اقبال حسن کا عروج زوال

 اقبال حسن کا عروج زوال

اسپیشل فیچر

تحریر :


پاکستانی سینما میں جب پنجابی فلموں کا تذکرہ آئے گا تو ایک نام اداکار’’اقبال حسن‘‘ کا ضرور ہوگا۔ جنہوں نے برسوں شائقین فلم کے دلوں پر راج کیا۔ یہ لاہور کے اندرون گیٹ میں پیدا ہونے والے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ فن کار گھرانہ تھا۔ اقبال حسن کے بڑے بھائی خورشید حسن بھی اداکار تھے اور چاہتے تھے کہ اقبال حسن جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے،خورشید حسن نے ان کو ایک کیمرہ مین کا اسسٹنٹ بنادیا۔ فنی زندگی کی ابتداء ٹرالی مین سے کی۔ ٹرالی کھینچ کھینچ کر جب اقبال حسن کو احساس ہْوا کہ منزل دور ہوتی جاری ہے تو اپنے استاد سے کہا کہ مجھے لائٹیں سیٹ کرنا سکھائیں۔ استاد نے انہیںیہ طریقہ سمجھا دیا۔ لیکن اس کے باوجود دل مطمئن نہ تھا۔ انہوں نے یونٹ میں رہ کر 1965ء میں پہلی بار اپنے بہنوئی کہانی نویس آغا حسن امتثال کی بحیثیت فلمساز پہلی پنجابی فلم ’’پنجاب دا شیر‘‘ میں اکمل اور نغمہ کے ساتھ کام کیا۔ لیکن اس فلم سے ان کوکوئی کریڈٹ نہ مل سکا۔ وہ فن کار کے طور پر اپنا مقام بنانا چاہتے تھے۔ ان کے استاد ہدایت کار ریاض احمد نے انہیں پنجابی فلم ’’سسّی پنّوں‘‘ میں مرکزی کردار د ے دیا۔ اس فلم میں سسّی اداکارہ نغمہ تھیں۔ ابھی یہ فلم زیر تکمیل تھی کہ ہدایت کار حیدر چوہدری کی فلم ’’سوہنا‘‘ میں ہیرو کاسٹ کرلیے گئے۔ دونوں فلمیں تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کررہی تھیں۔ریاض احمد کوشش کررہے تھے کہ ان کی فلم پہلے ریلیز ہوجائے لیکن فلم ’’سوہنا‘‘ پہلے ریلیز ہوگئی۔ فلم ’’سسّی پنّوں‘‘ بھی ایک کام یاب فلم کے طور پر سامنے آئی، ایسے وقت میں جب پنجابی فلموں میں اکمل، یوسف خان اور حبیب جیسے کام یاب اداکارموجود تھے ان اسٹارز کی موجودگی میں اپنا نام بنانا بے حد مشکل نظر آرہا تھا لیکن اقبال حسن ان سب میں ایک نمایاں فن کار کی حیثیت سے سامنے آئے۔ اس کے بعد بے شمار کام یاب پنجابی فلموں میں کام کیا جن میں دھی رانی، خان چاچا، میراخون، نشان، عشق میرا ناں، بھولا سجن، یار مستانے، وحشی جٹ، ہتھکڑی، شوکن میلے دی، وحشی گجر ان کی کام یاب فلموں میں شامل ہیں۔ ان کی اردو زبان میں صرف تین فلمیں ہی ریلیز ہوسکیں۔ حالاں کہ وہ اردو فلموں میں بھی کام کرنا چاہتے تھے۔ ہدایت کار ریاض شاہد کی اردو فلم ’’یہ امن‘‘ جو کشمیر کے موضوع پر مبنی فلم تھی جس میں انہوںنے کشمیری حریت پسند کا کردار کمال خوبی سے ادا کیا۔ جب خود فلم پروڈیوس کی تو اردو فلم ’’بدلے گی دنیا ساتھی‘‘ بنائی جس میں محمد علی اور زیبا کے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی ’’تنظیم حسن‘‘ کو پہلی بار فلم میں کام کرنے کا موقع دیا۔ تنظیم حسن نے بہت سی فلموں میں کام کیا لیکن اپنے بھائی اقبال حسن کی طرح شہرت و مقبولیت حاصل نہ کرسکے۔ اقبال حسن کا ستارہ گردش میں آیا تو فلم سازوں نے آنکھیں پھیر لیں اس وقت پنجابی سینما پر سلطان راہی چھائے ہوئے تھے۔ ایسے میں اقبال حسن کو فنی زندگی میں دوسری بار اپنے آپ منوانے کی ضرورت پیش آئی۔ اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم مولا جٹ کے ہدایت کار یونس ملک نے 1980ء میں پنجابی فلم ’’شیر خان‘‘ بنانے کا اعلان کیا۔ یونس ملک اس فلم میں ’’شیر خان‘‘ کا مرکزی کردار اداکار حبیب کو دینا چاہتے تھے۔ لیکن حبیب نے یہ کردار کرنے سے معذرت کرلی۔ حبیب کے علاوہ محمد علی اس کردار کے لیے مناسب تھے لیکن وہ اردو فلموں میں مصروفیات کی وجہ سے پنجابی فلم میںکام نہیں کرسکتے تھے۔ یونس ملک اس کردار کے لیے کوئی منجھا ہوا اداکار چاہیے تھا۔ ان کے پاس کوئی چوائس نہ تھی۔ ایسے میں اقبال حسن اس کردار میں منتخب کرلیے گئے۔ اس فلم میں ان کے ساتھ سلطان راہی کے علاوہ اداکارہ انجمن کسی پنجابی فلم میں پہلی بار ہیروئن آرہی تھیں۔ یونس ملک کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اقبال حسن کو کتنا معاوضہ ادا کریں۔ اس لیے کہ اقبال حسن پنجابی فلموں میں اپنا مقام گنواچکے تھے اب وہ صرف اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ واپس لانا چاہ رہے تھے۔ یونس ملک اور اقبال حسن میں ایک معاہدہ ہوا کہ اگر فلم کام یاب ہوئی تو ان کو منہ مانگی رقم ادا کی جائے گی اور اگر ناکام رہی تو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔ فلم مکمل ہوئی اور1981ء عید الفطر کا دن بھی آیا ،جب لاہور میں ایک ساتھ پنجابی زبان کی پانچ فلمیں ’’شیر خان‘‘ نغمہ سینما کے علاوہ ہدایت کار الطاف حسین کی فلم’’سالا صاحب‘‘میٹروپول سینما، ہدایت کار جہانگیر قیصر کی فلم ’’چن وریام‘‘ گلستان سینما، ہدایت کار کیفی کی فلم’’ملے گاظلم دا بدلہ‘‘محفل سینما اور ہدایت کار حیدر چوہدری کی فلم ’’چاچا بھتیجا‘‘ شبستان سینما میںریلیز ہوئیں ان پانچوں فلموں میںشیر خان اور سالا صاحب نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ جمعہ 15اپریل 1983ء کو ہدایت کار الطاف حسین کی پنجابی فلم ’’صاحب جی‘‘ ریلیز ہوئی تو ’’شیر خان‘‘ مرکزی سینما پر ڈیڑھ سال تک چلنے کے بعد اتارلی گئی۔ یہ فلم 300 سے زائد ہفتے تک چلی۔ اس فلم سے فلم ساز کو بے حد منافع حاصل ہوا۔ جب اقبال حسن کو معاوضہ دینے کی بات آئی تو یونس ملک نے نوٹوں سے بھرا بریف کیس ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ جتنے پیسے لے سکتے ہو لے لو۔ اس پر اقبال حسن نے دولت کے انبار سے صرف اتنے ہی نوٹ سمیٹے کہ جو ان کے ہاتھوں میں سماسکے اور ساتھ یہ کہا کہ بس یہی دولت میرے نصیب کی ہے۔ ان کی یہ اعلیٰ ظرفی آج بھی یاد کی جاتی ہے۔ فلم ’’شیر خان‘‘ کے مرکزی کردار نے ان کو دوبارہ فن کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور یہ کردار اقبال حسن کے روپ میں ایک حقیقت بن گیا۔ اقبال حسن کی زندگی کا آخری دن 14 نومبر 1984ء کا تھا جب وہ اپنے دوست اور ساتھی اداکار اسلم پرویز کے ساتھ کار میں جارہے تھے کہ یہ حادثے کا شکار ہوگئی۔ اقبال حسن کا تو اسی وقت انتقال ہوگیا جب کہ اسلم پرویز جو شدید زخمی تھے ٹھیک ایک ہفتے بعد اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یوم تکبیر پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کا سفر

