانی نہیں دیکھ سکتا‘‘۔ بشیر نیاز بڑے حساس آدمی تھے اور رشتوں کے تقدس کا بڑا خیال رکھتے تھے۔بشیر نیاز کو سب سے پہلے 1972ء میں نذرالاسلام کی فلم ’’احساس‘‘ کے باکمال مکالمے لکھنے پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ایک بار نگار ایوارڈ ملا تو پھر یہ ایوارڈ ملتے ہی چلے گئے۔ ان کی کل تعداد پندرہ کے قریب بنتی ہے اور یہ ایک ریکارڈ ہے۔ 2001ء میں انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔بشیر نیاز کو 1998ء میں دل کا دورہ پڑا اور وہ بستر سے لگ گئے۔ پھروہ دوبارہ فلمی صنعت میں آئے اور کام شروع کر دیا۔ اس دوران وہ اکثر یہ کہا کرتے کہ رائٹرز سے حکومت ناجائز طور پر ٹیکس وصول کرتی ہے ، کیونکہ یہی رائٹرز جب بیمار ہوتے ہیں تو حکومت کی طرف سے ان کی کوئی مدد نہیں کی جاتی۔ ایک زمانے میں بشیر نیاز فلمی صنعت سے خاصے مایوس ہوگئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اب فلمی صنعت پر بدمعاشوں کا غلبہ ہوگیا ہے۔ ایک نمبر بندوں کی ضرورت شاید اب ختم ہو گئی ہے۔5 اگست 2002ء کو بشیرنیاز کا لندن میں انتقال ہوگیا۔ 11 اگست 2002ء کو سمن آبادکے قبرستان میں ان کی تدفین کر دی گئی۔بشیر نیاز نے پاکستانی فلمی صنعت کیلئے جو گرانقدر خدمات سرانجام دیں انہیں کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
30نومبر: ’’ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے ‘‘

