بشیر نیاز : ایک شاندار مکالمہ نگار

بشیر نیاز :  ایک شاندار  مکالمہ نگار

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

کسی بھی فلم میں مکالمہ نگاری کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ہندوستان اور پاکستانی فلمی صنعت میں بڑے شاندار مکالمہ نگار پیدا ہوئے جن کی فنی عظمت کا اعتراف آج بھی کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں سلیم جاوید، کمال امروہی، وجاہت مرزا اور قادر خان نے مکالمہ نگاری کو نئی جہتوں سے آشنا کیا۔ پاکستان میں ریاض شاہد کو اس حوالے سے اہم مقام حاصل ہے۔ ان کے مکالموں نے بڑی شہرت حاصل کی۔خاص طور پر ’’خاموش رہو، آگ کا دریا، زرقا اور یہ امن کے مکالمے آج بھی شائقین فلم کو یاد ہیں۔ ریاض شاہد کے بعد جس مکالمہ نگار نے اپنے کمال فن سے اس میدان میں جھنڈے گاڑے ان میں بلاشبہ بشیر نیاز کا نام لیا جاسکتا ہے۔9 جولائی1936ء کو جامکے چٹھہ (وزیرآباد) میں پیدا ہونے والے بشیر نیاز کا اصل نام بشیر احمد تھا۔ جبکہ ان کا فلمی نام نیاز احمد تھا۔ انہوں نے اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے بی اے کیا۔ پہلے وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوئے اور کئی جرائد میںکام کیا۔ فلمی صنعت سے وابستہ ہوئے تو انہوں نے اپنے فن کے ایسے چراغ جلائے جن سے ان کے بعد میں آنے والے لوگوں نے بھی فائدہ اٹھایا۔ بشیر نیاز نے تعلیم کے حصول کیلئے بڑی مشکلات کا سامنا کیا۔ لیکن وہ بڑے مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ انہوں نے کئی چھوٹے موٹے کام کیے اور حالات کے سامنے ڈٹ گئے۔ بشیر نیاز نے کئی کامیاب فلموں کے سکرپٹس بھی لکھے۔ ان میں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی فلمیں بہت پسند کی جاتی تھیں۔ انہوں نے ابتدا میں شباب کیرانوی ، کے خورشید، درپن، رنگیلا اور حیدرچودھری کے ساتھ کام کیا۔ وہ ڈبلیو زیڈ احمد، انور کمال پاشا، سیف الدین سیف، احمد راہی، ریاض شاہد اور نذرالاسلام سے بہت متاثر تھے۔ مکالمہ نگاری میں وہ رشید ساجد سے بھی بڑے متاثر تھے۔ بشیرنیاز کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ فقروں کا جادوگر اور محبت کا سوداگر ہے۔ وہ مکالمے بیچتااور محبتیں مفت تقسیم کرتا ہے۔ 1963ء میں سب سے پہلے انہوں نے فلم ’’چھوٹی بہن‘‘ کی کہانی لکھی۔ اس وقت وہ کراچی میں تھے۔ پھر انہوں نے شباب کیرانوی کی فلموں کے مکالمے لکھنے شروع کر دیئے۔ شباب کیرانوی کی فلم ’’پردے میں رہنے دو‘‘ نذرالاسلام کی ’’احساس‘‘ اور کے خورشید کی ’’گھرانہ‘‘ جب باکس آفس پر کامیاب ہوئیں تو پھربشیر نیاز پر فلمی صنعت کا اعتماد بحال ہوگیا۔ اگرچہ ان میں سے ایک فلم ’’گھرانہ‘‘ بھارتی فلم ’’دوراستے‘‘ کا چربہ تھی لیکن بشیر نیاز کے مکالمے خالصتاً ان کے اپنے تھے۔ جب حیدر چودھری کی فلم ’’نوکر ووہٹی دا‘‘ سپرہٹ ہوئی تو بشیر نیاز کو اردو اور پنجابی دونوں زبان کی فلموں کے مکالمے لکھنے کی پیشکش ہوئی۔ انہوں نے ہدایتکار نذرالاسلام کی 16فلموں، الطاف حسین کی 35 فلموں اور حسنین کی 25 فلموں کے مکالمے لکھے۔ الطاف حسین کی ایک فلم’’سالا صاحب‘‘ نے ریکارڈبزنس کیا جبکہ ’’دھی رانی‘‘ اور ’’مہندی‘‘ کا چربہ ہندوستان میں بنایا گیا۔ ہدایتکار نذرالاسلام کے ساتھ ان کی خاصی ذہنی ہم آہنگی تھی۔ ان کی جن فلموں کیلئے انہوں نے مکالمے لکھے ان میں ’’شرافت، آئینہ، زندگی، آنگن، نہیں ابھی نہیں، لو سٹوری اور بندش‘‘ شامل ہیں۔ ان سب فلموں نے بڑا اچھا بزنس کیا۔ ان سب فلموں کے مکالموں کو آج بھی پسند کیا جاتا ہے۔ ’’نوکر ووہٹی دا‘‘ کے بارے میں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس فلم کا چربہ ہندوستان میں تیار کیا گیا اور اس چربہ فلم کا نام ’’نوکر بیوی کا‘‘تھا ۔ اس فلم کے مکالمے بھی پنجابی سے ہندی میں ترجمہ کیے گئے تھے۔ اس کی کہانی شیخ اقبال نے تحریر کی تھی۔ جبکہ مکالمے بشیر نیاز کے تھے۔ ’’رنگیلا‘‘ کی کئی فلموں کے مکالمے بھی بشیر نیاز نے تحریر کیے تھے جن میں ’’دیا اور طوفان، رنگیلااور دو رنگیلے‘‘ شامل ہیں۔ بشیر نیاز کی دیگر فلموں میں ’’مکھڑا، نوری، صاحب جی، عادل، دنیا، تیس مار خان اور دلاری‘‘ شامل ہیں۔بشیر نیاز کے بارے میں شاید بہت کم لوگوں کو یہ علم ہوگا کہ انہوں نے کچھ بڑے شاندار انٹرویو بھی کیے جن میں ایک انٹرویو جاسوسی ادب کی معروف ترین شخصیت ابن صفی کا بھی تھا۔ بشیر نیاز کے بارے میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی سوشل فلموں سے معاشرے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ عریانی اور فحاشی کی آمیزش کے قائل نہیں تھے۔ انہیں انسانی رشتوں کے باہمی درد اور معاشرتی اتار چڑھائو کو انتہائی موثر طریقے سے فلمی سکرین پر پیش کرنے میںملکہ حاصل تھا۔ ذرا ’’آئینہ‘‘ کے مکالموں کو دیکھیں۔ انہوں نے اس فلم میں اپنے مکالموں کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ بڑھتی ہوئی خواہشات انسانی ذہن میں انتشار پیدا کرتی ہیں۔ اس فلم کا ایک مکالمہ ملاحظہ کریں جو اداکار ریحان نے ادا کیا۔ ریحان ایک دولت مند شخص ہے جس کی بیٹی شبنم ایک غریب آدمی ندیم کی محبت میں گرفتار ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ دولت کے نشے میں مست ریحان ندیم سے کہتے ہیں ’’جانتے ہو میری بیٹی کی ایک ساڑھی کی قیمت ساڑھے سات ہزار ہے جبکہ تمہاری تنخواہ صرف ساڑھے سات سو روپے ہے‘‘۔ ’’بندش‘‘ کی شوٹنگ انڈونیشیا میں ہوئی تھی۔ یہاں ساحل سمندر پر ٹہلتے ہوئے بشیرنیاز نے یہ مکالمہ تخلیق کیا ’’ہم سمندر میں پلا بڑھا ہے، بہت پانی دیکھا ہے، لیکن بیٹی کی آنکھوں میں دو بوند پانی نہیں دیکھ سکتا‘‘۔ بشیر نیاز بڑے حساس آدمی تھے اور رشتوں کے تقدس کا بڑا خیال رکھتے تھے۔بشیر نیاز کو سب سے پہلے 1972ء میں نذرالاسلام کی فلم ’’احساس‘‘ کے باکمال مکالمے لکھنے پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ایک بار نگار ایوارڈ ملا تو پھر یہ ایوارڈ ملتے ہی چلے گئے۔ ان کی کل تعداد پندرہ کے قریب بنتی ہے اور یہ ایک ریکارڈ ہے۔ 2001ء میں انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔بشیر نیاز کو 1998ء میں دل کا دورہ پڑا اور وہ بستر سے لگ گئے۔ پھروہ دوبارہ فلمی صنعت میں آئے اور کام شروع کر دیا۔ اس دوران وہ اکثر یہ کہا کرتے کہ رائٹرز سے حکومت ناجائز طور پر ٹیکس وصول کرتی ہے ، کیونکہ یہی رائٹرز جب بیمار ہوتے ہیں تو حکومت کی طرف سے ان کی کوئی مدد نہیں کی جاتی۔ ایک زمانے میں بشیر نیاز فلمی صنعت سے خاصے مایوس ہوگئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اب فلمی صنعت پر بدمعاشوں کا غلبہ ہوگیا ہے۔ ایک نمبر بندوں کی ضرورت شاید اب ختم ہو گئی ہے۔5 اگست 2002ء کو بشیرنیاز کا لندن میں انتقال ہوگیا۔ 11 اگست 2002ء کو سمن آبادکے قبرستان میں ان کی تدفین کر دی گئی۔بشیر نیاز نے پاکستانی فلمی صنعت کیلئے جو گرانقدر خدمات سرانجام دیں انہیں کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں:’’ٹو کل اے موکنگ برڈ‘‘ہارپرلی بیسویں صدی کی ممتاز امریکی مصنفہ

