دیہاتی بولیاں(۱)
اسپیشل فیچر
آیئے! آپ کو پنجاب کے دیہاتوں کی سیر کرائیں۔ یہ ہندوستان کے وہ دیہات ہیں۔ جہاں رومان تہذیب و تمدن کے بوجھ سے بالکل آزاد ہے۔ جہاں جذبات بچوں کی مانند کھیلتے ہیں۔ یہاں کا عشق ایسا سونا ہے جس میں مٹی ملی ہوئی ہے۔ تصنع اور بناوٹ سے پاک ان دیہاتوں میں بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کے دل دھڑکتے ہیں۔ قدم قدم پر آپ کو شاعری نظر آئے گی جو اوزان کی قید اور لفظی بندشوں سے بالکل آزاد ہے۔ یہاں کی کھلی ہوا میں آپ چلیں پھریں گے تو آپ اپنے اندر ایک نئی زندگی پائیں گے۔ آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ آپ بھی عشق کر سکتے ہیں، آپ کے اندر بھی پھیل کر والہانہ وسعت اختیار کر لینے کی قوت موجود ہے، آپ بھی پرندوں کی زبان سمجھ سکتے ہیں اور ہوائوں کی گنگناہٹ آپ کیلئے بھی کچھ معنی رکھتی ہے جب ابابیلیں خاموش آسمان میں ڈبکیاں لگاتی ہیں اور شام کو چمگادڑیں قطار اندر قطار جنگلوں کی طرف تیرتی ہیں اور گائوں واپس آنے والے ڈھور ڈنگروں کے گلے میں بندھے ہوئے گھنگرو بجتے ہیں اور فضا پر ایک دلفریب ناچ کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے تو آپ کا دل بھی کبھی پھیلے گا اور کبھی سکڑے گا۔وہ دیکھئے، سامنے کچے کوٹھے زمین پر لیٹے ہوئے ہیں۔ دیواروں پر بڑے بڑے اپلوں کی قطار دور تک چلی گئی ہے۔ مٹی کے یہ گھروندے بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ان میں فاصلہ نہیں۔ ایک کوٹھا دوسرے کوٹھے سے ہمکنار ہے، اسی طرح اس کھلے میدان پر ایک اور کھلا میدان بن گیا ہے۔ ان کوٹھوں پر چار پائیاں اوندھی پڑی ہیں۔ گنے کے لمبے لمبے چھلکے جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ دوپہر کا وقت ہے، دھوپ اتنی تیز ہے کہ چیل بھی انڈا چھوڑ دے۔ فضا ایک خوابگوں اداسی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ کبھی کبھی کسی چیل کی باریک چیخ ابھرتی ہے اور خاموشی پر ایک خراش سی پیدا کرتی ہوئی ڈوب جاتی ہے … مگر اس تیز دھوپ میں یہ کوٹھے پر کون چڑھا ہے … ارے، یہ تو کوئی اس گائوں کی مٹیار ہے۔ دیکھو تو کس انداز سے تپے ہوئے کوٹھے پر ننگے پیر چل رہی ہے۔ یہ لو وہ کھڑی ہو گئی۔ اسے کس کا انتظار ہے۔ اس کی آنکھیں کس کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ ببولوں کے جھنڈ میں یہ کیا دیکھ رہی ہے۔ کب تک یہ ایسے کھڑی رہے گی۔ کیا اس کے پیر نہیں جلتے شاید اسی نے یہ کہا ہوگا:۔کوٹھے اپر کھلیاںمیری سٹرن پیراں دیاں تلیاںمیرا یار نجر نہ آوے(ترجمہ :۔ میں کوٹھے پر کھڑی ہوں اور یوں کھڑے کھڑے میرے پیر کے تلوے جل گئے ہیں … لیکن میرا عاشق نظر نہیں آتا)نہیں اس نے تو گنے کے سوکھے ہوئے چھلکے اکٹھے کرنے شروع کر دیئے ہیں … لیکن یہ پھر بار بار ادھر کیوں دیکھتی ہے جدھر بوڑھے برگد کے سائے تلے ایک نوجوان ہاتھ میں ایک لمبی لاٹھی لئے کھڑا ہے … کیا یہ وہ ہی تو نہیں؟ دور سے کچھ دکھائی تو نہیں دیتا مگر اس کی ناک کی لونگ کتنی چمک رہی ہے۔ کیا اسی لونگ کے بارے میں یہ کہا گیا تھا:۔تیرے لونگ دا پیا لشکاراہالیاں نے ہل ڈک تے(ترجمہ:۔ تیرے لونگ (ناک کی کیل) نے جب چمک پیدا کی تو ہل چلانے والوں نے اپنے ہل روک لئے ( اس خیال سے کہ بجلی چمک رہی ہے اور بارش آ رہی ہے) …… (جاری ہے)(مستند اور جامع کلیات ِ منٹو،جلد ششم (مضامین) مرتب: امجد طفیل سے مقتبس)٭…٭…٭