یوم تکبیر پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کا سفر

پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976ء میں ڈاکٹر عبد القدیر کی وطن آمد کے بعد ہوئی1998ء میں پاکستان پانچ ایٹمی دھماکے کرکے مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت بن گیا ''یوم تکبیر‘‘پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے، جب 28مئی 1998ء کو صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر پاکستان نے پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے، اور پاکستان مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت بن گیا، الحمد للہ۔یہ 11 اور 13 مئی 1998ء کو بھارت کے جوہری تجربوں کا سٹریٹجک جواب تھا۔یہ جوہری تجربات بلوچستان کے ضلع چاغی کے راس کوہ پہاڑیوں میں کئے گئے۔ ایٹمی دھماکوں کی کل تعداد چھ تھی۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک موقع پر اس کے حوالے سے کہا تھا کہ ''28مئی کو جو جوہری ہتھیار ٹیسٹ کیا گیا اس میںایک Boosted Fission ڈیوائس تھی اور باقی چارsub-kiloton ایٹمی آلات تھے۔ اس کے بعد 30 مئی 1998ء کو پاکستان نے 12 کلوٹن کی پیداوار کے ساتھ ایک اور جوہری تجربہ کیا۔محکمہ موسمیات کے مطابق 28 مئی کو پاکستان کے جوہری ٹیسٹوں سے ریکٹر سکیل پر زلزلے کے 5.0 سگنل پیدا ہوئے۔ جوہری ہتھیار ناگزیر تھاپاکستان کو جوہری ہتھیاروں کے بیش قیمت اور پیچیدہ آپشن کی طرف کیوں جانا پڑا، اس کو سمجھنے کیلئے تاریخ کو 70 ء کی دہائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔دراصل 1974ء میں بھارت اپنے پہلے ایٹمی تجربے کے ذریعے اس خطے کے غیرمستحکم سکیورٹی ماحول میں نیوکلیئر معاملات کو شامل کر چکا تھا، جسے مغرب کے کچھ لوگوں نے ''مسکراتا بدھا‘‘ کا نام دیا۔ یہ'' نیوکلیئر عدم پھیلائو ‘‘کے معاہدے کے تحت قائم نظام کو پہنچنے والا حقیقتاً پہلا بڑا دھچکا تھا۔دنیا نے بھارت کے دعوؤں میں چھپے اس فریب کو بھی جلد ہی دریافت کر لیاکہ نہرو کے دور میں اس کا جوہری پروگرام پُرامن استعمال کیلئے نہیں تھا اور یہ کہ 1964ء میں چین کے پہلے ایٹمی تجربے کے بعد بھارت کی شاستری حکومت نے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شروع کر دیا تھا۔ مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کیلئے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔ بھارت ایٹمی قوت بننے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کرکے اس کو دولخت کر چکا تھا۔تاہم بھارت کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطے میں طاقت کا توازن شدیدطور پر بگڑ گیا، چنانچہ 1974ء کے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا عزم کیا۔ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت جولائی 1976ء میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی وطن آمد کے بعد ہوئی۔ 1977ء میں ضیاالحق کی حکومت آنے کے بعد پاکستان نے جرمنی، فرانس اور کینیڈا سے جوہری ٹیکنالوجی خریدنے کیلئے اہم اقدام کئے۔ حساس ترین آلات خریدنا اور ان کو پاکستان منتقل کرنا اہم ترین مسئلہ تھا۔ پاکستان کو اس مقصد کیلئے یورپ، مشرق وسطیٰ، سنگاپور وغیرہ میںخصوصی انتظامات کرنا جس کے تحت حساس آلات مختلف ملکوں سے خریدے جاتے اور انہیں مختلف ممالک کے راستے منتقل کیا جاتا۔ امریکہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پاکستان ایٹم بم بنانے کے راستے پر گامزن ہے۔ تو امریکہ نے فرانس،جرمنی اور کینیڈا پر پابندیاں عائد کر دیں کہ وہ پاکستان کو ایسی کوئی ٹیکنالوجی فراہم نہ کریں جو پاکستان ایٹمی پروگرام میں پیشرفت کا باعث بنیں۔جرمنی نے امریکی پابندی کے باوجود پاکستان کو کچھ ٹیکنالوجی فراہم کی، اس کا ذکر پاکستان کے سابقہ سفارتکار جمشید مار نے بھی کیا ہے کہ پاکستان کو یورنیم افزودگی کا معیار پرکھنے والے آلے سمیت بہت سے حساس آلات فروخت کرنے والا ملک جرمنی تھا۔ ان حساس آلات کو خریدنے کے بعد مختلف راستوں سے پاکستان منتقل کیا گیا۔ پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے لائے بغیر پایا تکمیل تک پہنچانا تھا۔ ایک چھوٹی سی غلطی بھی سارے پروگرام کیلئے خطرے کا باعث بن سکتی تھی۔ 1974 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور انتہائی افزودہ یورینیم کے بطور انشقاق مواد کی فزیبلٹی پر زور دیا۔ PAEC کی طرف سے 1967ء میں گیسی سینٹری فیوج پر ابتدائی کام کیا گیا تھا لیکن ڈاکٹر عبد القدیرخان نے نیدرلینڈز میں یورینکو گروپ سے حاصل کردہ مہارت سے یورینیم کی افزودگی کے کام کو آگے بڑھایا۔ اُن کی نگرانی میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (KRL) کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کی یورینیم افزودگی کی صلاحیتوں کیلئے ضروری مواد ٹیکنالوجی اور آلات حاصل کرنے کی کوششیںشروع کر دی گئیں۔11 مارچ 1983ء کو ڈاکٹر منیر احمد خان کی سربراہی میں PAEC نے پہلی نیوکلیئر ڈیوائس کی ذیلی جانچ کی، جسے کولڈ ٹیسٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا کوڈ نام-1 Kirana تھا۔ 1983ء سے 1994 ء تک مزید 24 کولڈ ٹیسٹ کئے گئے۔بالآخر 28مئی 1998ء کا وہ دن بھی آ گیا جب پاکستان حقیقی طور پر جوہری ہتھیاروں کے تجربات کرنے والا تھا۔ اُس روز پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے سہ پہر کو سوا تین بجے چاغی ٹیسٹ سائٹ پر پانچ زیر زمین ایٹمی تجربات کئے۔ اس عمل کے مشاہدے کیلئے پوسٹ ٹیسٹ سائٹ سے تقریباً 10کلومیٹرکے فاصلے پر قائم کی گئی تھی جس میں ڈاکٹر مسعود احمد اور اصغر قادر کی سربراہی میں ''میتھا میٹکس گروپ‘‘ اور ''تھیوریٹیکل فزکس گروپ‘‘ کے ارکان کو جوہری ہتھیاروں کی کیلکلو لیشن کا حساب لگانے کا چارج دیا گیا تھا۔ اس طرح پاکستان مسلم دنیا کی پہلی اور دنیا کی نویں جوہری صلاحیت کی حامل ریاست کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ٹھہرا۔  