یادرفتگاں:’’ٹو کل اے موکنگ برڈ‘‘ہارپرلی بیسویں صدی کی ممتاز امریکی مصنفہ

ہارپر لی بیسویں صدی کی ایک ممتاز امریکی مصنفہ تھیں، جنہوں نے اپنے ناول ''ٹو کل اے موکنگ برڈ ‘‘کے ذریعے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ ان کا یہ ناول انسانی اخلاقیات، انصاف اور نسلی تعصب جیسے موضوعات پر مبنی ہے اور آج بھی امریکی ادب میں ایک کلاسک کی حیثیت رکھتا ہے۔ابتدائی زندگی اور تعلیممصنفہ کا پیدائشی نام نیل ہارپر تھا اور وہ 28 اپریل 1926ء کو امریکی ریاست الاباما کے شہر مونروویل میں پیدا ہوئیں۔ وہ فرانسس فنچ لی اور آماسا کولمین لی کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ ان کے والد ایک وکیل، ایک اخبار کے سابق مدیر اور پروپرائیٹر تھے۔جنہوں نے ایک مختصر مدت کیلئے ریاستی اسمبلی میں بھی خدمات انجام دیں، جبکہ ان کی والدہ فرانسس کننگھم فِنچ گھریلو خاتون تھیں۔ہارپر لی نے 1945ء اور 1949ء کے درمیان یونیورسٹی آف الاباما میں لاء کی تعلیم حاصل کی اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی بطور ایکسچینج سٹوڈنٹ کے ایک سال گزارا۔وہ ابتدائی طور پر اپنے والد کی فرم میں وکیل کی حیثیت سے کام کرنا چاہتی تھیں۔ تاہم اپنی تعلیم مکمل کرنے سے چھ ماہ قبل ہارپر لی ادبی کریئر کے حصول کیلئے نیو یارک چلی گئیںتاکہ اپنی تحریری صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔ لی بچپن سے ہی کتابوں کی دلدادہ تھیں اور ان کے بچپن کے تجربات بعد میں ان کے مشہور ناول کی بنیاد بنے۔1957ء میں انھوں نے اپنے پہلے ناول کی تحریر جے بی لیپین کاٹ کمپنی کے پاس جمع کروائی۔ جواب میں ان سے کہا گیا کہ یہ ایک ''سلسلہ وار مختصر کہانیاں ہیں‘‘ اور ان کی اسے دوبارہ لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی۔ادبی کریئر1950ء کی دہائی میں نیویارک میں ہارپر لی نے مختلف اداروں میں کام کیا، مگر ان کا اصل مقصد لکھنا تھا۔ انہوں نے کئی سالوں کی محنت کے بعد اپنا پہلا اور سب سے مشہور ناول ''ٹو کل اے موکنگ برڈ ‘‘مکمل کیا، جو 1960ء میں شائع ہوا۔یہ ناول ایک چھوٹے جنوبی امریکی قصبے میں نسل پرستی اور عدالتی انصاف کے موضوع پر مبنی ہے۔ کہانی کی راوی ایک بچی اسکاوٹ فِنچ ہے، جس کا والد ایٹیکس فِنچ ایک ایماندار اور اصول پسند وکیل ہے۔ ایٹیکس ایک سیاہ فام شخص ٹام رابنسن کا دفاع کرتا ہے، جس پر ایک سفید فام عورت کے ساتھ زیادتی کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔ ناول امریکی جنوبی معاشرے میں نسل پرستی، انصاف اور اخلاقی جرات کی عکاسی کرتا ہے۔ 'ٹو کل اے موکنگ برڈ‘ جدید ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔مصنفہ ہارپر لی 55 سال تک دنیائے ادب میں اپنے اسی ناول کے سبب پہچانی جاتی رہیں اور خوب پذیرائی حاصل کی۔ اسے 1961ء میں ادب کا ''پلٹزر پرائز‘‘ بھی ملا اور اس کے اب تک چار کروڑ سے زیادہ نسخے فروخت ہو چکے ہیں۔ 1962ء میں اس ناول سے متاثر ہو کے ایک فلم بنائی گئی جسے چار آسکر ایوارڈز بھی ملے جن میں گریگوری پیک کو بہترین اداکار کا ایوراڈ بھی شامل تھا جنھوں نے ایٹیکس فنچ کا کردار ادا کیا تھا۔ہارپر لی کا یہ ناول وہ تصنیف ہے جو امریکا کے اسکولوں میں، ادب کے شعبے میں ان کتابوں کی فہرست میں شامل رہی ہے جو مطالعے کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہیں۔ادبی دنیا میں واپسی''ٹو کل اے موکنگ برڈ‘‘ کے علاوہ ہارپر لی کے صرف چار آرٹیکل ہی شائع ہوئے تھے۔ہارپر لی کی ادبی دنیا میں دوبارہ واپسی 2015ء میں ہوئی، جب ان کا دوسرا ناول ''گو سیٹ اے واچ مین‘‘ شائع ہوا۔ یہ دراصل ''ٹو کل اے موکنگ برڈ‘‘کا ابتدائی مسودہ تھا، جسے بعد میں ایک علیحدہ ناول کے طور پر شائع کیا گیا۔ہارپر لی نے یہ ناول 1950ء کی دہائی کے وسط میں لکھا تھا لیکن اپنے مدیر کے کہنے پر انھوں نے اسے ایک طرف رکھ دیا تھا۔''گو سیٹ اے واچ مین‘‘ نامی یہ ناول ایک سکاؤٹ فنچ نامی کردار کے بارے میں ہے جو کہ ایک نوجوان ہے جس کی اپنے والد سے ملاقات کے لیے آبائی قصبے میں واپسی ہوئی ہے۔ تاہم، اس ناول کو ملا جلا ردعمل ملا۔معاشرے پر اثراتہارپر لی کی تحریر نے امریکی ادب اور سماجی شعور پر گہرا اثر ڈالا۔ ''ٹو کل اے موکنگ برڈ‘‘ آج بھی امریکی اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور انصاف، اخلاقیات اور انسانی ہمدردی کے پیغام کے طور پر جانا جاتا ہے۔اعزازتانہوں نے اپنی زندگی میں زیادہ ناول نہیں لکھے، لیکن صرف ایک ناول نے انہیں ہمیشہ کیلئے ادب کی دنیا میں امر کردیا۔ 2006ء میں انھیں ناٹرڈیم یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی جب کہ اس کے ایک سال بعد امریکا میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ''صدراتی ایوراڈ آف فریڈم‘‘ سے نوازا گیا، جو امریکہ کا سب سے بڑا سویلین اعزاز ہے۔وفات19 فروری 2016 کو ہارپر لی 89 برس کی عمر میں اپنے آبائی قصبے مونروویل، الاباما میں انتقال کر گئیں۔ہارپر لی کی ادبی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ ان کا کام آج بھی دنیا بھر میں قارئین کیلئے ایک مشعلِ راہ ہے۔   

