محمد منشا یاد
اسپیشل فیچر
اردو اور پنجابی زبان کے ممتاز افسانہ نگار محمد منشا یاد اسلام آباد کے شہر خموشاں میں ابدی نیند سو رہا ہے۔دنیا بھر میں ان کے کروڑوں مداح ان کی وفات پر سکتے کے عالم میں تھے۔اسلام آباد میں جب وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوئے تو پورا شہر احساس زیاں کے باعث حسرت و یاس کی تصویر پیش کر رہا تھا۔ ہر مکتبہ ء فکر کے لوگ اس صدمے سے نڈھال تھے۔ اس شہر میں ہو کا عالم تھا ،اشک رواں کی لہر تھی جس نے پورے ماحول پرعالم حزن و یاس کی کیفیت طاری کر دی تھی۔لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور ایک دوسرے کو پرسہ دے رہے تھے۔محمد منشا یاد ایک ایسا رانجھا تھا جو سب کا سانجھا تھا۔سارے جہاں کا درد اس کے جگر میں سمٹ آیاتھا۔صداقت نگاری ،فطرت نگاری ،حریت فکر اور حسن و عشق کی مرقع نگاری کرنے والا تخلیق کار کیا گیا کہ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے بے معنی ہو کر رہ گئے۔ہجوم غم میں دل کو سنبھالنے کی کو شش ناکام ہو گئی۔ہر شخص سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔راول پنڈی ،اسلام آباد اور پاکستان کے طول و عرض سے آنے والے ہزاروں سوگواروں نے اس لافانی تخلیق کار کو آنسوؤں اور آہوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے مٹی میں چراغ رکھ دیا تا کہ زمیں کے اندر بھی سفاک ظلمتوں کو کافور کیا جا سکے۔زندگی اور موت کے راز ہائے سربستہ کی گرہ کشائی کون کر سکا ہے۔موت ایک ایسا درد لا دوا دے جاتی ہے جس کا مداواکبھی ممکن نہیں۔یہ ایک ایسا زخم ہے جس کے اندما ل کی کوئی صور ت موجود نہیں۔تقدیر کا سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ یہ ہر لمحہ ہر گام تمام انسانی تدبیروں اور منصوبوں کے پر خچے اڑا کے رکھ دیتی ہے تما م حقائق خیال و خواب بن جاتے ہیں۔یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ لوگ جنھیں دیکھ کر ہم جیتے ہیں وہ جب آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو زندگی ایک جبر مسلسل کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ زندگی تو مر مر کے جیے جانے کا نام ہے۔اس فلک پیر نے ہمیں کس قدر جان لیوا صدمات سے دو چار کر دیا ہے ان کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔محمد منشا یاد کے والد حاجی نذیر احمد پیشے کے اعتبار سے کسان تھے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ طب اسلامی کے ممتاز حکیم تھے۔ان کی طبابت کے پورے علاقے میں چرچے تھے اور دکھی انسایت کی بے لوث خدمت ان کا شعار تھا۔انھوں نے اپنے ہونہار بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ ابھی محمد منشا یاد کی عمر تین سال تھی جب ان کی والدہ انھیں پنجابی لوک کہانیاں،نعتیں ،اسلامی واقعات اور داستانیں سناتی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ داستان اور افسانے سے وابستگی ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔۔محمد منشا یاد نے ایم۔بی ہائی سکول نمبر 1سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبر حاصل کر کے 1955میں پاس کیا۔زمانہ طالب علمی ہی سے انھو ں نے اپنی خداداد ذہانت اور تخلیقی فعالیت سے اپنے اساتذہ اور ہم جماعتوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ابھی وہ چھٹی جماعت کے طالب علم تھے کہ ان کی نظمیں ،کہانیاں اور نعتیں ادبی مجلات میں شائع ہونے لگیں ان کے اساتذہ نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔میٹرک کے بعد وہ گورنمنٹ سکول آف انجنیئر نگ (GSE) رسول میں داخل ہوئے اور وہاں سے 1957 میں سول انجینیرنگ میں ڈپلوما حاصل کیا۔یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ محکمہ پی۔ ڈبلیو۔ ڈی (P۔W۔D)میں ملازم ہو گئے اور دو سال (1958-1960)اس محکمہ میں سب انجینئیر کی حیثیت سے راول پنڈی اور مری میں خدمات انجام دیتے رہے۔مئی 1960میں انھوں نے وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے (CDA)اسلام آباد میں شمولیت اختیار کر لی اور اسی ادارے سے 1997میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے بعد وہ شام کو اپنی تعلیم پر توجہ دیتے اور مزید تعلیم کے لیے نہایت انہماک سے کام جاری رکھا۔انھوں نے 1964میں فاضل اردو کا امتحان پاس کیا۔ جامعہ پنجاب سے بی۔ اے کا امتحان 1965میں ،ایم۔اے اردو کا امتحان 1967میں اور ایم۔اے پنجابی کا امتحان 1972میں اعلیٰ نمبر حاصل کر کے پاس کیا۔ان کا پہلا افسانہ 1955میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کی درج ذیل تصانیف منظر عام پر آئیں ان کتب کو علمی و ادبی حلقوں نے بہ نظر تحسین دیکھا:افسانوی مجموعے۱۔ بند مٹھی میں جگنو(1975) ۲۔ ماس اور مٹی ( 1980 )۳۔ خلا اندر خلا(1983 ) ۴۔ وقت سمندر( 1986 )۵۔ وگدا پانی ( 1987 ) ۶۔ درخت آدمی( 1990 )۷۔ دور کی آواز ( 1994 ) ۸۔ تماشا ( 1998)۹۔ خواب سرائے ( 2005 )ناول ۱۔ ٹانواں ٹانواں تارا۔پنجابی ( 1997) ۲۔ ناول (اردو) زیر تصنیفمتعلقہ کتب انتھالو جیز اور رسائل۱۔ منشا یاد کے تیس منتخب افسانے مرتبہ خارو نقوی 1992 (پاکستان بکس لٹریری ساؤتھ ، لاہور)۲۔ منشایا د کے بہترین افسانے مرتبہ امجد اسلام امجد1993 ( ادب پبلی کیشنز۔ نئی دہلی )۳۔ منتخب کہانیاں ( انگریزی تراجم ) مرتبہ جمیل آزر 1994 ( سٹرلنگ پبلشرز۔ نئی دہلی اور لاہور )۴۔ منشا یاد کہانی نمبر لہراں لاہور 1986۵۔ منشایاد کے منتخب افسانے مرتبہ طاہر اسلم گورا اور امجد طفیل( 1997)۶۔ شہر افسانہ ( خود منتخب کردہ پچاس افسانوں کی انتھالوجی )2004۷۔ منشایاد کے منتخب افسانے۔تر تیب و مقدمہ ڈاکٹر اقبال آفاقی 2008