یادرفتگاں: نیاز احمد سدا بہار گیتوں کے تخلیق کار

یادرفتگاں: نیاز احمد سدا بہار گیتوں کے تخلیق کار

دنیائے موسیقی میں اپنا نام بنانے والے نیاز احمد 3 دسمبر 1946ء کو بھارتی ریاست یوپی میںپیدا ہوئے، ہوش سنبھالا تو خود کو شفقت پدری سے محروم پایا۔ ان کے والد فیاض احمد تقسیم ہند کے وقت ہجرت کرتے ہوئے جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ ان کے خاندان نے پاکستان آنے کے بعد کراچی کو اپنا مسکن بنایااور ان کے چچا ریاض احمد نے ان کی کفالت کی۔ نیاز احمد چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ کبھی پڑھائی میں دل نہیں لگا، جس کی وجہ سے میٹرک بھی نہ کر سکے۔ اپنے ماموں سے موسیقی اور آلات موسیقی کی سوجھ بوجھ لینے کے بعد فنی دنیا میں قدم رکھا تو ابتداء میں بہت ٹھوکریں کھائیں۔ چھوٹی چھوٹی تقریبات میں ہارمونیم بجا کر گزر بسر کرتے۔ نہال عبداللہ کی توسط سے ریڈیو پاکستان میں بطور اکارڈین پلیئر کام ملا۔ پانچ سال تک اس ساز سے جڑے رہنے کے بعد انہوں نے بطور موسیقار موسیقی کی دنیا میں قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ کریئر کی پہلی دھن گیت ''یہ کیسا بندھن ہے ساجن‘‘ کے لئے تیار کی جو گلوکارہ مہناز بیگم کی خوبصورت آواز میں ریکارڈ کیا گیا اور جب یہ گیت ریڈیو سے نشر ہوا تو سننے والوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ موسیقار نیاز احمد نے اِس کامیاب تجربے کے بعد گلوکارہ تاج ملتانی، عشرت جہاں، نگہت سیما کو بھی اپنی دھنوں پر گوایا۔ اس دور کے سبھی بڑے گلوکاروں نے اُن کی دھنوں کے ساتھ آواز ملائی۔ شہنشاہ غزل مہدی حسن کے ساتھ بھی ان ہی دنوں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ چھ برس ریڈیو سے وابستہ رہنے کے بعد سرکاری ٹی وی کا رخ کیا جہاں کئی سدا بہار دھنیں ترتیب دیں۔اپنے دور کے مقبول ترین گلوکاروں محمد علی شہکی اور عالمگیر کو موسیقی کی دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔موسیقار نیاز احمد کی مقبول ترین دھنوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ انہوں نے استاد نصرت فتح علی خان کیلئے ملی نغمہ ''میرا انعام پاکستان‘‘ تخلیق کیا۔ ملکہ ترنم نورجہاں کیلئے ''نیناں تم چپ رہنا‘‘ جیسا گیت کمپوز کیا۔ جب مہدی حسن کی آواز اور نیاز احمد کے سنگیت کا ملن ہوا تو ناقابل فراموش گیتوں نے جنم لیا۔ عابدہ پروین کیلئے بھی دھنیں بنائیں۔ ''اتنے بڑے جیون ساگر میں‘‘ جیسا ملی نغمہ کمپوز کیا، جسے علن فقیر نے اپنی آواز دی۔ دیگر مقبول ملی نغموں میں گلوکار خالد وحید کا گایا ہوا ''ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم‘‘،گلوکارہ لبنیٰ ندیم کا ''خوشبو بن کر مہک رہا ہے میرا پاکستان‘‘ اورگلوکار ناہید اخترکا شہرہ آفاق ملی نغمہ ''ہم مائیں، ہم بہنیں‘‘ شامل ہیں۔محمد علی شہکی کے گائے ہوئے مقبول گیت ''میری آنکھوں سے اِس دنیا کو دیکھو‘‘، ''نظارے ہمیں دیکھیں‘‘ اور ''تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں‘‘ نیاز صاحب ہی کے کمپوزکردہ تھے۔ ''دیکھ تیرا کیا رنگ کر دیا‘‘، ''یہ شام اور تیرا نام‘‘ اور ''پاس آکر کوئی دیکھے‘‘ جیسے مشہور نغموں کی دھنیں بھی اْن ہی کی تخلیق ہیں، جنھیں عالمگیر کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ مختلف گلوکاروں کے سولو البم بھی تیار کیے۔ کئی ڈراموں کے ٹائٹل سونگ تخلیق کیے۔ فلمی موسیقی بھی دی۔ فن، گیتوں ہی تک محدود نہیں رہا۔ ''نیلام گھر‘‘ اور سرکاری ٹی وی کے ''خبر نامہ‘‘ کی پس منظر موسیقی بھی ترتیب دی۔ نیاز احمد کو 2004ء میں ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں تین بار پی ٹی وی نیشنل ایوارڈ ملا، ریڈیو پاکستان نے بھی اُنہیں بہترین موسیقار ٹھہرایا۔نیاز احمد کو بھلا کون بھلا سکتا ہے، موسیقی سے لگائو رکھنے والے ہر شخص کے دل میں وہ بستے ہیں۔ گیت ہو، غزل ہو، ملی نغمہ ہو یا کسی ٹی وی پروگرام کا میوزک ہر جگہ ان کے سُر بکھرے پڑے ہیں۔ گلوکار محمد علی شہکی اور عالمگیر سمیت درجنوں نامور گلوکاروں کو ان کی موسیقی کی بدولت شہرت نصیب ہوئی۔ نیاز احمد کی زندگی کا سفر 28 مئی2019ء کو اپنے اختتام کو پہنچا مگر وہ اپنے گیتوں اور دھنوں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ مقبول گیت٭...''نیناں تم چپ رہنا‘‘ ٭... ''میری آنکھوں سے اِس دنیا کو دیکھو‘‘٭...''نظارے ہمیں دیکھیں‘‘ ٭... ''تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں‘‘٭... ''دیکھ تیرا کیا رنگ کر دیا‘‘٭... ''یہ شام اور تیرا نام‘‘٭... ''پاس آکر کوئی دیکھے‘‘شہرہ آفاق ملی نغمے٭... ''میرا انعام پاکستان‘‘(نصرت فتح علی خان)٭...''اتنے بڑے جیون ساگر میں‘‘( علن فقیر) ٭... ''ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم‘‘(خالد وحید) ٭... ''خوشبو بن کر مہک رہا ہے میرا پاکستان‘‘ ( لبنیٰ ندیم)٭... ''ہم مائیں، ہم بہنیں‘‘ ( ناہید اختر) 

آج کا دن

آج کا دن

بخارسٹ معاہدہ 28 مئی 1812ء کو دولت عثمانیہ اور روس کے درمیان بخارسٹ معاہدہ طے ہوا جس کے نتیجے میں عثمانی روس جنگ ختم ہوئی۔ معاہدے پر بخارسٹ کے مانوک ان میں دستخط کیے گئے اور 5 جولائی 1812 کو روس ترک جنگ کے خاتمے کے بعد اس کی توثیق ہوئی۔ عثمانیوں نے جنگ میں بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔بولٹن کا قتل عامبولٹن قتل عام پہلی برطانوی خانہ جنگی کا ایک واقعہ تھا جو 28 مئی 1644ء کو پیش آیا۔ پرنس روپرٹ کے ماتحت شاہی فوجوں نے پارلیمانی شہر پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔قابض افواج پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ لڑائی کے دوران اور بعد میں بولٹن کے ایک ہزار600 محافظوں اور باشندوں کو ذبح کر دیا گیا تھا۔ اس قتل عام کو دنیا کے بدترین مظالم میں شمار کیا جاتا ہے۔دنیا کی پہلی ٹی ٹی ریس 28 مئی 1907ء کو دنیا کی پہلی ٹی ٹی ریس منعقد کی گئی اور اسے بین الاقوامی آٹو سائیکل ٹورسٹ ٹرافی کہا گیا۔ ایونٹ کا انعقاد 15 میل کے 10ٹریکس پر کیا گیا جس میں ایگزاسٹ سائلنسر، سیڈلز، پیڈل اور مڈ گارڈز والی وہ موٹر سائیکلیں شامل تھیں ۔1911ء میں ٹی ٹی کے ٹریک کو تبدل کر کے اسے 37.40میل طویل کر دیا گیا۔ 1911ء میں 350سی سی جونیئر ٹی ٹی موٹر سائیکلوں اور 500سی سی سینئر ٹی ٹی کے تحت ریس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔سخالین کا زلزلہ1995ء میں آج کے روز روسی شمالی جزیرے سخالین پر شدیدزلزلہ آیا۔ یہ روس کے موجودہ علاقے میں جانا جانے والا سب سے تباہ کن زلزلہ تھا جس نے پورے شہر کو تباہ کر دیا ۔ اس زلزلے کی وجہ سے ایک ہزار989افراد ہلاک جبکہ750زخمی ہوئے90 فیصد افراد 17 پانچ منزلہ رہائشی عمارتوں کے گرنے سے ہلاک ہوئے۔ فوکس ویگن کا قیام1937ء میں آج کے دن گاڑیاں بنانے والی جرمن کمپنی فوکس ویگن کا قیام عمل میں آیا۔ اس کمپنی کو جرمن لیبر فرنٹ کے ذریعہ قائم کیا گیا تھا، جو ان کے مشہور بیٹل کیلئے جانا جاتا ہے۔یہ فوکس ویگن گروپ کا ہی ایک اور برانڈ ہے،جو 2016ء اور 2017ء میں دنیا بھر میں فروخت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی کار سازکمپنی رہی۔ 

طلعت حسین بھی جدا ہوئے!