ویٹی کن جہاں بچوں کی پیدائش پر پابندی ہے

ویٹی کن جہاں بچوں کی پیدائش پر پابندی ہے

جس طرح چین آبادی کے لحاظ سے دنیاکا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی ایک سو چالیس کروڑ ہے، اسی طرح رقبے کے لحاظ سے روس دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے،جس کا کل رقبہ ایک کروڑ ستر لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔اسی طرح ایک ملک جو آبادی اور رقبے دونوں لحاظ سے دنیا کے سب سے چھوٹے ملک کا اعزاز سنبھالے ہوئے ہے۔ اس ملک کا نام ''ویٹی کن سٹی ‘‘ ہے۔ویٹی کن سٹی اٹلی کے شہر روم کے اندر واقع ایک آزاد ریاست ہے۔ یہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے چھوٹاآزاد ملک ہے۔ کل آبادی صرف 799 نفوس پر مشتمل ہے جن میں 450 یہاں کے شہری ہیں جبکہ 349 سفارتی عملہ یا کام کرنے والے غیر ملکی ہیں۔ کل رقبہ آدھے کلو میٹر سے بھی کم یعنی 0.44 کلو میٹر ہے۔اگرچہ باضابطہ طور پر خود مختار تو نہیں لیکن '' ہولی سی‘‘ کو خود مختاری حاصل ہے۔ دراصل یہ مذہبی طور پر روم کا بشپ اور روم کیتھولک چرچ کے سربراہ یعنی پوپ کے ذریعے حکمرانی کی جانے والی ایک عیسائی یا مذہبی بادشاہت کی ریاست ہے۔دنیا کی سب سے چھوٹی یہ ریاست تقریباً چاروں طرف سے دیواروں سے گھری ہوئی ہے۔ ریاست کا سربراہ پاپائے روم ہوتا ہے اور یہیں پر پاپائے روم کی رہائش گاہ ''اپو سٹالک محل‘‘ اور رومی کریا (پاپائیت) واقع ہیں۔اس کی سرکاری زبان اطالوی، فرانسیسی اور لاطینی ہے جبکہ یہاں کی کرنسی یورو ہے۔ویٹی کن سٹی کے 174 ممالک کے ساتھ باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات ہیں۔ جن میں اکثر ویٹی کن سٹی سے باہر روم میں قیام پذیر ہیں۔ پاکستان کے بھی ویٹی کن سٹی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں وہاں پاکستانی سفارت کار موجود ہیں۔ویٹی کن سٹی اقوام متحدہ کا ممبر نہیں بلکہ ایک مبصر ہے۔بنیادی سہولیات : ویٹی کن سٹی کو بجلی، ٹیلی فون اور دیگر سہولیات اٹلی فراہم کرتا ہے۔ ریاست کی داخلی سکیورٹی سوئس گارڈز کور کے ذمے ہے جن کیلئے وہی معیار رکھا گیا ہے جو سوئس آرمی سروس کیلئے طے ہے جبکہ غیر ملکی دشمنوں کے خلاف بیرونی دفاع اٹلی حکومت کی ذمہ داری ہے۔یہ اتنا مختصر ملک ہے کہ یہاں نہ تو پبلک ٹرانسپورٹ چلتی ہے اور نہ ہی یہاں ریلوے سٹیشن اور ہوائی اڈہ ہے۔ ملک کے اندر آنے جانے کیلئے چند ایک مختصر شاہراہیں ہیں۔اسی طرح اس ملک کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک پندرہ سے بیس منٹ میں پیدل عبور کیا جا سکتا ہے۔معاشی صورت حال:اگرچہ یہ ایک بہت ہی چھوٹا سا ملک ہے لیکن اس کی فی کس آمدنی حیران کن حد تک 21198 امریکی ڈالر ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی 18 ویں امیر ترین معاشی ریاست ہے۔ اس کا اپنا پوسٹل سروس، بنک ، ریڈیو سٹیشن، فارمیسی اور اٹلی کے تعاون سے ٹیلی فون سسٹم اوربجلی کا نظام ہے۔ سیاحت کی آمدن کے ساتھ ساتھ عجائب گھروں میں داخلہ فیس اور سرکاری سطح پر اشاعتوں کی آمدن پر منحصر ہے۔بچوں کی پیدائش پر پابندی: ویٹی کن سٹی دنیا کاوہ واحد ملک ہے جسے کوئی شخص اپنا پیدائشی ملک نہیں کہہ سکتا۔ اس ملک میں تمام شہری غیر ملکی ہوتے ہیں۔ یہاں نہ کوئی شادی کر سکتا ہے اور نہ ہی قانونی اور مذہبی طور پر اولاد پیدا کرنے کی اجازت ہے۔ یہی وہ وجہ ہے یہاں گائناکالوجی سے متعلق کوئی بھی ہسپتال موجود نہیں۔ ایک اندازکے مطابق 40 خواتین مستقل رہائش پذیر ہیں جبکہ ہر سال لگ بھگ 50 لاکھ سیاح ، سفارتی وفد اور دیگر شعبوں سے متعلق لوگ اس ملک میں آتے جاتے رہتے ہیں ان کیلئے یہاں کی حکومت نے روم میں ایک ہسپتال قائم کیا ہوا ہے۔ کسی بچے کے پیدا ہونے کی صورت میں اسے ابتدائی طبی امداد دے کر روم میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں ایک سال تک سرکاری طور پر اسے رہائش کے ساتھ ساتھ دیگر سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔اس سلسلے میں ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ 90 سال کے دوران دو کیس اس ملک میں بچہ پیدا ہونے کے ہوئے تھے ایک اس وقت جب 19 جون 1929 ء کو ویٹی کن سٹی نئی ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا تو چند دن بعد اس ریاست کے ایک ملازم کے ہاں ایک بچہ کا جنم ہوا جس کا نام اس وقت کے پوپ نے Pio رکھا۔جبکہ دوسرا کیس جنوری 2016ء میں اس وقت سامنے آیا جب ایک عورت نے یہ دعویٰ کر ڈالا کہ اس کے ہاں ویٹی کن میں ایک بچے کا جنم ہوا ہے ۔ چنانچہ تحقیق پر پتہ چلا کہ اس بچے کا جنم ویٹی کن نہیں بلکہ ملحقہ ملک اٹلی میں ہوا ہے چنانچہ اسے رہائشی سہولیات دے کر ایک سال کیلئے روم بھجوا دیا گیا تھا اور بعد میں اس بچے کو اٹلی کی شہریت دی گئی تھی۔دلچسپ اور منفرد ریاستی قوانین :یہاں بغیر بازو شرٹ یا ٹی شرٹ پہننا منع ہے جبکہ ٹرائوزر، سکرٹس اور دیگر لباس گھٹنوں تک لمبے ہونے چاہئیں۔ باریک کپڑے بھی ممنوع ہیں۔ اگر آپ نے ٹوپی پہن رکھی ہے تواسے اتار کرمقدس عمارت میں داخل ہونا ہو گا۔ کندھے اور کہنیاں ڈھانپے ہوئے ہونے چاہیئں۔ لباس ہر قسم کی تحریروں، تصویروں یا نقش و نگار سے پاک ہونا چاہئے۔سینڈل یا کھلا جوتا (جس میں پائوں نظر آئیں )بھی ممنوع ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