30نومبر: ’’ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے ‘‘

کمپیوٹر سکیورٹی جسے سائبر سکیورٹی یا آئی ٹی سکیورٹی بھی کہا جاتا ہے، وہ عمل ہے جس کے ذریعے کمپیوٹر سسٹمز، نیٹ ورکس اور ڈیٹا کو غیر مجاز رسائی، نقصان، یا چوری سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ جدید دور میں جہاں ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، کمپیوٹر سکیورٹی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کمپیوٹر سکیورٹی اس لیے ضروری ہے کہ یہ ہماری معلومات کو محفوظ رکھتی ہے، چاہے وہ ذاتی ہو یا پیشہ ورانہ۔ یہ ہیکرز، میلویئر، اور دیگر سائبر خطرات سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور مالی نقصانات اور قانونی پیچیدگیوں سے بچاتی ہے۔کمپیوٹرز سکیورٹی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہاس کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کیلئے ایک دن مختص ہے جو ''کمپیوٹرز کی حفاظت کے عالمی دن‘‘ یا ''کمپیوٹر سکیورٹی ڈے‘‘ کے عنوان سے ہر سال 30نومبرکو منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد کمپیوٹر صارفین کو اپنے کمپیوٹرز میں موجود قیمتی ڈیٹا، پروگرامز اور ہارڈویئرکو وائرس اور دیگر خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے آگاہی فراہم کرنا ہے۔ کمپیوٹر سکیورٹی ڈے کے حوالے سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرین کمپیوٹر صارفین کو کمپیوٹر سافٹ ویئر، کمپیوٹر ز سکیورٹی اور اس سے متعلقہ مفیدمعلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ دن منانے کا آغاز 1988ء سے ہوا تھا۔کمپیوٹر سکیورٹی کی اقسامکمپیوٹر سکیورٹی آج کے دور میں نہایت اہم ہے کیونکہ اس کے بغیر ہمارا ذاتی اور پیشہ ورانہ ڈیٹا خطرے میں رہتا ہے۔کمپیوٹر سکیورٹی کئی اقسام پر مشتمل ہے، جن میں سے اہم درج ذیل ہیں۔نیٹ ورک سکیورٹی:یہ نیٹ ورک کو غیر مجاز رسائی اور حملوں سے بچانے کیلئے اقدامات کرتی ہے۔ اس میں فائر وال، اینٹی وائرس اور وی پی این شامل ہیں۔ڈیٹا سکیورٹی:یہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ڈیٹا محفوظ اور خفیہ رہے اور صرف مستند صارفین تک رسائی حاصل کر سکیں۔ایپلی کیشن سکیورٹی:سافٹ ویئر یا ایپلیکیشنز میں موجود کمزوریوں کو دور کرنا تاکہ ہیکرز ان کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔انفارمیشن سکیورٹی:معلومات کو غیر مجاز ترمیم، نقصان، یا چوری سے محفوظ رکھنا۔کلاؤڈ سکیورٹی:کلاؤڈ میں اسٹور کیے گئے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات، جیسے ڈیٹا انکرپشن اور کلاؤڈ سروس فراہم کرنے والے کی سکیورٹی پالیسیاں۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کے اصولوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ایک محفوظ ڈیجیٹل دنیا کا قیام ممکن ہو سکے۔فائر وال کا استعمال کریں:ونڈوز میں فائر وال پہلے سے موجود اور خودکار طور پر فعال ہوتا ہے۔ یہ غیر مجاز رسائی کو روکنے میں مدد دیتا ہے اور آپ کے کمپیوٹر کی حفاظت کرتا ہے۔تمام سافٹ ویئر کو اپڈیٹ رکھیں: ونڈوز اپڈیٹ میں خودکار اپڈیٹس کو آن کریں تاکہ ونڈوز، مائیکروسافٹ آفس، اور دیگر مائیکروسافٹ ایپلی کیشنز اپڈیٹ رہیں۔غیر مائیکروسافٹ سافٹ ویئر کیلئے بھی خودکار اپڈیٹس کو آن کریں، خاص طور پر ویب براؤزرز، ایڈوب ایکروبیٹ ریڈر اور وہ ایپس جو آپ روزانہ استعمال کرتے ہیں۔اینٹی وائرس کا استعمال : اگر آپ ونڈوز استعمال کرتے ہیں، تو آپ کے ڈیوائس پر پہلے سے ہی ونڈوز سیکیورٹی یا ونڈوز ڈیفنڈر سیکیورٹی سینٹر موجود ہوتا ہے۔اسے اپڈیٹ اور فعال رکھیں تاکہ وائرس اور دیگر میلویئر سے حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔اگر آپ اپنے کمپیوٹر کو محفوظ رکھنا اور آن لائن خطرات کو کم کرنا چاہتے ہیں تو درج ذیل اقدامات پر عمل کریں۔ مضبوط پاسورڈز:اپنے پاس ورڈز کو محفوظ اور محتاط طریقے سے منتخب کریں ۔الفاظ، حروف اور نمبروں کے امتزاج پر مبنی مضبوط پاسورڈز استعمال کریں اور انہیں باقاعدگی سے تبدیل کریں۔مشکوک لنکس:مشکوک لنکس پر کلک نہ کریں۔یہ ای میل، ٹویٹس، پوسٹس، آن لائن اشتہارات، یا پیغامات میں ظاہر ہو سکتے ہیں اور کبھی کبھی خود کو قابل اعتماد ذرائع کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ویب براؤزنگ میں محتاط رہیں: ایسی ویب سائٹس سے پرہیز کریں جو غیر قانونی مواد فراہم کرتی ہیں، کیونکہ ان میں اکثر میلویئر انسٹال کیا جاتا ہے یا ایسے ڈاؤن لوڈز پیش کیے جاتے ہیں جن میں میلویئر ہوتا ہے۔جدید براؤزرکا استعمال : جدید براؤزر استعمال کریں،جیسے مائیکرو سافٹ ایج، جو خطرناک ویب سائٹس کو بلاک کرنے اور آپ کے کمپیوٹر پر نقصان دہ کوڈ چلنے سے روکنے میں مدد دیتا ہے۔غیر قانونی مواد سے دور رہیں:فلمیں، موسیقی، کتابیں یا ایپلی کیشنز ایسی جگہوں سے اسٹریم یا ڈاؤن لوڈ نہ کریں جو قابل اعتماد نہ ہوں۔ ان میں میلویئر موجود ہو سکتا ہے۔USB کا استعمال: یا دیگر خارجی آلات استعمال نہ کریں جب تک کہ وہ آپ کے اپنے نہ ہوں۔ میلویئر اور وائرس سے بچنے کیلئے یقینی بنائیں کہ تمام خارجی آلات یا تو آپ کے اپنے ہوں یا قابل اعتماد ذرائع سے حاصل کیے گئے ہوں۔ 