طلعت حسین بھی جدا ہوئے!

طلعت حسین ہمارے ملک کا وہ اثاثہ تھے جو اپنی اداکاری کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ ان کی شہرت کے ڈنکے نہ صرف پاکستان میں بلکہ انگلینڈ، امریکہ اور ناروے میں بھی بجتے تھے۔ درجنوںبین الاقومی پراجیکٹس میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں کئی بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ اداکاری و صدا کاری ان کی پہچان تھی اور وہ ریڈیو، فلم، ٹی وی اور سٹیج کے بلا شبہ ایک منجھے ہوئے اداکار تھے اور ایک تربیت یافتہ اداکار کی حیثیت سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے تھے۔ انہوں نے تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ وہ ضیاء محی الدین کے بعد دوسرے فنکار تھے جنہوں نے یورپی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔طلعت حسین 18ستمبر 1940ء کو بھارتی شہر دہلی کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کا پورا نام طلعت حسین وارثی تھا۔ ان کی والدہ شائستہ بیگم ریڈیو پاکستان کی مقبول انائونسر کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتی تھیں جبکہ ان کے والد الطاف حسین وارثی انڈین سول سروس میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ان کی فیملی 1947ء میں ہجرت کر کے بحری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچی۔ پاکستان آنے کے بعد ان کی فیملی کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے، والد کی بیماری کے باعث ان کی والدہ نے ریڈیو پر ملازمت اختیار کر لی۔ طلعت حسین نے گورنمنٹ بوائز سکینڈری سکول جیل روڈ سے میٹرک کیا اور پھر اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا۔ گھر کے نامساعد حالات کی وجہ سے ان کی ماسٹر کرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ وہ تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ طلعت حسین کو مطالعہ سے بہت شغف تھا، بقول ان کے وہ بچپن میں سوچا کرتے تھے کہ بڑے ہو کر پروفیسر بنیں گے مگر معاشی وجوہات کی بنا پر ایسا ہو نہیں سکا مگر ان کا مطالعہ کا شوق ضعیف العمری تک برقرار رہا۔طلعت حسین نے اپنے فن کے سفر کا آغاز ریڈیو سے کیا، جب پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو وہ ٹیلی ویژن کی جانب آ گئے۔ ان کا پہلا ڈرامہ '' ارجمند‘‘ تھاجو 1967ء میںآن ایئر ہوا۔ ٹیلی ویژن پر وہ اداکاری کے علاوہ بحیثیت نیوز کاسٹر اور انائونسر بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1972ء میں وہ انگلینڈ چلے گئے اور ''لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ‘‘سے وابستگی اختیار کر لی۔ ان کا پہلا برطانوی کھیل جمی پیرے اور ڈیوڈ کرافٹ کا تھا۔ جس میں انہوں نے ایک کلب مالک کا کردار ادا کیا۔ وہ بی بی سی ریڈیو کے ڈرامہ ''کرائون کوٹ‘‘ میں بھی کام کرچکے ہیں۔ طلعت حسین متعدد غیر ملکی فلموں، ٹی وی ڈراموں، لانگ پلیز میں کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے2006ء میں ''چینل 4 ٹیلی ویژن‘‘ کی سیریل ''ٹریفک‘‘ کی چند اقساط میں بھی کام کیا ۔ ناروے کی فلم ''امپورٹ ایکسپورٹ‘‘میں کام کیا جس پر انہیں بہترین معاون اداکار کے ''ایمنڈا ایوارڈز‘‘ سے نوازا گیا۔ اس فلم میں انہوں نے اللہ دتہ نامی شخص کا ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ بھارتی ہدایتکار ساون کمار کی فلم ''سوتن کی بیٹی‘‘ میں بحیثیت وکیل، طلعت حسین کی پرفارمنس اپنے عروج پر دکھائی دی۔ اس فلم میں انہوں نے بھارتی اداکارہ ریکھا اور جیتندر کے سامنے جم کر اداکاری کی۔انہوں نے 15 سے 20پاکستانی فلموں میں بھی لاجواب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ 1970ء میں وہ فلم'' انسان اور آدمی‘‘ میں اداکار محمد علی اور زیبا کے بیٹے کے کردار میں پسند کئے گئے۔ فلم ''گمنام‘‘ میں ڈاکٹر کا کردار کو خوبصورتی سے ادا کرنے پر بیسٹ ایکٹر کا نگار ایوارڈ ملا۔طلعت حسین کراچی میں منعقدہ ثقافتی اور ادبی تقاریب میں برصغیر کے نامور ادباء اور شعراء کا کلام اپنی خوبصورت آواز میں پیش کرکے داد و تحسین وصول کرتے رہے ہیں۔ وہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ‘‘(NAPA) میں فن اداکاری کے حوالے سے نئی نسل کی راہنمائی بھی کرتے رہے۔ طلعت حسین ایک ڈرامہ نگار بھی تھے اور انہوں نے متعدد ڈرامے لکھے۔طلعت حسین نے اپنی زندگی میں بے شمار نشیب و فراز دیکھے۔ وہ اپنی مالی حالت بہتر کرنے کیلئے کراچی کے لیرک سینما میں کچھ عرصہ تک گیٹ کیپر رہے۔ لندن میں انہوں نے کئی سال قیام کیا اور اس دوران ایک ہوٹل میں ویٹر اور برتن دھونے والے کی نوکری بھی کی۔1998ء میں انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ پر بننے والی فلم ''جناح‘‘ میں ایک مہاجر کا کردار ادا کیا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ ہالی وڈ کے اداکار سر کرسٹوفر لی، بھارتی اداکار ششی کپور بھی تھے۔فلم ''لاج‘‘ میں ایک قبائلی سردار کا کردار ادا کیا، اس فلم کی شوٹنگ کے دوران قبائلیوں نے حملہ کر دیا ان کی بے دریغ فائرنگ سے پوری ٹیم بال بال بچی۔ اس کی فلم بندی جاری تھی کہ طلعت حسین جنگ کا منظر فلم بند کراتے ہوئے پہاڑی سے گر گئے اور ان کی ٹانگ تین جگہ سے ٹوٹ گئی۔ طلعت حسین نے 1972ء میں کراچی یونیورسٹی کی پروفیسر رخشندہ سے شادی کی ، ان کے تین بچے (2بیٹے اور بیٹی ) ہیں۔اعزازات٭...حکومت پاکستان کی طرف سے 1982ء میں ''پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ اور 2021ء میں ''ستارہ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ ٭...2006 میں ناروے میں انہوں نے بہترین معاون اداکار کا ''ایمنڈا ایوارڈ‘‘ وصول پایا، اس ایوارڈ کو ناروے میں آسکر کا درجہ حاصل ہے اور یہ ایوارڈ ہر سال ''نارویجن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول‘‘ کے موقع پر دیا جاتا ہے۔٭...1986 میں فلم ''مس بینکاک‘‘ میں بہترین معاون اداکار کا ''نگار ایوارڈ‘‘ملا۔مشہور ڈرامےآنسو،ارجمند، دیس پردیس، ہوائیں، انسان اور آدمی،عید کا جوڑا،کشکول، تھوڑی خوشی تھوڑا غم، گھوڑا گھاس کھاتا ہے، پرچھائیاں، طارق بن زیاد، ٹائپسٹ، ٹریفک(چینل 4انگلینڈ)مشہور فلمیں٭چراغ جلتا رہا، ٭ گمنام، ٭قربانی٭...انسان اور آدمی ٭...لاج٭...جناح (بین الاقوامی فلم)،٭... سوتن کی بیٹی(بھارتی)،٭... امپورٹ ایکسپورٹ(نارویجن)'' پاکستانی مجھے ٹپ دیتے ہوئے شرماتے تھے‘‘یہ ان دنوں کی بات ہے جب معروف اداکار طلعت حسین اداکاری کی اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن میں تھے۔ انھیں بی بی سی میں تو کام ملنا شروع ہو گیا تھا لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کام سے گزر بسر ممکن نہیں تھی۔ ''یہ ہیں ہمارے طلعت حسین‘‘ کے نام سے لکھی گئی ڈاکٹر ہما میر کی کتاب میں شامل چند اقتباسات کے مطابق یہی وجہ تھی کہ طلعت حسین نے ویٹر کی جزوقتی ملازمت کا فیصلہ کیا۔ طلعت اداکار کے طور پر پہچان بنا چکے تھے اِس لیے یہ فیصلہ مشکل تھا، لیکن اس میں مشکل کیا تھی؟ کتاب میں ہما سے بات کرتے ہوئے طلعت حسین نے بتایا تھا کہ 'مشکل اس وقت ہوتی تھی جب کوئی پاکستانی فیملی ہوٹل میں کھانا کھانے آتی۔ مجھے دیکھتے ہی پہچان لیتی۔ مجھے آرڈر دیتے ہوئے انھیں جھجک ہوتی۔ میں ان سے کہتا کہ وہ بے چین نہ ہوں اور اطمینان سے اپنا آرڈر لکھوا دیں۔ اس کے بعد صورتِ حال اُس وقت اور پیچیدہ ہو جاتی جب انھیں بل کے ساتھ ٹپ دینا ہوتی۔ پاکستانی مجھے ٹپ دیتے ہوئے شرماتے تھے۔ 