جاپان کی ڈارون پر بمباریڈارون پر بمباری، جسے ڈارون کی جنگ بھی کہا جاتا ہے، 19 فروری 1942 کو آسٹریلیا پر کسی غیر ملکی طاقت کی طرف سے کیا جانے والا اب تک کا سب سے بڑا حملہ تھا۔ 242 جاپانی طیاروں نے دو الگ الگ چھاپوں میں ڈارون کی بندرگاہ اور قصبے کے دو ہوائی اڈوں پر حملہ کیا تاکہ اتحادیوں کو دوسری جنگ عظیم کے دوران ان علاقوں کو تیمور اور جاوا پر حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے اڈوں کے طور پر استعمال کرنے سے روکا جا سکے۔ ڈارون کے دفاع کی کوشش کی گئی لیکن جاپانی حملہ اس قدر شدید تھا کہ وفاع زیادہ سودمند ثابت نہ ہوا اور اتحادی افواج کو بہت بڑا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ڈارون کے شہری علاقوں کو بھی چھاپوں سے کچھ نقصان پہنچا اور بہت سے شہری ہلاک ہوئے۔ ڈارون کی آدھی سے زیادہ شہری آبادی نے حملے سے پہلے یا فوراً بعد مستقل طور پر علاقہ چھوڑ دیا۔ چین نے T-7راکٹ لانچ کیاT-7چین کا پہلا ''ساؤنڈنگ راکٹ تھا‘‘۔ یہ ایک آزمائشی راکٹ تھا جسےT-7Mکا نام دیا گیا تھا۔اسے پہلی مرتبہ 19فروری 1960ء کو نانہوئی،شنگھائی میں کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا جبکہ 13ستمبر1960ء کو اسے ایک مکمل تیار راکٹ کے طور پر لانچ کیا گیا۔اس بروگرام کی سربراہی شنگھائی انسٹیٹیوٹ آف مکینیکل اینڈ الیکٹریکل انجینئرنگ کے وانگ شیجی کر رہے تھے۔1960ء سے1965ء کے درمیان جوبیسT-7راکٹ لانچ کئے گئے اور1969ء میں حمتی لانچ کے بعد اس راکٹ کو ریٹائر کر دیا گیا۔ T-7کو58کلومیٹر کی اونچائی پر25کلوگرام کا پے لوڈ لے جانے کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔روس میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ1861ء میں 19فروری کو روس میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہوا۔ یہ نظام روس میں کئی صدیوں سے جاری تھا، جس میں کسان صرف اپنے مالک کی زمین پر کام کیا کرتے تھے اور ساری زمین اور جائیداد امیروں کے قبضے میں ہوا کرتی تھی۔ دن رات محنت کرنے کے باوجود انہیں کسی قسم کی اجرت نہیں دی جاتی تھی۔1861ء میں الیگزینڈر دوئم نے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کیا اور تقریباً 2 کروڑ 30لاکھ لوگوں کو آزاد کرنے کا حکم جاری کیا۔ معرکہ چناق قلعہ 1915ء میں آج کے روز مغربی اتحادی قوتوں نے ''معرکہ چناق قلعہ‘‘ کا آغاز کیا۔ ''معرکہ چناق قلعہ ‘‘ پہلی جنگ عظیم کے دوران جزیرہ نما گیلی بولو میں دولت عثمانیہ اور مغربی اتحادی قوتوں کے درمیان بحری و بری جنگ کا نام ہے جس میں مغربی قوتوں کو سبق آموز شکست کا سامنا کرناپڑا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب مغربی اتحادی سلطنت عثمانیہ کے خلاف اکٹھے ہو رہے تھے اور اسی کے نتیجے میںسلطنت عثمانیہ ٹوٹ کر بکھر گئی۔ 