سیون اسٹریم لیک اور جڑواں جھیلیں

سیون اسٹریم لیک اور جڑواں جھیلیں

منی مرگ سے نکل کر ایک بار پھر ڈومیل تک پہنچ جانا دراصل میری ذاتی خواہش تھی ، جس کا احترام میرے ساتھیوں پر واجب نہ تھا۔منی مرگ کی ایک اجلی صبح میں جیپ ڈرائیور کے ساتھ ایک بار پھر ڈومیل کی طرف نکل آیا۔ گزری شام جو ندی ہمارے راستے کی رکاوٹ بنی تھی ، اب چپ چاپ بہتی جاتی تھی۔ برف پگھلنے سے پہلے ہم نے یہ ندی عبور کی اور رینبو جھیل کی قربت میں آ گئے۔ میرے تمام ہم سفر منی مرگ کے ریسٹ ہاوس میں ابھی سوئے ہوئے تھے اور میں رات کے وقت سنائی ہوئی کہانی کا کردار بن کر نکل آیا۔ رینبو جھیل سے آگے سیون اسٹریم لیک تھی جس میں سات چشمے یوں گرتے تھے جیسے کوئی اپنی ذات کسی محبوب پر فدا کر دے ، ہمیشہ کے لئے اپنی ہستی مٹا دے۔ مگر یہ ابھی صرف کہانی تھی اور اس سات چشموں والی جھیل تک پہنچنے کے لئے میں ڈومیل میں تھا۔ رینبو جھیل کے ساتھ بہتے نالے پر ہم نے سات گھنٹے سفر کرنا تھا اور پھر دو جڑواں جھیلوں تک پہنچنا تھا۔ میں تھکنے والا نہ تھا کہ ڈومیل سے واپس لوٹ جانا میرے سیاحتی عقیدے کی خلاف ورزی تھا۔منی مرگ سے نکلے ہوئے دو گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ ہم ایک ایسی وادی میں آ گئے جہاں بلند درختوں کے عقب میں وسیع لینڈ اسکیپ تھا۔ چھوٹے چھوٹے چشمے تھے اور موسم میں نرم دھوپ کا سایہ تھا۔ دن ڈھلنے سے پہلے جیپ ڈرائیور نے کہا کہ ہم نیرو کی جڑواں جھیلوں تک پہنچ گئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ نیرو کی جڑواں جھیلیں مکمل طور پر ان چھوئی اور کنواری جھیلیں تھیں جہاں تک انسان بہت کم پہنچتا تھا۔ صاف اور مقدس جھیلوں میں جو پانی تھے وہ کرسٹل واٹر تھے۔ برف کا تازہ عرق ان جھیلوں کا رزق بنتا تھا۔ خوبصورت جھیل میں تین خصوصیات ہوتی ہیں ، ایک یہ کہ وہ زندہ جھیل ہوتی ہے جس میں پانی داخل ہو رہا ہو اور ساتھ ساتھ اخراج بھی ہو رہا ہو۔ دوسری خصوصیت یہ کہ وہ اپنے اطراف میں بلند حصار رکھتی ہے۔ تیسرا خاصا اس کا شفاف پانی ہوتا ہے۔ ان جھیلوں میں تینوں نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ ان جھیلوں سے آگے ایک اور حیرت کا جہان ہمارا منتظر تھا۔صرف دو گھنٹے کی مسافت پر غلام سر کی دو اور جڑواں جھیلیں ہماری منتظر تھیں۔ ضلع بانڈی پورہ میں واقع یہ جھیلیں بھی حسن فطرت میں آپ اپنی مثال تھیں۔ رینبو جھیل وادی ڈومیل سے ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر دو اور جڑواں جھیلیں ہیں جنہیں آر ، بی کی جھیلیں کہا جاتا ہے۔ آر ، بی جھیلوں کے ارد گرد زعفرانی گھاس کا ڈھلوان فرش بچھا ہے۔ رینبو لیک کے پاس ہی دل نما جھیل بھی حسن کا منبع ہے۔ کئی جڑواں جھیلیں اور ان دیکھی وادیاں دیکھ کر جب منی مرگ پہنچے تو رات کا دوسرا پہر ڈھل چکا تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور تارے اتنے قریب تھے کہ آسمان پر نہیں ہمارے سروں کے اوپر چمکتے محسوس ہوتے تھے۔منی مرگ کے پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاوس میں میرے بچے میرے ہی منتظر تھے۔ میرے ذہن میں سیون اسٹریم جھیل اور کئی جڑواں جھیلوں کے حسن کا جادو تھا جو آنکھوں میں خمار بن کر ہر دیکھنے والے کے سامنے مجھے مشکوک کرتا تھا۔ میں اسی خمار کی وجہ سے گنگ تھا کہ بولنے کی سکت ہی نہ تھی۔ منی مرگ میں یہ رات ہماری آخری شب بسری تھی۔ ہونے والی صبح ہم نے برزل عبور کر کے استور پہنچنا تھا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