رومال سے ٹشو پیپر تک کا سفر

رومال سے ٹشو پیپر تک کا سفر

پرانے دور میں چلے جائیں تو پنجاب کی ثقافت میں صافہ کے نام سے ایک کپڑے کا بڑا سا ٹکڑالباس کا ایک لازم جزو تھا۔ جسے مرد حضرات کندھے پر رکھتے تھے، جسے گرمی کی شدت سے بچنے یا سردیوں کے موسم میں اس کپڑے سے سر اور منہ کو ڈھانپا جاتا تھا۔ باوقت ضرورت اس کپڑے کو پھلوں اور دیگر ضروری اشیاء کی خریداری کرنے کے بعد اس میں باندھ کر کندھے پر رکھ لیا جاتاتھا۔ یہ پرانے وقتوں کی بات ہے کیونکہ اگر آج کے دور کے بچوں سے پوچھا جائے تو وہ رومال اور صافہ جیسی چیزوں کے ناموں سے بھی واقف نہ ہوں گے۔ ماضی قریب کے دور میں جب کوئی نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہنتا تو ایک رومال ضرور جیب میں رکھتا کیونکہ اس کے بغیر تیاری ادھوری سمجھی جاتی تھی۔ شادیوں میں یہ عام دیکھنے کو ملتا تھا کہ دولہا میاں بن سنور کر جب بارات لے کر دولہن والوں کے گھر پہنچتے توان کے ہاتھ میں ایک رومال ضرور ہوتا۔ دولہا میاں اس رومال کو اپنے منہ پر رکھ کرشرمانے کی بھر پور کوشش کرتے۔ یہ ہماری ثقافت کا روایتی حصہ سمجھا جاتا تھا۔اگر دولہا میاں رومال رکھنا بھول جاتے تو ان کے ساتھ بارات میں شریک دوست احباب ان کو خاص طورپر یاد دلاتے کہ تمہار ا رومال کدھر ہے۔ اس بات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انسانی زندگی کے یہ خوشگوار لمحات رومال کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے تھے۔ اس دور میں کپڑے کا یہ ٹکڑا جسے رومال کہا جاتا ہے بچپن سے ہی زندگی کا حصہ ہوتا تھا۔ بچپن میں اس رومال کو بچے کی ستر پوشی کیلئے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ جسے لنگوٹ کا نام دیا جاتاتھا اور جب تک بچہ چلنا شروع نہیںکردیتا تھا اس وقت تک لنگوٹ لازم و ملزوم سمجھا جاتاتھا۔ ٹیکنالوجی انسانی زندگی میں جس تیزی سے تبدیلی لائی اسی تیزی سے ضروریات زندگی کی اشیاء کے بھی نت نئے معیار بنتے گئے۔اسی طرح صافہ اور رومال کی جگہ ٹشو پیپر اور لنگوٹ کی جگہ پیمپرز نے لے لی اور لنگوٹئے یار اب ''انڈر ویئر فرینڈ‘‘ کہلائے جانے لگے۔ٹشو پیپر ہماری روز مرہ زندگی میں کئی وجوہات کی بنا پر بہت اہمیت رکھتا ہے بالکل اسی طرح جیسے پہلے صافہ اور رومال کو اہمیت حاصل تھی۔ اسی طرح ٹشو پیپر حفظان صحت کے معمولات میں ایک ناگزیر چیز ہے۔ باتھ روم میں صفائی برقرار رکھنے کیلئے چہرے کو صاف کرنے سے لے کر کچن اور کھانے کی ٹیبل تک ٹشو پیپر کا استعمال انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ٹشو پیپر ایک ہلکا پھلکا ، نرم اور ڈسپوز ایبل کاغذی پروڈکٹ ہے جو بنیادی طورپر ذاتی حفظان صحت اور صفائی کے مقاصد کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ ری سائیکل شدہ کاغذ کے گودے یا لکڑی کے ریشوں اور پانی کے امتزاج سے تیار کیا جاتا ہے۔ جسے پتلی ، نازک چادروں کی تہوں سے تیارکیا جاتا ہے۔ٹشو پیپر بلاشبہ ہماری روزمرہ کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے، جس کا استعمال انسانی زندگی میں بہت زیادہ ہوچکا ہے۔ ذاتی استعمال سے لے کر گھریلو صفائی، دستکاری اور پیکیجنگ تک، ٹشو پیپر ایک ورسٹائل ٹول کے طور پر کام کرتا ہے۔ٹشو پیپر کے ذریعے بہت سے کام آسان ہوجاتے ہیں اور یہ ہمیں بہت سی جگہوں پر سہولت فراہم کرتا ہے۔ ٹشو پیپر صفائی ستھرا اور دھول صاف کرنے کیلئے بہترین ہے۔ٹشو پیپر پانی کوجذب کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اسی وجہ سے چہرے پر پسینہ ہو ، ٹیبل یا کتاب پرپانی چائے یا دیگر مائع چیز گرجائے تو فوراً ٹشو پیپر کی ہی واحد حل سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر کپڑوں پر بھی کوئی داغ لگ جائے ، سالن گر جائے اور کچھ اورپھر بھی ٹشو پیپر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ٹشو پیپر نرم نازک جلد کی طرح نرم ہوتا ہے اور جلد کی دیکھ بھال اور خوبصورتی کیلئے بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ میک اپ کو ہٹانے سے لے کر چہرے کے ٹونر یا لوشن لگانے تک، ٹشو پیپر جلن پیدا کیے بغیر نرم ٹچ فراہم کرتا ہے۔ چہرے کے ٹشو جلد پر ہموار اور نرم ہوتے ہیں۔ یہ عام طور پر ناک صاف کرنے، آنسو صاف کرنے یا چہرے کی عمومی صفائی کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔روزمرہ کے استعمال کیلئے ٹشو پیپر مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے اسی لئے ٹشو پیپر کو مختلف ڈیزائن اور سٹائل میں تیار کیا جاتا ہے۔ ٹوائلٹ ٹشو، جسے ٹوائلٹ پیپر یا باتھ ٹشو بھی کہا جاتا ہے، خاص طور پر باتھ روم میں استعمال کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ٹوائلٹ ٹشو مختلف موٹائی اور ساخت میںتیار کیا جاتا ہے۔ کچن ٹشو جسے پیپر تولیہ بھی کہا جاتا ہے، یہ پانی جذب کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے اور پائیدار ہوتا ہے۔ یہ سطح کو صاف کرنے، ہاتھ خشک کرنے یا کچن کی شلفوں کو صاف کرنے کیلئے بہترین ہے۔ باورچی خانے کے ٹشو رولز اکثر آسانی سے پھاڑنے کیلئے پرفوریشن کے ساتھ آتے ہیں، جس سے شیٹ کے سائز کو حسب ضرورت بنایا جا سکتا ہے۔گفٹ ریپنگ ٹشو پیپر تحائف میں خوبصورتی اور نفاست کا اضافہ کرتا ہے۔ یہ ہلکا پھلکا، پتلا ہے اور اکثر مختلف رنگوں اور نمونوں میں آتا ہے۔ گفٹ ریپنگ ٹشو تحائف کی پیشکش کو بڑھاتا ہے، نازک اشیاء کی حفاظت کرتا ہے اور آرائشی مزاج کا اضافہ کرتا ہے۔ صنعتی ٹشو پیپر دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور زیادہ ہیوی ڈیوٹی ہے۔ یہ صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے فوڈ سروس، آٹوموٹو، صحت کی دیکھ بھال، اور دیگر خدمات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ صنعتی ٹشو پیپر کو سخت صفائی کے کاموں۔ سطحوں کو صاف کرنے، اور مائعات کو موثر طریقے سے جذب کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