خلائی سیاحت سائنسی تحقیق کی راہ میں  ایک بری رکاوٹ ہے

خلائی سیاحت سائنسی تحقیق کی راہ میں ایک بری رکاوٹ ہے

''خلائی سیاحت‘‘ (Space Tourism) ایک نئی اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صنعت ہے، جس میں ارب پتی افراد اور تجارتی کمپنیاں خلا میں سفر کرنے کے مواقع تلاش کر رہی ہیں۔ تاہم ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ سرگرمیاں سائنسی تحقیق کیلئے چیلنجز پیدا کر سکتی ہیں، خاص طور پر چاند اور دیگر خلائی اجسام پر ہونے والے تجربات کیلئے۔ماہرین فلکیات کے مطابق چاند اور دیگر خلائی اجسام پر سائنسی تحقیق کیلئے مخصوص مقامات پر بے قابو انسانی سرگرمیاں مستقبل میں فلکیاتی دریافتوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ارب پتی خلائی سیاحوں اور لالچی نجی کمپنیوں کی سرگرمیاں کائنات کی تاریخ دریافت کرنے کی امیدوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔سائنسی تحقیق کو لاحق خطراتچاند کا دور دراز حصہ نظام شمسی میں سب سے زیادہ خاموش مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ایک ریڈیو ٹیلی سکوپ کی تنصیب سے ہم کائناتی تاریک دور (Cosmic Dark Ages)کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، خلائی سیاحوں اور تجارتی کمپنیوں کی بے ترتیب سرگرمیاں ان تجربات میں خلل کا سبب بن سکتی ہیں۔ابدی تاریکی کے گڑھوں کی تباہیچاند کے وہ علاقے جو ہمیشہ سائے میں رہتے ہیں، دور انفرا ریڈ فلکیات (Far Infrared Astronomy) کیلئے انتہائی قیمتی ہیں۔ یہ مشاہدات کائنات کے پوشیدہ رازوں کو آشکار کر سکتے ہیں، مگر خلائی سیاحت اور معدنی وسائل کے حصول کیلئے ہونے والی کھدائی ان مقامات کی سائنسی اہمیت کو ختم کر سکتی ہے۔غیر منظم خلائی دوڑاس وقت کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں جو چاند کے سائنسی مقامات کے تحفظ کو یقینی بنا سکے۔ یہ ایک ''پہلے آئیے، پہلے پائیے‘‘ والی صورتحال بن چکی ہے، جس کے باعث ممالک اور کمپنیاں بغیر کسی ضابطے کے اپنے مفادات کے تحت چاند پر سرگرمیاں شروع کر رہی ہیں۔ماہرین کی تشویش اور ممکنہ حلڈاکٹر مارٹن ایلوس، جو بین الاقوامی فلکیاتی تنظیم کے رکن ہیں کا کہنا ہے کہ خلائی سیاحت اور تجارتی سرگرمیوں کے سبب سائنسی مواقع ضائع ہو سکتے ہیں۔ وہ ایک بین الاقوامی معاہدے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو تحقیقی مقامات کے تحفظ کو یقینی بنائے اور چاند کو ایک سائنسی تجربہ گاہ کے طور پر برقرار رکھے۔اگر اگلی دہائی میں کوئی مناسب حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو کائنات کی تاریخ جاننے کے سنہری مواقع ہمیشہ کیلئے ضائع ہو سکتے ہیں۔ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر فلکیات ڈاکٹر مارٹن ایلوس کا کہنا ہے کہ چاند کے دور دراز حصے میں کچھ مخصوص مقامات فلکیاتی تحقیق کیلئے بے مثال مواقع فراہم کرتے ہیں۔یہ سائنسی مطالعے ہمارے نظامِ شمسی، زمین سے باہر زندگی کے امکانات اور کائنات کی ارتقائی تاریخ کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔تاہم، ان خصوصی مقامات کے تحفظ کیلئے کوئی بین الاقوامی قوانین موجود نہیں ہیں اور موجودہ ''آزادانہ رسائی‘‘ کا رجحان مستقبل کی تحقیقی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔بوسٹن میں ''امریکی ایسوسی ایشن برائے سائنسی ترقی‘‘ (AAAS) کی کانفرنس سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں ڈاکٹر ایلوس نے کہا: چاند پر انسانوں کی موجودگی ہمیں حیرت انگیز نئی چیزیں کرنے کے قابل بنائے گی، جو آج کی جدید دوربینوں کو کھلونوں کی طرح بنا دے گی، لیکن انسانی سرگرمیاں اس ماحول کو متاثر کر سکتی ہیں جس کے مطالعے کیلئے ہم وہاں جا رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چاند کی سطح کا رقبہ تو وسیع ہے، لیکن وہ مخصوص علاقے جہاں انسان جانا چاہتے ہیں، زیادہ بڑے نہیں ہیں۔چاند پر ایک ریڈیو ٹیلی سکوپ کی تنصیب کائناتی ''تاریک دور‘‘کا مطالعہ ممکن بنا سکتی ہے۔یہ وہ دور تھا جب کائنات کے ابتدائی مراحل میں روشنی کے ذرائع ایک گھنے کہر میں لپٹے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ، یہ تحقیق زمین جیسے دیگر سیاروں کی رہائش کے امکانات کو بھی واضح کر سکتی ہے۔اسی طرح، چاند پر موجود ''ابدی تاریکی کے گڑھے‘‘(Pits of Eternal Darkness)ایسے علاقے جو مسلسل سائے میں رہتے ہیں،دور انفرا ریڈ فلکیات کیلئے بے حد فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ تحقیق ہمیں کائنات کے وہ راز دکھا سکتی ہے جو عام طور پر پوشیدہ رہتے ہیں۔ڈاکٹر مارٹن ایلوس نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے سائنسی اور غیر سائنسی مشنز ان اہم مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں، جس کے باعث ان کی سائنسی قدر کم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کون سی تجارتی سرگرمیاں سائنسی تحقیق کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں تو انہوں نے کہا''میرا اندازہ ہمیشہ خلائی سیاحت پر ہوگا۔ ارب پتی طبقے کی یہ خواہش ہے کہ میں چاند پر ایک ہفتہ گزارنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ تجارتی کمپنیاں چاند پر پانی کی کان کنی (Water Mining)میں دلچسپی رکھتی ہیں، جبکہ بعض کمپنیاں ہیلیم3 (Helium-3) نکالنے کیلئے بھی منصوبے بنا رہی ہیں، جو کوانٹم کمپیوٹنگ کی کچھ شکلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ڈاکٹر ایلوس نے ایک بنیادی سوال اٹھایا ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کوئی مخصوص مقام فلکیاتی تحقیق کیلئے مختص ہوگا یا پانی کی کان کنی کیلئے؟۔ انہوں نے خبردار کیا کہکسی ملک یا کمپنی کو اس سے کیا روک سکتا ہے کہ وہ آ کر کہے مجھے پرواہ نہیں، یہ میرا پسندیدہ مقام ہے، اور میں یہاں کھدائی اور پانی کی کان کنی کروں گا‘‘۔فی الحال، اس سوال کا کوئی واضح اور حتمی جواب موجود نہیں ہے۔ڈاکٹر مارٹن ایلوس بین الاقوامی فلکیاتی تنظیم کے ایک ورکنگ گروپ کے شریک سربراہ ہیں، جو ان مسائل کی تحقیق اور انہیں عالمی سطح پر ممالک کی توجہ میں لانے کیلئے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم حکومتوں کو اس بات پر قائل کر سکیں کہ انہیں سائنسی تحقیق کا اسی قدر خیال رکھنا چاہیے جتنا کہ وہ تجارتی مفادات یا انسانی دریافتوں کا رکھتے ہیں۔  