تنبس سے انخلاء30نومبر1971ء کو برطانوی افواج کے ابوموسیٰ اور تنبس کے جزائر سے انخلاء کے فوراً بعد شاہی ایرانی بحریہ نے آبنائے ہرمز میں واقع ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔یہ جزائر خلیج فارس اور خلیج عمان کے درمیان موجود ہیں۔ ایران کی شاہی ریاست نے جزائر کے دونوں جانب خودمختاری کا دعویٰ کیا تھا۔ امارات راس الخیمہ نے بڑے اور چھوٹے تبنوں کا دعویٰ کیا اور امارات شارجہ نے ابوموسیٰ پر دعویٰ کیا۔ایران کی جانب سے جزائر پر قبضے کے بعد شارجہ اور راس الخیمہ نے نوتشکیل شدہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ الحاق کر لیا۔اس الحاق کی وجہ سے ان علاقوں پر متحدہ عرب امارات کا بھی وعویٰ قائم ہو گیا۔تاسافارونگا کی جنگتاسا فارونگا کی لڑائی جسے بعض جگہ ''پرساؤجزیرے‘‘ کی چھوٹی جنگ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اور جاپانی تاریخ میں یہ ''لونگا پوائنٹ کی جنگ‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔یہ ایک بحری جنگ تھی جس کا آغاز 30نومبر1942ء کو ریاستہائے متحدہ امریکہ اور امپیریل جاپان کی بحریہ کے درمیان ہوا۔یہ لڑائی گواڈل کینال پر تسافارونگا علاقے کے قریب آئرن باٹم ساؤنڈ میں ہوئی۔جنگ میں، ریئر ایڈمرل کارلٹن ایچ رائٹ کی کمان میں پانچ کروزر اور چار ڈسٹرائرز پر مشتمل امریکی فورس نے گواڈل کنال پر اپنی افواج کو خوراک پہنچانے کی کوشش کرنے والے آٹھ جاپانی تباہ کن جہازوں کو روکے رکھا جس کی وجہ سے جاپان کو اس جنگ میں کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔سرمائی جنگسرمائی جنگ جسے پہلی سوویت فنش جنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ سوویت یونین اور فن لینڈ کے درمیاں ہونے والی ایک زبردست جنگ تھی۔ جنگ کا آغاز 30نومبر 1939ء کو فن لینڈ پر سوویت یونین کے حملے سے ہوا اور دوسری عالمی جنگ کے تین ماہ بعد ماسکو امن معاہدے کے ساتھ اس لڑائی کا اختتام ہوا۔ جدید اسلحہ، ٹینک اور اعلیٰ فوجی قیادت ہونے کے باوجود سوویت یونین کو اس جنگ میں بہت زیادہ نقصان پہنچا۔لیگ آف نیشنز نے اس حملے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سوویت یونین کو تنظیم سے بے دخل کر دیا۔کرسٹل پیلس میں آتشزدگی30نومبر1936ء کی شام سر ہنری بکلینڈ اپنی بیٹی کرسٹل کے ساتھ ٹہل رہے تھے، جس کا نام عمارت کے نام پر رکھا گیا تھا ۔ اسی دوران انہوں نے عمارت کے اندر سے روشنی آتی ہوئی دیکھی ،جب سر ہنری عمارت کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے دوملازمین کو دفتر میںلگی آگ سے لڑتے ہوئے دیکھا جو خواتین کے کمرے میں ایک دھماکے سے شروع ہوئی تھی۔صورتحال دیکھتے ہوئے فوراً فائر بریگیڈ کو بلایا گیا لیکن آگ بجھانے والے89انجن اور400سے زائد فائر مین مل کر بھی اس آگ پر قابو پانے میں ناکام رہے۔چند ہی گھنٹو ں میں پورا کرسٹل محل تباہ ہو گیا۔ 

مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت، مصنف،شاعر،شعلہ بیاں مقرر اور اسلام کے سچے شیدائی

مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت، مصنف،شاعر،شعلہ بیاں مقرر اور اسلام کے سچے شیدائی

''بابائے صحافت‘‘ کا لقب پانے والے مولانا ظفر علی خان کی آج برسی ہے۔27 نومبر 1956ء کو اردو زبان و ادب کی اس نامور شخصیت کی زندگی کا سفر تمام ہو گیا تھا۔مولانا ظفر علی خان نے عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد کبھی شاعری اور صحافت کے میدان میں قدم جمائے اور کبھی سیاست کے میدان کے شہسوار بنے۔ کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد کے طور پر بمبئی میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام کیا اور محکمہ داخلہ کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔مولانا ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین احمد 1903ء میں جب ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے اپنے آبائی گائوں کرم آباد سے اخبار ''زمیندار‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس کا مقصد زمینداروں اور کسانوں کی فلاح و بہبود تھا۔ والد کی وفات کے بعد جب ''زمیندار‘‘ مولانا کی زیر ادارت آیا تو اس نے انگریز کے خِرمَن اقتدار میں آگ لگا دی۔ مولانا نے 1908ء میں ''زمیندار‘‘ کی اشاعت لاہور سے شروع کی تو لاہور سے شائع ہونے والے بڑے بڑے اردو اخبارات کے چراغ ٹمٹمانے لگے اور ''زمیندار‘‘ کی شہرت کا ستارہ آسمانِ صحافت پر جگمگانے لگا۔مولانا کی صحافتی زندگی کافی دشوارگزار رہی، مالی وسائل کی کمی کے باعث اشاعت کا کام جاری رکھنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحافت کے انتہائی ناموافق حالات میں زمیندار نے مسلمانوں کی بیداری شعور میں اہم کردار کیا۔ مولانا ظفر علی خاں اپنے زمانے کے چوٹی کے مسلمان صحافیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انگریز دور میں سیاست کے میدان میں مختلف تحاریک، مزاحمتی سرگرمیوں کے علاوہ قلم کے ذریعے آزادی کی جنگ لڑنے کا سلسلہ جاری تھا۔ مولانا ظفر علی خان بھی اپنے اداریوں اور مضامین کی وجہ سے کئی مشکلات جھیلنا پڑیں اور ان کے اخبار زمیندار کو بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں تھا بلکہ مولانا نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔مولانا ظفر علی خان ایک بہترین خطیب، باکمال شاعر اور انشا پرداز بھی تھے۔ ان کے اداریوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ ان کی متعدد تصانیف منظر عام پر آئیں جن میں نثری اور شعری مجموعے شامل ہیں۔مولانا ظفر علی خان صحافت، خطابت اور شاعری کے علاوہ ترجمہ میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ حیدرآباد میں قیام کے دوران مولانا نے لارڈ کرزن کے انگریزی سفر نامہ ایران کا ترجمہ ''خیابان فارس‘‘ کے نام سے شائع کیا تو لارڈ کرزن نے سونے کے دستے والی چھڑی تحفہ میں پیش کی۔ اس کے علاوہ مولانا ظفر علی خان کے تراجم میں فسانہ لندن، سیر ظلمات اور معرکہ مذہب و سائنس بہت معروف ہوئے۔ انہوں نے ایک ڈرامہ ''جنگ روس و جاپان‘‘ بھی لکھا جبکہ شہرہ آفاق تخلیقات میں ''جسیات‘‘ اور ''بہارستان‘‘ نظموں کے مجموعے ہیں۔ ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان، نگارستان اور چمنستان کی شکل میں چھپ چکی ہیں۔مولانا ظفر علی خان کا اسلوب منفرد تھا، ان کی تحریریں نثری ہوں یا شعری دونوں ہی ملی امنگوں کی ترجمان ہیں۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں۔ مولانا کی شاعری کی مختلف جہات ہیں۔ وہ فی البدیہہ شعر کہنے میں بھی ملکہ رکھتے تھے۔اُن کی شاعری میں حمد، نعت گوئی، حالاتِ حاضرہ کے مطابق شعر کہنا، وطن کی محبت میں شعر، اور انقلابی اشعار شامل ہیں۔ اُن کی شاعری کے چند نمونے ملاحظہ کیجئے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نےدکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تو نےتری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکرِ ہستیسمویا اپنے ہاتھوں سے مزاحِ جسم و جاں تو نےایک اور مقام پر عرض گزار ہیں:اب ہم سمجھے کہ شاہنشاہ مُلکِ لامکاں ہے توبنایا اک بشر کو سرورِ کون و مکاں تو نےمحمد مصطفیٰؐ کی رحمۃ اللعالمینی سے!بڑھائی یا رب اپنے لطف اور احساں کی شاں تو نےوہ اپنی نعت گوئی کیلئے بھی مشہور ہیں۔ ان کی اس نعت سے کون واقف نہیں ہے۔وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میںاِک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں1956ء میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں کریم آباد(وزیر آباد )میں دفن کیا گیا،صحافت اورنعت گوئی میں ان کا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔فرض اور قرضجو مسلم ہے تو جاں ناموس ملت پر فدا کر دےخدا کا فرض اور اس کے نبی کا قرض ادا کر دےبھری محفل میں لا سکتا نہ ہو گر کفر تاب اس کیتو زنداں ہی میں جا کر روشن ایماں کا دیا کر دےشہادت کی تمنا ہو تو انگریزی حکومت پرکسی مجلس کے اندر نکتہ چینی برملا کر دےتمہارا قافلہ کچھ لٹ چکا اور کچھ ہے لٹنے کورسول اللہ کو اس کی خبر باد صبا کر دےضرورت ہے اب اس ایجاد کی دانائے مغرب کوجو اہل ہند کے دامن کو چولی سے جدا کر دےنکل آنے کو ہے سورج کہ مشرق میں اجالا ہوبرس جانے کو ہے بادل کہ گلشن کو ہرا کر دےقفس کی تیلیوں پر آشیاں کا کاٹ کر چکرفلک سے گر پڑے بجلی کہ بلبل کو رہا کر دےیہ ہے پہچان خاصان خدا کی ہر زمانے میںکہ خوش ہو کر خدا ان کو گرفتار بلا کر دےظفر کے قلم میں مصطفی کمال کی تلوار کا بانکپن ہے: اقبالؒان کی خدمات کے اعتراف کے لیے علامہ اقبال جیسی شخصیت کی یہ رائے ہی کافی ہے کہ''ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی خاں نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرہون منت نظر آئیں گی اور سیاسی و صحافتی شعر و ادب تو گویا انہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے‘‘ 