المسعودی:عظیم مسلم مورخ

المسعودی:عظیم مسلم مورخ

ابوالحسن علی ابن الحسین ابن علی المسعودی ایک مورخ کی حیثیت سے جانا پہچانا نام ہے، لیکن اس کے حالات زندگی کے بارے میں بہت کم تاریخی مواد دستیاب ہے۔ اس کے متعلق اس کی اپنی تصانیف اور دوسرے مصنفین کی تحریروں سے جو خال خال معلومات ملتی ہیں، ان کے مطابق وہ بغداد میں پیدا ہوا اور مصر کے شہر الفسطاء ( قاہرہ قدیم) میں وفات پائی۔ تاریخ وفات کے بارے میں بھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، تاہم مستند ترین روایت یہ ہے کہ اس نے 956ء یا 957ء میں ستمبر یا اکتوبر کے مہینے میں انتقال ہوا۔المسعودی نے نو عمری میں ہی سیاحت کا آغاز کیا۔ وہ بغداد سے تقریباً915ء میں روانہ ہوا اور اپنی بقیہ زندگی سیرو سیاحت میں گزار دی۔941ء تک وہ خراسان، سجستان (جنوبی افغانستان)، کرمان، فارس، قومیں، جرجان، طبرستان، جبال(میڈیا)، خوزستان، عراق اور جزیرہ میسوپوٹیمیا کا نصف شمال کی سیاحت کر چکا تھا۔941ء اور 956ء کے درمیان عرصے میں اس نے شام، یمن، حضر موت، شمر اور مصر کا سفر کیا۔ اس نے سندھ ہند اور مشرقی افریقہ کا سفر بھی کیا اور بحیرہ خزر، بحیرہ احمر، بحیرہ روم اور بحیرہ عرب کے پانیوں کی سیر بھی کی۔ تاہم اس کی دستیاب تصانیف سے اس کے ہند، چین اور جاوا کی سیاحت کے دعوئوں کی تصدیق نہیں ہوتی۔ بعض محققین کا یہ خیال بھی درست معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے سری لنکا، مڈغا سکریا تبت کی سیاحت کی۔ المسعودی نے عمر کا آخری حصہ مصر میں بسر کیا۔ اس کی مہمات کے دو بڑے محرکات سامنے آتے ہیں۔ ایک تووہ دنیا کے ''عجائب‘‘ دیکھنا چاہتا تھا، دوسرے اس کا عقیدہ تھا کہ حقیقی علم صرف ذاتی تجربے اور مشاہدے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔المسعودی کی دستیاب تصانیف اور دوسرے ذرائع سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے کم و بیش 37کتب تحریر کیں۔ اس نے تاریخ اور جغرافیے سے لے کر فقہ، مذہبیات، تسبیات اور فن نظامت و حکمرانی تک کو اپنا موضوع بنایا۔ ان میں سے اب صرف دو تصانیف دستیاب ہیں '' مروج الذہب و معاون الجواہر‘‘ نومبر، دسمبر947ء میں مکمل ہوئی اور 956ء میں اس پر نظرثانی کی گئی۔ دوسری تصنیف''التنبیہ والا شراف‘‘ ہے جو المسعودی کی وفات سے ایک برس قبل سمیل کو پہنچی۔ المسعودی کا سب سے بڑا کارنامہ '' کتاب اخبار الزمان و من آبادہ لحدثان‘‘ ہے۔ اس کتاب میں دنیا کی تاریخ اور جغرافیے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب 30 جلدوں میں تحریر کی گئی تھی جن میں سے صرف پہلی جلد بچ سکی ہے جو آسٹریا کے شہر ویانا میں محفوظ ہے۔المسعودی کا ایک مورخ کی حیثیت سے قرون وسطیٰ کی عرب تاریخ نگاری میں بڑا اہم حصہ ہے۔ اس کا خیال تھا کہ کسی قوم کی تاریخ کی حقیقی اور معروضی عکاسی کیلئے مورخ کو اس ملک میں دستیاب بنیادی ذرائع سے اکتساب کرنا چاہئے اور اسے ثانوی ذرائع پر انحصار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان سے حقائق مسخ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس نے قدیم ایران کی تاریخ رقم کرتے وقت اس اصول کی پیروی کی۔ دنیا کی تاریخ قلمبند کرتے وقت اس نے نہ صرف متعدد عربی تاریخی کتب سے استفادہ کیا بلکہ اس میں مختلف ممالک اور بادشاہتوں میں اپنے سفر کے ذریعے حاصل ہونے والا مواد بھی شامل کیا۔ طلوع سلام سے لے کر اپنے دور تک کی اسلامی تاریخ پر روایتی انداز میں بحث کرنے کے ساتھ ساتھ المسعودی نے اسلام سے قبل کی اہم قوموں اور نسلوں کی تواریخ کا جائزہ بھی لیا اور اس نے باز نطینی سلطنت، یورپی اقوام، ہندوستان اور چین کی معاصر تاریخ کا بھی حتیٰ الوسع احاطہ کرنے کی کوشش کی۔ تاریخ کے ضمن میں اس کا زاویہ نگاہ سائنسی اور معروضی ہے۔المسعودی کسی خطے کی تاریخ کے ادراک کیلئے اس خطے کے جغرافیے سے واقفیت کو ایک لازمہ خیال کرتا تھا۔اگرچہ المسعودی کو ایک فلسفی کی حیثیت سے شہرت حاصل نہیں ہو سکی لیکن اس کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے یونانی فلسفے سے بہت دلچسپی تھی،۔ تاہم وہ یونانیوں کے اس تصور مادیت کو مسترد کرتا ہے جو دنیا کو ابدی قرار دیتا ہے۔ المسعودی اپنی تحریروں میں سیدھا سادہ اسلوب اختیار کرتا ہے لیکن گاہے بگاہے عرب شاعری کے استعمال نے اس کی تحریر میں ادبی چاشنی پیدا کردی ہے۔  اس بات کو سامنے رکھ کر اس نے تاریخ عالم بیان کرنے سے قبل جغرافیے کا بالتفصیل جائزہ لیا۔ وہ اس نظریے کی بڑی شدو مد سے حمایت کرتا ہے کہ کسی خاص علاقے کے جغرافیائی حالات اس علاقے کے جانوروں اور پودوں کے کردار، مزاج، ساخت اور رنگ و روپ کا تعین کرتے ہیں۔ وہ عربی ترجموں کی وساطت سے یونان، ایران اور ہندوستان کے جغرافیائی حالات اور نظریات و تصورات سے واقفیت حاصل کر چکا تھا۔ اس کے علاوہ اس دور کے جغرافیے کے عربی لٹریچر سے بھی متعارف تھا۔ المسعودی کا تنقیدی ذہن ''نظریات پرستوں‘‘ کے تصورات کو چیلنج کئے بغیر نہ رہ سکا اور اس نے اپنے دور کے عرب جغرافیہ دانوں کی پیدا کردہ الجھنوں کی جا بجا تصحیح کی۔ مثال کے طور پر وہ جنوبی نصف کرے میں کسی جگہ واقع''خطہ نامعلوم‘‘ (Terra incognitia))بطلیموسی تصور کا پوری طرح قائل نہیں تھا جس کے مطابق بحر ہند کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ یہ سوائے مشرق کے تمام اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے اور مشرق میں یہ ایک آبی گزر گاہ کے ذریعے بحر الکاہل سے ملا ہوا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ اسے بحر ہند( البحرالحبشی) میں جہاز رانی کرنے والے ملاحوں نے بتایا کہ اس سمندر کی جنوبی طرف کوئی کنارا نہیں۔