  دنیا کی 25 سو سے زائد  مادری زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار

دنیا کی 25 سو سے زائد مادری زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار

مادری زبانوں کا عالمی دن21 فروری کودنیا بھر میں منایا جاتا ہےاقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم کی جنرل کانفرنس کے موقع پریونیسکو نے 17 نومبر 1999ء میں مادری زبانوں کا عالمی دن21 فروری کومنانے کا اعلان کیااور اِسی ادارے کے زیر اہتمام سال2000ء سے اِس روز دنیا بھر میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تاہم اسے 2002ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کے لوگوں کے ذریعہ استعمال کی جانے والی تمام زبانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اور ان کو فروغ دینا ہے۔گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں کئی مقامی زبانیں معدومیت کے دہانے پر ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلے کو تسلیم کیا اور اس دن کا آغاز کیا تاکہ لوگوں کو اپنی مادری زبان کا احترام اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے ترغیب دی جا سکے۔ بنگلہ دیش پہلا ملک تھا جس نے عالمی یوم مادری زبان منانے کے خیال کو نہ صرف پیش کیا،بلکہ اس نے اس دن کو پورے جوش و خروش سے منایا بھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریبا ً7000 زبانیں بولی جاتی ہیں اور اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق 1950سے لے کر اب تک 230 مادری زبانیں ناپید ہو چکی ہیں۔برٹش کونسل کی جانب جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 350 ملین افراد کی مادری زبان انگریزی ہے۔ جب کہ باقی لوگ ثانوی زبان کی حیثیت سے انگریزی بولتے ہیں۔ زبانوں پر تحقیق کرنے والے امریکی ادارے کے مطابق ملکوں کے حوا لے سے انگریزی سب سے زیادہ یعنی 112 ممالک میں بولی جاتی ہے۔اس کے بعد 60 ممالک میں فرنچ، 57 میں عربی، 44 میں ہسپانوی اور جرمن بھی 44 ممالک میں بولی جاتی ہے۔ اردو 23، ہندی 20 ممالک میں بولی جاتی ہے۔ پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں نمبر پر ہے جب کہ سب سے زیادہ 196 زبانوں کو بھارت میں خطرات لاحق ہیں۔ امریکا کی 191،برازیل کی 190، انڈونیشیا کی 147اور چین کی 144 زبانوں کی بقاء کو خطرہ ہے۔ہر زبان ایک میراث ہے۔ جسے ثقافتی تنوع اور بین الثقافتی مکالمے کو یقینی بنانے کے لیے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔بلا شبہ انسان کی مختلف شناختیں ہوتی ہیں۔ اس کا نام، اس کا خاندانی نام، اس کا قبیلہ، اس کا علاقہ، اس کی قومیت، اس کا مذہب۔ یہ سب شناختیں ہیں اور ہر شناخت اسے عزیر ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک بہت طاقتور شناخت وہ زبان ہے جو وہ بولتا ہے۔ کیونکہ دیگر انسانوں سے رابطہ وہ زبان کے ذریعے رکھتا ہے۔ خصوصاً وہ زبان جو اس کا خاندان بولتا ہے اور اس نے پیدائش کے بعد سب سے پہلے وہی زبان سیکھی ہے، اس کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس زبان کو اس کی مادری زبان کہتے ہیں۔ صرف اسی زبان میں وہ اپنے خیالات کے اظہار پر مکمل طور پر قادر ہوتا ہے۔ وہ کسی دوسری زبان میں اگر بولتا یا لکھتا بھی ہے، تو خیالات کو سوچتا اپنی مادری زبان میں ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین انسان کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں دینے کی سفارش کرتے ہیں۔ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ان کے بولنے والے خود ہیں ۔جو بتدریج ان زبانوں کے استعمال کو کم کرتے جا رہے ہیں اور پھر یوں یہ زبانیں اپنا اصل اسلوب ختم کرتے ہوئے کسی دوسری زبان میں ضم ہوجاتی ہیں۔زبان سیکھنے کا عمل ایک طویل مرحلے کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔کوئی زبان ،اس کے قوائد و ضوابط،لغت ودیگر اسرار و رموزایک تھکا دینے والا کام ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ بچہ ماں کی گود میں زبان کے ان سب امور پر یوں دسترس حاصل کر لیتا ہے کہ ساری عمر کیلئے وہ اس زبان کا ماہر بن جاتا ہے ۔یہ زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے۔ دراصل ماں کی گود بچے کا پہلا مکتب ہوتی ہے اور بچہ اس مکتب کے ذریعہ وہی کچھ سیکھتا ہے جو ایک ماں اپنے بچہ کو سکھاتی ہے۔ ماں کی گود اور روٹیاں پکانے والے چولھے کے گرد بچوں کے جمگٹھے میں زبان اپنا ارتقائی سفر بڑی عمدگی سے طے کر رہی ہوتی ہے ۔ مادری زبان سے انسان کی فطرت کھلتی اور نکھرتی ہے۔ اسی زبان کے ایشو پر ہمارے ملک کا ایک حصہ الگ ہوگیا لیکن پھر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اب بھی ایک زبان کے علاوہ باقی زبانوں کو قومی زبان تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ستم طریفی یہ ہے کہ واحد قومی زبان بھی عدم توجہ کے سبب زبوں حالی کا شکار ہے اور اسے صحیح معنوں میں قومی زبان کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔زبان کا تحفظ ہی درحقیقت تہذیب، ثقافت اورکلچر کا تحفظ کہلاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب والدین اپنے بچوں کو مادری زبان نہیں سکھاتے تو زبانوں کے متروک ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔حکومتِ وقت مادری و علاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعراء اور محققین کی سرپرستی کرے۔ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر عالمی زبانوں کی کتب کو قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے ۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ ابتدائی کلاسز میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ دنیا کے کئی ممالک نے مادری زبانوں کی ضرورت و اہمیت کو مانتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ ہر بچے کو اپنی مادری زبان میں تعلیم کا حق حاصل ہے اور تمام زبانوں کی بلا امتیاز ترویج و ترقی شہریوں کے بنیادی حقوق اور ریاستی فرائض کا حصہ ہے۔لیکن پاکستان میں آج بھی علاقائی زبانوں کی اہمیت اور مقام و مرتبے پر بحث جاری ہے۔ اگرچہ سندھ میں سندھی، خیبر پختونخوا میں پشتو اور بلوچستان میں بلوچی ابتدائی تعلیمی درجات میں پڑھائی جاتی ہے لیکن پنجاب میں علاقائی زبانوںکی ترویج و اشاعت کی سرکاری سطح پر کبھی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلد نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں اور اس سے بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس سے زبان کی آبیاری ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پرائمری سے تمام صوبوں میں مقامی زبانوں کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔   