نظم و ضبط پیدا کریں!

نظم و ضبط پیدا کریں!

ہم سب جانتے ہیں کہ نظم و ضبط کا کیا مطلب ہے، آپ ایک شیڈول بناتے ہیں اور اس پر قائم رہتے ہیں۔ آپ اپنے مقاصد اور کاموں کا تعین کرتے ہیں اور انہیں اسی کے مطابق مکمل کرتے ہیں۔نظریہ کے لحاظ سے ہم جانتے ہیں کہ حقیقت بہت مختلف ہے۔ہم عموماً جوش و خروش کے عالم میں بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں، لیکن جب وقت آتا ہے کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر پورا کریں، تو کچھ وقت کے بعد ہم انہیں ترک کر دیتے ہیں۔نظم وضبط کیلئے جو چیز سب سے اہم ہے اسے فیصلہ سازی کہا جاتا ہے۔ ماہر نفسیات رائے ایف باؤمائسٹر کے مطابق جتنے زیادہ فیصلے آپ کرتے ہیں، ان کے معیار اتنا ہی کمزور ہوتا جاتا ہے۔اگر آپ ہر وقت کسی فیصلے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، ہر ایک انتخاب کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں، جیسے کہ ناشتہ میں کیا کھائیں، بس لیں یا ٹیکسی، سیڑھیاں چڑھیں یا لفٹ کا استعمال کریں تو دن کے اختتام تک آپ ذہنی طور پر تھک جائیں گے۔ آپ کا دماغ ایسی حالت اختیار کر لے گا ''مجھے پرواہ نہیں یار، بس کچھ بھی چن لو‘‘۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ اثر ہر کسی پر پڑتا ہے، آپ کا دماغ ''آرام‘‘ پر چلا جاتا ہے اور آپ بغیر سوچے سمجھے فیصلے لینا شروع کر دیتے ہیں۔صبح اور شام کے معمولات بنانامیں وہ شخص ہوں جو منصوبوں پر کام کرنا، نئی چیزیں سیکھنا، اور نتیجہ خیز رہنا پسند کرتا ہے۔لیکن چاہے جتنی بھی کوشش کر لوں، میں کبھی شیڈول پر قائم نہیں رہ سکا۔ میں اکثر جمود کا شکار ہو جاتا اور اپنے کام میں کسی بھی قسم کی استحکام قائم کرنے میں مشکل محسوس کرتا۔میں جِم جانا شروع کرتا، پھر چھوڑ دیتا اور بالآخر چند مہینوں بعد مکمل طور پر ترک کر دیتا۔ میں کسی منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے ایک شیڈول بناتا، لیکن چند ہفتوں بعد اس سے ہٹ جاتا اور اپنے مقرر کردہ تمام اہداف کو برباد کر دیتا۔وہ انقلابی خیال جس نے مجھے بالآخر درست راستے پر آنے میں مدد دی، یہ تھا کہ نظم و ضبط کا مطلب خود کو سخت محنت کرنے پر مجبور کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے ماحول کو اس طرح ترتیب دینا ہے کہ سخت محنت کرنا ''معمول‘‘ بن جائے۔جیسا کہ جیمز کلیر نے اپنی کتاب ''ایٹومک ہیبٹس‘‘ میں وضاحت کی: ''آپ اپنے اہداف کی سطح تک نہیں پہنچتے، بلکہ آپ اپنے نظام کی سطح تک گر جاتے ہیں‘‘۔جب تک میں نے سخت صبح اور شام کے معمولات مرتب نہیں کیے، میں اپنی زندگی کو منظم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ کچھ وقت کے بعد مجھے احساس ہوا کہ استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے، پہلے سے اپنی زندگی میں مستحکم عناصر رکھنا ضروری ہے۔میری صبح کی روٹین میں شامل تھا اخبار پڑھنا، مراقبہ کرنا، نئی زبان سیکھنا، سائنس کے بارے میں کچھ سیکھنا، کتاب پڑھنا اور کسی نہ کسی قسم کی جسمانی ورزش کرنا۔ یہ سب کچھ دن کے آغاز میں کرنا تھا، اور اس روٹین کو مکمل کرنے میں کم از کم 2 گھنٹے لگتے تھے۔یہ سب کرنے اور دن کے اصل کام مکمل کرنے کیلئے مجھے بہت جلدی اٹھنا، دیر سے سونا اور بہت کم یا بالکل بھی وقفہ نہ لینا پڑتا۔ یہ تھکا دینے والی روٹین تھی۔ چنانچہ ایک یا دو ہفتوں بعد میں ہار مان لیتا۔آخرکار، میں نے چیزوں کو آسان بنانے کا فیصلہ کیا۔آپ کی روٹین میں وہ کام شامل ہونے چاہئیں جو نہ صرف ''دلچسپ‘‘ لگیں بلکہ صبح اور شام کے لحاظ سے ایک مقصد بھی پورا کریں۔ صبح کے معمولات آپ کو جگانے اور دن کیلئے درست ذہنی حالت میں لانے کیلئے ہونے چاہئیں، جبکہ شام کے معمولات آپ کے شیڈول پر غور کرنے اور ذہن کو سکون دینے کیلئے ہوں۔ہر روٹین میں زیادہ سے زیادہ 5 کام ہونے چاہئیں۔ آپ کے اوپر ہے کہ آپ اپنی روٹین میں بڑے یا چھوٹے کون سے کام شامل کرنا چاہتے ہیں، لیکن جتنے کم عناصر ہوں گے، آپ اتنی ہی تیزی سے انہیں مکمل کر سکیں گے۔کاموں کا انتخابجیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، آپ کی روٹین میں شامل کام ذاتی نوعیت کے ہونے چاہئیں ۔میں دو چیزوں کو اجاگر کرنا چاہوں گا جو مجھے لگتا ہے کہ ہر کسی کو اپنی روٹین کا حصہ بنانے چاہئیں (دونوں کو آپ اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال سکتے ہیں)(1)ایک ہی وقت پر اٹھنا:چاہے آپ گھر سے کام کرتے ہوں یا دفتر جاتے ہوں، یہ امکان ہے کہ آپ ہر دن ایک ہی وقت پر نہیں اٹھتے۔ اس لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ آپ ہر روز ایک ہی وقت میں اٹھنے کی عادت اپنائیں۔(2) شیڈول بنانا اور اس پر قائم رہنا: وقت کا شیڈول ترتیب دینا اور اس پر ایک مدت تک قائم رہنا وہ سب سے مؤثر طریقہ ہے جو میں نے نظم و ضبط کیلئے دریافت کیا ہے۔ مکمل روٹین بنانامکمل روٹین بنانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ چیزوں کو جتنا ممکن ہو سکے سادہ رکھا جائے۔ایسی سرگرمیاں شامل کریں جو فائدہ مند ہوں، لیکن جنہیں مکمل کرنے میں زیادہ وقت نہ لگے۔ آپ کی روٹین 30 منٹ سے زیادہ کی نہیں ہونی چاہیے۔ جتنا زیادہ وقت لگے گا، اتنا ہی زیادہ آپ ان سرگرمیوں سے بچنے یا کچھ کام چھوڑنے کے بہانے تلاش کریں گے۔