آج کا دن

آج کا دن

سلطان محمد فاتح تخت نشین ہوئے 1451ء میں آج کے روز سلطان محمد فاتح دوسری بار تخت نشین ہوئے۔ 1444ء میں مراد دوئم کی جگہ سلطان محمد خان نے تخت سنبھالا جس کی مخالفت میں چاندارلی خلیل پاشا اور دیگر اہم درباری شخصیات پیش پیش تھے۔ جس کے بعد مراد دوئم دوبارہ تخت نشین ہو گئے جن کے انتقال کے7 سال بعد سلطان محمد خان فاتح دوسری بار دوبارہ تخت نشین ہوئے۔ڈائیگو میٹرو سب وے آتشزدگی18 فروری 2003 کو، ایک آتش زدگی نے ڈائیگو میٹرو سب وے ٹرین کو آگ لگا دی جب وہ جنوبی کوریا کے وسطی ڈیگو میں جنگنگنو اسٹیشن پر پہنچی۔ اس کے نتیجے میں آگ، جو اسی اسٹیشن پر دوسری ٹرین کے رکنے پر پھیلی، اس میں 192 افراد ہلاک اور دیگر 151 زخمی ہوئے۔ یہ جنوبی کوریا کی امن کے وقت کی تاریخ میں جان بوجھ کر پیش آنے والے کسی ایک واقعے میں جان کا سب سے مہلک نقصان ہے، جو 1982 میں وو کی جانب سے کیے گئے شوٹنگ کے ہنگامے کو پیچھے چھوڑتا ہے۔ایران فضائی حادثہایران اسمان ایئر لائنز کی پرواز 3704 تہران کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے جنوب مغربی ایران میں یاسوج کیلئے طے شدہ ایرانی مسافر بردار پرواز تھی۔ 18 فروری 2018ء کو یہ پرواز یاسوج تک پہنچنے سے قبل ہی صوبہ اصفہان کے سیمیروم کاؤنٹی کے نوقول گاؤں کے قریب پہاڑ سے ٹکرا کر زمین بوس ہو گیا۔ جہاز میں سوار تمام 66 افراد بشمول 60 مسافر اور عملے کے 6 افراد ہلاک ہو گئے۔قبلائی خان کا انتقال18 فروری 1294ء منگول حکمران قبلائی خان کا انتقال ہوا۔ 1271ء میں چینی یوآن خاندان قائم کرتے ہوئے 23 سال تک حکمرانی کے دوران قبلائی خان نے سانگ خاندان کا صفایا کرتے ہوئے پورے چین کو متحد کیا۔ چین میں پہلے کاغذی نوٹ کا اجرا بھی اسی دور میں ہوا۔ قبلائی خان کے دور میں متعدد یورپی شخصیات بھی چین آئی تھیں جن میں مارکو پولو قابل ذکر رہے۔