آج کا دن

آج کا دن

دوسری جنگ عظیم: جرمنی کا تولون پر قبضہ27نومبر 1942ء کو دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن فوج نے فرانسیسی بیڑے کے حامل شہر تولون پر قبضہ کر لیا۔ تولون کی فوجی بندرگاہ فرانس کے بحیرہ روم کے ساحل پر ایک بڑا بحری مرکز تھاجو فرانسیسی طیارہ بردار بحری جہاز چارلس ڈی گال اور اس کے جنگی گروپ کا گھر سمجھا جاتا تھا۔فرانسیسی فوجیوں نے جرمن فوج کے ہاتھوں میں آنے سے قبل ہی اس بیڑے کو غرقاب کر دیا۔ نیوسکی ایکسپریس بم دھماکا27نومبر2009ء کوروسی شہر ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ کے درمیان سفر کرنے والی تیز رفتار ٹرین میں دھماکہ ہوا۔ اس واقعہ کو ''نیوسکی ایکسپریس بم دھماکا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بم کو ٹرین کے نیچے لگایا گیا تھا جس کی وجہ سے ٹرین لائن سے نیچے اتر گئی۔ اس حادثے میں 39افراد ہلاک اور95زخمی ہوئے۔ اگلے ہی دن تفتیش کی جگہ پر ایک اور دھماکا ہوا جس سے ایک شخص زخمی ہوا۔لکسمبرگ کی بغاوتلکسمبر گ کی بغاوت کا آغاز 27 نومبر 1856ء کو لکسمبر گ کے آئین پر نظر ثانی سے شروع ہوا۔ اگرچہ حقیقی بغاوت یا انقلاب نہیں تھا لیکن لوگوں نے اسے ''شاہی بغاوت‘‘کا نام دیا کیونکہ لکسمبرگ کے حکمران نے اپنے اختیارات کو ضرورت سے زیادہ بڑھا لیا تھا۔ 1848ء کے آئین میں تبدیلیوں کا مقصد ولیم کی طرف سے نافذ کی گئی بڑی تبدیلیوں کو ختم کرنا تھا جس کی وجہ سے لکسمبرگ میں بحران پیدا ہوا۔جیلاوا قتل عامجیلاوا قتل عام26نومبر1940ء کی رات بخارسٹ رومانیہ کے قریب جیلاوا قید خانے میں کیا گیا۔آئرن گارڈز نے 64 سیاسی قیدیوں کو ہلاک کر دیاجس کے فوراً بعد مزید ہائی پروفائل قتل کئے گئے۔ یہ واقعہ فاشسٹ نیشنل لیجنری اسٹیٹ اورکنڈکٹر آئن انتونیسکو کے درمیان جھڑپ کی وجہ بنا۔ اس جھڑپ کے بعد آئن کی جانب سے لیجن کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔جارج ماسکون پر قاتلانہ حملہ27نومبر1978ء کو سان فرانسسکو کے میئر جارج ماسکون اور سپر وائزر ہاروی کو سان فرانسسکو سٹی ہال میں سابق سپروائزر ڈین وائٹ نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا جب انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وائٹ نے جس نگران عہدے سے استعفیٰ دیا ہے وہ کسی اورکو دے دیا جائے گا۔ڈین وائٹ اعلان سے قبل غصے کی حالت میں سٹی ہال میں داخل ہوااور میئر کے دفتر میں موجود ماسکون کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